’’سولر بلوچستان پروگرام‘‘ شروع کیجیے
سولر بلوچستان پروگرام کے لیے بلوچستان کے مقامی افراد کو بھی تربیت دی جائے تاکہ صوبے میں بیروزگاری کم ہو۔
2013 سے لے کر اب تک پہلے ایک انگریزی اخبار میں اور پھر ایکسپریس میں مسلسل لکھتا آرہا ہوں کہ جہاں پاکستان سولر انرجی کے لیے ایک آئیڈیل ملک ہے کہ یہاں بہت سے علاقوں میں سال کے بڑے حصے دن میں 8 سے 10 گھنٹے تک دھوپ موجود رہتی ہے وہاں ہماری حکومتوں کا ملک میں سولر انرجی پھیلانے کا طریقہ کار ناقص ہے۔
2008 سے 2013تک زرداری حکومت کو تو خیر آپ چھوڑیے کیونکہ ملک کے لیے انتہائی تباہ کن اس دور میں سولر انرجی پہ تو کیا کام ہوتا الٹا انتہائی مہنگے داموں کرائے کے بجلی گھروں کے ڈرامے کے ذریعے اس ملک کو لوٹا گیا۔ تاہم پچھلی شریف حکومت میں بظاہر سولر انرجی پہ کچھ توجہ دی گئی مگر غالباً کمیشن وغیرہ کمانے کے لیے سارا زور سولر انرجی کے بڑے بڑے پلانٹ لگانے پر دیا گیا۔
یہ اپروچ مجموعی طور پر ناکام ثابت ہوئی۔ کئی بڑے پلانٹ لگ نہ سکے اور جو لگے وہ بیان کردہ مقدار سے کہیں کم سولر انرجی فراہم کرسکے ہیں اور ہماری حکومتوں کو سمجھنا ہوگا کہ سولر انرجی کے بڑے بڑے پلانٹ لگانے کا ماڈل پاکستان کے لیے موزوں نہیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً یہ کہ اگر ایک طرف سولر پلانٹس کو مین گرڈ سے منسلک کرنے کے لیے انفرااسٹرکچر بچھانا ایک معاشی اور انتظامی مسئلہ ہے تو دوسری طرف بجلی کی ترسیل اور تقسیم کا فرسودہ نظام ہے جو غیر معمولی لائن لاسز پیدا کرتا ہے۔ پاکستان کے لیے سولر انرجی پھیلانے کے لیے آئیڈیل آپشن روف ٹاپ سولر اور گھریلو سولر انرجی کا نظام ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار ہمارے اس آئیڈیے کو تقویت پہنچاتے ہیں۔
سال 2017ء میں پاکستان میں 950 میگاواٹ سولر انرجی پیداواری یونٹس درآمد کیے گئے جو اس سے پہلے کے چار سال کی اس ضمن میں مجموعی درآمد سے زیادہ ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے تو 2022 تک ملک میں مزید 5000 میگاواٹ کے روف ٹاپ سولر پینل لگ جانے چاہئیں۔ اس وقت روف ٹاپ سولر انرجی کا زیادہ تر حصہ کمرشل اور صنعتی اداروں کی چھتوں سے پیدا ہو رہا ہے، یہ ادارے خصوصاً نیٹ میٹرنگ کی سہولت کی وجہ سے سولر انرجی کو اپنے لیے بہت فائدہ مند پاتے ہیں۔ نیٹ میٹرنگ میں صارف اپنی ضرورت سے زائد پیدا کردہ سولر انرجی بجلی کی کمپنی کو بیچ سکتا ہے۔ موجودہ حکومت گرین انرجی کے تیار کنندگان اور اسمبلرز کو مختلف ٹیکسوں اور ڈیوٹیز پہ 5 سال تک کے ریلیف کا پیکیج دے رہی ہے۔
تاہم یہ سب کچھ کافی نہیں۔ ہمیں پاکستان میں وسیع پیمانے پرگھریلو سولر انرجی کو پھیلانا ہوگا تاکہ نمبر ایک تو یہ کہ لوگوں کو بجلی کا انتہائی سستی ، ماحول دوست اور قابل بھروسہ ذریعہ میسر آسکے۔ نمبر دو یہ کہ ملک میں بجلی کی کمپنیوں کی پیداکردہ بجلی کی مانگ میں بڑے پیمانے پہ کمی ہوسکے تاکہ فوسل فیول جیسے کہ فرنس آئل سے بننے والی مہنگی اور قدرتی ماحول کے لیے انتہائی نقصان دہ بجلی سے نجات مل سکے۔ نمبر تین یہ کہ انتہائی مہنگی تھرمل بجلی سے نجات اورگھریلو سیکٹر میں بڑے پیمانے پہ سولر انرجی پیدا ہونے سے سستی ہائیڈرو الیکٹرک پاور صنعتوں کے لیے دستیاب ہوسکے گی ، جس سے پیداواری لاگت میں کمی، پیداوار میں اضافہ اور اشیا بشمول برآمدی اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوسکے گی۔
اس وقت ملک میں اگر ایک طرف ابھی بھی گھریلو صارفین لوڈ شیڈنگ کا سامنا کر رہے ہیں حالانکہ ملک میں نصب شدہ بجلی کی پیداواری صلاحیت طلب سے زیادہ ہے مگر مہنگی بجلی اور فرسودہ تقسیم کا سسٹم لوگوں کو بجلی کے بجائے لوڈ شیڈنگ دے رہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان کے دیہات کی آدھی آبادی بجلی کی سہولت سے ہی یکسر محروم ہے اور یہ کوئی ہوائی اندازہ نہیں بلکہ IREA (انٹرنیشنل رینیوایبل انرجی ایجنسی) کی 2018 سروے کی رپورٹ ہے۔
ہمیں اس وقت ایک ملک گیرگھریلو سولر پاور انقلاب کی ضرورت ہے جس کا آغاز ہم بلوچستان سے کرسکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت جہاں اور کئی بڑے انقلابی منصوبوں پر کام کر رہی ہے وہیں اسے ملک میں گھریلو سولر پاور کے وسیع پھیلاؤ کے منصوبے پہ بھی کام کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان سے ہماری درخواست ہوگی کہ وہ ''سولر بلوچستان پروگرام'' کے آئیڈیے پہ غور کریں جو ملک میں گھریلو سولر پاور انقلاب کا آغاز بن سکتا ہے۔بلوچستان کی تقریباً 80 سے 85 فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے اور ان دیہات کی تقریباً 90 فیصد تعداد بجلی سے محروم ہے۔ یہ دیہات شہروں اور ایک دوسرے سے طویل فاصلوں پہ واقع ہیں جس کی وجہ سے انھیں آن گرڈ بجلی فراہم کرنا ایک انتہائی مشکل اور مہنگا کام ہے۔
سولر بلوچستان پروگرام کا ٹارگٹ 4 سال میں بلوچستان کے بجلی سے محروم دیہات کے کم از کم 50 فیصد گھروں میں فی گھر 300 تا 500 واٹ سولر پاور یونٹس نصب کرنا ہونا چاہیے۔ سولر پاور یونٹس کے ساتھ ان گھروں کو فی گھر 4 سے 5 ایل ای ڈی بلب بھی فراہم کرنے ہوں گے۔ وفاقی حکومت کو سولر بلوچستان پروگرام کے لیے وفاقی حکومت، بلوچستان صوبائی حکومت، نمایاں اور اعلیٰ معیار اور سرٹیفائیڈ انسٹالرز رکھنے والی مقامی سولر کمپنیوں، سچ مچ میں کام کرنے والی این جی اوز، فلاحی و رفاہی تنظیموں، دفاعی اداروں اور مخیر حضرات پہ مشتمل ایک کنسوریشم بنانا ہوگا جس کی سربراہی اچھی شہرت کے حامل ریٹائرڈ فوجی افسروں کو دی جائے۔
پچھلے دس سال میں بلوچستان کو این ایف سی ایوارڈ سے ملنے والے اور بلوچستان کے ترقیاتی بجٹ میں رکھے جانے والے کئی سو ارب روپے بلوچستان کے ایم پی ایز، ایم این ایز اور بیورو کریسی کی کرپشن کے نذر ہوچکے ہیں چنانچہ بہتر یہی ہے کہ مجوزہ سولر پاور بلوچستان پروگرام کے لیے وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں فنڈز فراہم کریں مگر ان کا استعمال سولر بلوچستان پروگرام اتھارٹی کے ذریعے ہو جس کے مالیاتی امور پر نظر رکھنے کے لیے اکاؤنٹس اور آڈٹ سے تعلق رکھنے والے پروفیشنل لوگوں کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ماہانہ سے لے کر سالانہ اخراجات تک پہ نظر رکھے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے فنڈز کے علاوہ سولر بلوچستان پروگرام کے لیے این جی اوز، فلاحی تنظیموں اور مخیر حضرات سے عطیات بھی جمع کیے جائیں۔ سولر بلوچستان پروگرام میں شامل سولر کمپنیوں کو پروگرام کے لیے کم قیمتوں پہ بہترین معیار کے سولر یونٹس فراہم کرنے اور نصب کرنے ہوں گے کیونکہ گھروں کی تعداد بہت بڑی ہوگی، لہٰذا یہ کمپنیاں فی گھرکم منافع رکھ کر بھی بڑی آمدنی حاصل کرسکتی ہیں۔ سولر پاور یونٹس کی ہر گھر میں تنصیب کے ضمن میں دو اہم باتوں کو یقینی بنانا ہوگا ایک تو یہ کہ ان سولر یونٹس کے سولر پینلز لمبے لائف سائیکل یعنی زیادہ مدت تک کے لیے کارآمد ہوں اور نمبر دو یہ کہ ان کی تنصیب سرٹیفائیڈ انسٹالرز کریں۔
سولر بلوچستان پروگرام کے لیے بلوچستان کے مقامی افراد کو بھی تربیت دی جائے تاکہ صوبے میں بیروزگاری کم ہو۔ سولر بلوچستان پروگرام کے خلاف ہندوستان اپنے برادر اتحادی ملکوں افغانستان اور ایران کے ذریعے دہشت گردی کی کارروائیاں کروا سکتا ہے لہٰذا ضروری ہوگا کہ ایک تو پروگرام کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سیکیورٹی حاصل ہو دوسرے ایک وقت میں صرف دو ضلعوں میں کام کیا جائے تاکہ بہتر سیکیورٹی ممکن ہوسکے۔ آگے چل کر حکومت انھی بنیادوں پہ سولر جنوبی پنجاب پروگرام بھی شروع کرسکتی ہے۔ اب ہم صرف امید ہی کرسکتے ہیں کہ یہ آئیڈیا جناب وزیر اعظم تک پہنچے اور وہ اس پر عمل کرکے ملک میں گراس روٹ سطح پر ایک ملک گیر سولر انقلاب کا آغاز کرسکیں جو دوسرے ملکوں کے لیے بھی ایک قابل تقلید مثال بن سکتا ہے۔
2008 سے 2013تک زرداری حکومت کو تو خیر آپ چھوڑیے کیونکہ ملک کے لیے انتہائی تباہ کن اس دور میں سولر انرجی پہ تو کیا کام ہوتا الٹا انتہائی مہنگے داموں کرائے کے بجلی گھروں کے ڈرامے کے ذریعے اس ملک کو لوٹا گیا۔ تاہم پچھلی شریف حکومت میں بظاہر سولر انرجی پہ کچھ توجہ دی گئی مگر غالباً کمیشن وغیرہ کمانے کے لیے سارا زور سولر انرجی کے بڑے بڑے پلانٹ لگانے پر دیا گیا۔
یہ اپروچ مجموعی طور پر ناکام ثابت ہوئی۔ کئی بڑے پلانٹ لگ نہ سکے اور جو لگے وہ بیان کردہ مقدار سے کہیں کم سولر انرجی فراہم کرسکے ہیں اور ہماری حکومتوں کو سمجھنا ہوگا کہ سولر انرجی کے بڑے بڑے پلانٹ لگانے کا ماڈل پاکستان کے لیے موزوں نہیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً یہ کہ اگر ایک طرف سولر پلانٹس کو مین گرڈ سے منسلک کرنے کے لیے انفرااسٹرکچر بچھانا ایک معاشی اور انتظامی مسئلہ ہے تو دوسری طرف بجلی کی ترسیل اور تقسیم کا فرسودہ نظام ہے جو غیر معمولی لائن لاسز پیدا کرتا ہے۔ پاکستان کے لیے سولر انرجی پھیلانے کے لیے آئیڈیل آپشن روف ٹاپ سولر اور گھریلو سولر انرجی کا نظام ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار ہمارے اس آئیڈیے کو تقویت پہنچاتے ہیں۔
سال 2017ء میں پاکستان میں 950 میگاواٹ سولر انرجی پیداواری یونٹس درآمد کیے گئے جو اس سے پہلے کے چار سال کی اس ضمن میں مجموعی درآمد سے زیادہ ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے تو 2022 تک ملک میں مزید 5000 میگاواٹ کے روف ٹاپ سولر پینل لگ جانے چاہئیں۔ اس وقت روف ٹاپ سولر انرجی کا زیادہ تر حصہ کمرشل اور صنعتی اداروں کی چھتوں سے پیدا ہو رہا ہے، یہ ادارے خصوصاً نیٹ میٹرنگ کی سہولت کی وجہ سے سولر انرجی کو اپنے لیے بہت فائدہ مند پاتے ہیں۔ نیٹ میٹرنگ میں صارف اپنی ضرورت سے زائد پیدا کردہ سولر انرجی بجلی کی کمپنی کو بیچ سکتا ہے۔ موجودہ حکومت گرین انرجی کے تیار کنندگان اور اسمبلرز کو مختلف ٹیکسوں اور ڈیوٹیز پہ 5 سال تک کے ریلیف کا پیکیج دے رہی ہے۔
تاہم یہ سب کچھ کافی نہیں۔ ہمیں پاکستان میں وسیع پیمانے پرگھریلو سولر انرجی کو پھیلانا ہوگا تاکہ نمبر ایک تو یہ کہ لوگوں کو بجلی کا انتہائی سستی ، ماحول دوست اور قابل بھروسہ ذریعہ میسر آسکے۔ نمبر دو یہ کہ ملک میں بجلی کی کمپنیوں کی پیداکردہ بجلی کی مانگ میں بڑے پیمانے پہ کمی ہوسکے تاکہ فوسل فیول جیسے کہ فرنس آئل سے بننے والی مہنگی اور قدرتی ماحول کے لیے انتہائی نقصان دہ بجلی سے نجات مل سکے۔ نمبر تین یہ کہ انتہائی مہنگی تھرمل بجلی سے نجات اورگھریلو سیکٹر میں بڑے پیمانے پہ سولر انرجی پیدا ہونے سے سستی ہائیڈرو الیکٹرک پاور صنعتوں کے لیے دستیاب ہوسکے گی ، جس سے پیداواری لاگت میں کمی، پیداوار میں اضافہ اور اشیا بشمول برآمدی اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوسکے گی۔
اس وقت ملک میں اگر ایک طرف ابھی بھی گھریلو صارفین لوڈ شیڈنگ کا سامنا کر رہے ہیں حالانکہ ملک میں نصب شدہ بجلی کی پیداواری صلاحیت طلب سے زیادہ ہے مگر مہنگی بجلی اور فرسودہ تقسیم کا سسٹم لوگوں کو بجلی کے بجائے لوڈ شیڈنگ دے رہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان کے دیہات کی آدھی آبادی بجلی کی سہولت سے ہی یکسر محروم ہے اور یہ کوئی ہوائی اندازہ نہیں بلکہ IREA (انٹرنیشنل رینیوایبل انرجی ایجنسی) کی 2018 سروے کی رپورٹ ہے۔
ہمیں اس وقت ایک ملک گیرگھریلو سولر پاور انقلاب کی ضرورت ہے جس کا آغاز ہم بلوچستان سے کرسکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت جہاں اور کئی بڑے انقلابی منصوبوں پر کام کر رہی ہے وہیں اسے ملک میں گھریلو سولر پاور کے وسیع پھیلاؤ کے منصوبے پہ بھی کام کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان سے ہماری درخواست ہوگی کہ وہ ''سولر بلوچستان پروگرام'' کے آئیڈیے پہ غور کریں جو ملک میں گھریلو سولر پاور انقلاب کا آغاز بن سکتا ہے۔بلوچستان کی تقریباً 80 سے 85 فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے اور ان دیہات کی تقریباً 90 فیصد تعداد بجلی سے محروم ہے۔ یہ دیہات شہروں اور ایک دوسرے سے طویل فاصلوں پہ واقع ہیں جس کی وجہ سے انھیں آن گرڈ بجلی فراہم کرنا ایک انتہائی مشکل اور مہنگا کام ہے۔
سولر بلوچستان پروگرام کا ٹارگٹ 4 سال میں بلوچستان کے بجلی سے محروم دیہات کے کم از کم 50 فیصد گھروں میں فی گھر 300 تا 500 واٹ سولر پاور یونٹس نصب کرنا ہونا چاہیے۔ سولر پاور یونٹس کے ساتھ ان گھروں کو فی گھر 4 سے 5 ایل ای ڈی بلب بھی فراہم کرنے ہوں گے۔ وفاقی حکومت کو سولر بلوچستان پروگرام کے لیے وفاقی حکومت، بلوچستان صوبائی حکومت، نمایاں اور اعلیٰ معیار اور سرٹیفائیڈ انسٹالرز رکھنے والی مقامی سولر کمپنیوں، سچ مچ میں کام کرنے والی این جی اوز، فلاحی و رفاہی تنظیموں، دفاعی اداروں اور مخیر حضرات پہ مشتمل ایک کنسوریشم بنانا ہوگا جس کی سربراہی اچھی شہرت کے حامل ریٹائرڈ فوجی افسروں کو دی جائے۔
پچھلے دس سال میں بلوچستان کو این ایف سی ایوارڈ سے ملنے والے اور بلوچستان کے ترقیاتی بجٹ میں رکھے جانے والے کئی سو ارب روپے بلوچستان کے ایم پی ایز، ایم این ایز اور بیورو کریسی کی کرپشن کے نذر ہوچکے ہیں چنانچہ بہتر یہی ہے کہ مجوزہ سولر پاور بلوچستان پروگرام کے لیے وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں فنڈز فراہم کریں مگر ان کا استعمال سولر بلوچستان پروگرام اتھارٹی کے ذریعے ہو جس کے مالیاتی امور پر نظر رکھنے کے لیے اکاؤنٹس اور آڈٹ سے تعلق رکھنے والے پروفیشنل لوگوں کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ماہانہ سے لے کر سالانہ اخراجات تک پہ نظر رکھے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے فنڈز کے علاوہ سولر بلوچستان پروگرام کے لیے این جی اوز، فلاحی تنظیموں اور مخیر حضرات سے عطیات بھی جمع کیے جائیں۔ سولر بلوچستان پروگرام میں شامل سولر کمپنیوں کو پروگرام کے لیے کم قیمتوں پہ بہترین معیار کے سولر یونٹس فراہم کرنے اور نصب کرنے ہوں گے کیونکہ گھروں کی تعداد بہت بڑی ہوگی، لہٰذا یہ کمپنیاں فی گھرکم منافع رکھ کر بھی بڑی آمدنی حاصل کرسکتی ہیں۔ سولر پاور یونٹس کی ہر گھر میں تنصیب کے ضمن میں دو اہم باتوں کو یقینی بنانا ہوگا ایک تو یہ کہ ان سولر یونٹس کے سولر پینلز لمبے لائف سائیکل یعنی زیادہ مدت تک کے لیے کارآمد ہوں اور نمبر دو یہ کہ ان کی تنصیب سرٹیفائیڈ انسٹالرز کریں۔
سولر بلوچستان پروگرام کے لیے بلوچستان کے مقامی افراد کو بھی تربیت دی جائے تاکہ صوبے میں بیروزگاری کم ہو۔ سولر بلوچستان پروگرام کے خلاف ہندوستان اپنے برادر اتحادی ملکوں افغانستان اور ایران کے ذریعے دہشت گردی کی کارروائیاں کروا سکتا ہے لہٰذا ضروری ہوگا کہ ایک تو پروگرام کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سیکیورٹی حاصل ہو دوسرے ایک وقت میں صرف دو ضلعوں میں کام کیا جائے تاکہ بہتر سیکیورٹی ممکن ہوسکے۔ آگے چل کر حکومت انھی بنیادوں پہ سولر جنوبی پنجاب پروگرام بھی شروع کرسکتی ہے۔ اب ہم صرف امید ہی کرسکتے ہیں کہ یہ آئیڈیا جناب وزیر اعظم تک پہنچے اور وہ اس پر عمل کرکے ملک میں گراس روٹ سطح پر ایک ملک گیر سولر انقلاب کا آغاز کرسکیں جو دوسرے ملکوں کے لیے بھی ایک قابل تقلید مثال بن سکتا ہے۔