بنجر معاشرے سے کیا شکایت
کراچی والوں نے توفیکٹری سے بھتہ وصول کرنے کے لیے، کارخانہ میں لوگوں کوزندہ جلادیا تھا۔
کوئی بھی قوم اپنی ہمت اورعزم سے ہی آگے بڑھتی ہے۔کوئی بھی طاقت،کسی بے جان سے ملک کوگُل و گلزار نہیں بناسکتی۔ترقی کے اُصول پیہم اوریکساں ہیں۔سب کے لیے۔کئی ہزارسال پہلے یونانیوں کے لیے بھی اورآج کے سخت کوش حالات میں سانس لینے والی قوموں کے لیے بھی۔ کوئی بیرونی عنصرکسی بھی صورت میں کسی دوسرے خطے کو ترقی نہیں دلواسکتا۔چنگاری جب تک ریاضت اورمحنت کا شعلہ نہ بن سکے،معاملات چوپٹ ہی رہتے ہیں۔انسانی تاریخ میں عروج وزوال بدستورموجود ہیں ۔
ان کے اُصول مصمم اورنہ بدلنے والے ہیں۔یہ قوانین قدرت، ہر مذہب اورقوم کے لیے یکساں ہیں۔ایک جیسے ہیں اورایک جیسے رہیں گے۔لوگوں اورقوموں کے حالات میں تغیر ضرورہے۔مگرقوانین قدرت میں تبدیلی ممکن نہیں۔یہ اَٹل ہیں۔مگرکیاہمارامقتدرطبقہ قوانین قدرت کوواقعی دل سے تسلیم کرتاہے۔شواہدہیں کہ زبانی جمع خرچ کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔ہرطرف اَبتری اوردھول ہے۔سب کچھ نظرآنے کے بعدبھی کچھ نظرنہیں آرہا۔
ملک کے بیس پچیس برس کے معاملات آج ہمیں کہاں لے آئے ہیں۔یہ موضوع ہرگزہرگز سیاسی، مذہبی، سماجی یااخلاقی نوعیت کانھیں ہے۔یہ نکتہِ فکرہے۔دعوت ہے تدبرکی کہ خدارا سوچو کہ ملک کوگرہن لگ چکاہے۔اُلٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔جھوٹ بلکہ سفیدجھوٹ کوہِ ہمالیہ سے بھی بلندوبانگ ہوچکاہے۔کسی شعبہ میں جھانک لیجیے۔حالات لرزاخیزہیں۔مگرکوئی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ہرایک وہی کررہاہے جواس کے فائدہ کی چیز ہے۔ ہاتھ کوہاتھ سجھائی نہیں دے رہا۔میر تقی میر کا شعر ہے ؎
روزوشب کی اپنی مشیت نقل کریں کیاتم سے میر
دن کوقیامت جی پہ رہے ہے سرپہ بلالاتی ہے رات
پاکستان کے حالات خطرناک حدتک بگڑچکے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک دودن یاایک دوبرس کے اندرنمونہ نہیں ہوئے ہیں۔ہماری ملکی قیادت کی دروغ گوئی،مضبوط فیصلے نہ کرنے کی ہمت،لوگوں کوبیوقوف بنانے کی کامیاب صلاحیت،بے ایمانی اوردیوانوں کی طرح مالی فوائدحاصل کرنے کی کوشش نے آج ہم کو دیوالیہ کردیاہے۔مالی ہی نہیں،اخلاقی طورپربھی،سماجی ہی نہیں،مذہبی طورپربھی۔ ہماری دعائیں بھی بے اثرہیں اورہمارا گریہ بھی بے نوا۔ کس سے گلہ کریں۔جوبربادی کے ذمے دارہیں،آج بھی سنگھاسن سے اُترنے سے گریزاں ہیں۔ صاحبان! دولت بلکہ دولت کے انبارسے آج کے دورمیں ہرچیز خریدی جاسکتی ہے۔ہرانسان بھی۔موجودہ زمانہ گواہ ہے۔سرمایہ دارانہ نظام آج سوانیزے پرہے۔دولت کے انبار اکٹھے کرنے والے شاد ہیں۔
سب اپناجھوٹ اس ڈھٹائی سے بیان کررہے ہیں کہ لگتاہے کہ صرف وہی سچ بول رہے ہیں۔ان کی بابت منفی لکھنے والے مکمل طورپرغلط ہیں۔ یا رب،اب کیاکیاجائے۔ملک کی بربادی کاذمے دارکوئی ایک فریق نہیں بلکہ ہم سارے ہیں۔ہرشخص ذمے دار ہے۔ آپ کس کس کااحتساب کریں گے اورکیونکرکریں گے۔ جب لکھنے والے دانشور،اپنے قلم کی روشنائی ، ناجائزذرائع سے حاصل کرتے ہوں۔توصاحبان ! کیا تاثیررہ جائے گی۔ تلخ حقیقت تویہ ہے کہ دانشوروں،اہل علم،قلم کاروں، مذہبی اورسیاسی پیشواؤں کی اکثریت مختلف ذاتی وجوہات کی بدولت صرف ایک رخ دکھاتی ہے۔وہی رخ جسکی قیمت وصول کی ہوتی ہے۔متوازن اورسچی بات کرنے والے اہل دل توبہت کم ہیں۔اب محسوس کیاہے کہ اس خطے میں سچ بولنا،مکمل طورپرحماقت ہے۔کوئی سننے کے لیے تیارنہیں۔نہ لوگ اورنہ ہی ادارے۔
اسی طرزپرجذباتیت مزاج کاحصہ بنادی گئی ہے۔ صرف اسلیے کہ دلیل کی قوت حددرجہ کمزورہوچکی ہے۔ دلیل تواب ناتواں ہے۔لوگ''خداکے گھر''جاکربھی جھوٹ بولنے سے گریزنہیں کرتے۔وہ مقدس مقامات جنکی زیارت سے دلوں میں نوربھرجاتاہے۔ہمارے ملک سے کارواں درکارواں وہاں جاتے ہیں۔مگرویسے ہی سوکھے واپس لوٹ آتے ہیں۔جس حالت میں گئے تھے۔رَتی بھرفرق نہیں آتا۔وہی چوربازاری،وہی ملاوٹ،وہی جعلی مہنگائی اوروہی ناجائزدولت کے انباربنانے کی پاگلوں جیسی دوڑ۔ہرطرح کاہنر،ملک سے اُٹھ چکا ہے۔ دعائیں بے اثرہوچکی ہیں۔کیونکہ ہم نے کسی بھی ضابطے یااُصول کورہنمابنانے سے انکارکردیاہے۔قوموں کے مزاج، اپنے مقتدرطبقے کے مطابق ترتیب ہوجاتے ہیں۔یہ ویسے سماجی المیہ ہے۔طاقتورطبقے کی بدنیتی،اب نیچے تک عودکرآئی ہے۔خالص اورملاوٹ کے بغیر،درمیانہ اورنچلا طبقہ انھی علتوں کاشکارہے جوشاہوں کے مزاج میں ہیں۔ لہٰذاپورے ملک میںبے ایمانی اورجھوٹ کا راج ہے۔
عام لوگ کہتے ہیں۔دائیں اوربائیں بازوؤں کے دانشورفرماتے ہیں۔اپوزیشن اورحکومتی جماعتوںکے سرخیل تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی تبدیلی نہیں آئی۔نوماہ ضایع ہو گئے۔مگردل تھام کرسنیے۔جس خطے میں ہم سانس لینے پر مجبورہیں۔وہاں ہزاروں برس سے ایک جیسی بدحالی ہے۔ برصغیرمیں کسی دورمیں بھی بھرپوراخلاقی اورسماجی تبدیلی پیدا نہ ہوسکی۔سائنس سے جڑے ہوئے چند لوگ کہتے ہیں کہ اس خطے کی خرابی کی اصل وجہ مقامی لوگوں کا ''کمترڈی این اے''ہے۔حیاتاتی جینزہی ادنیٰ نوعیت کے ہیں۔ لہذاترقی نہ کرنااورتبدیل نہ ہوناہماری سرشت میںشامل ہے۔ سرشت کوتوکوئی بھی تبدیل نہیں کر سکتا۔ کبھی کبھی عالم غم میں یہ تھیوری دل کولگتی ہے۔مگرپھرحقیقت کوفراموش کرناپڑتا ہے۔اسلیے کہ اس معاشرے میں کس کس سے لڑا جائے۔ کس کس سے اختلاف کیاجائے اور کس کس سے مکالمہ کیاجائے۔ہرطرف ایک جیساحال ہے۔ جاہل،تخت پربیٹھے ہیں اور دانش سے مزین لوگ جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں۔مجبورہوکروہ بھی درباری بن جاتے ہیں۔
کیونکہ زندہ بھی تورہناہے اوروہ بھی اسی سماجی جنگل میں۔جہاں ہربڑاجانورچھوٹے جانور پر زندگی تنگ کر چکا ہے۔عجیب کیفیت ہے۔ صاحبان، حددرجہ خطرناک کیفیت ہے۔ کامیاب ہونے کااب کوئی کارآمد نسخہ موجود نہیں رہا۔ہم نے اپنی کوتاہی اورچرب زبانی سے ہرنظام کوناکام بنادیا ہے۔جمہوریت کوبھی اور بوٹوںکی حکومت کوبھی۔نہ ہمیں جمہوری لیڈرپائے کے مل سکے اورنہ ہی غیر جمہوری حکمران۔ہرایک نے بربادی کا ایک نیاباب لکھااورکمبل جھاڑکرچلتابنا۔منتقل بھی ایسی جگہ ہوا،جہاں کوئی پوچھ گچھ ممکن ہی نہیں ہے۔کوئی فائیو اسٹار جلاوطنی میں شاداں ہوااورکوئی فائیواسٹارجیل میں۔کوئی ہوائی جہازکے حادثے میں رزقِ خاک ہوا۔مگربے لاگ پوچھ گچھ سے سب بالابالاہی رہے۔موجودہ حالات میں توازن کا راستہ کوئی بھی نہیں ہے۔سب در،ہم نے بے رحمی سے بند نہیں کیے۔
ان پر جہالت اورمنافقت کے بڑے بڑے تالے لگادیے ہیں۔ اب بیان کیاکیاجائے۔مفلوج معاشرے میں کون دلیل کی بات سنے گا۔لوگ سیاسی رہنماؤں کے پیچھے لفظی ڈنڈا لے کرپڑے رہتے ہیں۔ شائد اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے۔ٹی وی توعرصے سے دیکھنا بند کردیا۔اسلیے کہ معلوم ہے کہ کون سادانشورکونسی جہت لے گا۔کس کی حمایت کرے گا۔کس کے خلاف بولے گا۔کون اپنی دلیل کو باوزن دکھانے کے لیے قدیم کہانی سنائے گا۔ سیاسی رہنماؤں کو تھوڑی دیرکے لیے رہنے دیجیے۔ان کے لتے توہروقت لیے جاتے ہیں۔کیاکسی نے غورکیاکہ بیس پچیس سالوں میں دربارسے منسلک سرکاری پیادوں نے کون کون ساہاتھ نہیں مارا۔سندھ میں بلڈنگ کنٹرول کے شعبہ میں ایک گرفتارافسرنے سو کروڑروپے کی جائیدادنیب کے حوالے کی ہے۔ کیا پاکستان میں غربت کے ہاتھوں روزانہ خودکشی کرنے والے لوگ گمان کرسکتے ہیں کہ ایک ارب روپیہ کتناہوگا۔ ہرگز نہیں۔ اور اب ایک ارب دیکر،سندھ کایہ افسرباعزت ہوجائیگا۔ کیونکہ اس کے بیسوں ارب توملک کے باہرپڑے ہونگے۔
محفوظ ترین بینکوں میں۔جہاں کوئی حکومت جانے کی جرات نہیں کرسکتی۔ہمیشہ سے عرض کرتاآیاہوں کہ پنجاب میں سندھ سے زیادہ کرپشن ہوئی ہے۔صاف پانی منصوبہ کے ایک گرفتارافسرنے بھی ایک ارب روپے کے اثاثے نیب کے حوالے کیے ہیں۔ چند ہفتے پہلے۔یہ وہ منصوبہ ہے جسکے متعلق محترم شہبازشریف صاحب نے فرمایاتھاکہ اگراس میں دھیلے کی کرپشن بھی ثابت ہوگئی تووہ سیاست چھوڑجائینگے۔ویسے ان سے پوچھنا توچاہیے کہ چلیے،اس افسرکے ایک ارب روپے کے اثاثہ واپس کرنے کے واقعہ کوہی تسلیم کرلیں۔پریہ ممکن نہیں ہے۔سرکاری بابوؤں کی بات ہورہی تھی۔دوہفتے پہلے، ایک ریٹائرڈ سیکریٹری کونیب نے گرفتارکیا۔پرویزمشرف کی ناک کا بال،یہ بابوصرف تین چاردن جیل میں رہ پایا۔ فوراًوعدہ معاف گواہ بن گیا۔شنیدہے کہ دوسوکروڑیعنی د وارب روپے واپس کرنے پرآمادہ ہواہے۔اخبارات اسی طرح کی خبروں سے بھرے پڑے ہیں۔پنجاب ہی کے متعدد افسران، ضلع،ڈویژن، محکموں اوراداروںسے ماہانہ سطح پربھتہ وصول کرتے رہے۔
کراچی والوں نے توفیکٹری سے بھتہ وصول کرنے کے لیے، کارخانہ میں لوگوں کوزندہ جلادیا تھا۔ منافقت کی حددرجہ دھول اُٹھائی گئی اوراسی میں کاریگر اپناکام کرتے رہے اورآج بھی کررہے ہیں۔ نہ ماضی میں کوئی روک ٹوک تھی اورنہ آج ہے۔سوال یہ بھی تو اُٹھتاہے کہ اب کیالائحہ عمل روارکھا جائے۔ کچھ نہیں عرض کرسکتا۔مگرایک بات توطے ہے موجودہ نظام اورموجودہ قوانین کے اندرنہ انصاف ہوسکتاہے،نہ احتساب ہوسکتا ہے اورنہ لوگوں کے حالات بہترکیے جاسکتے ہیں۔تبدیلی اس نظام میں ہرگزہرگزممکن نہیں ہے۔یہ دیوارسے سرپھوڑنے والی بات ہے۔ مگر اس بنجرزمین میں اتنے مضبوط فیصلوں کی باتیں کون کر پائے گا۔دوردورتک کوئی موجودنہیں ہے۔