کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

آج آپ برسراقتدار ہو کر بھی اپنا انداز سیاست بطور حزب اختلاف ہی ادا کر رہے ہیں۔


نجمہ عالم May 11, 2019
[email protected]

گزشتہ ہفتے وزیراعظم کے ترجمان اور معاون خصوصی ندیم افضل چن نے فرمایا کہ پی ٹی آئی کو حکومت میں آئے آٹھ ماہ ہوئے ہیں تو اس سے 30 سال کا حساب نہ مانگا جائے کیونکہ سیاسی لحاظ سے ملکی حالات بے حد گھمبیر ہیں، ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنا سیاست نہیں، تمام پارٹیوں کے سیاسی کارکنان سے اپیل ہے کہ مہذب زبان استعمال کر یں۔

مطلب یہ کہ ایسی مہذب زبان اور رویہ جس کا کراچی میں پارٹی کے یوم تاسیس میں ان کی پارٹی کے کارکنان نے مظاہرہ کیا کچھ اسی قسم کا بیان پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما نذیر چوہان نے بھی دیا کہ آٹھ ماہ میں سب کچھ درست ہونا ممکن نہیں۔

حساب کوئی مانگے یا نہ مانگے بلکہ حساب مانگنے والے تو دم بخود ہیں ، یہ دعوت تو ان کے چیئرمین سب کے وزیر اعظم نے حصول وزارت عظمیٰ کے لیے خود کیا تھا کہ ہم برسراقتدارآ کر چند دنوں میں تمام مسائل حل کر دیں گے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے یہ پارٹی جب حزب مخالف تھی تو ایسا رویہ اختیار کیا تھا؟ کیا انھوں نے ماضی کی حکومت کو کوئی بھی کام بروقت کرنے کا مخلصانہ مشورہ دیا تھا اور پھر اس مشورے پر عمل کرنے کے لیے صبر سے کچھ انتظارکیا تھا۔

ریکارڈ پر تو یہ ہے کہ فوری طور پر اسمبلیوں پر چڑھ دوڑے تھے، ایوان کو مفلوج کر کے اپنی جانی بوجھی سازش کے تحت ملکی معیشت کا بھٹہ بٹھانے میں کردار ادا کیا۔ وہ جو خود حکمرانوں کی لوٹ مارکا ایک حصہ ہے، تاریخی واقعات اور آپ کا طرز مخالفت سب اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔

آج آپ برسراقتدار ہو کر بھی اپنا انداز سیاست بطور حزب اختلاف ہی ادا کر رہے ہیں۔ شاید آپ کو اچھی طرح احساس ہے کہ آپ ملک کے سربراہ نہیں بلکہ ملک کے مخالفین کے سربراہ ہیں، لہذا خود اپنے خلاف بطور حزب اختلاف کردار ادا کر رہے ہیں وہ جو عادت پڑ گئی ہے مخالفانہ نعرے لگانے کی '' گوگو'' کرنے کی وہ چھوڑنا شاید مشکل ہو رہی ہے، بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ '' چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی '' کیا کسی نے آپ کو اب تک یقین نہیں دلایا کہ آپ کا خواب شرمندہ تعبیر ہو چکا ہے اور الحمد للہ آپ کی پارٹی اس ملک خداداد کی حکمراں ہے۔

لہذا اب اس خواب خرگوش سے باہر آ جائیں قبل اس کے کہ کچھوا یہ دوڑ جیت جائے، آپ ملک کے حکمراں ہونے کے خلاف اپنا ردعمل دے رہے ہیں اور اگر یہ ردعمل حکمرانوں کے بجائے خود ملک کے خلاف ہے تو پھر کرتے رہیے، حزب مخالف کا کردار ادا ۔ یہ ملک تو قائم رہنے کے لیے بنا تھا اور ان شاء اللہ قائم رہے گا کیونکہ یہ کسی سر زمین پر قبضہ کر کے نہیں بلکہ اس کو تعمیر کرتے ہوئے لاکھوں شہداء کا خون بنیاد میں شامل کیا گیا ہے ۔ تہذیب کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا ہے اور یہی اس کے ہمیشہ ہمیشہ قائم رہنے کی ضمانت ہے ہم اور آپ کیا کوئی مائی کا لال اس کرہ ارض پر پیدا نہیں ہوا جو اس سرزمین پاک ،کو ختم کرنے کا دعویٰ کرے ،کیونکہ اس ملک کو معرض وجود میں لانے والوں کی تیسری بلکہ چوتھی نسل اس کے تحفظ پر آج بھی کمربستہ ہے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے۔

سقوط ڈھاکہ ، جنگیں ، دہشتگردی ، بیرونی مداخلت اور اندرونی عدم استحکام کی تمام تر کوششوں کو برداشت کرنے والا پاکستان قائم ہو چکا ہے۔ سب آنکھیں مل مل کر اچھی طرح دیکھیں بحرانوں میں پل کر جوان ہونے والا ملک تمام بحرانوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لیے یقین کیجیے کہ یہ ہر حال میں قائم و دائم رہے گا۔ ( انشاء اللہ) لہذا اب کوئی بھی اس کے خلاف بیرونی دشمنوں سے ساز بازکر کے کامیاب نہ ہو گا، حالانکہ حالات بتا رہے ہیں کہ پہلے ملک لوٹا جا رہا تھا مگر آپ بیچا جا رہا ہے مگر یہ کوشش کبھی بھی کامیاب نہ ہو گی۔

کالم کے آغاز میں ہم نے تھوڑا سا ذکر یوم تاسیس جو کراچی میں منایا گیا اس میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کے رویے کا ذکر کیا تھا، اس بات کو آگے لیتے ہوئے چلتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ازخود پارٹی سے لوگ نکل نکل کر پی ٹی آئی میں حصول اقتدار کے لیے جمع ہوگئے وہاں ہر پارٹی پر تنقید کے باوجود ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو باہیں پھیلا کر خوش آمدید کہا گیا یہ موقع کیونکہ ہرگز ضائع نہیں کرنا تھا'' آج نہیں تو پھرکبھی نہیں'' کے مصداق۔ سارے ٹھکرائے ہوئے سب نکالے ہوئے اپنی اپنی پارٹی سے غیر مخلص جب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں اقتدار تو مل گیا مگر تربیت و تنظیم سازی کا کوئی موقع ہی نہ ملا۔

یا یہ سمجھیے کہ ضروری نہیں سمجھا گیا، کیونکہ ہوتا یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت چاہے وہ چند سو افراد پر مشتمل کیوں نہ ہو نظر تو کرسی اقتدار پر ہی رکھتی ہے اور اپنے جلسوں کو تاریخی فقیدالمثال قرار دیتی ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ اپنی تنظیم اور کارکنوں کی تربیت کا بھی خیال رکھتی ہے ۔ پی ٹی آئی کے دروازے ہرکسی کے لیے کھلتے گئے مگر جو سیاسی ماحول بطور حزب مخالف کو ادا کرتی رہی وہی اس کا مستقل سیاسی رویہ بن گیا ہے اور اب صرف غیر ضروری ہلڑ بلاوجہ کی چلت پھرت اور ہر کوئی اپنے رونمائی میں مصروف ، اپنے اپنے سابقہ بیانیے کے ساتھ اہم عہدوں پر براجمان بلا کسی پارٹی والی پالیسی کے سرگرم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے پڑھے لکھے اپنے اپنے شعبے میں باصلاحیت ہونے کے باوجود ناکام ہو رہے ہیں ۔

اس سے صرف یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ خانصاحب کے پاس کوئی واضح نظریہ تھا نہ کوئی منصوبہ بندی صرف تاریخ پاکستان میں بطور وزیراعظم اپنا نام شامل کرانا تھا سو وہ ہو گیا ۔ چاہے ان کے حکومت کامیاب ہو یا ناکام رہے یا نہ رہے مگر وزارت عظمیٰ کی فہرست میں نام تو شامل ہو گیا اسی لیے شاید وہ خود کوکامیاب سمجھ رہے ہیں ۔ مخالفین جو برسوں اس ملک پر حکمران رہے اور اس کا بیڑا غرق بھی کرتے رہے ان کو للکار رہے ہیں اور دھمکیاں دے رہے ہیں کہ یہ کروں گا، وہ کروں گا ، اپنے مستقبل سے بے نیاز۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں