قارئین شاید آپ بچ گئے
ہر کوئی جانتا ہے کہ یہاں آرام سے وہی ہے جو ڈیفالٹر ہے۔
چور اچکوں کی کامیابی اور سربلندی کے بارے میں بھلا میں آپ کو کیا بتاؤں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ یہاں آرام سے وہی ہے جو ڈیفالٹر ہے۔ جس نے سرکاری واجبات کی چوری کی، بل ادا نہیں کیے، ٹیکس نہیں دیا اور کالے دھن سے بینکوں کے لاکرز بھرے، اس کے وارے نیارے ہیں۔ باقی لوگ قطاریں بنا بنا کے بل بھرتے رہیں، ڈیفالٹرز بس بیٹھے انتظار کریں۔ ان کی باری آتی ہے تو قانون کی سیل لگ جاتی ہے۔ دھن کو سفید کرنے کی آسان اسکیمیں آجاتی ہیں۔ برسوں سے جو بل ادا نہیں کیے ان کے لیے دھماکے دار چھوٹ کے ساتھ ادائیگی کی سہولت تشریف لے آتی ہے۔ اور اگر آپ ٹیکس کے سو فیصد چور ہیں، اپنا کھاتا ہی نہیں کھولا تو پھر مزے ہی مزے۔ آیندہ بھی آپ سے کچھ نہیں مانگا جائے گا۔ جائیں عیش کریں۔ اگر آپ نوکری پیشہ ہیں یا آپ نے غلطی سے ایک بار ٹیکس ریٹرن بھردی تو جو درگت آپ کی بنے گی اسے زمانہ دیکھے گا۔ یہ ہے وہ پیغام جو ہماری اس نئی حکومت اور انقلابی وژن رکھنے والی وزارت خزانہ نے جھولی بھر کے دیا ہے۔
چند ہفتے قبل شایع ہونے والے میرے ایک کالم کا عنوان تھا ''قارئین! آپ تو پھنس گئے''۔ میں نے اس میں آپ کو یہ بری خبر سنائی تھی کہ مدتوں سے ویلتھ ٹیکس کا شوق پالنے والے صاحب نے بجٹ میں اسے ایک نیا نام دے کر پھر سے تھونپ دیا ہے۔ اس کا نیا نام ISL (انکم سپورٹ لیوی) رکھا گیا اور قانون پاس کردیا گیا کہ اسے ہر اس شخص کے تمام منقولہ اثاثوں پر وصول کیا جائے گا جن کی مجموعی مالیت دس لاکھ روپے سے تجاوز کرے گی، یعنی بینک بیلنس، کیش، زیورات، گاڑی، شیئرز، بانڈز، سیونگ اسکیمز میں لگا پیسہ، سب کچھ ملا کے اس پر ٹیکس لیا جائے گا۔ گویا ملک کی ایک بڑی آبادی اس ٹیکس کی زد میں آگئی۔ یہ رگڑا اتنا چپکے چپکے لگانے کی کوشش کی گئی کہ اس خاکسار جیسے لوگوں کے شور شرابے کے باوجود لوگوں کو اس کی ہلاکت خیزی کا اندازہ ہونے میں دو ماہ لگ گئے۔
یہ بات تو پہلے دن سے عیاں تھی کہ اس ٹیکس کے نفاذ کے پیچھے کسی قسم کی سوچ بچار کا وجود نہیں تھا۔ پوری طرح اس کا نفاذ بھی ممکن نہیں تھا۔ یہ جیب کتروں کا معاملہ تھا کہ جس کی جیب ہاتھ لگے اس پہ استرا چلادو۔ ابھی تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے لیکن امید افزا بات یہ ہے کہ اس کے خلاف انصاف کے در پہ دستک دے دی گئی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کردی گئی ہے۔ اس پر ہائی کورٹ نے حکومت اور ایف بی آر سے پندرہ روز کے اندر اندر اٹھائے گئے نکات پر جوابی رائے طلب کی ہے۔ ان میں سب سے اہم اور پریشان کن نکتہ یہ ہے کہ یہ ''ٹیکس'' اس لحاظ سے امتیازی ہے کہ اسے صرف ان لوگوں سے وصول کیا جائے گا جو ٹیکس دہندگان ہوں گے، باقیوں سے نہیں، کیونکہ حکومت کے پاس ان کا ریکارڈ نہیں ہے۔ گویا اس کے ذریعے لوگوں کی وہ جائیداد ہتھیانے کی کوشش کی جارہی ہے جس پر پہلے ہی ٹیکس دیا جاچکا ہے۔ یوں یہ دہرے ٹیکس کے زمرے میں آتا ہے۔
تو جناب! حقیقت یہی ہے کہ سب آسانیاں ڈھونڈتے ہیں۔ پہلے سے لگے ہوئے میٹر کو تیز کردو اور جو قابو میں آئے اس کی گردن میں پھندا ڈال دو۔ اس ٹیکس (Levy) کو ڈیزائن ہی ایسے کیا گیا ہے کہ یہ عملی طور پر صرف ان لوگوں پر لگے گا جو انکم ٹیکس ریٹرن کے ساتھ ویلتھ اسٹیٹمنٹ بھی جمع کروائیں گے۔ وہ لوگ جو ٹیکس نیٹ سے باہر رہتے ہیں ان کی طرف یہ آنکھ اٹھاکے بھی نہیں دیکھا گا۔ ان میں وہ بے چارے تمام ''غریب غربا'' شامل ہیں جنھیں پاکستان کا آئین اجازت دیتا ہے کہ وہ حکومت کو ٹیکس ادا نہ کریں۔ ایسے افراد سے ہماری اسمبلیاں بھری پڑی ہیں۔ آپ کی تنخواہ کی بچت ہو، ریٹائرمنٹ پر ملنے والی رقم ہو، حج اور بیٹیوں کی شادی کے لیے رکھے ہوئے پیسے ہوں، چھوٹی موٹی سواری ہو اور آپ ایک ایک پائی پر ٹیکس ادا کرچکے ہوں، تو بھی آپ یہ ٹیکس دینے کے پابند ہیں۔ لیکن جس کے پاس دو نمبر کی آمدنی ہے، بڑے بڑے بنگلے ہیں، زمین ہے، اربوں کی زرعی آمدنی ہے، سونے اور کیش سے بھرے ہوئے کمرے ہیں، اسے کھلی چھوٹ ہے کہ وہ پرانے کے ساتھ ساتھ نئے ٹیکس سے بھی آزاد پھرے۔
ٹیکس دہندہ کی 1975 ماڈل کی گاڑی بھی اس ٹیکس کے حصار میں آجائے گی لیکن ان لوگوں کی وہ جیپ بھی آزاد پھرے گی جس کی مالیت میرے جیسوں کی کل منقولہ جائیداد سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ جیپ تو کیا ان لوگوں کے گھوڑے اور کتے بھی مالیت میں زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسی ایسی اعلیٰ نسل اور اعلیٰ قیمت کہ جس کے آگے انسانی جان بھی بے وقعت ٹھہرے۔ کبھی کبھی خود مالک کی جان سے بھی زیادہ قیمتی۔ یہاں مجھے ایک افسانہ یاد آرہا ہے۔ آئیے! کالم کا ذائقہ بدلنے کے لیے تھوڑی دیر کو اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اظہر جاوید کے ماہنامہ ''تخلیق'' میں سات برس پہلے ایک افسانہ پڑھا تھا۔۔۔۔ ''سگ گزیدہ''۔ اسے شمع خالد نے تحریر کیا تھا۔ یہ اسی کا ذکر ہے۔
چوہدری ایک بہت ہی منہ زور اور سرپھرا شخص ہے۔ اسے اعلیٰ نسل کے کتے پالنے کا شوق ہے۔ گاؤں میں ہر ایک کی عزت اس کی دسترس میں ہے۔ ایک بہت ہی ظالم اور متکبر شخص۔ جب چاہے بہو بیٹیوں کی عزت سے کھیلے یا کسی کی جان لے لے۔ وہ اپنے کتوں پر فخر کرتا ہے کہ بیش قیمت ہیں اور تمام بڑی بڑی دوڑیں اور لڑائیاں جیت لیتے ہیں۔
اگلی بار میلہ مویشیاں میں مقابلے ہوتے ہیں تو اس کا مایہ ناز کتا ''ڈیوک'' دو مقابلے جیتنے کے بعد آخری لڑائی کے لیے تیار ہے۔ مقابلہ چوہدری کے دشمن چوہدری فضل کے کتے ''باکسر'' سے ہے۔ سب دل تھام کے بیٹھے ہیں اور لڑائی جاری ہے۔ پھر شمع خالد لکھتی ہیں۔۔۔۔
''باکسر نے اپنے پنجے ڈیوک کے پیٹ میں چبھو دیے۔ ڈیوک زمین پر گرا۔ تمام پنڈال میں ایک دم سناٹا چھاگیا۔ ڈیوک نیچے گرا۔ چند لمحے مکمل سناٹے کے بعد چوہدری فضل کے حلق سے زوردار آواز گونجی، ڈھول پر تھاپ پڑی۔ یہ ایک آواز تھی یا صور اسرافیل۔ چوہدری کا دل دھڑکنا بھول گیا۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ چوہدری نے دل سنبھالنے کی کوشش کی لیکن دل یہ شکست سہہ نہ پایا''۔
چوہدری نواز تو کتے کے ساتھ ہی مرگیا اور افسانہ ختم ہوگیا لیکن مجھے یقین ہے کہ ان لوگوں کو اگر ٹیکس نیٹ میں لے آیا جائے تو جس دن ان کی پہلی ٹیکس ریٹرن داخل ہوگی ان کا ''ڈیوک'' بھی اسی دن مر جائے گا۔''انکم سپورٹ لیوی'' ایک عجیب ٹیکس ہے کہ جو ان تمام لوگوں کو چھوڑ کر صرف قانون کے پابند ان افراد پر لگے گا جو شرافت سے ٹیکس ادا کرتے ہیں اور جن کی بچت پر حکومت زکوٰۃ بھی کاٹتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ٹی وی پر وزیر خزانہ نے بیان دیا ہے کہ لوگ چاہیں تو ISL کو زکوٰۃ کی مد میں سمجھ سکتے ہیں۔ گویا وہ دہری زکوٰۃ دیں۔ یہ تمام نکات اس پٹیشن میں اٹھائے گئے ہیں۔ فیصلہ کیا ہوتا ہے؟ اس کا انتظار کیجیے۔ ممکن ہے اس جاہلانہ اور واہیات ٹیکس سے نجات ہی مل جائے۔
چند ہفتے قبل شایع ہونے والے میرے ایک کالم کا عنوان تھا ''قارئین! آپ تو پھنس گئے''۔ میں نے اس میں آپ کو یہ بری خبر سنائی تھی کہ مدتوں سے ویلتھ ٹیکس کا شوق پالنے والے صاحب نے بجٹ میں اسے ایک نیا نام دے کر پھر سے تھونپ دیا ہے۔ اس کا نیا نام ISL (انکم سپورٹ لیوی) رکھا گیا اور قانون پاس کردیا گیا کہ اسے ہر اس شخص کے تمام منقولہ اثاثوں پر وصول کیا جائے گا جن کی مجموعی مالیت دس لاکھ روپے سے تجاوز کرے گی، یعنی بینک بیلنس، کیش، زیورات، گاڑی، شیئرز، بانڈز، سیونگ اسکیمز میں لگا پیسہ، سب کچھ ملا کے اس پر ٹیکس لیا جائے گا۔ گویا ملک کی ایک بڑی آبادی اس ٹیکس کی زد میں آگئی۔ یہ رگڑا اتنا چپکے چپکے لگانے کی کوشش کی گئی کہ اس خاکسار جیسے لوگوں کے شور شرابے کے باوجود لوگوں کو اس کی ہلاکت خیزی کا اندازہ ہونے میں دو ماہ لگ گئے۔
یہ بات تو پہلے دن سے عیاں تھی کہ اس ٹیکس کے نفاذ کے پیچھے کسی قسم کی سوچ بچار کا وجود نہیں تھا۔ پوری طرح اس کا نفاذ بھی ممکن نہیں تھا۔ یہ جیب کتروں کا معاملہ تھا کہ جس کی جیب ہاتھ لگے اس پہ استرا چلادو۔ ابھی تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے لیکن امید افزا بات یہ ہے کہ اس کے خلاف انصاف کے در پہ دستک دے دی گئی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کردی گئی ہے۔ اس پر ہائی کورٹ نے حکومت اور ایف بی آر سے پندرہ روز کے اندر اندر اٹھائے گئے نکات پر جوابی رائے طلب کی ہے۔ ان میں سب سے اہم اور پریشان کن نکتہ یہ ہے کہ یہ ''ٹیکس'' اس لحاظ سے امتیازی ہے کہ اسے صرف ان لوگوں سے وصول کیا جائے گا جو ٹیکس دہندگان ہوں گے، باقیوں سے نہیں، کیونکہ حکومت کے پاس ان کا ریکارڈ نہیں ہے۔ گویا اس کے ذریعے لوگوں کی وہ جائیداد ہتھیانے کی کوشش کی جارہی ہے جس پر پہلے ہی ٹیکس دیا جاچکا ہے۔ یوں یہ دہرے ٹیکس کے زمرے میں آتا ہے۔
تو جناب! حقیقت یہی ہے کہ سب آسانیاں ڈھونڈتے ہیں۔ پہلے سے لگے ہوئے میٹر کو تیز کردو اور جو قابو میں آئے اس کی گردن میں پھندا ڈال دو۔ اس ٹیکس (Levy) کو ڈیزائن ہی ایسے کیا گیا ہے کہ یہ عملی طور پر صرف ان لوگوں پر لگے گا جو انکم ٹیکس ریٹرن کے ساتھ ویلتھ اسٹیٹمنٹ بھی جمع کروائیں گے۔ وہ لوگ جو ٹیکس نیٹ سے باہر رہتے ہیں ان کی طرف یہ آنکھ اٹھاکے بھی نہیں دیکھا گا۔ ان میں وہ بے چارے تمام ''غریب غربا'' شامل ہیں جنھیں پاکستان کا آئین اجازت دیتا ہے کہ وہ حکومت کو ٹیکس ادا نہ کریں۔ ایسے افراد سے ہماری اسمبلیاں بھری پڑی ہیں۔ آپ کی تنخواہ کی بچت ہو، ریٹائرمنٹ پر ملنے والی رقم ہو، حج اور بیٹیوں کی شادی کے لیے رکھے ہوئے پیسے ہوں، چھوٹی موٹی سواری ہو اور آپ ایک ایک پائی پر ٹیکس ادا کرچکے ہوں، تو بھی آپ یہ ٹیکس دینے کے پابند ہیں۔ لیکن جس کے پاس دو نمبر کی آمدنی ہے، بڑے بڑے بنگلے ہیں، زمین ہے، اربوں کی زرعی آمدنی ہے، سونے اور کیش سے بھرے ہوئے کمرے ہیں، اسے کھلی چھوٹ ہے کہ وہ پرانے کے ساتھ ساتھ نئے ٹیکس سے بھی آزاد پھرے۔
ٹیکس دہندہ کی 1975 ماڈل کی گاڑی بھی اس ٹیکس کے حصار میں آجائے گی لیکن ان لوگوں کی وہ جیپ بھی آزاد پھرے گی جس کی مالیت میرے جیسوں کی کل منقولہ جائیداد سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ جیپ تو کیا ان لوگوں کے گھوڑے اور کتے بھی مالیت میں زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسی ایسی اعلیٰ نسل اور اعلیٰ قیمت کہ جس کے آگے انسانی جان بھی بے وقعت ٹھہرے۔ کبھی کبھی خود مالک کی جان سے بھی زیادہ قیمتی۔ یہاں مجھے ایک افسانہ یاد آرہا ہے۔ آئیے! کالم کا ذائقہ بدلنے کے لیے تھوڑی دیر کو اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اظہر جاوید کے ماہنامہ ''تخلیق'' میں سات برس پہلے ایک افسانہ پڑھا تھا۔۔۔۔ ''سگ گزیدہ''۔ اسے شمع خالد نے تحریر کیا تھا۔ یہ اسی کا ذکر ہے۔
چوہدری ایک بہت ہی منہ زور اور سرپھرا شخص ہے۔ اسے اعلیٰ نسل کے کتے پالنے کا شوق ہے۔ گاؤں میں ہر ایک کی عزت اس کی دسترس میں ہے۔ ایک بہت ہی ظالم اور متکبر شخص۔ جب چاہے بہو بیٹیوں کی عزت سے کھیلے یا کسی کی جان لے لے۔ وہ اپنے کتوں پر فخر کرتا ہے کہ بیش قیمت ہیں اور تمام بڑی بڑی دوڑیں اور لڑائیاں جیت لیتے ہیں۔
اگلی بار میلہ مویشیاں میں مقابلے ہوتے ہیں تو اس کا مایہ ناز کتا ''ڈیوک'' دو مقابلے جیتنے کے بعد آخری لڑائی کے لیے تیار ہے۔ مقابلہ چوہدری کے دشمن چوہدری فضل کے کتے ''باکسر'' سے ہے۔ سب دل تھام کے بیٹھے ہیں اور لڑائی جاری ہے۔ پھر شمع خالد لکھتی ہیں۔۔۔۔
''باکسر نے اپنے پنجے ڈیوک کے پیٹ میں چبھو دیے۔ ڈیوک زمین پر گرا۔ تمام پنڈال میں ایک دم سناٹا چھاگیا۔ ڈیوک نیچے گرا۔ چند لمحے مکمل سناٹے کے بعد چوہدری فضل کے حلق سے زوردار آواز گونجی، ڈھول پر تھاپ پڑی۔ یہ ایک آواز تھی یا صور اسرافیل۔ چوہدری کا دل دھڑکنا بھول گیا۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ چوہدری نے دل سنبھالنے کی کوشش کی لیکن دل یہ شکست سہہ نہ پایا''۔
چوہدری نواز تو کتے کے ساتھ ہی مرگیا اور افسانہ ختم ہوگیا لیکن مجھے یقین ہے کہ ان لوگوں کو اگر ٹیکس نیٹ میں لے آیا جائے تو جس دن ان کی پہلی ٹیکس ریٹرن داخل ہوگی ان کا ''ڈیوک'' بھی اسی دن مر جائے گا۔''انکم سپورٹ لیوی'' ایک عجیب ٹیکس ہے کہ جو ان تمام لوگوں کو چھوڑ کر صرف قانون کے پابند ان افراد پر لگے گا جو شرافت سے ٹیکس ادا کرتے ہیں اور جن کی بچت پر حکومت زکوٰۃ بھی کاٹتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ٹی وی پر وزیر خزانہ نے بیان دیا ہے کہ لوگ چاہیں تو ISL کو زکوٰۃ کی مد میں سمجھ سکتے ہیں۔ گویا وہ دہری زکوٰۃ دیں۔ یہ تمام نکات اس پٹیشن میں اٹھائے گئے ہیں۔ فیصلہ کیا ہوتا ہے؟ اس کا انتظار کیجیے۔ ممکن ہے اس جاہلانہ اور واہیات ٹیکس سے نجات ہی مل جائے۔