مصر کی بے رحم تاریخ
قاہرہ کی زندگی میں جو لہر اٹھتی ہے وہ پوری عرب دنیا میں محسوس کی جاتی ہے۔
کہتے ہیں کہ یورپ کے تہذیبی مرکز پیرس کو جب چھینک بھی آتی ہے تو یورپ کو زکام ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی اعزاز عرب دنیا میں قاہرہ کو بھی حاصل ہے۔ افریقہ کا یہ شہر جو ابتدائے اسلام میں ہی عرب بن گیا تھا اور زبان اور مذہب عربوں کا اختیار کر لیا، وہ آج عرب دنیا کا سب سے زیادہ پڑھا لکھا، علم و ادب اور تعلیمی درسگاہوں اور صحافت کا مرکز ہے۔ چنانچہ قاہرہ کی زندگی میں جو لہر اٹھتی ہے وہ پوری عرب دنیا میں محسوس کی جاتی ہے۔ مغربی افریقہ سے لے کر مشرق وسطیٰ تک پھیلی ہوئی عرب دنیا پر گویا تہذیبی اور ثقافتی اور علمی حکمرانی مصر کی ہے۔
مصر نہ صرف اپنی قدیم و جدید تاریخ میں بے مثل ہے، یہ عربوں کی واحد سیاسی تحریک کا مرکز بھی ہے۔ اخوان المسلمون کی تحریک پوری عرب دنیا میں موجود ہے۔ کہیں اعلانیہ اور کہیں اندر خانے لیکن کوئی عرب ملک اس سے خالی نہیں ہے۔ عرب دنیا کی آمریت اور بادشاہت کے بالمقابل صرف اخوان ہی کھڑے ہیں۔ شروع دن سے ہی جیلیں کاٹ رہے ہیں، شہید ہو رہے ہیں اور سزائے موت پا رہے ہیں کیونکہ ان کے نظریات کو شکست نہیں دی جا سکتی البتہ نظریات کے حامل افراد کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
ایک لایعنی مشق اور بے سود گناہ، مصر میں یہ سب کچھ نیا نہیں ہے۔ 1954ء میں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی، سیاسی عوامل اور ایشوز بھی ایسے ہی تھے۔ مصر میں فوجی بغاوت کے سرغنہ جنرل نجیب اور کرنل جمال ناصر کے درمیان رسہ کشی شروع ہو گئی۔ یہ تنازع 25 فروری 1954ء کو اس وقت سامنے آیا جب جنرل نجیب نے استعفیٰ دے دیا۔ یہ سن کر راتوں رات ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ صدر کو غیرمشروط طور پر بحال کیا جائے اور پارلیمنٹ کو بھی بحال کر کے سیاسی عمل کو بالادست کیا جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔
مصری عوام کے اس احتجاج میں جنرل نجیب کی بحالی سے بھی فرق نہ پڑا۔ جنرل نے عابدین محل کے جھروکے سے عوام سے اپیل کی کہ وہ گھروں کو چلے جائیں مگر وہ نہ گئے بالآخر اخوان کے لیڈر عبدالقادر عودہ سے درخواست کی گئی کہ وہ لوگوں کو واپسی کا کہیں اگرچہ اس مقبول عام رہنما کے کہنے پر لوگ گھروں کو چلے تو گئے لیکن جو لوگ احتجاج کرانے والے تھے وہ مطمئن نہ ہوئے۔ انھوں نے بالآخر ایسے حالات پیدا کر دیے کہ عبدالقادر عودہ کو موت کا سامنا کرنا پڑا۔ آج مصر ایک بار پھر مظاہروں کی زد میں ہے۔ جو لوگ ان مظاہروں کے پیچھے ہیں وہ انھیں ختم نہیں کرنے دیتے۔ اب کوئی عودہ نہیں جو جان دے کر مظاہروں کو بند کرائے اور ملک کو بچا سکے۔ 3 جولائی کو محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد مصر میں مظاہرے جاری ہیں اور پورا ملک ان کی لپیٹ میں ہے۔
بیرونی مدد سے جن قوتوں نے جمہوریت کی بساط لپیٹی ہے، وہ اب اخوان کو سبق نہیں سکھا رہیں کیونکہ کبھی اخوان معاملات میں لچک دکھاتی تھی، اب وہ ایسا نہیں کرتی۔ اب اخوان سمجھوتہ کے موڈ میں نہیں ہیں۔ فوجیوں کو پہلے والے نرم اخوانوں سے یہ توقع نہ تھی۔ مصر میں اور باہر کے سیاسی بساط کو بدلنے والے حیران ہیں کہ اخوان کیوں سخت مزاحمت کر رہی ہے، جیل میں اخوان کے ڈپٹی سپریم لیڈر خیراۃ الشاطر نے امریکی وفد سے ملنے سے انکار کر دیا۔ یہ اخوان کا مظاہروں کی اصل طاقت امریکا کو جواب ہے۔ ان بیرونی عوامل نے مل کر اخوان کو پالیسی سخت کرنے کی تحریک دی ہے۔ اخوان کو اندازہ ہے کہ اب اخوان کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
اخوان نے 2011ء سے اب تک پانچ الیکشن جیتے ہیں۔ اخوان کی قیادت کو اپنی حمایت میں بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد کا اندازہ ہے۔ یہ صورتحال اخوان کے مخالف شاید ہضم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ اخوان کو اندازہ ہے کہ کسی سمجھوتے اور نرمی کا مطلب عرب دنیا میں تحریک کو کمزور کرنا ہے۔ کئی عرب ملکوں میں اسلام پسندوں اور اخوان کے خلاف کارروائیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ پوری عرب دنیا میں ہلچل مچی ہے۔ اخوان کے حامی اور مخالف اپنے اپنے مورچوں میں سرگرم ہیں۔ آج اخوان نازک موڑ پر ہیں۔ یہ ان کی بقاء کی جنگ ہے اور اخوان بڑی سختی کے ساتھ اس جنگ پر تیار ہیں۔ اب نرمی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مظاہرہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ اخوان کی زندگی میں قربانیاں تو بہت ہیں لیکن بازاروں میں سیاسی ہنگامے اور مظاہرے پہلی بار ہیں۔
میں کئی بار مصر گیا ہوں کیونکہ یہ میرے خوابوں کا ملک ہے۔ یہاں مسلمانوں کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے۔ یہاں کے اخبارات اشاعت اور معیار کے اعتبار سے ہم سے بہت آگے ہیں اور ملک سے باہر پوری عرب دنیا میں پڑھے جاتے ہیں۔ یہاں کے قہوہ خانوں میں نوبل انعام پانے والے ادیب بیٹھک جماتے ہیں۔ میں نے نجیب محفوظ کو نہیں دیکھا مگر خان خلیلی میں ان کا پسندیدہ قہوہ خانہ کئی بار دیکھا اور اس میں چائے پی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ مصر کی سرزمین ہزاروں برس پرانے تاریخی آثار سے بھری ہوئی ہے اور اب کچھ عرصہ سے مصر کے آثار قدیم سائنس کا ایک الگ شعبہ بن چکے ہیں اور قدیم مصری آثار کے سائنس دان الگ سے پہچانے جاتے ہیں۔ ہزاروں برس بوڑھے فرعون اپنے آج کے جانشینوں کو دیکھ کر شرماتے ہوں گے۔
فرعون اپنے ان اہراموں میں قید ہیں ان عجیب و غریب مقبروں میں کبھی ان کے کھانے پینے کا سامان اور خدمت گزاروں کے لیے غلام بھی رکھے گئے تھے جو اب سب اپنے آقائوں کی طرح پتھر بن چکے ہیں لیکن صرف ایک فرعون گویا زندہ ہے۔ اس کا چہرہ سب کے سامنے کھلا ہے اور آنکھیں جیسے دیکھ رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک زندہ رہنے کا اذن دیا ہے۔ یہ فرعونِ موسیٰ ہے جو دریا میں غرق ہوا لیکن قدرت نے اسے عبرت بنا کر پانی سے باہر نکال کر محفوظ کر دیا اور یہ قیامت تک دنیا کے سامنے رہے گا۔ میں نے اسے قاہرہ کے عجائب خانے میں دیکھا ہے۔ اس کی ممی الگ رکھی ہے۔ میں نے عجائب خانے کے ایک کارکن سے ابھی بات نہیں کی تھی کہ اس نے اس کی ممی کی طرف اشارہ کر کے حقارت سے کہا وہ پڑا ہے۔
مجھے یاد آیا کہ ایک بار اس کے جسم کے کسی حصے میں پھپھوندی لگ گئی، علاج کے لیے پیرس لے جایا گیا۔ وہاں ایئرپورٹ پر اسے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور کسی زندہ بادشاہ کی طرح توپوں کی سلامی دی گئی۔ آج مصر کے عوام اسے سلامی دے رہے ہیں اور وہ اپنے ملک میں امن اور جمہوریت چاہتے ہیں، دیکھیں ان کا موسیٰ انھیں کب یہاں سے نکال کر لے جاتا ہے اور انھیں ظلم سے نجات دلاتا ہے کیونکہ وہی مصر وہی فلسطین اور یروشلم وہی موسیٰ کا نام لینے والے جانثار وہی امریکی جادوگر اور ان کے سانپ، وہی ایک فرعون سب کچھ وہی تاریخ کتنی بے رحم ہے۔