غم حیات
نااہل، چور، ڈاکو، منی لانڈرر حکمران مسلط کیے جاتے ہیں ان کو اس قدر مقروض کیا جاتا ہے قرض تلے دبے رہیں۔
جو تو نہیں تو کچھ بھی نہیں، آج وہ زیادہ افسردہ تھا، اس کے کانوں میں جیسے میرے الفاظ آئے چونک پڑا، مڑ کر دیکھا میں کھڑا تھا۔ میں مسکرا دیا، اس کے چہرے پر اداسی، محرومی، میں نے کہا کبھی تقدیر کا ستم، کبھی دنیا کا گلہ۔ بول اٹھا! پرچھائیاں مٹ جاتی ہیں لیکن نشانیاں رہ جاتی ہیں کیا کروں ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے نہ جانے کیوں آج شام سے مجھے رونا آیا۔ میں نے کہا ! آج بھی تمہارے چہرے پر چاہت، الفت جھلک رہی ہے۔ بولا! صحیح کہہ رہے ہو آندھیاں غم کی یوں چلیں اسپنے بکھرگئے بلکہ ٹوٹ گئے۔
میں نے کہا ! اسپنے تو پھر اسپنے ہیں، آندھی ہو یا طوفان کو تو آنا ہے اور آکے چلے جانا ہے کہتے ہیں آشیانے اجڑ جاتے ہیں باغ اجڑ گئے کھلنے سے پہلے اور پنچھی بچھڑ گئے ملنے سے پہلے، نظروں میں حیات رفتہ جھلک رہی ہے اور وہ وفا کی شبنم چھلک رہی ہے۔ میں نے لقمہ دیا ! جب سے حیات رفتہ کا وجود آیا، ایسا ہوتا رہا حکومت میں آنے سے پہلے بلند بانگ دعوے، عہد و پیماں، نیا دستور پھر جب ان سے کلیاں مانگیں کانٹوں کا ہار ملا۔ عوام درد دل میں مبتلا ہیں خواص عیش و پرتعیش زندگی حاصل کر رہے ہیں۔ کیا کہوں موجوں کی روانی ہے غریب عوام نے پہلے زخم کھائے زخم خوردہ ہیں جو جیون بھر کے لیے رہتا ہے۔
ہنستے ہیں ارماں دل روتا ہے نہ جانے کیوں مجھے یقیں ہو چلا ہے کہ شاید ہمارے ملک کی آبادی کا تقریباً 88 فیصد یوں ہی غربت کا شکار رہے گا بلکہ شاید اضافہ ہو کسی کی موت پر مجھ جیسے لوگ کہنے پر مجبور ہوں گے۔ آج اس کی اتنی تو ترقی ہوئی ایک بے گھر غریب نے اچھا سا گھر لے لیا۔ میرا سوال ان بڑے لوگوں سے ہے جن کے ہاتھ میں اکثریتی عوام کی قسمت ہے اگر بھولی ہوئی داستاں ہے تو اجڑا ہوا خیال کیوں؟
کف افسوس ملنے کو دل چاہتا ہے ان 70 سالوں میں عوام کا ''غم حیات'' نہ سمجھ سکے یہ بات الگ ہے 8 فیصد لوگوں کی درخشاں ہے حیات آج بھی بالکل ایسا ہی ہے جو کل تھا وہ آج بھی ہے یہاں اگر ان کے لیے میں یہ کہوں غلط نہ ہوگا کہ ایک چراغ کیا جلا سو چراغ جل گئے۔ عوام کے تصوراتی دیے حقیقت نہ بن سکے، ماضی کے جھرونکے دریچے نہ بن سکے حوادث کی گھٹا ایسی چھائی جس نے درد کی بانھوں کو جنم دیا۔ کف افسوس ملنے سے کیا ہوتا ہے ہونا وہی ہے جو ماضی میں ہوتا رہا اور ابھی بھی وہی ہوگا چہرے حالات کا آئینہ ہوتے ہیں۔ فرقت کے راستے جو تصور جاناں کیے ہوئے ان کی چشم فلک سے ظاہر ہے کل جو لوٹ مار، چوری، ٹیکس، عوام کا زر لوٹا وہ مستقبل میں بھی یہی کریں گے شاید انھیں آج سزا ہوگی نہ کل۔
ہماری عوام مثل شمع فروزاں ہے جو کسی آندھی سے ڈرتی ہے نہ ہی طوفان سے میں نے تم کوکئی بار یہ بات کی تقریباً 6 ہزار سے زائد ملکی جیلوں میں چھوٹی چوریوں، چھوٹے جرائم میں مقید ہیں ان سب کو آزاد کردیا جائے وہ سب آزاد ہونے کے بعد محنت مزدوری کریں گے علاج معالجہ بھی سرکاری شفا خانوں میں کروائیں گے پاکستان کے ڈاکٹر پوری دنیا میں صف اول پر ہیں لوکل ڈاکٹروں سے بہت اعلیٰ، قابل، محنتی، دیانت دار ہیں۔
بدقسمتی ہے اس ملک میں سیاست کاروبار بن گئی۔ یہ تو پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کا کمال ہے جس طرح عوام کو آگہی ہوئی۔ پہچان لیا کون چور ہے کس نے اس ملک و ملت کو لوٹا۔ اگر رائے عامہ کو مطمئن نہ کرسکیں تو یہ اہلیت کی کمی ہوتی ہے طریقہ وہی پرانا ہے پرانی عمارت گرا کر نئی بلڈنگ تعمیرکی جاتی ہے۔ تاریخ دہراتی ہے دادا نے کیا کیا، باپ کی کارکردگی پھر پوتا اگر یہ کہیں ہرگز غلط نہ ہوگا دنیا ہے نئی چہرہ ہے پرانا خون کا اثر لازمی ہے، وہی اثر چہرہ کا روپ دھار لیتا ہے۔ حیرت زدہ بات ہے جن پر مقدمات ہوں وہ باآسانی ملک سے فرار ہوجائیں کوئی روکے نہ ٹوکے۔ عوام میں سے عام انسان جس کا ملک کی چھوٹی عدالت میں مقدمہ ہو وہ ایک شہر سے دوسرے شہر نہیں جاسکتا۔
سب نے سنا، دیکھا ملک کو ملکی اداروں کو برا کہیں ان پر کوئی قانون لاگو نہیں کوئی ادارہ حرکت میں نہیں آتا بلکہ ان کو مزید موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ ہاں ایک بات یاد آئی اس ملک کی عوام کو گماں تھا یقینا کڑا احتساب ہوگا جو خواب دیکھے جاگ جاگ کر چور، منی لانڈرنگ کرنیوالے بھاگ رہے ہیں۔ چشم زدن میں۔ کیوں دروغ گوئی کی جا رہی ہے عوام گمراہ ہونیوالے نہیں ہیں۔ میرے صحافی دوست برابر کہہ رہے ہیں اندر کی کہانی کچھ اور باہر کی داستاں کیا ماضی کی باتیں۔ اہم بات شاید ملک کی اکثریت واقف ہے تاریخ اسلام ہو یا برصغیر کی تاریخ یا پھر دنیا کی بڑی تاریخ اس امر کی گواہ ہے غیر مسلموں نے مسلمانوں کیساتھ کن لوگوں نے ظلم و ستم کیے۔ ظلم سہتے رہے اپنے دین و مذہب کی تجلی میں مسلمان کامیاب رہے۔ آج بھی وہی حال ہے جو صدیوں پہلے تھا اب فرق یہ ہے کہ ہمارے اپنے ان لوگوں کے آلہ کار بنے ہیں جیسا ان کو کہا جاتا ہے وہ وہی کچھ کرتے ہیں۔
نااہل، چور، ڈاکو، منی لانڈرر حکمران مسلط کیے جاتے ہیں ان کو اس قدر مقروض کیا جاتا ہے قرض تلے دبے رہیں۔ معیشت بدحال کردی جاتی ہے۔ لوٹ مار، رشوت ستانی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ نام اسلام کا نظر مال و زر پر ان لوگوں کو ملک سے محبت نہ قوم سے الفت۔
آج بھی ہمارے ملک میں غداروں کی کمی نہیں اہل، قابل، اللہ سے خوف کھانے والا انسان کبھی غدار نہیں ہوسکتا، اس کا تعلق بھی خون سے ہے جو نسل در نسل چلتا ہے۔ عوام کے لیے امید کی راہیں، درد کی بانھیں افق حیات پر حوادث کی گھٹا اور خزاں آتی رہی ہوا پتوں کو اڑاتی رہی۔ میں نے عرصے سے دیکھا ہے ملک کی اکثریت پچھتاوے کی فصل کاٹتی ہے جو خود بوتی ہے۔ ایک ٹیس جگر میں اٹھتی ہے ایک درد سا دل میں ہوتا ہے افسوس صد افسوس ان عیار و مکار لوگوں کو قطعی اکثریت کا خیال نہیں۔
کہتے ہیں صبر کرو، صبر و قرار میں عمر بیت گئی درخشاں نہ ہوئی حیات، میرے دوست کہہ رہے ہیں سنسان نگر انجان ڈگر، اگر دنیا چمن ہوتی تو ویرانے کہاں جاتے زندگی حیران اور پریشان ہوں میں اس ملک کا نظام کب بدلے گا؟ چور، ڈاکوؤں کو سزا کب ملے گی؟ ملک کو لوٹنے والوں سے کب زر وصولی ہوگی؟ کیوں پھول کو ڈھونڈے بھنورا؟ کیوں دیپک کو ڈھونڈے پروانہ؟ غریب چن رہا تھا تنکے آشیانے کے لیے یہ نہ سمجھ سکے نہ جانے کس نے کہہ دیا بجلی گرانے کے لیے؟
باتیں سننے کے بعد میں نے کہا تم جو کچھ کہہ رہے ہو اس کا جواب بھی تمہارے پاس ہے تم بخوبی جانتے ہو بڑے امرا و رؤسا کے لیے شروع سے کچھ اور عام انسان کے لیے کچھ اور۔ اس امر سے موازنہ کیا جاسکتا ہے وہ جب چاہیں، جس کو چاہیں برا کہیں اور ان کیساتھ کوئی سختی تو دور کی بات ہے نرمی سے بھی نہ روکا جائے۔ ان کی جگہ اگر کوئی عام، معمولی انسان ہوتا تو صرف ایک لفظ کی ادائیگی پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتا جس کی ضمانت بھی نہ ہوتی۔ میرے دوست کہنے لگے! کیا کہہ رہے ہو بھئی! سننے میں بات آئی کہ عدالت میں جائے بغیر ضمانت ہوگئی۔
یہ بات الگ حقیقت ہے ہمارے ملک کی جیلوں میں وہی مجرم ہیں جن کے چھوٹے جرم ہیں جن کا ذکر عام لوگ کرتے ہیں۔ کسی کی ماں فوت ہوگئی کسی کا باپ انتقال کرگیا چہرہ بھی نہ دیکھ سکے اپنی ماں و باپ کا۔ جس نے بڑے جرم کیے ہیں ظاہر ہے وہ بڑا آدمی ہوگا اس کے لیے ساری مراعات موجود ہیں۔ اس طرح جیل جا رہے ہیں جیسے بڑا کام کیا یا ملک کے لیے کوئی بڑی خدمات انجام دیں۔