امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ
دونوں جانب سے لچک کا مظاہرہ بھی نہیں کیا جارہا جس کی وجہ سے جنگ کے خطرات گہرے ہورہے ہیں۔
ایران میں انقلاب کے ہنگام میں ایرانیوں نے تہران کے امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول کر اس پر قبضہ کر لیا تھا اور امریکی سفارتکاروں پر جاسوسی کا الزام لگاتے ہوئے تمام سفارتی عملے کو یرغمال بنا لیا تھا جس کے بعد دونوں ملکوں میں انتہا درجہ کی دشمنی شروع ہو گئی جو اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود آج کے دن تک جاری ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گو دونوں ملکوں میں تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں بھی ہوئیں مگر پھر کوئی ایسی بات ہو جاتی کہ سب کیے کرائے پر پانی پھر جاتا۔
امریکا کے سابق ڈیموکریٹک صدر براک اوباما نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے پانچ بڑی طاقتوں کی معاونت سے ایران کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا مگر ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر ایران سے سمجھوتہ ختم کر دیا، اب ٹرمپ نے ایران کو مذاکرات کی پیش کش کی ہے جسے ایران نے امریکا کو بے اعتبارہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
امریکا نے ایران کو دباؤ میں لانے کے لیے خلیج فارس میں اپنا طیارہ بردار بحری جہاز روانہ کر دیا ہے جس کے جواب میں ایران نے کہا ہے کہ امریکی طیارہ بردار جہاز کو صرف ایک میزائل سے تباہ کیا جا سکتا ہے۔
امریکی صدر نے جمعرات کے روز ایران کو مذاکرات کی پیشکش کی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ اگر ایران نے اپنا ایٹمی پروگرام ختم نہ کیا تو فوجی کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔ ایرانی پاسداران انقلاب کے نائب سربراہ یاداللہ جاوانی نے کہا کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات نہیں ہونگے۔ اگلے روز ایران میں عوام نے امریکا کے مظاہرے کیے ہیں جب کہ امریکی فضائیہ نے اعتراف کیا ہے کہ خلیج فارس میں خطرات کے باعث وائٹ ہاؤس کے احکامات کے بعد مشرق وسطیٰ میں امریکا کی اہم ایئربیس پر بی 52 بمبار تعینات کر دیئے گئے ہیں۔
ایرانی حکام نے امریکی پابندیوں کے باعث ایرانی پٹرولیم مصنوعات کی فروخت صفر ہونے پر اپنی اقتصادی پالیسی میں ضروری تبدیلی کا عندیہ دیدیا۔ تہران نے ملک میں موجود 30 لاکھ افغان مہاجرین کو ملک سے نکالنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ یورپی طاقتوں نے اْس ایرانی فیصلے کی حمایت نہیں کی، تہران حکومت نے محدود انداز میں جوہری سرگرمیاں شروع کرنے کا اعلان بھی کررکھا ہے۔
یوں دیکھا جائے تو امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی انتہا کو چھورہی ہے اور دونوں جانب سے لچک کا مظاہرہ بھی نہیں کیا جارہا جس کی وجہ سے جنگ کے خطرات گہرے ہورہے ہیں۔
امریکا کے سابق ڈیموکریٹک صدر براک اوباما نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے پانچ بڑی طاقتوں کی معاونت سے ایران کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا مگر ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر ایران سے سمجھوتہ ختم کر دیا، اب ٹرمپ نے ایران کو مذاکرات کی پیش کش کی ہے جسے ایران نے امریکا کو بے اعتبارہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
امریکا نے ایران کو دباؤ میں لانے کے لیے خلیج فارس میں اپنا طیارہ بردار بحری جہاز روانہ کر دیا ہے جس کے جواب میں ایران نے کہا ہے کہ امریکی طیارہ بردار جہاز کو صرف ایک میزائل سے تباہ کیا جا سکتا ہے۔
امریکی صدر نے جمعرات کے روز ایران کو مذاکرات کی پیشکش کی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ اگر ایران نے اپنا ایٹمی پروگرام ختم نہ کیا تو فوجی کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔ ایرانی پاسداران انقلاب کے نائب سربراہ یاداللہ جاوانی نے کہا کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات نہیں ہونگے۔ اگلے روز ایران میں عوام نے امریکا کے مظاہرے کیے ہیں جب کہ امریکی فضائیہ نے اعتراف کیا ہے کہ خلیج فارس میں خطرات کے باعث وائٹ ہاؤس کے احکامات کے بعد مشرق وسطیٰ میں امریکا کی اہم ایئربیس پر بی 52 بمبار تعینات کر دیئے گئے ہیں۔
ایرانی حکام نے امریکی پابندیوں کے باعث ایرانی پٹرولیم مصنوعات کی فروخت صفر ہونے پر اپنی اقتصادی پالیسی میں ضروری تبدیلی کا عندیہ دیدیا۔ تہران نے ملک میں موجود 30 لاکھ افغان مہاجرین کو ملک سے نکالنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ یورپی طاقتوں نے اْس ایرانی فیصلے کی حمایت نہیں کی، تہران حکومت نے محدود انداز میں جوہری سرگرمیاں شروع کرنے کا اعلان بھی کررکھا ہے۔
یوں دیکھا جائے تو امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی انتہا کو چھورہی ہے اور دونوں جانب سے لچک کا مظاہرہ بھی نہیں کیا جارہا جس کی وجہ سے جنگ کے خطرات گہرے ہورہے ہیں۔