انجکشن سے ہلاک خاتون سے زیادتی کے شواہد نہیں ملے
عصمت کی لاش کے3 لیبارٹریوں سے کیمیائی تجزیے میں وجہ موت کا تعین نہیں ہو سکا
سندھ گورنمنٹ اسپتال کورنگی میں انجکشن لگوانے کے بعد ہلاک ہونے والی 26 سالہ عصمت کی وجہ موت کاتعین نہیں ہوسکا.
انجکشن سے ہلاک ہونے والی عصمت 18اپریل کو سندھ گورنمنٹ کورنگی اسپتال میں دانت کے درد میں اسپتال علاج کی غرض سے گئی تھی تاہم ڈاکٹر نے عصمت کے دانت کا درد ختم کرنے کیلیے ایک انجکشن لکھا، انجکشن لگوانے کے بعد عصمت اسپتال میں ہلاک ہوگئی تھی۔
بعد ازاں محکمہ صحت نے عصمت کی وجہ موت کی تصدیق کے لیے18اپریل کو جناح اسپتال میں پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا جس میں ایک لیڈی ایم ایل او ڈاکٹر ذکیہ خورشید نے عصمت کے جسم کے نازک حصوں کا معائنہ اورنمونے بھی حاصل کیے جبکہ عصمت کے خون کے ٹیسٹ اور جسم کے بعض اجزا کے نمونے لے کر کیمیائی تجزیے کے لیے سندھ کیمیکل ایگزامنر لیبارٹری، ڈاؤ لیب میں ہسٹوپیتھالوجی کے لیے اور ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری میں بھیجے جانے والے نمونوں کے کیمیائی تجزیے میں عصمت کے ساتھ زیادتی کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
لیڈی ایم ایل او ڈاکٹر ذکیہ خورشید کی جانب سے تینوں لیبارٹریز کی روشنی میں مرتب کی جانے والے رپورٹس کی روشنی میں عصمت کے ساتھ زیادتی کے کوئی ثبوت نہیں ملے تاہم کورنگی اسپتال کے2ڈاکٹروں اور عصمت کی ڈی این اے کی رپورٹ موصول نہیں ہوئی۔
کہاجارہا ہے کہ تینوں کے ڈی این اے پازیٹو آنے کی صورت میں زیادتی کی تصدیق ہوسکے گی اور ڈی این اے میچ نہ ہونے کی صورت میں حتمی طور پر کہا جاسکے گا کہ عصمت کے ساتھ نہیں ہوئی، ڈی این اے کی رپورٹ کراچی یونیورسٹی کی ڈی این اے لیب میں بھیجی ہوئی ہے جس کی رپورٹ تاحال حکام کو موصول نہیں ہوئی، ماہرین بتاتے ہیں کہ ڈی این اے کی رپورٹ کی روشنی میں حتمی طورپر ثابت ہوسکے گا کہ زیادتی ہوئی ہے یا نہیں۔
واضح رہے کہ عصمت کا پوسٹ مارٹم 18اپریل کو کیاگیا تھا دوران پوسٹ مارٹم خون کے نمونے اور جسم کے حساس حصوں کے نمونے3 لیبارٹریز بھیجے گئے تھے تییوں لیبارٹریز کی رپورٹس میں زیادتی کی تصدیق نہیں کی جاسکی جبکہ وجہ موت کا بھی حتمی تعین نہیں کیاجاسکا۔
لیڈی ایم ایل او کی رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ عصمت کے خون کے نمونے میں اسپتال میں لگائے جانے والا انجکشن کے شواہد ملے ہیں جبکہ عصمت کو انجکشن اسپتال سے جاری نہیں کیاگیا تھا انجکشن باہر سے منگوایا گیا تھا۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ انجکشن لگانے والا کون تھا اور مستند ڈسپنسر تھا بھی یا نہیں تاہم لیڈی ایم ایل او کی رپورٹ میں وجہ موت کا واضح طورپر تعین نہیں کیا جا سکا۔
انجکشن سے ہلاک ہونے والی عصمت 18اپریل کو سندھ گورنمنٹ کورنگی اسپتال میں دانت کے درد میں اسپتال علاج کی غرض سے گئی تھی تاہم ڈاکٹر نے عصمت کے دانت کا درد ختم کرنے کیلیے ایک انجکشن لکھا، انجکشن لگوانے کے بعد عصمت اسپتال میں ہلاک ہوگئی تھی۔
بعد ازاں محکمہ صحت نے عصمت کی وجہ موت کی تصدیق کے لیے18اپریل کو جناح اسپتال میں پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا جس میں ایک لیڈی ایم ایل او ڈاکٹر ذکیہ خورشید نے عصمت کے جسم کے نازک حصوں کا معائنہ اورنمونے بھی حاصل کیے جبکہ عصمت کے خون کے ٹیسٹ اور جسم کے بعض اجزا کے نمونے لے کر کیمیائی تجزیے کے لیے سندھ کیمیکل ایگزامنر لیبارٹری، ڈاؤ لیب میں ہسٹوپیتھالوجی کے لیے اور ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری میں بھیجے جانے والے نمونوں کے کیمیائی تجزیے میں عصمت کے ساتھ زیادتی کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
لیڈی ایم ایل او ڈاکٹر ذکیہ خورشید کی جانب سے تینوں لیبارٹریز کی روشنی میں مرتب کی جانے والے رپورٹس کی روشنی میں عصمت کے ساتھ زیادتی کے کوئی ثبوت نہیں ملے تاہم کورنگی اسپتال کے2ڈاکٹروں اور عصمت کی ڈی این اے کی رپورٹ موصول نہیں ہوئی۔
کہاجارہا ہے کہ تینوں کے ڈی این اے پازیٹو آنے کی صورت میں زیادتی کی تصدیق ہوسکے گی اور ڈی این اے میچ نہ ہونے کی صورت میں حتمی طور پر کہا جاسکے گا کہ عصمت کے ساتھ نہیں ہوئی، ڈی این اے کی رپورٹ کراچی یونیورسٹی کی ڈی این اے لیب میں بھیجی ہوئی ہے جس کی رپورٹ تاحال حکام کو موصول نہیں ہوئی، ماہرین بتاتے ہیں کہ ڈی این اے کی رپورٹ کی روشنی میں حتمی طورپر ثابت ہوسکے گا کہ زیادتی ہوئی ہے یا نہیں۔
واضح رہے کہ عصمت کا پوسٹ مارٹم 18اپریل کو کیاگیا تھا دوران پوسٹ مارٹم خون کے نمونے اور جسم کے حساس حصوں کے نمونے3 لیبارٹریز بھیجے گئے تھے تییوں لیبارٹریز کی رپورٹس میں زیادتی کی تصدیق نہیں کی جاسکی جبکہ وجہ موت کا بھی حتمی تعین نہیں کیاجاسکا۔
لیڈی ایم ایل او کی رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ عصمت کے خون کے نمونے میں اسپتال میں لگائے جانے والا انجکشن کے شواہد ملے ہیں جبکہ عصمت کو انجکشن اسپتال سے جاری نہیں کیاگیا تھا انجکشن باہر سے منگوایا گیا تھا۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ انجکشن لگانے والا کون تھا اور مستند ڈسپنسر تھا بھی یا نہیں تاہم لیڈی ایم ایل او کی رپورٹ میں وجہ موت کا واضح طورپر تعین نہیں کیا جا سکا۔