کراچی جامع کلاتھ پر قدیم دکان قنوج آج بھی عطر کا مرکز
رئیس انصاری کی دکان پر1950سے دیسی خوشبویات کے علاوہ مشہورعود،مشک اور امبرجیسی خوشبوئیں فروخت کی جارہی ہیں
کراچی میں جامع کلاتھ مارکیٹ کے سامنے واقع عطر کی سب سے قدیم دکان قنوج عطر کے مالک انور رئیس انصاری کے مطابق ان کے والد رئیس احمد انصاری نے یہ دکان 1950میں قائم کی تھی جو کراچی میں عطر کی فروخت کا پہلا اور واحد مرکز تھا جہاں پھولوں سے کشید کردہ دیسی خوشبویات کے علاوہ مشہور زمانہ عود، مشک اور امبر جیسی خوشبوئیں بھی فروخت کی جاتی تھیں.
محمد رئیس انصاری کے مطابق سعودی فرماں رواں شاہ سعود بن عبدالعزیز نے پاکستان کے اپنے پہلے دورے کے موقع پر ان کے والد سے عود خریدا اس زمانے میں جامع کلاتھ پر کئی دکانیں قائم ہوچکی تھیں۔
شاہ سعود عود کے شوقین تھے اور سرکاری پروٹوکول میں اپنے قافلہ کے ہمراہ عود کی خریداری کے لیے پہنچے دیگر دکانوں کار خ کیا اس زمانے میں بھی عود ایک مہنگی ترین خوشبو تھی اور دکاندار بھی قنوج عطر ہائوس سے لے کر عود فروخت کیا کرتے تھے شاہ سعود کو بھی ان کی دکان سے لے کر عود پیش کیا گیا جس پر شاہ سعود یہ دیکھتے ہوئے کہ دکاندار کہاں سے عود لارہے ہیں خود قنوج قطر ہائوس پر تشریف لے آئے اور عود کا تمام اسٹاک خرید لیا۔
رئیس انصاری کے والد کا کہنا تھا شاہ سعو د کی دی گئی رقم اتنی زیادہ تھی کہ اسے لیتے ہوئے ان کے ہاتھ کانپنے لگے، پاکستان کی اہم شخصیات بھی ان کے مستقل گاہک ہیں ، انور رئیس انصاری کے ایک صاحبزادے بھی ان کے ساتھ دکان چلاتے ہیں اس طرح ان کی تیسری نسل اس کاروبار سے وابستہ ہوگئی۔
انور رئیس انصاری نے بتایا کہ ''قنوج''بھارت کے ایک شہر کا نام ہے جو دنیا میں عطر اور خوشبویات کے حوالے سے مشہور ہے اترپردیش کے اس شہر میں سیکڑوں نہیں ہزاروں سال سے قدرتی اجزا سے خوشبویات اور عطر کشید کیے جاتے ہیں۔
جامع کلاتھ پر پاکستان کی سب سے قدیم خوشبویات کی دکان چلانے والے انور رئیس انصاری کا کہنا ہے کہ ان کے دادا بھی خوشبویات اور عطر کے تاجر تھے والد نے کاروبار کو پاکستان میں پھیلایا والد قیام پاکستان سے قبل بھی کراچی آکر عطریات فروخت کرتے تھے، پہلی دکان مولوی مسافر خانہ سے متصل قائم کی جو کے ایم سی نے کیبن کی شکل میں الاٹ کی پہلے پہل زمین پر بیٹھ کر عطر اور خوشبویات فروخت کی جاتی تھیں۔
بوتل گلی عطر اور خوشبویات کے کیمیکلاور بوتلوں کا مشہور مرکز بن گئی
شہر میں عطر اور خوشبویات کے کیمکلز اور خوبصورت بوتلوں کی فروخت کے مرکز کی حیثیت سے لائٹ ہائوس پر واقع بوتل گلی کو ملک گیر شہر ت حاصل ہے،اس گلی میں خوبصورت اور دیدہ ذیب شیشے کی بوتلیں فروخت کی جاتی ہیں، مقامی سطح پر استعمال شدہ بوتلوں کے ساتھ درآمد شدہ بوتلیں بھی ملتی ہیں، اس گلی میں بیرون ملک سے لائی گئی استعمال شدہ بوتلیں بھی فروخت کی جاتی ہیں جو بہت سے شوقین افراد اپنے گھروں میں سجاوٹ کے لیے خرید کر لے جاتے ہیں۔
باذوق افراد اس گلی سے خوبصورت بوتل خرید کر اس میں خوشبو اور عطر بھرواکر اپنے دوستوں اور احباب کو بطور تحفہ پیش کرتے ہیں، اس گلی میں خوشبویات اور کھانے پینے میں شامل کیے جانے والے مصنوعی ذائقے بھی فروخت ہوتے ہیں جن سے کنفیکشینری آئٹمز تیار کیے جاتے ہیں روایتی بریانی قورمہ اور دیگر کھانوں کے لیے بھی ذائقوں کی خوشبوئیں فروخت کی جاتی ہیں جو کھانوں کی خوشبو بڑھانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
گرمی میں ہلکی اورسردی میں تیزخوشبواستعمال کی جاتی ہے
انور رئیس انصاری نے بتایا کہ کراچی میں گرمی کے موسم میں ہلکی اور سردی میں تیز خوشبواستعمال کی جاتی ہیں۔ بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے اپنے ہمراہ یہ روایت پاکستان لے کر آئے لیکن اب ہر طبقہ خوشبویات استعمال کررہا ہے بالخصوص کراچی میں آباد اور کاروبار کرنے والے پشتون خوشبویات اور عطر کا بہترین ذوق رکھتے ہیں ، وقت کے ساتھ پھولوں اور مصالحہ جات سے کشید کردہ دیسی عطریات مہنگے ہوتے چلے گئے جن کی جگہ الکحل سے پاک فرانس سے درآمد شدہ انگریزی عطریات نے لے لی۔
ہر مشہور انگریزی خوشبو الکحل سے پاک عطریات کی شکل میں دستیاب ہے، کم سے کم 100سے 200 روپے سے لے کر 500 روپے تک کی خوشبویات زیادہ فروخت ہوتی ہیں، عطر اور خوشبویات کے استعمال کا رجحان 100فیصد تک بڑھ چکا ہے۔
عود خوشبو ایک خاص لکڑی سے تیار کی جاتی ہے
عطر اور خوشبویات کا کاروبار ملک بھر میں پھیل چکا ہے کراچی اور لاہور سے تعلق رکھنے والے درجنوں امپورٹرز پرفیومز کے کیمیکل اور تیل کے ''بیس '' کے ساتھ ملا کر نان الکحلک پرفیومز تیار کر رہے ہیں، دیسی عطر کی مانگ اب بہت کم رہ گئی ہے کیونکہ اس کی پہچان پہلے والے لوگوں کو خوب ہوا کرتی تھی تاہم اب نہیں ہے۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ گلاب، موتیا، چمبیلی اور صندل کے عطر سستے ہوتے ہیں، تاہم ایسا بالکل بھی نہیں ہے، 10ہزار کلو گرام پھولوں سے 10تولہ عطر بنتا ہے، یعنی گلاب اور موتیا کا عطر اصل حالت میں 40 ہزار روپے تولہ ہے۔ اسی طرح سے اصل عربین دیسی عطر جس میں عود وغیرہ شامل ہے وہ 1 لاکھ 80 ہزار روپے تولہ ہے۔ تاہم متوسط طبقے کے لیے ان کی خریداری ممکن نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ طبقہ کیمیکل ملے ہوئے عود، مشک، عنبر، صندل کے عطر استعمال کرنے کو ترجیح دیتا ہے، جن میں خوشبو وہی ہوتی ہے تاہم یہ خالص نہیں ہوتے۔ یہ بھی اس وقت 2 ہزار سے 5 ہزار روپے تولہ ہیں۔
کچھ دکاندار تیسرے اور چوتھے نمبر کی کوالٹی 500 روپے تولہ میں بھی دے دیتے ہیں، عود نامی خوشبو ایک خاص لکڑی سے تیار کی جاتی ہے عرب ممالک میں عود کی لکڑی جلاکر بھی خوشبو کی دھونی دی جاتی ہے اسی طرح مشک ایک خاص قسم کے ہرن کی ناف میںجمع ہونے والے مواد سے حاصل ہوتی ہے عنبر خوشبو وہیل مچھلی کا لعاب ہے جو وہ قے کی شکل میں ساحل پر اگلتی ہے۔
مہنگائی اور روپے کی بے قدری سے عطر اور خوشبوئیں 30 فیصد تک مہنگی ہو گئیں
مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے عطریات کی قیمت میں بھی 10سے 30فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے، عطر اور خوشبویات ایک اضافی خرچہ ہے، کم آمدن والے طبقہ کے لیے خوشبو ایک لگژری سمجھی جاتی ہے اس لیے کم آمدن والے طبقہ میں خوشبو کا استعمال تقاریب اور تہواروں پر کیا جاتا ہے، رمضان میں خوشبو اور عطر بطور تحفہ بھی ایک دوسرے کو دینے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
عود، مشک، خس، زعفران اور عنبر سب سے مقبول عطر ہیں
عود اور مشک عطریات کی بڑی فیکٹریاں متحدہ عرب امارات میں ہیں جہاں سے پورے عالم اسلام میں ان کی سپلائی کی جا رہی ہے، کراچی کے قدیم عطر فروشوں کے مطابق اس وقت بھی عود، مشک، خس، زعفران اور عنبر سب سے مقبول عطر ہیں، ان کے مختلف برانڈ پاکستانی اور عرب کمپنیاں تیار کر کے مارکیٹ میں فروخت کر رہی ہیں، دین دار طبقہ انگریزی خوشبو بھی استعمال کررہا ہے جو الکحل سے پاک ہوتا ہے کراچی میں پرفیوم کی جگہ عطر کے استعمال کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے رمضان کے دوران عطر کی فروخت میں نمایاں اضافہ ہوجاتا ہے۔
محمد رئیس انصاری کے مطابق سعودی فرماں رواں شاہ سعود بن عبدالعزیز نے پاکستان کے اپنے پہلے دورے کے موقع پر ان کے والد سے عود خریدا اس زمانے میں جامع کلاتھ پر کئی دکانیں قائم ہوچکی تھیں۔
شاہ سعود عود کے شوقین تھے اور سرکاری پروٹوکول میں اپنے قافلہ کے ہمراہ عود کی خریداری کے لیے پہنچے دیگر دکانوں کار خ کیا اس زمانے میں بھی عود ایک مہنگی ترین خوشبو تھی اور دکاندار بھی قنوج عطر ہائوس سے لے کر عود فروخت کیا کرتے تھے شاہ سعود کو بھی ان کی دکان سے لے کر عود پیش کیا گیا جس پر شاہ سعود یہ دیکھتے ہوئے کہ دکاندار کہاں سے عود لارہے ہیں خود قنوج قطر ہائوس پر تشریف لے آئے اور عود کا تمام اسٹاک خرید لیا۔
رئیس انصاری کے والد کا کہنا تھا شاہ سعو د کی دی گئی رقم اتنی زیادہ تھی کہ اسے لیتے ہوئے ان کے ہاتھ کانپنے لگے، پاکستان کی اہم شخصیات بھی ان کے مستقل گاہک ہیں ، انور رئیس انصاری کے ایک صاحبزادے بھی ان کے ساتھ دکان چلاتے ہیں اس طرح ان کی تیسری نسل اس کاروبار سے وابستہ ہوگئی۔
انور رئیس انصاری نے بتایا کہ ''قنوج''بھارت کے ایک شہر کا نام ہے جو دنیا میں عطر اور خوشبویات کے حوالے سے مشہور ہے اترپردیش کے اس شہر میں سیکڑوں نہیں ہزاروں سال سے قدرتی اجزا سے خوشبویات اور عطر کشید کیے جاتے ہیں۔
جامع کلاتھ پر پاکستان کی سب سے قدیم خوشبویات کی دکان چلانے والے انور رئیس انصاری کا کہنا ہے کہ ان کے دادا بھی خوشبویات اور عطر کے تاجر تھے والد نے کاروبار کو پاکستان میں پھیلایا والد قیام پاکستان سے قبل بھی کراچی آکر عطریات فروخت کرتے تھے، پہلی دکان مولوی مسافر خانہ سے متصل قائم کی جو کے ایم سی نے کیبن کی شکل میں الاٹ کی پہلے پہل زمین پر بیٹھ کر عطر اور خوشبویات فروخت کی جاتی تھیں۔
بوتل گلی عطر اور خوشبویات کے کیمیکلاور بوتلوں کا مشہور مرکز بن گئی
شہر میں عطر اور خوشبویات کے کیمکلز اور خوبصورت بوتلوں کی فروخت کے مرکز کی حیثیت سے لائٹ ہائوس پر واقع بوتل گلی کو ملک گیر شہر ت حاصل ہے،اس گلی میں خوبصورت اور دیدہ ذیب شیشے کی بوتلیں فروخت کی جاتی ہیں، مقامی سطح پر استعمال شدہ بوتلوں کے ساتھ درآمد شدہ بوتلیں بھی ملتی ہیں، اس گلی میں بیرون ملک سے لائی گئی استعمال شدہ بوتلیں بھی فروخت کی جاتی ہیں جو بہت سے شوقین افراد اپنے گھروں میں سجاوٹ کے لیے خرید کر لے جاتے ہیں۔
باذوق افراد اس گلی سے خوبصورت بوتل خرید کر اس میں خوشبو اور عطر بھرواکر اپنے دوستوں اور احباب کو بطور تحفہ پیش کرتے ہیں، اس گلی میں خوشبویات اور کھانے پینے میں شامل کیے جانے والے مصنوعی ذائقے بھی فروخت ہوتے ہیں جن سے کنفیکشینری آئٹمز تیار کیے جاتے ہیں روایتی بریانی قورمہ اور دیگر کھانوں کے لیے بھی ذائقوں کی خوشبوئیں فروخت کی جاتی ہیں جو کھانوں کی خوشبو بڑھانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
گرمی میں ہلکی اورسردی میں تیزخوشبواستعمال کی جاتی ہے
انور رئیس انصاری نے بتایا کہ کراچی میں گرمی کے موسم میں ہلکی اور سردی میں تیز خوشبواستعمال کی جاتی ہیں۔ بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے اپنے ہمراہ یہ روایت پاکستان لے کر آئے لیکن اب ہر طبقہ خوشبویات استعمال کررہا ہے بالخصوص کراچی میں آباد اور کاروبار کرنے والے پشتون خوشبویات اور عطر کا بہترین ذوق رکھتے ہیں ، وقت کے ساتھ پھولوں اور مصالحہ جات سے کشید کردہ دیسی عطریات مہنگے ہوتے چلے گئے جن کی جگہ الکحل سے پاک فرانس سے درآمد شدہ انگریزی عطریات نے لے لی۔
ہر مشہور انگریزی خوشبو الکحل سے پاک عطریات کی شکل میں دستیاب ہے، کم سے کم 100سے 200 روپے سے لے کر 500 روپے تک کی خوشبویات زیادہ فروخت ہوتی ہیں، عطر اور خوشبویات کے استعمال کا رجحان 100فیصد تک بڑھ چکا ہے۔
عود خوشبو ایک خاص لکڑی سے تیار کی جاتی ہے
عطر اور خوشبویات کا کاروبار ملک بھر میں پھیل چکا ہے کراچی اور لاہور سے تعلق رکھنے والے درجنوں امپورٹرز پرفیومز کے کیمیکل اور تیل کے ''بیس '' کے ساتھ ملا کر نان الکحلک پرفیومز تیار کر رہے ہیں، دیسی عطر کی مانگ اب بہت کم رہ گئی ہے کیونکہ اس کی پہچان پہلے والے لوگوں کو خوب ہوا کرتی تھی تاہم اب نہیں ہے۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ گلاب، موتیا، چمبیلی اور صندل کے عطر سستے ہوتے ہیں، تاہم ایسا بالکل بھی نہیں ہے، 10ہزار کلو گرام پھولوں سے 10تولہ عطر بنتا ہے، یعنی گلاب اور موتیا کا عطر اصل حالت میں 40 ہزار روپے تولہ ہے۔ اسی طرح سے اصل عربین دیسی عطر جس میں عود وغیرہ شامل ہے وہ 1 لاکھ 80 ہزار روپے تولہ ہے۔ تاہم متوسط طبقے کے لیے ان کی خریداری ممکن نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ طبقہ کیمیکل ملے ہوئے عود، مشک، عنبر، صندل کے عطر استعمال کرنے کو ترجیح دیتا ہے، جن میں خوشبو وہی ہوتی ہے تاہم یہ خالص نہیں ہوتے۔ یہ بھی اس وقت 2 ہزار سے 5 ہزار روپے تولہ ہیں۔
کچھ دکاندار تیسرے اور چوتھے نمبر کی کوالٹی 500 روپے تولہ میں بھی دے دیتے ہیں، عود نامی خوشبو ایک خاص لکڑی سے تیار کی جاتی ہے عرب ممالک میں عود کی لکڑی جلاکر بھی خوشبو کی دھونی دی جاتی ہے اسی طرح مشک ایک خاص قسم کے ہرن کی ناف میںجمع ہونے والے مواد سے حاصل ہوتی ہے عنبر خوشبو وہیل مچھلی کا لعاب ہے جو وہ قے کی شکل میں ساحل پر اگلتی ہے۔
مہنگائی اور روپے کی بے قدری سے عطر اور خوشبوئیں 30 فیصد تک مہنگی ہو گئیں
مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے عطریات کی قیمت میں بھی 10سے 30فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے، عطر اور خوشبویات ایک اضافی خرچہ ہے، کم آمدن والے طبقہ کے لیے خوشبو ایک لگژری سمجھی جاتی ہے اس لیے کم آمدن والے طبقہ میں خوشبو کا استعمال تقاریب اور تہواروں پر کیا جاتا ہے، رمضان میں خوشبو اور عطر بطور تحفہ بھی ایک دوسرے کو دینے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
عود، مشک، خس، زعفران اور عنبر سب سے مقبول عطر ہیں
عود اور مشک عطریات کی بڑی فیکٹریاں متحدہ عرب امارات میں ہیں جہاں سے پورے عالم اسلام میں ان کی سپلائی کی جا رہی ہے، کراچی کے قدیم عطر فروشوں کے مطابق اس وقت بھی عود، مشک، خس، زعفران اور عنبر سب سے مقبول عطر ہیں، ان کے مختلف برانڈ پاکستانی اور عرب کمپنیاں تیار کر کے مارکیٹ میں فروخت کر رہی ہیں، دین دار طبقہ انگریزی خوشبو بھی استعمال کررہا ہے جو الکحل سے پاک ہوتا ہے کراچی میں پرفیوم کی جگہ عطر کے استعمال کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے رمضان کے دوران عطر کی فروخت میں نمایاں اضافہ ہوجاتا ہے۔