آئی ایم ایف کا جال

آئی ایم ایف کے کہنے پر 700 ارب کے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ہوگا

پاکستان کی دو اہم ترین پوسٹیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ہاتھوں میں ہیں۔ (فوٹو: فائل)

جب یہ واضح ہوگیا کہ اسد عمر ہی فائنانس منسٹر ہوں گے تو یہ خدشہ تھا کہ تباہی آئے گی۔ کیونکہ اسد عمر کارپوریٹ کلچر کے پروردہ ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ ان کو کوئی کاروباری ادارہ دیں تو یہ اُسے بہتر طریقے سے چلا سکیں۔ اسد عمر جب ایک نجی ادارے کے سی ای او بنے تو انہوں نے اُس ادارے کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس کے بعد ان سے وہاں بھی ایسی غلطیاں ہوئی تھیں کہ بورڈ نے اسد عمر کو فارغ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ خیر، یہ ایک الگ داستان ہے۔ اسد عمر اب سابق ہوچکے ہیں اور اِن کی جگہ اکنامک ہٹ مین حفیظ شیخ آچکے ہیں۔

یہ بات یہیں تک رہتی تو بھی ٹھیک تھا، لیکن جب اسٹیٹ بینک کے گورنر کی جگہ پر بھی آئی ایم ایف کے ملازم کو بھرتی کرلیا گیا ہے، تو یہ بات اب کھٹک رہی ہے۔ اس کے بعد عالمی منظرنامہ دیکھا، اپنی معاشی حالت دیکھی اور حقائق پر مبنی تجزیہ کیا ہے تو کل نتیجہ ''اللہ خیر ہی کرے'' آیا ہے۔ کیسے؟ یہ ہم آگے ڈسکس کرتے ہیں۔

دنیا میں بڑے مالیاتی اداروں کی ڈور اسرائیل اور امریکا سے ہلائی جاتی ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک دنیا کے دو بڑے مالیاتی ادارے ہیں۔ ورلڈ بینک اپنے سافٹ امیج کی وجہ سے مشہور ہے۔ لیکن حقیقت اس کے الٹ ہے۔ ورلڈ بینک کے صدر کی تعیناتی امریکی صدر کی منظوری سے ہوتی ہے۔ امریکی صدر اس اہم پوسٹ پر امریکی شہری اور امریکی وفادار کو ہی بٹھاتے ہیں۔ اس سے یہ بات یقینی ہوجاتی ہے کہ ورلڈ بینک پوری دنیا میں امریکی معاشی مفادات کا تحفظ کرے گا۔ ایسے ہی آئی ایم ایف کا معاملہ ہے۔ اس ادارے کا مقصد بھی دوسرے ملکوں کو قرضہ دینا اور منافع سمیت وصول کرنا ہے۔ لیکن، یہ بات اتنی بھی سادہ نہیں ہے۔ آئی ایم ایف جس بھی ملک میں گیا ہے، اُس نے وہاں امریکی مفادات کا تحفظ کیا ہے۔ بلکہ، گہرائی میں دیکھیں تو آئی ایم ایف نے امریکا کو حکومتوں کو پلٹنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ اپنے مفاد میں کسی بھی ملک کو ٹارگٹ کرتے ہیں۔ اس کے بعد اُس کی معیشت کا بیڑہ غرق کرتے ہیں، اُس کی معاشی سانسیں روکتے ہیں اور جب عوام تنگ آجاتے ہیں تو پھر مکاری سے حکومتیں بدل دی جاتی ہیں اور اِن کی جگہ وہ لوگ لاکر بٹھائے جاتے ہیں، جو امریکی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال مصر اور اب وینزویلا ہے، جہاں امریکا مداخلت کرتے ہوئے حکومت بدلنے ہی والا ہے۔

آئی ایم ایف کو 170 ارب ڈالر سالانہ امریکا سے ملتے ہیں۔ اب آپ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا تعلق سمجھ سکتے ہیں۔

صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی دو اہم ترین پوسٹیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ہاتھوں میں ہیں۔ فنانس ایڈوائزر، جن کے پاس منسٹر آف فائنانس کے اختیارات ہیں اور گورنر اسٹیٹ بینک، دونوں ہی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ملازمین رہے ہیں۔ آئی ایم ایف اسٹیٹ بینک کو ایک آزاد ادارے کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کےلیے وہ ماضی میں کامیاب نہیں ہوا، اب ہوجائے گا۔

آپ آج کے حالات اور اشیا کی قیمتیں نوٹ کرلیں، ان کا موازنہ جولائی 2017 سے کرلیں اور اِن کا موازنہ اگلے سال مارچ کی قیمتوں سے کرلیجیے گا۔ پاکستان کل اکیس یا بائیس مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس گیا ہے اور اسحاق ڈار کے حالیہ پروگرام کے علاوہ تمام تر پروگرام درمیان میں ہی ختم ہوئے ہیں۔ اس کی ایک یہی وجہ ہوتی تھی کہ ہمارا فائنانس منسٹر اور گورنر اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کی ہر شرط ماننے سے انکار کردیتے تھے۔

عموماً آئی ایم ایف کسی بھی ملک کا ریویو 6 ماہ یعنی 180 دن کے بعد کرتا ہے لیکن پاکستان کے معاملے میں یہ ریویو 90 دن یعنی 3 ماہ میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد ڈکٹیشن اور پریشر کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اب اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر 700 ارب کے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے۔ یوں سمجھ لیجیے اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ہوگا۔


مارکیٹ کو نچوڑنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، ایسا کرنا ہی معاشی خودکشی تصور کیا جائے گا۔ دوسری جانب دسمبر تک ڈالر 150 کراس کرجائے گا۔ یعنی اگر آج میری تنخواہ 30 ہزار روپے ہے تو ڈالروں میں 211.26 ڈالر بنتی ہے۔ یہی تنخواہ جولائی 2017 میں 306.12 ڈالر تھی اور جب ڈالر 150 کا ہوگا تو یہی تنخواہ 200 ڈالر ہوگی۔ دوسری جانب اشیائے ضروریہ مہنگی ہوجائیں گی تو ہر گھر کی معاشی حالت مزید دباؤ کا شکار ہوجائے گی۔ آسان الفاظ میں سمجھیں تو آمدنی میں کمی ہوئی تو دوسری جانب قوت خرید میں کمی ہوئی اور تیسری جانب مہنگائی نے بھی اپنا کردار ادا کردیا۔

اگر ٹیکس نہیں لگتے ہیں تو آئی ایم ایف اپنا پروگرام بیچ میں چھوڑ دے گا۔ یہ صورتحال بھی خطرناک ہوگی۔ اب مختصراً دیکھیں کہ آئی ایم ایف ہمیں کیوں کس رہا ہے؟ کیوں باندھ رہا ہے؟

افغانستان میں امریکا مزید نہیں رک سکتا۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ دوسری جانب افغان طالبان نے فورسز پر تابڑ توڑ حملے شروع کیے ہوئے ہیں۔ امریکا پاکستان کی مدد سے سیف ایگزٹ چاہتا ہے۔ لیکن، وہ اس بحفاظت انخلا میں پاکستان کو نہ صرف کریڈٹ دینے پر تیار نہیں ہے بلکہ زبردستی بھی کرنا چاہ رہا ہے۔ یہ اُس وقت تک نہیں ہوسکے گا جب تک کہ ہماری معاشی صورتحال ڈیفالٹ کرنے تک نہ پہنچ جائے۔ اس بلیک میلنگ میں پاکستان پر ٹھیک ٹھاک دباؤ بن چکا ہے۔ جب طالبان کہتے تھے کہ مذاکرات کرو تو امریکی اپنے تکبر میں سنتے نہیں تھے۔ اب امریکا مذاکرات کرنا چاہ رہا ہے تو طالبان اپنی شرائط پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں وہ پاکستان کی بھی زیادہ نہیں سن رہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان ہی بچتا ہے جس کے دونوں جانب گہرے تعلقات ہیں۔

امریکا کو بھی اندازہ ہے کہ وہ پاکستان کے بغیر افغانستان سے باعزت نہیں نکل سکے گا۔ پاکستان کے بغیر یہاں سے نکلنے کےلیے امریکا کو اپنی شکست کا اعلان کرنا ہوگا۔ امریکا اپنی شکست کا اعلان سوویت یونین کی حالت کو یاد کرتے ہوئے نہیں کرے گا۔ لہٰذا، امریکا کو پاکستان کی ضرورت ہر حال میں ہے۔

ایک طرف امریکا کی اپنی معیشت دباؤ میں ہے، دوسری جانب اس کو طالبا ن کے حملوں کا سامنا ہے۔ پاکستان نے نیم آمادگی ظاہر کی ہے تو سعودیہ نے بھی آپ کی مدد کی ہے اور متحدہ عرب امارات نے بھی آپ کی آدھی مدد کی ہے۔ خلیج اس مدد کے بدلے چاہتا ہے کہ پاکستان ایران مخالف کیمپ کو جوائن کرے۔ پاکستان کہیں پھسلے نہیں، اس بات کو یقینی بنانے کےلیے آئی ایم ایف کا پروگرام چاہیے اور دوسری جانب آپ کی معیشت کو بھی آئی ایم ایف کے پروگرام کی ضرورت ہے۔ یعنی ایک تیر سے دو نہیں بلکہ کئی شکار ہورہے ہیں۔

لہٰذا یہ تمام حالات مستقبل کی انتہائی خوفناک تصویرکشی کررہے ہیں۔ اگر ابھی بھی سوچ سمجھ کر اقدام نہ کیے گئے، اگر ابھی بھی اپنے پیادے ٹھیک سے نہ چنے گئے، اگر ابھی بھی ہم نے شطرنج کی بازی نہ پلٹی تو یقین کیجیے کہ عید کے بعد عوام کی چیخیں نکل جائیں گی۔ ایک جانب تیل، بجلی اور گیس مزید مہنگی ہونے کا عندیہ تو دے دیا گیا ہے اور دوسری جانب آئی ایم ایف نے بھی ٹیک اوور مکمل کرلیا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ ہمارے بابو آئی ایم ایف کے ٹریپ میں آجاتے ہیں یا پھر بچ نکلتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story