شاعر احمد فرازکوہم سے بچھڑے 5 سال ہوگئے

اکادمی ادبیات کے پہلے سربراہ مقرر ہوئے،ضیا دور میں جلاوطنی اختیار کی


Showbiz Reporter August 25, 2013
بھارت میں ایوارڈ سے نوازا گیا،انکی غزلیں مہدی حسن، نور جہاں نے بھی گائیں ۔ فوٹو : فائل

ممتاز شاعر احمد فراز کی آج پانچویں برسی منائی جائیگی، 4 جنوری1931 کو کوہاٹ میں پیدا ہونیوالے احمد فراز نے ایڈورڈ کالج پشاور میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ریڈیو پاکستان کیلیے فیچر لکھنا شروع کیے۔

جب ان کا پہلا شعری مجموعہ 'تنہا تنہا' شائع ہوا تو احمد فراز بی اے میں زیر تعلیم تھے، بعد ازاں انھوں نے اردو میں ایم اے کیا، وہ تعلیم کی تکمیل کے بعد ریڈیو سے علیحدہ ہوگئے اور یونیورسٹی میں لیکچرر شپ اختیارکرلی، اسی ملازمت کے دوران ان کا دوسرا مجموعہ 'درد آشوب' شائع ہوا جس پر رائٹر گلڈز کی جانب سے انھیں آدم جی ادبی ایوارڈ ملا، یونیورسٹی کی ملازمت کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر پشاورکے ڈائریکٹر مقرر ہوئے، انھیں1976 میں اکادمی ادبیات کا پہلا سربراہ بنایا گیا، جنرل ضیاالحق کے دور میں انھیں مجبوراً جلاوطنی بھی اختیار کرنا پڑی، احمد فراز نے1988میں آدم جی ادبی ایوارڈاور1990میں اباسین ایوارڈحاصل کیا جبکہ 1988میں انھیں بھارت میں فراق گھورکھ پوری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا، اکیڈمی آف اردو لٹریچر (کینڈا) نے انھیں 1991میں ایوارڈ دیا۔

اگلے سال1992میں بھارت میں احمد فرازکو ٹاٹا ایوارڈ سے بھی نوازا گیا، مرحوم 2006 میں نیشنل بک فاونڈیشن کے سربراہ رہے، ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی انٹریوکی پاداش میں انھیں نیشنل بک فاونڈیشن کی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا، انھوں نے متعدد ممالک کے دورے کیے، مرحوم کا کلام علی گڑھ یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے، جامعہ ملیہ بھارت میں ان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا گیا جس کا موضوع احمد فراز کی غزل ہے، بہاولپور میں بھی ؎احمد فراز کے فن اور شخصیت کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا گیا، ان کی شاعری کے انگریزی، فرانسیسی، ہندی، روسی، جرمن، یوگوسلاوی اور پنجابی زبان میں ترجمے ہو چکے ہیں۔



احمد فراز جنھوں نے ایک زمانے میں فوج میں ملازمت کی کوشش کی تھی، انھوں نے اپنی شاعری کے زمانہ عروج میں فوج میں آمرانہ روش اور اس کے سیاسی کردارکے خلاف شعرکہنے کے سبب کافی شہرت پائی، انھوں نے ضیاالحق کے مارشل لا کے دورکے خلاف نظمیں لکھیں جنھیں بہت شہرت ملی، مشاعروں میں کلام پڑھنے پر انھیں ملٹری حکومت نے حراست میں لے لیا جس کے بعد احمد فراز کو خودساختہ جلاوطنی بھی برداشت کرنا پڑی،2004 میں جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور صدارت میں انھیں ہلال امتیازسے نوازا گیا لیکن انھوں نے 2 برس بعد سرکاری پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے یہ تمغہ واپس کر دیا، احمد فراز نے کئی نظمیں لکھیں جنھیں عالمی سطح پرسراہا گیا، ان کی غزلیات کو بھی بہت شہرت ملی، احمد فراز کی شاعری پر مبنی ان کے14مجموعہ کلام شائع ہوئے۔

ان میں ''تنہاتنہا، دردآشوب، شب خون، نایافت، میرے خواب ریزہ ریزہ، بے آواز گلی کوچوں میں، نابینا شہر میں آئینہ، پس انداز موسم، سب آوازیں میری ہیں، خواب گل پریشاں ہے، مود لک، غزل بہانہ کرو، جاناں جاناں اور اے عشق جنوں پیشہ'' شامل ہیں، مرحوم کی کئی غزلوں کو مہدی حسن، میڈم نور جہاں، ناہیداختر، مہناز و دیگر گلوکاروں نے گایا جنھیں عالمی سطح پر شہرت حاصل ہوئی، احمدفراز شدید علالت کے باعث 25 اگست کو اس جہان فانی سے کوچ کرگئے مگر ان کی شاعری کے نقوش آج بھی دلوں میں موجود ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں