جہاں گشت
سب کچھ کر لیجیے بس مجھے آزاد مت کیجیے، وہ یہی کہے جارہا تھا۔
قسط نمبر 43
اس نوجوان کی کتھا بھی کیا عجب تھی۔ ہاں مجھے معلوم ہوئی تو حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوا، لیکن میں کیا کر سکتا تھا۔ وہ تھا ہی اتنا وجیہہ کہ مت پوچھیے۔ اس کے والد اپنے گاؤں کے انتہائی نیک نام زمین دار تھے، اتنے بڑے نہیں کہ جاگیر دار ہوں لیکن ایک بااثر انسان، نیک اور متّقی۔ وہ نوجوان ایک بہن اور اپنے تین بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ فراوانی میں پلا بڑھا اور گاؤں کی زرخیز زمین میں پلا پوسا۔ ویسے بھی گاؤں کے باسی کھلے ڈھلے ماحول کے عادی ہوتے ہیں۔
ان کے گھر تو الگ ہوتے ہیں لیکن وہ سب ایک خاندان کی طرح سے رہتے ہیں، وہاں مرد و زن کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ ہاں خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی الگ رِیت رواج ہیں وہاں ایسا نہیں ہے، وہ سب اپنی تہذیب و روایات سے انتہائی مضبوطی سے وابستہ ہیں، زنان خانے الگ اور گھروں سے خاصے فاصلے پر مردوں کے حُجرے۔ وہاں کوئی بھی خواتین سے گُھل مل نہیں سکتا، بل کہ خونیں رشتے دار بھی اپنی محرمات تک سے ایک فاصلہ رکھتے ہیں۔ خیر تو وہ نوجوان جس گاؤں کا تھا وہ سب بھی ایک خاندان کی طرٖح تھے، سب اک دوجے سے قریب، پردے کا وہ تصوّر بھی نہیں تھا جو مطلوب ہے۔ چھوٹا تھا تو خودسر اور ضدی بھی ہوگیا، کوئی فرمائش کی تو اسے پورا کیا گیا۔ جب وہ اسکول جانے کے لائق ہوا تو اسے بھی داخل کرادیا گیا، گاؤں کے بچے اور بچیاں ساتھ ہی پڑھتے تھے اور وہ گاؤں کے چودھری صاحب کی بچی کے ساتھ بچپن سے ہی کھیلتا کودتا رہا تھا، اس لیے وہ ان کے پڑوسی تھے، اسکول میں بھی وہ ساتھ ہی تھے۔
اس کی عمر ابھی دس برس ہی تھی کہ ایک حادثہ ہوگیا اور وہ یہ کہ وہ دونوں اسکول سے واپس آرہے تھے، کھیت کھلیان ٹاپتے ہوئے، اس وقت گنے کی فصل سر اٹھائے کھڑی تھی، شہری تو شاید کم جانتے ہوں لیکن گاؤں کے باسی بہ خوبی جانتے ہیں کہ گنے کی فصل میں کوئی قد آور بھی داخل ہوجائے تو نظر نہیں آسکتا، اسی لیے اس موسم میں وارداتیں بھی بہت ہوتی ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ ایک رات میں اپنے سنگی ساتھیوں کے ساتھ گنے کے کھیت میں داخل ہوا اور رات بھر ہم گنے چُوستے رہے، ہم سب اس وقت ایک بابا جی کے پاس مقیم تھے، فجر سے پہلے وہ جاگ چکے تھے اور ہمیں نہ پاکر انہوں نے کھیتوں کا رخ کیا اور ہم رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے، پھر تو نہ پوچھیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا، پہلے تو بابا جی نے وہیں ہم سب کی اچھی طرح سے ٹھکائی کی اور سب سے زیادہ میری، اور اس کے بعد وہ ہمیں لے کر اس کھیت کے مالک کے پاس پہنچے، وہ بابا کے ساتھ ہمیں آتا دیکھ کر ذرا سا پریشان ہوا تب بابا نے اسے کہا: میرے ان بچوں نے تمہارے کھیت سے رات بھر گنے چُرائے اور چوسے ہیں، اب آپ مجھ سے ان کا معاوضہ لے لیں اور انہیں معاف کرسکتے ہیں تو مہربانی اور نہیں تو یہ سب آپ کے سامنے ہیں آپ جو سزا انہیں دینا چاہیں، مجھے منظور ہے۔ بابا تو یہ کہہ کر خاموش ہوگئے۔
کھیت کا مالک تھا بڑا کشادہ دل اور ہوتے ہیں وہ ایسے تو اس نے ہم سب کی طرف مسکرا کر دیکھا اور پوچھا: تم سب نے کتنے گنے توڑے ہیں۔ میں چوں کہ سب سے بڑا مجرم تھا اور میرے ہی کہنے پر وہ سب چلے آئے تھے تو میں نے ان سے کہا: ہمیں یاد نہیں ہے لیکن بہت سارے تھے۔ وہ میری بات سن کر پھر سے مسکرایا اور بابا سے کہا: بزرگو! آپ سے یہی امید تھی، بس آپ انہیں میرے پاس لے آئے تو میں نے انہیں معاف کیا۔ بابا نے اس کا شکریہ ادا کیا تو وہ ایک قدم آگے بڑھا اور ہم سب کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہنے لگا: پُترو! جتنے گنے چُوپنے ہیں، چُوپو، دل بھر کے چُوپو، اجازت ہے، ساتھ لے کر جانا چاہو تب بھی اجازت ہے اور ہاں بس ایک کام کرنا مت بھولنا کہ میری فصل میں برکت کی دعا کرنا۔
تو وہ دونوں اسکول سے واپس آرہے تھے کہ اس نے عجیب حرکت کی اور اس بچی کو کھیت میں لے گیا اور اس پر دست درازی کی کوشش کی، بچی نے شور شرابا کیا تو قریب سے گزرتے ہوئے دو لوگوں نے انہیں ڈھونڈ نکالا اور اپنے ساتھ گاؤں لے آئے اور اس کے کرتُوت سے اس کے والد اور چودھری صاحب کو آگاہ کیا۔ دونوں بچے تو تھے تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ کی اور بس دو چار تھپڑ رسید کیے اور آئندہ سے احتیاط کرنے کی تنبیہ کرکے چھوڑ دیا۔ نوجوان کے والد چوں کہ بہت نیک نام تھے تو انہوں نے اسے اسکول سے نکالا اور گھر میں محصور کردیا، وہ اپنے بیٹے کی حرکت پر بہت شرمندہ تھے۔ وقت گزرتا گیا اسے اگر کبھی باہر جانا ہوتا تو اس کا کوئی بھائی ضرور اس کے ساتھ ہوتا۔
تین سال بہت ہوتے ہیں، اس کی آزادی چھن چکی تھی۔ ایک دن جب اس کی عمر صرف چودہ سال ہی تھی کہ وہ گھر سے بھاگ گیا، اس کے والد نے تو منع کیا کہ اب اسے تلاش نہ کیا جائے لیکن ماں تو جی ماں ہوتی ہے ناں، ان کے کہنے پر اس کے بھائیوں نے جب اسے تلاش کرنا شروع کیا تو انہیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ تو قریبی گاؤں کے تھانے کی حوالات میں ہے، جب اس کے بھائی وہاں پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ اس نے گاؤں کی ایک لڑکی کے ساتھ دست درازی کی کوشش کی ہے۔ سوائے شرمندگی کے وہ کیا کرتے لیکن ماں کا حکم تھا اور پھر وہ چھوٹا بھائی تھا تو انہوں نے متاثرہ لڑکی کے وارثوں سے مل کر معاملہ رفع دفع کرایا اور اسے لے کر واپس آئے۔ انہوں نے اس کے کرتوت سے سوائے ماں کے کسی کو آگاہ نہیں کیا تھا، والد یہ سمجھے کہ گھر کی قید سے گھبرا کر چلا گیا ہوگا تو اب واپس آگیا ہے، لیکن گاؤں میں بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے تو اس گاؤں کے کسی آدمی کو بھی یہ بات معلوم ہوگئی اور پورے گاؤں میں پھیل گئی تب اس کے والد کو ساری حقیقت معلوم ہوئی۔
اب کوئی چارہ نہ رہا تھا تو انہوں نے اسے دُور کسی شہر میں اپنے کسی عزیز کے سپرد کردیا کہ وہ اسے کسی اسکول میں داخل کرادیں۔ پہلے تو وہ گاؤں میں تھا اب وہ شہر کی اور کھلی فضا میں آچکا تھا۔ ایک سال تو خیریت سے گزرا اور پھر ایک دن اس نے پھر اسی طرح کی حرکت کی لیکن اس مرتبہ وہ جیل پہنچ چکا تھا۔ اس کے گھر والوں کو خبر پہنچی تو اس کے والد نے اس سے گاؤں والوں کے سامنے قطع تعلق کرلیا اور مرتے دم تک اس کا چہرہ نہ دیکھنے کی قسم اٹھالی، نہ صرف یہ بل کہ انہوں نے اپنے پورے خاندان کو اس کی کوئی مدد نہ کرنے کا بھی کہہ دیا تھا، وہ سال بھر سے زیادہ جیل میں گزار چکا تھا کہ کسی طرح بابا کو اس کی بابت معلوم ہوا اور وہ اس کی مدد کے لیے آگے بڑھے۔ بابا نے اپنی ضمانت پر اسے جیل سے باہر نکالا اور پھر اس کا مقدمہ بھی ختم کرایا۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر تو جا نہیں سکتا تھا تو وہ بابا کے ساتھ قبرستان میں ہی رہنے لگا تھا۔
بابا اسے اپنا بچہ ہی سمجھتے تھے اور اصل بابا ایسے ہی ہوتے ہیں، بابا اسے لے کر اسی طرح جیسے مجھے لے کر جاتے اور صبح کو مزدوروں کو ناشتا کراتے اور رزق حلال کماتے تھے۔ وہ کچھ عرصے تک تو ان کے ساتھ سعادت مند بن کر جاتا رہا لیکن واپس آکر پھر سے ان سے ضد کرتا کہ وہ باہر گھومنے پھرنے جائے گا۔ بابا نے اس پر کڑی نظر رکھی ہوئی تھی، وہ اس کی تربیت کی اپنی سی کوشش بھی کرتے رہے۔ قبرستان کا ماحول ایسا بھی نہیں ہوتا کہ ہر ایک اس میں رچ بس جائے اور سوچے، اور پھر ہر ایک کے بس کا یہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ ایسی تربیت سے گزرے کہ موت سے پہلے اس کی آنکھ بینا ہوجائے اور وہ اصل کو جان سکے، جی اتنا سہل نہیں ہوتا یہ۔ موت سے پہلے دنیائے ناپائیدار کی اصل حقیقت کو کوئی بینا آنکھ ہی دیکھ سکتی ہے، مجھ جیسا عجلت پسند نہیں۔ آپ میں صبر کے ساتھ ضبط بھی ہونا چاہیے، قناعت اور توکّل کے ساتھ اپنے راہ بر سے وابستگی اور وہ بھی ہر حال اور رنگ میں، اور پھر اس راہ میں پیش آنے والی ہر کیفیت کو اخفاء رکھنا اور تجربے کو سہارنا بھی کوئی معمولی مشقت نہیں ہے۔ اور یہ بھی کہ جیسے جیسے آپ پر حقیقت کُھلتی چلی جائے آپ اس قدر خالق کائنات کے سامنے جُھکتے چلے جائیں اور اسی سے وابستہ ہوتے جائیں۔
آپ کا باطن بس اپنے رب کی مرضی کے سامنے تسلیم ہوتا جائے اور پھر آپ تسلیم و رضا کے پیکر میں ڈھل جائیں۔ اس راہ میں کوئی بھی اصل راہ بر اپنی جانب نہیں، بالکل اور قطعاً نہیں، بل کہ بندے کو خدا کے سامنے زیر کرتا اور اس کے لیے دعا کرتا رہتا ہے کہ خدا اسے اپنی جناب میں قبول فرمالے۔ دیکھیے میں پھر سے دوسری راہ پر چل نکلا تو بابا نے اسے بھی ان مراحل سے گزارنے کی اپنی سی سعی کی تھی اور پھر ایک دن اس نے بابا سے عجیب سا سوال کیا تھا، اس نے بابا سے کہا: بابا کیا میں ساری زندگی اب بس قبرستان میں ہی رہوں گا اور آپ جس راہ پر مجھے لے جا رہے ہیں آخر اسے اس کا دنیاوی فائدہ کیا ملے گا ۔۔۔۔؟ بابا اس کی بات سن کر خاموش ہوگئے اور بس وہی لمحہ تھا جب بابا نے اس کے لیے دوسری راہ منتخب کی۔ بابا نے اسے دھتکارا نہیں بالکل بھی نہیں کہ اصل بابا کبھی نہیں دھتکارتے وہ تو مخلوق کے لیے رحمت خداوندی ہوتے ہیں، ایثار و قربانی کا مجسم۔ بابا نے اس کی راہ بدل ڈالی، پہلے تو اس کے لیے قریبی گاؤں میں اس کے رہنے کا انتظام کیا اور پھر اسے راجا بازار میں ایک اسٹور پر دکان داری سیکھنے کے لیے بھیج دیا، ذہین تو وہ تھا ہی اور پھر بازار کا آزاد ماحول اسے راس بھی آیا، اس نے محنت بھی کی اور پھر وہ دن بھی آیا کہ بابا نے اسے ایک دکان خرید کر دی اور اس طرح وہ ایک تاجر بن گیا، کام یاب تاجر، لیکن بابا نے اس کی سرپرستی نہیں چھوڑی تھی۔ پھر بابا نے اس کے لیے قریب کے گاؤں میں ایک مکان بنوایا، یہی وہ مکان تھا، میں نے جس مکان میں اس نوجوان کو تنہا دیکھا تھا۔
بابا اسے دکان دلا ہی چکے تھے، مکان بھی اس کے پاس تھا۔ بازار میں ہی خریداری کے لیے آنے والی ایک لڑکی اسے پسند آگئی تھی، اس نے بابا کو اپنی خواہش بتائی تھی اور بابا نے اس کے رشتے کی بات اس لڑکی کے سرپرستوں سے طے بھی کرلی تھی۔ بابا اسے یہی بتانے گئے تھے اور میں بابا کے ساتھ تھا۔ بابا نے صرف اتنا ہی نہیں کیا تھا بل کہ وہ اس کے والد سے بھی ملے تھے اور انہیں اسے معاف کردینے کا کہا تھا۔ لیکن اس کے والد نے صاف منع کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا شُکر گزار ہوں کہ آپ نے اسے راہ راست پر لگایا، اب وہ آپ کا ہی بیٹا ہے، آپ بااختیار ہیں اس کے متعلق جو فیصلہ کریں۔ جی پھر میں نے اس کی شادی میں شرکت بھی کی تھی۔ اس کی والدہ، بہن اور بھائی بھی اس کی شادی میں شریک تھے۔
لیکن میں آج تک وہ منظر نہیں بھول پایا کہ وہ تھا ہی ایسا۔ اس کی بارات لے کر ہم گئے اور شام تک رخصتی ہوگئی۔ مغرب کے بعد اس سے بابا نے اجازت لیتے ہوئے کہا: بیٹا! فقیر نے اپنا فرض پورا کیا بہ حمد اﷲ، اب تمہارا فرض ہے کہ اپنی بیوی کا خیال رکھنے کے ساتھ مخلوق خداوندی کا بھی خیال رکھو، آج کے بعد تم خود مختار ہو، میں تمہیں خود سے آزاد کرتا ہوں، اب دھیان سے زندگی گزارنا اور سنبھل کر چلنا کہ یہ دنیا بہت احتیاط سے چلنے کی جگہ ہے، ذرا سی بے دھیانی انسان کو کسی دلدل میں دھنسا سکتی ہے یا کسی کھائی میں گرا سکتی ہے۔
اس وقت میں بابا کے ساتھ ہی کھڑا ہوا تھا جب بابا اس سے یہ باتیں کررہے تھے۔ بابا کی ساری باتیں اس نے بہ غور سنیں اور پھر وہ ان سے لپٹ کر رونے لگا اور ایسا برسا کی جل کا تھل کردیا، بس وہ یہی کہے جارہا تھا: آپ صادق ہیں بابا، سب کچھ کر لیجیے بس مجھے آزاد مت کیجیے۔ بس وہ یہی کہے جارہا تھا اور بابا اسے اپنے ساتھ لپٹائے خاموش تھے، بالکل خاموش۔ پھر انہوں نے اسے خود سے الگ کیا اور میرا ہاتھ پکڑے روانہ ہوتے ہوئے بس اتنا کہا: جب بھی اسے کوئی پریشانی یا ضرورت ہو، وہ بلاتکلف ان کے پاس چلا آئے۔ میں نے دور جاکر پیچھے مڑ کر دیکھا تھا اسے، مجھے ایسا لگا جیسے اس سے متاع زندگی کہیں کھوگئی ہو۔ جی مجھے وہ وقت یاد آیا جب اس نے مجھ سے کمبل کے پیسے لینے سے انکار کردیا تھا اور جب میں نے اس سے پوچھا تھا کہ وہ مجھے کیسے جانتا ہے اور کس نے اسے پیسے دیے ہیں، تب اس نے بتایا تھا کہ بابا نے میری نشان دہی کی تھی اور پیسے ادا کیے تھے جب میں ایک ٹھیلے پر پُرانا کمبل لینے کے لیے رُکا تھا۔
میری سماعت میں بابا کے الفاظ گونج رہے تھے: ہاں وہ نوجوان بھی تو اس راہ کا مسافر تھا لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔ ! عجیب ہے بندہ بشر بھی، ہائے افسوس!
مجھے نواز کوئی ہجر بھرا ہُوا عشق
میں وہ فقیر ہوں جس کی طلب اُداسی ہے
اور اب یہ کیا یاد آگیا۔۔۔۔۔۔!
عشق نہیں نِبھا سکا، ہجر نِبھا رہا ہوں میں
دیکھ خراب ہوں مگر، پُورا خراب بھی نہیں
اس نوجوان کی کتھا بھی کیا عجب تھی۔ ہاں مجھے معلوم ہوئی تو حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوا، لیکن میں کیا کر سکتا تھا۔ وہ تھا ہی اتنا وجیہہ کہ مت پوچھیے۔ اس کے والد اپنے گاؤں کے انتہائی نیک نام زمین دار تھے، اتنے بڑے نہیں کہ جاگیر دار ہوں لیکن ایک بااثر انسان، نیک اور متّقی۔ وہ نوجوان ایک بہن اور اپنے تین بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ فراوانی میں پلا بڑھا اور گاؤں کی زرخیز زمین میں پلا پوسا۔ ویسے بھی گاؤں کے باسی کھلے ڈھلے ماحول کے عادی ہوتے ہیں۔
ان کے گھر تو الگ ہوتے ہیں لیکن وہ سب ایک خاندان کی طرح سے رہتے ہیں، وہاں مرد و زن کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ ہاں خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی الگ رِیت رواج ہیں وہاں ایسا نہیں ہے، وہ سب اپنی تہذیب و روایات سے انتہائی مضبوطی سے وابستہ ہیں، زنان خانے الگ اور گھروں سے خاصے فاصلے پر مردوں کے حُجرے۔ وہاں کوئی بھی خواتین سے گُھل مل نہیں سکتا، بل کہ خونیں رشتے دار بھی اپنی محرمات تک سے ایک فاصلہ رکھتے ہیں۔ خیر تو وہ نوجوان جس گاؤں کا تھا وہ سب بھی ایک خاندان کی طرٖح تھے، سب اک دوجے سے قریب، پردے کا وہ تصوّر بھی نہیں تھا جو مطلوب ہے۔ چھوٹا تھا تو خودسر اور ضدی بھی ہوگیا، کوئی فرمائش کی تو اسے پورا کیا گیا۔ جب وہ اسکول جانے کے لائق ہوا تو اسے بھی داخل کرادیا گیا، گاؤں کے بچے اور بچیاں ساتھ ہی پڑھتے تھے اور وہ گاؤں کے چودھری صاحب کی بچی کے ساتھ بچپن سے ہی کھیلتا کودتا رہا تھا، اس لیے وہ ان کے پڑوسی تھے، اسکول میں بھی وہ ساتھ ہی تھے۔
اس کی عمر ابھی دس برس ہی تھی کہ ایک حادثہ ہوگیا اور وہ یہ کہ وہ دونوں اسکول سے واپس آرہے تھے، کھیت کھلیان ٹاپتے ہوئے، اس وقت گنے کی فصل سر اٹھائے کھڑی تھی، شہری تو شاید کم جانتے ہوں لیکن گاؤں کے باسی بہ خوبی جانتے ہیں کہ گنے کی فصل میں کوئی قد آور بھی داخل ہوجائے تو نظر نہیں آسکتا، اسی لیے اس موسم میں وارداتیں بھی بہت ہوتی ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ ایک رات میں اپنے سنگی ساتھیوں کے ساتھ گنے کے کھیت میں داخل ہوا اور رات بھر ہم گنے چُوستے رہے، ہم سب اس وقت ایک بابا جی کے پاس مقیم تھے، فجر سے پہلے وہ جاگ چکے تھے اور ہمیں نہ پاکر انہوں نے کھیتوں کا رخ کیا اور ہم رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے، پھر تو نہ پوچھیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا، پہلے تو بابا جی نے وہیں ہم سب کی اچھی طرح سے ٹھکائی کی اور سب سے زیادہ میری، اور اس کے بعد وہ ہمیں لے کر اس کھیت کے مالک کے پاس پہنچے، وہ بابا کے ساتھ ہمیں آتا دیکھ کر ذرا سا پریشان ہوا تب بابا نے اسے کہا: میرے ان بچوں نے تمہارے کھیت سے رات بھر گنے چُرائے اور چوسے ہیں، اب آپ مجھ سے ان کا معاوضہ لے لیں اور انہیں معاف کرسکتے ہیں تو مہربانی اور نہیں تو یہ سب آپ کے سامنے ہیں آپ جو سزا انہیں دینا چاہیں، مجھے منظور ہے۔ بابا تو یہ کہہ کر خاموش ہوگئے۔
کھیت کا مالک تھا بڑا کشادہ دل اور ہوتے ہیں وہ ایسے تو اس نے ہم سب کی طرف مسکرا کر دیکھا اور پوچھا: تم سب نے کتنے گنے توڑے ہیں۔ میں چوں کہ سب سے بڑا مجرم تھا اور میرے ہی کہنے پر وہ سب چلے آئے تھے تو میں نے ان سے کہا: ہمیں یاد نہیں ہے لیکن بہت سارے تھے۔ وہ میری بات سن کر پھر سے مسکرایا اور بابا سے کہا: بزرگو! آپ سے یہی امید تھی، بس آپ انہیں میرے پاس لے آئے تو میں نے انہیں معاف کیا۔ بابا نے اس کا شکریہ ادا کیا تو وہ ایک قدم آگے بڑھا اور ہم سب کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہنے لگا: پُترو! جتنے گنے چُوپنے ہیں، چُوپو، دل بھر کے چُوپو، اجازت ہے، ساتھ لے کر جانا چاہو تب بھی اجازت ہے اور ہاں بس ایک کام کرنا مت بھولنا کہ میری فصل میں برکت کی دعا کرنا۔
تو وہ دونوں اسکول سے واپس آرہے تھے کہ اس نے عجیب حرکت کی اور اس بچی کو کھیت میں لے گیا اور اس پر دست درازی کی کوشش کی، بچی نے شور شرابا کیا تو قریب سے گزرتے ہوئے دو لوگوں نے انہیں ڈھونڈ نکالا اور اپنے ساتھ گاؤں لے آئے اور اس کے کرتُوت سے اس کے والد اور چودھری صاحب کو آگاہ کیا۔ دونوں بچے تو تھے تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ کی اور بس دو چار تھپڑ رسید کیے اور آئندہ سے احتیاط کرنے کی تنبیہ کرکے چھوڑ دیا۔ نوجوان کے والد چوں کہ بہت نیک نام تھے تو انہوں نے اسے اسکول سے نکالا اور گھر میں محصور کردیا، وہ اپنے بیٹے کی حرکت پر بہت شرمندہ تھے۔ وقت گزرتا گیا اسے اگر کبھی باہر جانا ہوتا تو اس کا کوئی بھائی ضرور اس کے ساتھ ہوتا۔
تین سال بہت ہوتے ہیں، اس کی آزادی چھن چکی تھی۔ ایک دن جب اس کی عمر صرف چودہ سال ہی تھی کہ وہ گھر سے بھاگ گیا، اس کے والد نے تو منع کیا کہ اب اسے تلاش نہ کیا جائے لیکن ماں تو جی ماں ہوتی ہے ناں، ان کے کہنے پر اس کے بھائیوں نے جب اسے تلاش کرنا شروع کیا تو انہیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ تو قریبی گاؤں کے تھانے کی حوالات میں ہے، جب اس کے بھائی وہاں پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ اس نے گاؤں کی ایک لڑکی کے ساتھ دست درازی کی کوشش کی ہے۔ سوائے شرمندگی کے وہ کیا کرتے لیکن ماں کا حکم تھا اور پھر وہ چھوٹا بھائی تھا تو انہوں نے متاثرہ لڑکی کے وارثوں سے مل کر معاملہ رفع دفع کرایا اور اسے لے کر واپس آئے۔ انہوں نے اس کے کرتوت سے سوائے ماں کے کسی کو آگاہ نہیں کیا تھا، والد یہ سمجھے کہ گھر کی قید سے گھبرا کر چلا گیا ہوگا تو اب واپس آگیا ہے، لیکن گاؤں میں بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے تو اس گاؤں کے کسی آدمی کو بھی یہ بات معلوم ہوگئی اور پورے گاؤں میں پھیل گئی تب اس کے والد کو ساری حقیقت معلوم ہوئی۔
اب کوئی چارہ نہ رہا تھا تو انہوں نے اسے دُور کسی شہر میں اپنے کسی عزیز کے سپرد کردیا کہ وہ اسے کسی اسکول میں داخل کرادیں۔ پہلے تو وہ گاؤں میں تھا اب وہ شہر کی اور کھلی فضا میں آچکا تھا۔ ایک سال تو خیریت سے گزرا اور پھر ایک دن اس نے پھر اسی طرح کی حرکت کی لیکن اس مرتبہ وہ جیل پہنچ چکا تھا۔ اس کے گھر والوں کو خبر پہنچی تو اس کے والد نے اس سے گاؤں والوں کے سامنے قطع تعلق کرلیا اور مرتے دم تک اس کا چہرہ نہ دیکھنے کی قسم اٹھالی، نہ صرف یہ بل کہ انہوں نے اپنے پورے خاندان کو اس کی کوئی مدد نہ کرنے کا بھی کہہ دیا تھا، وہ سال بھر سے زیادہ جیل میں گزار چکا تھا کہ کسی طرح بابا کو اس کی بابت معلوم ہوا اور وہ اس کی مدد کے لیے آگے بڑھے۔ بابا نے اپنی ضمانت پر اسے جیل سے باہر نکالا اور پھر اس کا مقدمہ بھی ختم کرایا۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر تو جا نہیں سکتا تھا تو وہ بابا کے ساتھ قبرستان میں ہی رہنے لگا تھا۔
بابا اسے اپنا بچہ ہی سمجھتے تھے اور اصل بابا ایسے ہی ہوتے ہیں، بابا اسے لے کر اسی طرح جیسے مجھے لے کر جاتے اور صبح کو مزدوروں کو ناشتا کراتے اور رزق حلال کماتے تھے۔ وہ کچھ عرصے تک تو ان کے ساتھ سعادت مند بن کر جاتا رہا لیکن واپس آکر پھر سے ان سے ضد کرتا کہ وہ باہر گھومنے پھرنے جائے گا۔ بابا نے اس پر کڑی نظر رکھی ہوئی تھی، وہ اس کی تربیت کی اپنی سی کوشش بھی کرتے رہے۔ قبرستان کا ماحول ایسا بھی نہیں ہوتا کہ ہر ایک اس میں رچ بس جائے اور سوچے، اور پھر ہر ایک کے بس کا یہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ ایسی تربیت سے گزرے کہ موت سے پہلے اس کی آنکھ بینا ہوجائے اور وہ اصل کو جان سکے، جی اتنا سہل نہیں ہوتا یہ۔ موت سے پہلے دنیائے ناپائیدار کی اصل حقیقت کو کوئی بینا آنکھ ہی دیکھ سکتی ہے، مجھ جیسا عجلت پسند نہیں۔ آپ میں صبر کے ساتھ ضبط بھی ہونا چاہیے، قناعت اور توکّل کے ساتھ اپنے راہ بر سے وابستگی اور وہ بھی ہر حال اور رنگ میں، اور پھر اس راہ میں پیش آنے والی ہر کیفیت کو اخفاء رکھنا اور تجربے کو سہارنا بھی کوئی معمولی مشقت نہیں ہے۔ اور یہ بھی کہ جیسے جیسے آپ پر حقیقت کُھلتی چلی جائے آپ اس قدر خالق کائنات کے سامنے جُھکتے چلے جائیں اور اسی سے وابستہ ہوتے جائیں۔
آپ کا باطن بس اپنے رب کی مرضی کے سامنے تسلیم ہوتا جائے اور پھر آپ تسلیم و رضا کے پیکر میں ڈھل جائیں۔ اس راہ میں کوئی بھی اصل راہ بر اپنی جانب نہیں، بالکل اور قطعاً نہیں، بل کہ بندے کو خدا کے سامنے زیر کرتا اور اس کے لیے دعا کرتا رہتا ہے کہ خدا اسے اپنی جناب میں قبول فرمالے۔ دیکھیے میں پھر سے دوسری راہ پر چل نکلا تو بابا نے اسے بھی ان مراحل سے گزارنے کی اپنی سی سعی کی تھی اور پھر ایک دن اس نے بابا سے عجیب سا سوال کیا تھا، اس نے بابا سے کہا: بابا کیا میں ساری زندگی اب بس قبرستان میں ہی رہوں گا اور آپ جس راہ پر مجھے لے جا رہے ہیں آخر اسے اس کا دنیاوی فائدہ کیا ملے گا ۔۔۔۔؟ بابا اس کی بات سن کر خاموش ہوگئے اور بس وہی لمحہ تھا جب بابا نے اس کے لیے دوسری راہ منتخب کی۔ بابا نے اسے دھتکارا نہیں بالکل بھی نہیں کہ اصل بابا کبھی نہیں دھتکارتے وہ تو مخلوق کے لیے رحمت خداوندی ہوتے ہیں، ایثار و قربانی کا مجسم۔ بابا نے اس کی راہ بدل ڈالی، پہلے تو اس کے لیے قریبی گاؤں میں اس کے رہنے کا انتظام کیا اور پھر اسے راجا بازار میں ایک اسٹور پر دکان داری سیکھنے کے لیے بھیج دیا، ذہین تو وہ تھا ہی اور پھر بازار کا آزاد ماحول اسے راس بھی آیا، اس نے محنت بھی کی اور پھر وہ دن بھی آیا کہ بابا نے اسے ایک دکان خرید کر دی اور اس طرح وہ ایک تاجر بن گیا، کام یاب تاجر، لیکن بابا نے اس کی سرپرستی نہیں چھوڑی تھی۔ پھر بابا نے اس کے لیے قریب کے گاؤں میں ایک مکان بنوایا، یہی وہ مکان تھا، میں نے جس مکان میں اس نوجوان کو تنہا دیکھا تھا۔
بابا اسے دکان دلا ہی چکے تھے، مکان بھی اس کے پاس تھا۔ بازار میں ہی خریداری کے لیے آنے والی ایک لڑکی اسے پسند آگئی تھی، اس نے بابا کو اپنی خواہش بتائی تھی اور بابا نے اس کے رشتے کی بات اس لڑکی کے سرپرستوں سے طے بھی کرلی تھی۔ بابا اسے یہی بتانے گئے تھے اور میں بابا کے ساتھ تھا۔ بابا نے صرف اتنا ہی نہیں کیا تھا بل کہ وہ اس کے والد سے بھی ملے تھے اور انہیں اسے معاف کردینے کا کہا تھا۔ لیکن اس کے والد نے صاف منع کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا شُکر گزار ہوں کہ آپ نے اسے راہ راست پر لگایا، اب وہ آپ کا ہی بیٹا ہے، آپ بااختیار ہیں اس کے متعلق جو فیصلہ کریں۔ جی پھر میں نے اس کی شادی میں شرکت بھی کی تھی۔ اس کی والدہ، بہن اور بھائی بھی اس کی شادی میں شریک تھے۔
لیکن میں آج تک وہ منظر نہیں بھول پایا کہ وہ تھا ہی ایسا۔ اس کی بارات لے کر ہم گئے اور شام تک رخصتی ہوگئی۔ مغرب کے بعد اس سے بابا نے اجازت لیتے ہوئے کہا: بیٹا! فقیر نے اپنا فرض پورا کیا بہ حمد اﷲ، اب تمہارا فرض ہے کہ اپنی بیوی کا خیال رکھنے کے ساتھ مخلوق خداوندی کا بھی خیال رکھو، آج کے بعد تم خود مختار ہو، میں تمہیں خود سے آزاد کرتا ہوں، اب دھیان سے زندگی گزارنا اور سنبھل کر چلنا کہ یہ دنیا بہت احتیاط سے چلنے کی جگہ ہے، ذرا سی بے دھیانی انسان کو کسی دلدل میں دھنسا سکتی ہے یا کسی کھائی میں گرا سکتی ہے۔
اس وقت میں بابا کے ساتھ ہی کھڑا ہوا تھا جب بابا اس سے یہ باتیں کررہے تھے۔ بابا کی ساری باتیں اس نے بہ غور سنیں اور پھر وہ ان سے لپٹ کر رونے لگا اور ایسا برسا کی جل کا تھل کردیا، بس وہ یہی کہے جارہا تھا: آپ صادق ہیں بابا، سب کچھ کر لیجیے بس مجھے آزاد مت کیجیے۔ بس وہ یہی کہے جارہا تھا اور بابا اسے اپنے ساتھ لپٹائے خاموش تھے، بالکل خاموش۔ پھر انہوں نے اسے خود سے الگ کیا اور میرا ہاتھ پکڑے روانہ ہوتے ہوئے بس اتنا کہا: جب بھی اسے کوئی پریشانی یا ضرورت ہو، وہ بلاتکلف ان کے پاس چلا آئے۔ میں نے دور جاکر پیچھے مڑ کر دیکھا تھا اسے، مجھے ایسا لگا جیسے اس سے متاع زندگی کہیں کھوگئی ہو۔ جی مجھے وہ وقت یاد آیا جب اس نے مجھ سے کمبل کے پیسے لینے سے انکار کردیا تھا اور جب میں نے اس سے پوچھا تھا کہ وہ مجھے کیسے جانتا ہے اور کس نے اسے پیسے دیے ہیں، تب اس نے بتایا تھا کہ بابا نے میری نشان دہی کی تھی اور پیسے ادا کیے تھے جب میں ایک ٹھیلے پر پُرانا کمبل لینے کے لیے رُکا تھا۔
میری سماعت میں بابا کے الفاظ گونج رہے تھے: ہاں وہ نوجوان بھی تو اس راہ کا مسافر تھا لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔ ! عجیب ہے بندہ بشر بھی، ہائے افسوس!
مجھے نواز کوئی ہجر بھرا ہُوا عشق
میں وہ فقیر ہوں جس کی طلب اُداسی ہے
اور اب یہ کیا یاد آگیا۔۔۔۔۔۔!
عشق نہیں نِبھا سکا، ہجر نِبھا رہا ہوں میں
دیکھ خراب ہوں مگر، پُورا خراب بھی نہیں