مریضوں کا تحفظ
ایک قانون کے تحت سرکاری اور نجی اسپتالوں کی نگرانی کے لیے ایک ادارہ قائم کیا جائے۔
MANILA:
2001 میں دنیا کے سب سے بڑے اور معیاری اسپتال Johns Hopkings میں ایک 18ماہ کی بچی جوزی کنگ ڈائریا اور غلط انجکشن لگنے کی بناء پر انتقال کرگئی۔ جوزی کنگ کے والدین اسی طرح صدمے اور مایوسی کا شکار ہوئے جس طرح کراچی کے دار الصحت اسپتال میں ایک 8 ماہ کی بچی نشوا کی موت پر اس کے والدین ہوئے تھے۔
جوزی کنگ کے والدین نے احتجاج اور انتقام لینے کا ایک نیا راستہ تلاش کیا۔اس جوڑے نے کسی فرد کو سزا دلانے کے لیے جدوجہد کرنے کے بجائے اسپتالوں میں مریضوں کے حقوق کے تحفظ اور معیار کو بلند کرنے کی مہم شروع کی۔ Sorrel اور اس کے شوہر نے اپنی بیٹی کی موت کے بعد یہ نعرہ بلند کیا کہ اسپتال مریضوں کے لیے محفوظ مقام ہونے چاہئیں۔
سورل اور اس کے شوہر کے مشن نے رائے عامہ کو ہموارکیا اور اسپتالوں میں Josie King Patient Safety Programme کا آغاز ہوا۔ اس پروگرام کے تحت اسپتالوں میں مریضوں کی صحت کو بہتر بنانے کے مربوط پروگرام میں خامیوں کی نشاندہی ہونے لگی ، یوں نہ صرف جونس ہاپ کنگ اسپتال میں بلکہ امریکا بھر میں اسپتالوں کے مریضوں کے تحفظ کے نظام میں خرابیوں کی نشاندہی ہونے لگی اور اس کے ساتھ ہی ان خرابیوں کو دورکرنے کے لیے اقدامات شروع ہوئے۔اس پروگرام پر عملدرآمد کے دوران یہ حقیقت واضح ہوئی کہ مریضوں کے علاج میں بیشتر غلطیاں پیرا میڈیکل عملہ کرتا ہے۔
میڈیکل یونیورسٹیوں کے نصاب، طریقہ علاج، عملے کی تربیت وغیرہ وہ نکات ہیں جن سے مریضوں کے علاج کا معیار متاثر ہوتا ہے۔ امریکا میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے پروفیسر ڈاکٹر تیمور شاہ نے لکھا کہ دنیا بھر میں ہر سال پانچ لاکھ افراد اسپتالوں میں علاج کے دوران انتقال کرجاتے ہیں اور جوں جوں آبادی کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے بیماریوں اور مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ تیمور شاہ اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ کراچی کے دارالصحت اسپتال میں ایک بچی کی ہلاکت کے بعد متعلقہ عملے کو جیل بھجوانے کا راستہ کھل چکا ہے مگر ان اقدامات پر عملدرآمد کے بعد کوئی اور مریض اسپتال میں موت کا شکار نہیں ہوگا۔ اس سوال کا جواب نشوا کے والد، ضلع انتظامیہ ، پولیس اور عدلیہ کے پاس نہیں ہے۔
پاکستان میں صحت کا نظام پسماندگی کا شکار ہے۔ حکومت کل جی ڈی پی کا 04 فیصد رقم صحت کے شعبے پر خرچ کرتی ہے۔ ملک بھر میں سرکاری اسپتالوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ ان اسپتالوں میں مریض کی صحت کو بہتر بنانے کا نظام انتہائی ناقص ہے۔ بڑے اورچھوٹے شہروں میں قائم سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے لیے بیڈ، ادویات، ماہر ڈاکٹر، آپریشن تھیٹر، انتہائی اور خصوصی نگہداشت کے یونٹوں اور تربیت یافتہ پیرا میڈیکل عملے کی خاصی کمی ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی کمی کو نجی اسپتالوں نے پورا کیا ہے۔
نجی شعبہ میں قائم بڑے اور چھوٹے اسپتالوں میں سہولتیں کم اور اسپتال کے اخراجات زیادہ ہوتے ہیں۔ صحت کے شعبہ پر تحقیق کرنے والے ایک ماہرکا کہنا ہے کہ نجی شعبہ کے اسپتال محض منافع کے لیے قائم کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ ملک بھر میں رفاہی اداروں کے تحت چلانے والے اسپتالوں کی تعداد خاصی ہے مگر ان اسپتالوں میں مریضوں سے فیسوں کی وصولی کا نظام تقریباً ویسا ہی ہے جیسا مکمل طور پر نجی شعبہ میں قائم ہونے والے اسپتالوں کا ہے۔
ایک نوجوان ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ نجی اسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹر اور طبی عملہ انتظامی اور مالیاتی دباؤکا شکار رہتا ہے۔ ملک کے کئی اسپتالوں میں ہر مہینے کے آغاز پر ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل عملے کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہوتی۔کراچی بلدیہ کا سب سے بڑا اسپتال عباسی شہید اسپتال ہے۔ ڈاکٹروں کو یہاں ہر ماہ باقاعدہ تنخواہ نہیں ملتی۔ اسپتال میں تعینات ڈاکٹروں کو ہر مہینے دو مہینے کے بعد اپنے مطالبات منوانے کے لیے سڑکوں پر آنا پڑتا ہے مگر بہت سے اسپتالوں میں ہاؤس افسر اور کنسلٹنٹ کو 15,15 گھنٹے فرائض انجام دینے پڑتے ہیں جس سے ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ کراچی کے سب سے بڑے اسپتال میں تو پوسٹ گریجویٹ کا امتحان پاس کرنے والے ڈاکٹروں کو کم از کم 18گھنٹے روزانہ کام کرنا پڑتا ہے۔ ان ڈاکٹروں کے علاوہ پیرا میڈیکل عملے کو ہفتہ وار تعطیل کے علاوہ سالانہ تعطیلات وغیرہ کی سہولتیں بھی ناپید ہیں، اسی طرح ڈاکٹروں کے لیے ترقی کے مواقعے کم ہیں۔
ایک بڑے رفاہی اسپتال میں کام کرنے والی ڈاکٹر خان کا کہنا ہے کہ اگرچہ دارالصحت اسپتال میں بچی کی ہلاکت انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے اور اس واقعے کا بنیادی سبب لا پرواہی اور نااہلی ہے مگر اس لا پرواہی اور نااہلی کے پس منظر میں استحصال کا ایک نظام ہے جو مریضوں سے رقم لوٹنے کے علاوہ ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کے استحصال پر مبنی ہے۔
غیر سرکاری اسپتالوں میں انتظامیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ تربیت یافتہ عملے کی تعداد کم اور غیر تربیت یافتہ عملہ کی تعداد زیادہ ہو، تاکہ عملے کوکم سے کم تنخواہ دی جائے۔ یہ پیرا میڈیکل اسٹاف کے بیشتر اراکین مختلف اسپتالوں میں فرائض انجام دینے پر مجبور ہوتے ہیں تاکہ اپنے اہل خانہ کو خوشگوار زندگی دے سکیں۔ یوں مسلسل کام کرنے کی بناء پر ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ عمومی طور پر مریضوں کے لواحقین یہ شکایت کرتے ہیں کہ مریض کو تجویزکردہ انجکشن اور دوائیاں اس کو نہیں دی گئیں۔
کئی دفعہ ڈاکٹر اس بات پر حیرت کا اظہارکرتے ہیں کہ مسلسل اینٹی بائیوٹک دوائیوں کے استعمال کے متوقع نتائج ظاہر نہیں ہو رہے۔ تفتیش کے بعد پتہ چلتا ہے کہ عملے نے مریض کو دوائیاں دینے کے بجائے چوری کرلیں۔ اسپتالوں میں مریضوں کی اموات کی اور وجوہات کے علاوہ بعض اوقات یہ وجہ بھی ہوتی ہے کہ ڈاکٹروں کی مسلسل کوششوں کے باوجود کنسلٹنٹ رابطے میں نہیں ہوتے، یوں جونیئر ڈاکٹر خود قسمت آزمائی کرتے ہیں اور نقصان مریض کا ہوتا ہے ۔
سول اسپتال کراچی میں 30 سال تک فرائض انجام دینے والے ایک سینئر ڈاکٹر علی کا کہنا ہے کہ تمام اسپتالوں میں ڈاکٹروں کے صرف تربیت یافتہ عملے کے علاوہ غیر تربیت یافتہ عملہ بھی ملازمت پر رکھا جاتا ہے۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل پیرا میڈیکل عملے کا امتحان لینے کے بعد ان کو رجسٹرڈ کریں۔ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل عملے کے امتحانات کے معیارکو بلند کیا جائے۔ نقل اور سفارش کے کلچرکو طبی شعبہ سے نکال دیا جائے۔ ہر اسپتال میں دوائیوں کی تقسیم کے شعبہ میں صرف ڈی فارم کے ڈگری یافتہ افراد کو ہی ملازمت دی جائے اور ادویات کے ان ماہرین کی منظوری کے بغیر کوئی دوا مریض کو نہ دی جائے۔ پاکستان میں مریضوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ابھی تک کوئی قانون نہیں بنا ہے۔
یہ ضروری ہے کہ ایک قانون کے تحت سرکاری اور نجی اسپتالوں کی نگرانی کے لیے ایک ادارہ قائم کیا جائے۔ یہ ادارہ بین الاقوامی معیار کے مطابق اسپتالوں کے لیے قواعد و ضوابط تیار کرے اور جب تک کوئی اسپتال مطلوبہ قوائد و ضوابط پر پورا نہ اترے اس کو لائسنس جاری نہ کیا جائے۔ اس قانون کے تحت ماہر ڈاکٹروں کی فیس کا تعین کیا جائے اور امریکا اور یورپ کی طرح کنسلٹنٹ صرف ایک دفعہ مریض سے فیس لے اور بعد میں ہر وزٹ میں کوئی فیس نہ لی جائے۔ پھر مریض کے بیڈ، کمرے، آئی سی یو اور شعبہ خصوصی نگہداشت نرخوں کا تعین کیا جائے۔ ہر اسپتال میں ہر شعبہ میں ہر ہفتہ ڈاکٹروں کے اجلاس منعقد ہوں جس میں ہر ڈاکٹر اپنے مریض کی کیفیت، اس کے اسپتال میں رکھنے کی وجہ اور موت کی وجہ کے بارے میں بریفنگ دے۔ خاص طور پر مریض کی موت کے اسباب کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔ ڈاکٹر )LETTERبڑے حرفوں میں یا کمپیوٹر پر نسخہ( تحریر کریں۔
سندھ ہیلتھ کیئرکمیشن میں ڈاکٹر ٹیپو سلطان جیسے عوام دوست ڈاکٹر شامل ہیں مگر اپنے محدود دائرہ کی بناء پر یہ کمیشن زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوا۔ اس کمیشن کو مکمل طور پر بااختیار ہونا چاہیے۔ کسی اسپتال کو بند کرنے سے مریضوں کے حقوق کا تحفظ نہیں ہوگا اور مریض مرتے رہیں گے۔ جامع اصلاحات سے ہی مریضوں کا تحفظ ممکن ہے۔
2001 میں دنیا کے سب سے بڑے اور معیاری اسپتال Johns Hopkings میں ایک 18ماہ کی بچی جوزی کنگ ڈائریا اور غلط انجکشن لگنے کی بناء پر انتقال کرگئی۔ جوزی کنگ کے والدین اسی طرح صدمے اور مایوسی کا شکار ہوئے جس طرح کراچی کے دار الصحت اسپتال میں ایک 8 ماہ کی بچی نشوا کی موت پر اس کے والدین ہوئے تھے۔
جوزی کنگ کے والدین نے احتجاج اور انتقام لینے کا ایک نیا راستہ تلاش کیا۔اس جوڑے نے کسی فرد کو سزا دلانے کے لیے جدوجہد کرنے کے بجائے اسپتالوں میں مریضوں کے حقوق کے تحفظ اور معیار کو بلند کرنے کی مہم شروع کی۔ Sorrel اور اس کے شوہر نے اپنی بیٹی کی موت کے بعد یہ نعرہ بلند کیا کہ اسپتال مریضوں کے لیے محفوظ مقام ہونے چاہئیں۔
سورل اور اس کے شوہر کے مشن نے رائے عامہ کو ہموارکیا اور اسپتالوں میں Josie King Patient Safety Programme کا آغاز ہوا۔ اس پروگرام کے تحت اسپتالوں میں مریضوں کی صحت کو بہتر بنانے کے مربوط پروگرام میں خامیوں کی نشاندہی ہونے لگی ، یوں نہ صرف جونس ہاپ کنگ اسپتال میں بلکہ امریکا بھر میں اسپتالوں کے مریضوں کے تحفظ کے نظام میں خرابیوں کی نشاندہی ہونے لگی اور اس کے ساتھ ہی ان خرابیوں کو دورکرنے کے لیے اقدامات شروع ہوئے۔اس پروگرام پر عملدرآمد کے دوران یہ حقیقت واضح ہوئی کہ مریضوں کے علاج میں بیشتر غلطیاں پیرا میڈیکل عملہ کرتا ہے۔
میڈیکل یونیورسٹیوں کے نصاب، طریقہ علاج، عملے کی تربیت وغیرہ وہ نکات ہیں جن سے مریضوں کے علاج کا معیار متاثر ہوتا ہے۔ امریکا میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے پروفیسر ڈاکٹر تیمور شاہ نے لکھا کہ دنیا بھر میں ہر سال پانچ لاکھ افراد اسپتالوں میں علاج کے دوران انتقال کرجاتے ہیں اور جوں جوں آبادی کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے بیماریوں اور مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ تیمور شاہ اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ کراچی کے دارالصحت اسپتال میں ایک بچی کی ہلاکت کے بعد متعلقہ عملے کو جیل بھجوانے کا راستہ کھل چکا ہے مگر ان اقدامات پر عملدرآمد کے بعد کوئی اور مریض اسپتال میں موت کا شکار نہیں ہوگا۔ اس سوال کا جواب نشوا کے والد، ضلع انتظامیہ ، پولیس اور عدلیہ کے پاس نہیں ہے۔
پاکستان میں صحت کا نظام پسماندگی کا شکار ہے۔ حکومت کل جی ڈی پی کا 04 فیصد رقم صحت کے شعبے پر خرچ کرتی ہے۔ ملک بھر میں سرکاری اسپتالوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ ان اسپتالوں میں مریض کی صحت کو بہتر بنانے کا نظام انتہائی ناقص ہے۔ بڑے اورچھوٹے شہروں میں قائم سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے لیے بیڈ، ادویات، ماہر ڈاکٹر، آپریشن تھیٹر، انتہائی اور خصوصی نگہداشت کے یونٹوں اور تربیت یافتہ پیرا میڈیکل عملے کی خاصی کمی ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی کمی کو نجی اسپتالوں نے پورا کیا ہے۔
نجی شعبہ میں قائم بڑے اور چھوٹے اسپتالوں میں سہولتیں کم اور اسپتال کے اخراجات زیادہ ہوتے ہیں۔ صحت کے شعبہ پر تحقیق کرنے والے ایک ماہرکا کہنا ہے کہ نجی شعبہ کے اسپتال محض منافع کے لیے قائم کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ ملک بھر میں رفاہی اداروں کے تحت چلانے والے اسپتالوں کی تعداد خاصی ہے مگر ان اسپتالوں میں مریضوں سے فیسوں کی وصولی کا نظام تقریباً ویسا ہی ہے جیسا مکمل طور پر نجی شعبہ میں قائم ہونے والے اسپتالوں کا ہے۔
ایک نوجوان ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ نجی اسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹر اور طبی عملہ انتظامی اور مالیاتی دباؤکا شکار رہتا ہے۔ ملک کے کئی اسپتالوں میں ہر مہینے کے آغاز پر ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل عملے کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہوتی۔کراچی بلدیہ کا سب سے بڑا اسپتال عباسی شہید اسپتال ہے۔ ڈاکٹروں کو یہاں ہر ماہ باقاعدہ تنخواہ نہیں ملتی۔ اسپتال میں تعینات ڈاکٹروں کو ہر مہینے دو مہینے کے بعد اپنے مطالبات منوانے کے لیے سڑکوں پر آنا پڑتا ہے مگر بہت سے اسپتالوں میں ہاؤس افسر اور کنسلٹنٹ کو 15,15 گھنٹے فرائض انجام دینے پڑتے ہیں جس سے ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ کراچی کے سب سے بڑے اسپتال میں تو پوسٹ گریجویٹ کا امتحان پاس کرنے والے ڈاکٹروں کو کم از کم 18گھنٹے روزانہ کام کرنا پڑتا ہے۔ ان ڈاکٹروں کے علاوہ پیرا میڈیکل عملے کو ہفتہ وار تعطیل کے علاوہ سالانہ تعطیلات وغیرہ کی سہولتیں بھی ناپید ہیں، اسی طرح ڈاکٹروں کے لیے ترقی کے مواقعے کم ہیں۔
ایک بڑے رفاہی اسپتال میں کام کرنے والی ڈاکٹر خان کا کہنا ہے کہ اگرچہ دارالصحت اسپتال میں بچی کی ہلاکت انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے اور اس واقعے کا بنیادی سبب لا پرواہی اور نااہلی ہے مگر اس لا پرواہی اور نااہلی کے پس منظر میں استحصال کا ایک نظام ہے جو مریضوں سے رقم لوٹنے کے علاوہ ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کے استحصال پر مبنی ہے۔
غیر سرکاری اسپتالوں میں انتظامیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ تربیت یافتہ عملے کی تعداد کم اور غیر تربیت یافتہ عملہ کی تعداد زیادہ ہو، تاکہ عملے کوکم سے کم تنخواہ دی جائے۔ یہ پیرا میڈیکل اسٹاف کے بیشتر اراکین مختلف اسپتالوں میں فرائض انجام دینے پر مجبور ہوتے ہیں تاکہ اپنے اہل خانہ کو خوشگوار زندگی دے سکیں۔ یوں مسلسل کام کرنے کی بناء پر ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ عمومی طور پر مریضوں کے لواحقین یہ شکایت کرتے ہیں کہ مریض کو تجویزکردہ انجکشن اور دوائیاں اس کو نہیں دی گئیں۔
کئی دفعہ ڈاکٹر اس بات پر حیرت کا اظہارکرتے ہیں کہ مسلسل اینٹی بائیوٹک دوائیوں کے استعمال کے متوقع نتائج ظاہر نہیں ہو رہے۔ تفتیش کے بعد پتہ چلتا ہے کہ عملے نے مریض کو دوائیاں دینے کے بجائے چوری کرلیں۔ اسپتالوں میں مریضوں کی اموات کی اور وجوہات کے علاوہ بعض اوقات یہ وجہ بھی ہوتی ہے کہ ڈاکٹروں کی مسلسل کوششوں کے باوجود کنسلٹنٹ رابطے میں نہیں ہوتے، یوں جونیئر ڈاکٹر خود قسمت آزمائی کرتے ہیں اور نقصان مریض کا ہوتا ہے ۔
سول اسپتال کراچی میں 30 سال تک فرائض انجام دینے والے ایک سینئر ڈاکٹر علی کا کہنا ہے کہ تمام اسپتالوں میں ڈاکٹروں کے صرف تربیت یافتہ عملے کے علاوہ غیر تربیت یافتہ عملہ بھی ملازمت پر رکھا جاتا ہے۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل پیرا میڈیکل عملے کا امتحان لینے کے بعد ان کو رجسٹرڈ کریں۔ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل عملے کے امتحانات کے معیارکو بلند کیا جائے۔ نقل اور سفارش کے کلچرکو طبی شعبہ سے نکال دیا جائے۔ ہر اسپتال میں دوائیوں کی تقسیم کے شعبہ میں صرف ڈی فارم کے ڈگری یافتہ افراد کو ہی ملازمت دی جائے اور ادویات کے ان ماہرین کی منظوری کے بغیر کوئی دوا مریض کو نہ دی جائے۔ پاکستان میں مریضوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ابھی تک کوئی قانون نہیں بنا ہے۔
یہ ضروری ہے کہ ایک قانون کے تحت سرکاری اور نجی اسپتالوں کی نگرانی کے لیے ایک ادارہ قائم کیا جائے۔ یہ ادارہ بین الاقوامی معیار کے مطابق اسپتالوں کے لیے قواعد و ضوابط تیار کرے اور جب تک کوئی اسپتال مطلوبہ قوائد و ضوابط پر پورا نہ اترے اس کو لائسنس جاری نہ کیا جائے۔ اس قانون کے تحت ماہر ڈاکٹروں کی فیس کا تعین کیا جائے اور امریکا اور یورپ کی طرح کنسلٹنٹ صرف ایک دفعہ مریض سے فیس لے اور بعد میں ہر وزٹ میں کوئی فیس نہ لی جائے۔ پھر مریض کے بیڈ، کمرے، آئی سی یو اور شعبہ خصوصی نگہداشت نرخوں کا تعین کیا جائے۔ ہر اسپتال میں ہر شعبہ میں ہر ہفتہ ڈاکٹروں کے اجلاس منعقد ہوں جس میں ہر ڈاکٹر اپنے مریض کی کیفیت، اس کے اسپتال میں رکھنے کی وجہ اور موت کی وجہ کے بارے میں بریفنگ دے۔ خاص طور پر مریض کی موت کے اسباب کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔ ڈاکٹر )LETTERبڑے حرفوں میں یا کمپیوٹر پر نسخہ( تحریر کریں۔
سندھ ہیلتھ کیئرکمیشن میں ڈاکٹر ٹیپو سلطان جیسے عوام دوست ڈاکٹر شامل ہیں مگر اپنے محدود دائرہ کی بناء پر یہ کمیشن زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوا۔ اس کمیشن کو مکمل طور پر بااختیار ہونا چاہیے۔ کسی اسپتال کو بند کرنے سے مریضوں کے حقوق کا تحفظ نہیں ہوگا اور مریض مرتے رہیں گے۔ جامع اصلاحات سے ہی مریضوں کا تحفظ ممکن ہے۔