پاکستانیت کے خلاف سازش
ہمارے ہاں کچھ ایسے تعلیمی ادارے بھی ہیں جو دن بدن پھیلتے جارہے ہیں اورانھیں ہم عرف عام میں انگلش میڈیم اسکول کہتے ہیں۔
امریکا کا دنیا پر حکمرانی کا منصوبہ صرف یہ نہیں کہ کسی افغانستان اور عراق پر حملہ کر دیا اور کسی ایران کو یلغار کی دھمکی دے دی ۔کسی پاکستان کو مالیاتی اداروں کے ذریعے بے بس کر دیا اور کسی ملک پر انعام و اکرام کی بارش کر کے اسے مطیع کر لیا بلکہ اصل حکمرانی اور نیا ورلڈ آرڈر یہ ہے کہ ناپسندیدہ قوموں سے غیرت اور حمیت کی روح چھین لی اور انھیں اندر سے اتنا کھوکھلا کر دیا جائے تا کہ وہ امریکی کلچر کے سامنے کوئی مزاحمت نہ کر سکیں۔
ہمارے ملک میں امریکی امداد سے چلنے والے سماجی رفاہی ادارے جنھیں غیرحکومتی تنظیمیں کہا جاتا ہے۔اسی سازش کا پہلا حصہ رہی ہیں۔ یہ تنظیمیں خواتین کی بہبود اور حقوق کی علمبردار بھی کہلاتی ہیں اور اس کا مظاہرہ گزشتہ دنوں ہم دیکھ چکے ہیں جب پاکستانی خواتین ایسے ایسے پلے کارڈ اٹھا کر گھروں سے نکلیں کہ مرد حضرات بھی ان کو پڑھ کر شرمندہ ہو گئے۔ یہ تنظیمیں کئی سماجی کاموں کا ڈھونگ رچائے ہوئے ہیں اور ان اداروں کے کرتا دھرتا امریکی ایجنٹوں کا کام کرتے ہیں اور امریکی کلچر کے فروغ کے لیے کبھی عورتوں کے حقوق کے لیے اور کبھی دوسرے بنیادی حقوق کا خوبصورت نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں۔
ہمارے ہاں کچھ ایسے تعلیمی ادارے بھی ہیں جو دن بدن پھیلتے جارہے ہیں اور انھیں ہم عرف عام میں انگلش میڈیم اسکول کہتے ہیں۔ ان اداروں کے چلانے والے کچھ تو براہ راست امریکا کے زیر اثر ہیں اور کچھ مال کمانے کی دھن میں غیر شعوری طور پر غیر ملکی طاقتوں کے مقاصد پورے کر رہے ہیں۔ یہاں جو تعلیم دی جاتی ہے اور بچوں کی تربیت کا جو انداز اختیار کیا جاتا ہے وہ بالعموم پاکستانی نہیں ہوتا۔ ان کے نصاب میں تو بعض کتابوں میں اسلام اور پاکستان کا ذکر ملتا ہو گا لیکن یہ ذکر محض ایک دکھاوا ہے اور والدین کو بے وقوف بنانے کا ایک ذریعہ ہے۔
لاہور جہاں ان انگلش میڈیم نجی اسکولوں کی تعداد گنتی سے باہر ہے اور جن کی فیسیں ہزاروں میں ہیں کیسے ماحول میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں اس کا اندازہ یوں کیجیے کہ گزشتہ دنوں ایک ٹیچر بتا رہی تھیں کہ انھی اسکولوں میں سے ایک کی استانی نے گزشتہ رمضان میں اپنی ہیڈ مسٹریس کو چھٹی کی درخواست دی کہ وہ اعتکاف بیٹھنا چاہتی ہے ۔ ہیڈ مسٹریس نے درخواست نامنظور کرتے ہوئے کہا کہ تم سالانہ چھٹیوں میں اعتکاف بیٹھ جانا۔ اسی طرح ایک طالبعلم نے جب کہا کہ جمعہ کے روز جلدی چھٹی کی جائے کیونکہ وہ اپنے ابو کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھنے جاتا ہے تو استانی نے کہا کہ تم جمعہ کی نماز قضا پڑھ لیا کرو اور وہ انھی اسکولوں میں پڑھنے والابچہ تھا جس نے ایک شادی کی تقریب میں ماں سے کہا کہ شادی کیسے ہو گئی کیونکہ دلہا دلہن نے آگ کے گرد پھیرے تو لیے نہیں۔
صورتحال یہ ہے کہ مالدار ماں باپ بچوں کو بڑی فیس والے کسی انگلش میڈیم اسکول میں داخل کرا دیتے ہیں اور بھاری فیس ادا کر کے گویا اپنا فرض ادا کر دیتے ہیں۔ گھروں میں بچوں کی تربیت کی طرف تو جہ نہیں دی جاتی کیونکہ جس گھر میں دولت فراواں ہوتی ہے اسے استعمال کرنے کے لیے والدین کو ہر وقت مصروف رہنا پڑتا ہے اور انھیں کسی دوسری ذمے داری کا کوئی ہوش نہیں رہتا۔ حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ مال میری امت کافتنہ ہو گا اور یہ فتنہ آج ہم دیکھ رہے ہیں۔خود ہی مہنگے موبائل ٹیلیفون خرید کر بچوں کے ہاتھوں میںدے دیے گئے ہیں اور وہ ان کے ذریعے وہ کچھ دیکھ رہے ہیں جنھیں ان ملکوںمیں بھی فحش سمجھا جاتا ہے جہاں سے یہ فون بن کر آرہے ہیں۔
پاکستان کے کلچر میں فحاشی کی کوئی گنجائش نہیں جب کہ بعض ملکوں میں یہ جرم نہیں اور موسیقی تو ان کی عبادت کا ایک طریقہ ہے لیکن پاکستان میں ایسانھیں ہے مگر جو پاکستانی نسل تیار ہو رہی ہے اس میں اور تو سب کچھ ہو گا مگر نہیں ہوگا تو پاکستان کی محبت کا جذبہ ۔ بدقسمتی سے پاکستانیت دقیانوسی سمجھی جانے لگی ہے اور پاکستان کے بنیادی نظریات کو رجعت پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے ان اسکولوں میں جو طلبا پڑھتے ہیں ان میں سے اکثر ذہنی طور پر اس قوم سے تعلق نہیں رکھتے جو پاکستانی کہلاتی ہے ۔
ایک دانشور سے ایک مرتبہ اس موضوع پر گفتگو ہوئی تو اس نے کہا کہ انگریزی ضرور پڑھائیں مگر انگریزی انگریزی میں نہ پڑھائیں یہ زبان پاکستانی بن کر پڑھائیں ۔ ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں میں سے صرف وہ بچے شاید بچ جائیں جن کے والدین ہوش مند ہیں اور وہ گھر میں بچوں کے لیے وقت نکالتے ہیں اور انھیں ملک و قوم کے قریب رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
یہ سب باتیں میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ سپریم کورٹ نے انھی انگلش میڈیم اسکولوں کی ہوشرباء فیسوں کے خلاف کیس کھول رکھا ہے اور اس کا فیصلہ ہوا چاہتا ہے ۔ میری سپریم کورٹ اور حکومت سے درخواست ہے کہ ان اسکولوں کی فیسوں کو ایک مقررہ دائرہ کار میں ضرور لائیں تا کہ تعلیم کے ساتھ جو کھلواڑ یہ انگلش میڈیم نجی اسکول کر رہے ہیں اور ڈھٹائی سے یہ کہتے ہیں کہ والدین کو تو بڑھتی ہوئی فیسوں پر کوئی اعتراض نہیں تو کوئی اور ان سے کیوں پوچھ رہا ہے۔
نجی اسکولوں کی فیسوں میں کمی بھی لائی جائے اور ان کو آیندہ کے لیے اس بات کا بھی پابند کیا جائے کہ وہ نئی نسل کو نئے زمانے سے ضرور روشناس کرائیں کہ جدید علوم کا حصول ایک عالمی ضرورت ہے مگر خدا کے لیے اپنے نصاب میںپاکستان کو بھی ذہن میں رکھیں۔ پاکستان سے بے گانہ یہ انگریز دان نسل ہمارے کس کام کی۔ ہمیں پاکستانیت کے خلاف اس علمی اور عالمی سازش سے بچنے کی ضرورت ہے ۔