سندھ پولیس کو بخش دیں
الزام لگایا جاتا ہے کہ سابق صدر زرداری کے دور میں پولیس کا اپنے مجرمانہ مقاصد کے لیے استعمال فن کا درجہ حاصل کرگیا۔
1861 میں بنائے گئے پولیس قوانین اس دور کے سامراجی حکمرانوں کے مقاصد تو پورے کرتے تھے لیکن 21ویں صدی کے حالات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ آج تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، ٹیکنالوجی میں روز بہ روز آتی انقلابی تبدیلیوں اور دیگر بنیادی تغیرات نے معاشرے کو یکسر بدل دیا ہے لیکن ریاست کی بنیادی ذمے داری وہی ہے، تحفظ فراہم کرنا۔
ان فرسودہ قوانین کی وجہ سے سندھ کے شہروں اور دیہی علاقوں میں حالات اس حد تک خراب ہوچکے ہیں کہ عام آدمی کے جان و مال، جائیداد کو جرائم پیشہ گروہوں اور وہائٹ کالر کرائم سے خطرات لاحق ہوگئے۔ کراچی دنیا کا چھٹا خطرناک ترین شہر بن گیا۔
مشرف کی حکومت نے2002 میں نئے قوانین متعارف کروا کر پولیس میں اصلاحات کا آغاز کیا۔ 1861 کے قانون کے تحت پولیس سے متعلق اختیارات ڈپٹی کمشنر کے پاس تھے اور پولیسنگ، انصاف اور انتظامی امور اسی کے ہاتھ میں ہوتے تھے۔ 2002 کے نئے قوانین میں ''اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی'' کے اقدامات کے تحت پولیس کو انتظامی اور عدالتی اختیارات سے الگ کرکے اس میں تبادلوں اور تعیناتیوں کا اختیار حکمران سیاست دانوں کو دے دیا گیا۔
بدقسمتی سے پولیس آرڈر 2002 کارآمد ثابت نہیں ہوا۔ چاہے 1861کا ایکٹ ہو یا 2002کا پولیس آرڈر، دونوں ہی کے تحت پولیس پیپلز پارٹی(اور کچھ عرصے کے لیے ایم کیو ایم) کے لیے سیاسی آلہ کار بن کر رہی۔ برسراقتدار سیاسی جماعتوں نے کانسٹیبل سے ڈی ایس پی تک اپنے کارکنان، ان کے رشتے دار اور سیاسی رسوخ رکھنے والے بھرتی کیے۔ مختلف اضلاع میں جاگیرداروں نے اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے ضلع سطح پر من مانے افسران تعینات کروائے۔ یہی وجہ رہی کہ پولیس ریاستی زمین، جنگلات اور قدرتی وسائل پر قبضے جیسے جرائم میں شریک بن گئی۔
2017میں سندھ ہائیکورٹ نے آئی جی سندھ کی برطرفی کے خلاف سول سوسائٹی کی ایک درخواست پر فیصلے میں کہا تھا '' پولیس کو خود مختار اور اپنے کام میں آزاد ہوناچاہیے۔ پولیس میں اختیارات کی بالائی درجہ بندی میں آئی جی پی کو تعیناتیوں اور تبادلوں کا اختیار ہونا چاہیے(اور یقینی طور پر یہ اختیار اس تک محدود نہیں) اور اسے کسی بھی بیرونی مداخلت سے آزاد ہونا چاہیے۔'' اس فیصلے میں تیس روز کے اندر تعیناتی اور تبادلے سے متعلق آئی جی کے اختیارات اور منصب پر مدت سے متعلق قواعد وضع کرنے کی ہدایت بھی جاری کی گئی تھی۔
انیتا ترابی کیس میں سپریم کورٹ کے وضع کردہ اصول کے مطابق سرکاری افسران کی سب سے زیادہ وفاداری قانون و آئین کے ساتھ ہونی چاہیے، وہ اپنے اعلیٰ افسران کے ایسے احکامات ماننے کے پابند نہیں جو خلاف قانون ہوں یا قبول شدہ طرز عمل یا بنیادی اقدار کے منافی ہوں۔'' 2012کا یہ فیصلہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکھا تھا۔ سپریم کورٹ نے مارچ 2018میں حکومت سندھ کی درخواست خارج کردی تھی۔ تاہم سپریم کورٹ نے سندھ اسمبلی کو عدالتی فیصلے کے تناظر میں جدید دور کی ضروریات کے مطابق قوانین تشکیل دینے کے لیے کہا تھا۔
اس کے بعد آئی جی سندھ نے قواعد کا مسودہ تیار کرکے نوٹیفکیشن کے اجرا کے لیے سندھ حکومت کو ارسال کردیا۔ اب سیاست دانوں کے ذاتی مفادات خطرے میں تھے، اسی لیے انھوں نے وہی کیا جس کی سب سے زیادہ مہارت وہ رکھتے ہیں یعنی تاخیر۔ اس مسودے کو کمیٹی کے زیر غور لانے کے لیے 18ماہ تک ٹالا جاتا رہا۔ اس کمیٹی نے حال ہی میں سندھ اسمبلی کے لیے نیا بل تجویز کیا ہے جس میں موجودہ پولیس ایکٹ 1861کو ختم کرکے پولیس ایکٹ 2002 کو دوبارہ نافذ کرنے کی سفارش کی گئی ہے اور اس کا مقصد پولیس کو ''جواب دہی اور مناسب نگرانی کے تحت'' لانا بتایا گیا ہے جو دراصل اس محکمے پر سیاست دانوں کی بالادستی قائم کرنا ہی ہے۔ جانتے بوجھتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ ایک سال سے بھی زائد عرصے سے آئی جی کے جمع کرائے گئے مسودے کو کسی خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔ یہ توہین عدالت نہیں تو اور کیا ہے۔
2017کے فیصلے کے مطابق'' تاوقتیکہ مذکورہ بالا قواعد کی تشکیل اور توثیق نہیں ہوئی، پولیس میں ہر سطح کی تعیناتیوں اور تبادلوں کا اختیار، جس میں پی ایس پی افسران بھی شامل ہیں، صرف آئی جی کے پاس ہوگا، اور اس سلسلے میں آئی جی کا جاری کردہ کوئی بھی حکم ازخود نافذ العمل ہوگا۔'' عدالتی احکامات کے بعد سندھ پولیس جب سیاست سے پاک ہونا شروع ہوئی تو اس کے مثبت اثرات بھی ظاہر ہونے لگے۔ اٹھارہ ماہ کی مختصر مدت میں کراچی دنیا کے خطرناک ترین شہروں کی عالمی درجہ بندی میں چھٹے سے 70ویں نمبر پر آگیا، سندھ میں قتل کی وارداتوں کی شرح 2013 کے مقابلے میں 70فی صد کم ہوگئی۔
افسران جب سیاسی آقاؤں کے بجائے اپنے پیشہ ور کمانڈرز کے تابع فرمان ہوئے تو واضح طور پر محکمے کے نظم و ضبط اور داخلی جوابدہی کے نظام میں بہتری آنا شروع ہوئی۔ چینی قونصل خانے پر حملے کے سوا اس عرصے میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا، محرم کے جلوسوں سے لے کر پی ایس ایل تک تمام اہم مواقعے پر پولیس نے پیشہ ورانہ انداز میں ان کا پُرامن انعقاد ممکن بنایا۔ ہائی وے قدرے محفوظ ہوگئے اور ان پر اغوا کی وارداتوں پر قابو پالیا گیا۔ امن و امان کے اعتبار سے کراچی ایک کاروبار پرور شہر بن گیا۔ اس صورت میں محکمے کو دوبارہ سیاسی اختیار میں دینا ایک ہولناک غلطی ہوگی، صوبے کے عوام(اور اس کی معیشت) اس کی متحمل نہیں ہوسکتے۔
اگر پولیس آرڈر 2002کو بحال کیا ہی جارہا ہے تو اس کی وہ شقیں جو سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں سے متصادم ہیں ان میں ترمیم ہونی چاہیے اور اس کی بحالی اعلیٰ عدالتی فیصلوں کی روح کے مطابق ہو۔ سندھ ہائی کورٹ کی ہدایات کے مطابق حکومت سندھ تبادلے اور تقرری سے متعلق آئی جی کے جمع کروائے گئے مسودے کی فوری منظوری دے۔ ایک غیرجانب دار، پیشہ ورانہ مہارت کی حامل اور سیاسی اثر و رسوخ سے پاک پولیس کی بہتر کارکردگی کے لیے نظم و نسق اور واضح قیادت اور رہنمائی درکار ہے۔
سیاسی اشرافیہ نے پولیس کو اپنی ذاتی فوج بنا رکھا ہے۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ سابق صدر زرداری کے دور میں پولیس کا اپنے مجرمانہ مقاصد کے لیے استعمال فن کا درجہ حاصل کرگیا۔ سول سوسائٹی کی طویل جدوجہد اور طویل عرصے سے درکار عدالتی مداخلت کے بعد ہی پولیس میں وہ اصلاحات ممکن ہوئیں جن کے نتیجے میں موجودہ بہتر نتائج برآمد ہوئے۔ ایک بار پھر ایک مفادپرستی کی فتح ہوتی ہے اور شاطرانہ قانون سازی کے ذریعے اعلیٰ عدالتی فیصلوں کو غیر مؤثر بنا کر مخصوص طبقہ پولیس کو قابو کرنے میں کام یاب ہوتا ہے تو یہ صوبے میں قانون کی حکمرانی کی لگن سے کام کرنے والے شہریوں کے لیے بہت بڑی بدشگونی ہوگی۔ جب نظام انصاف مجرموں کے ہاتھوں بے بس بنا دیا جائے تو یہ خود ایک جرم کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
ان فرسودہ قوانین کی وجہ سے سندھ کے شہروں اور دیہی علاقوں میں حالات اس حد تک خراب ہوچکے ہیں کہ عام آدمی کے جان و مال، جائیداد کو جرائم پیشہ گروہوں اور وہائٹ کالر کرائم سے خطرات لاحق ہوگئے۔ کراچی دنیا کا چھٹا خطرناک ترین شہر بن گیا۔
مشرف کی حکومت نے2002 میں نئے قوانین متعارف کروا کر پولیس میں اصلاحات کا آغاز کیا۔ 1861 کے قانون کے تحت پولیس سے متعلق اختیارات ڈپٹی کمشنر کے پاس تھے اور پولیسنگ، انصاف اور انتظامی امور اسی کے ہاتھ میں ہوتے تھے۔ 2002 کے نئے قوانین میں ''اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی'' کے اقدامات کے تحت پولیس کو انتظامی اور عدالتی اختیارات سے الگ کرکے اس میں تبادلوں اور تعیناتیوں کا اختیار حکمران سیاست دانوں کو دے دیا گیا۔
بدقسمتی سے پولیس آرڈر 2002 کارآمد ثابت نہیں ہوا۔ چاہے 1861کا ایکٹ ہو یا 2002کا پولیس آرڈر، دونوں ہی کے تحت پولیس پیپلز پارٹی(اور کچھ عرصے کے لیے ایم کیو ایم) کے لیے سیاسی آلہ کار بن کر رہی۔ برسراقتدار سیاسی جماعتوں نے کانسٹیبل سے ڈی ایس پی تک اپنے کارکنان، ان کے رشتے دار اور سیاسی رسوخ رکھنے والے بھرتی کیے۔ مختلف اضلاع میں جاگیرداروں نے اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے ضلع سطح پر من مانے افسران تعینات کروائے۔ یہی وجہ رہی کہ پولیس ریاستی زمین، جنگلات اور قدرتی وسائل پر قبضے جیسے جرائم میں شریک بن گئی۔
2017میں سندھ ہائیکورٹ نے آئی جی سندھ کی برطرفی کے خلاف سول سوسائٹی کی ایک درخواست پر فیصلے میں کہا تھا '' پولیس کو خود مختار اور اپنے کام میں آزاد ہوناچاہیے۔ پولیس میں اختیارات کی بالائی درجہ بندی میں آئی جی پی کو تعیناتیوں اور تبادلوں کا اختیار ہونا چاہیے(اور یقینی طور پر یہ اختیار اس تک محدود نہیں) اور اسے کسی بھی بیرونی مداخلت سے آزاد ہونا چاہیے۔'' اس فیصلے میں تیس روز کے اندر تعیناتی اور تبادلے سے متعلق آئی جی کے اختیارات اور منصب پر مدت سے متعلق قواعد وضع کرنے کی ہدایت بھی جاری کی گئی تھی۔
انیتا ترابی کیس میں سپریم کورٹ کے وضع کردہ اصول کے مطابق سرکاری افسران کی سب سے زیادہ وفاداری قانون و آئین کے ساتھ ہونی چاہیے، وہ اپنے اعلیٰ افسران کے ایسے احکامات ماننے کے پابند نہیں جو خلاف قانون ہوں یا قبول شدہ طرز عمل یا بنیادی اقدار کے منافی ہوں۔'' 2012کا یہ فیصلہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکھا تھا۔ سپریم کورٹ نے مارچ 2018میں حکومت سندھ کی درخواست خارج کردی تھی۔ تاہم سپریم کورٹ نے سندھ اسمبلی کو عدالتی فیصلے کے تناظر میں جدید دور کی ضروریات کے مطابق قوانین تشکیل دینے کے لیے کہا تھا۔
اس کے بعد آئی جی سندھ نے قواعد کا مسودہ تیار کرکے نوٹیفکیشن کے اجرا کے لیے سندھ حکومت کو ارسال کردیا۔ اب سیاست دانوں کے ذاتی مفادات خطرے میں تھے، اسی لیے انھوں نے وہی کیا جس کی سب سے زیادہ مہارت وہ رکھتے ہیں یعنی تاخیر۔ اس مسودے کو کمیٹی کے زیر غور لانے کے لیے 18ماہ تک ٹالا جاتا رہا۔ اس کمیٹی نے حال ہی میں سندھ اسمبلی کے لیے نیا بل تجویز کیا ہے جس میں موجودہ پولیس ایکٹ 1861کو ختم کرکے پولیس ایکٹ 2002 کو دوبارہ نافذ کرنے کی سفارش کی گئی ہے اور اس کا مقصد پولیس کو ''جواب دہی اور مناسب نگرانی کے تحت'' لانا بتایا گیا ہے جو دراصل اس محکمے پر سیاست دانوں کی بالادستی قائم کرنا ہی ہے۔ جانتے بوجھتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ ایک سال سے بھی زائد عرصے سے آئی جی کے جمع کرائے گئے مسودے کو کسی خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔ یہ توہین عدالت نہیں تو اور کیا ہے۔
2017کے فیصلے کے مطابق'' تاوقتیکہ مذکورہ بالا قواعد کی تشکیل اور توثیق نہیں ہوئی، پولیس میں ہر سطح کی تعیناتیوں اور تبادلوں کا اختیار، جس میں پی ایس پی افسران بھی شامل ہیں، صرف آئی جی کے پاس ہوگا، اور اس سلسلے میں آئی جی کا جاری کردہ کوئی بھی حکم ازخود نافذ العمل ہوگا۔'' عدالتی احکامات کے بعد سندھ پولیس جب سیاست سے پاک ہونا شروع ہوئی تو اس کے مثبت اثرات بھی ظاہر ہونے لگے۔ اٹھارہ ماہ کی مختصر مدت میں کراچی دنیا کے خطرناک ترین شہروں کی عالمی درجہ بندی میں چھٹے سے 70ویں نمبر پر آگیا، سندھ میں قتل کی وارداتوں کی شرح 2013 کے مقابلے میں 70فی صد کم ہوگئی۔
افسران جب سیاسی آقاؤں کے بجائے اپنے پیشہ ور کمانڈرز کے تابع فرمان ہوئے تو واضح طور پر محکمے کے نظم و ضبط اور داخلی جوابدہی کے نظام میں بہتری آنا شروع ہوئی۔ چینی قونصل خانے پر حملے کے سوا اس عرصے میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا، محرم کے جلوسوں سے لے کر پی ایس ایل تک تمام اہم مواقعے پر پولیس نے پیشہ ورانہ انداز میں ان کا پُرامن انعقاد ممکن بنایا۔ ہائی وے قدرے محفوظ ہوگئے اور ان پر اغوا کی وارداتوں پر قابو پالیا گیا۔ امن و امان کے اعتبار سے کراچی ایک کاروبار پرور شہر بن گیا۔ اس صورت میں محکمے کو دوبارہ سیاسی اختیار میں دینا ایک ہولناک غلطی ہوگی، صوبے کے عوام(اور اس کی معیشت) اس کی متحمل نہیں ہوسکتے۔
اگر پولیس آرڈر 2002کو بحال کیا ہی جارہا ہے تو اس کی وہ شقیں جو سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں سے متصادم ہیں ان میں ترمیم ہونی چاہیے اور اس کی بحالی اعلیٰ عدالتی فیصلوں کی روح کے مطابق ہو۔ سندھ ہائی کورٹ کی ہدایات کے مطابق حکومت سندھ تبادلے اور تقرری سے متعلق آئی جی کے جمع کروائے گئے مسودے کی فوری منظوری دے۔ ایک غیرجانب دار، پیشہ ورانہ مہارت کی حامل اور سیاسی اثر و رسوخ سے پاک پولیس کی بہتر کارکردگی کے لیے نظم و نسق اور واضح قیادت اور رہنمائی درکار ہے۔
سیاسی اشرافیہ نے پولیس کو اپنی ذاتی فوج بنا رکھا ہے۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ سابق صدر زرداری کے دور میں پولیس کا اپنے مجرمانہ مقاصد کے لیے استعمال فن کا درجہ حاصل کرگیا۔ سول سوسائٹی کی طویل جدوجہد اور طویل عرصے سے درکار عدالتی مداخلت کے بعد ہی پولیس میں وہ اصلاحات ممکن ہوئیں جن کے نتیجے میں موجودہ بہتر نتائج برآمد ہوئے۔ ایک بار پھر ایک مفادپرستی کی فتح ہوتی ہے اور شاطرانہ قانون سازی کے ذریعے اعلیٰ عدالتی فیصلوں کو غیر مؤثر بنا کر مخصوص طبقہ پولیس کو قابو کرنے میں کام یاب ہوتا ہے تو یہ صوبے میں قانون کی حکمرانی کی لگن سے کام کرنے والے شہریوں کے لیے بہت بڑی بدشگونی ہوگی۔ جب نظام انصاف مجرموں کے ہاتھوں بے بس بنا دیا جائے تو یہ خود ایک جرم کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)