روزنِ زنداں
ہمارے ملکی سیاستدانوں میں سب سے زیادہ عرصہ جیل میں رہنے کا ریکارڈ آصف علی زرداری کے پاس ہے۔
اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ جیل انسان کے لیے آدھی موت ہوتی ہے (جیتے جی کی) اور پھانسی کے بعد جو سخت ترین سزا قانون کی طرف سے مقرر کی گئی ہے وہ کسی کو جیل بھیجنا ہے۔ جیل کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جیل سوائے خوفناک مجرموں کے ہر ایک کو بدل دیتی ہے۔ نفسیاتی اور جسمانی طور پر جیل کے اثرات انسان پر بہت برے مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان کے کرشماتی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو ہی دیکھ لیں انھیں جیل میں سزائے موت ملی تو اس قومی مجرم کا خراج 9 سال کی وفاقی حکومت اور 20 سال کی سندھ حکومت میں ابھی تک ادا کیا جا رہا ہے۔
اس بات سے تو سبھی واقف ہیں کہ جیل عام طور پر جرائم پیشہ لوگوں کو سزا دینے کے لیے بنائی گئی ہے۔ اور جیلوں کے قیام کا سب سے بڑا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ قانون شکن لوگوں اور جرائم پیشہ مجرموں کو عام معاشرے سے الگ کرکے جیلوں کی چار دیواروں کے اندر بند رکھ کر ان کی تہذیب و اصلاح کی جائے۔ اس سلسلے میں جیل حکام کی طرف سے قیدیوں اور حوالاتیوں کی اصلاح اور کردار سازی کے متعلق بڑے بلند و بانگ دعوے بھی کیے جاتے ہیں۔ لیکن عملاً صورتحال یہ ہے کہ جیلوں کا موجودہ نظام اپنے مقاصد کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔ ہمارے ملک کی جیلیں مجرموں کے قلب و فکر میں کوئی پائیدار تبدیلی پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں اور یوں جیلوں، قانون اور قاعدے کے باوجود جرائم تیزی سے بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں اور عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ قانون کے رکھوالے ہی قانون شکنی کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں اور قانون کی پاسداری دھری کی دھری رہ گئی ہے۔
اس حقیقت سے بھی کسی طور انکار ممکن نہیں کہ جیل لیڈروں بالخصوص سیاستدانوں کے لیے بہترین آزمائش اور تربیت گاہ بھی ہوتی ہے۔ گاندھی جی جیل کو تربیت گاہ ہی سمجھتے تھے کیونکہ اس تربیت گاہ میں سیاسی قیدیوں کو اپنی غلطیوں کا تجزیہ، ذات کا احتساب، اپنی کمزوریوں کا حساب اور قید وبند میں زندگی گزارنے کا موقع بھی ملتا ہے اور ان کی شخصیت کی تربیت کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ جیل میں خاموش رہنے، سوچنے، تنہائی سے دوستی کرنے اور خود کلامی کی عادت پڑتی ہے اور جو خدا کے قریب کبھی نہیں پائے جاتے وہ اسیری کے دنوں میں لامحالہ یاد الٰہی میں اپنا کچھ وقت ضرور گزارتے ہیں۔
بھٹو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بعض اوقات جیل میں یوں بولنا شروع کردیتے تھے جیسے کسی جلسے سے خطاب کر رہے ہوں۔ جب کہ گاندھی جیل میں بعض اوقات بھرت (روزہ) بھی رکھ لیتے تھے، مطالعہ بھی وہ بہت وہاں کرتے اور چرخہ کاتنا ان کی جیل میں سب سے بڑی مصروفیت تھی۔ اور بھٹو نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ''اگر مجھے قتل کیا گیا'' جیل میں ہی تحریر کی تھی۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ بڑا لیڈر مزاحمت سے نہیں بلکہ حکمت سے بنتا ہے۔ ہماری ملکی تاریخ میں حکمت کی سیاست کا سب سے بڑا رول ماڈل قائد اعظم محمد علی جناح ہیں جنھیں نہرو، گاندھی اور ان کے سیاسی چیلے جیل نہ جانے کا طعنہ دیتے تھے۔ لیکن قائد اعظم نے اپنی حکمت سے کام لے کر جیل جانے والوں سے زیادہ بہتر نتائج حاصل کیے اور ایسی تاریخی کارکردگی دکھائی اور اپنے لیے وہ مقام حاصل کرلیا جو لیڈران دہائیوں کی قید و بند سے بھی حاصل نہ کرسکے۔
ہمارے ملکی سیاستدانوں میں سب سے زیادہ عرصہ جیل میں رہنے کا ریکارڈ آصف علی زرداری کے پاس ہے جب کہ میاں نواز شریف ابتدا میں جیل سے بہت خوفزدہ تھے اس لیے وہ پرویز مشرف سے معاہدہ کرکے خاموشی سے جدہ چلے گئے تھے۔ لیکن اب وہ قید و بند کی صعوبتیں اٹھا رہے ہیں اس سے نہ صرف ان کی تربیت ہو رہی ہے بلکہ خود احتسابی کے عمل سے بھی گزر رہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے اپنے دور میں آہنی عزم و ہمت اور قائدانہ صلاحیتوں کو آمرانہ دور کے جبر و استبداد، قید و بند کی طویل صعوبتیں، جیلوں کی کال کوٹھڑیاں اور ڈراؤنی فصیلیں بھی شکست نہ دے سکیں۔
وطن عزیز میں سیاستدانوں کے علاوہ دیگر بہت سے قابل، ذہین اور پڑھے لکھے لوگوں یا دانشوروں کیساتھ ساتھ شاعروں، ادیبوں اور بعض اداکاروں کو بھی ''روزنِ زنداں'' کے حوالے کیا گیا۔ ان میں سعادت حسن منٹو، فیض احمد فیض، حبیب جالب، جوش ملیح آبادی، احمد فراز، حمید اختر، مولانا کوثر نیازی، محمد حنیف رامے، طارق عزیز اور محمد علی وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جیل کے ماحول اور اسیری کے حوالے سے حمید اختر کی تحریر کردہ ایک کتاب ''کال کوٹھڑی'' کو شاہکار کا درجہ حاصل ہوا۔ انھوں نے اپنی اس کتاب میں جیل کی روداد بڑے ہی موثر اور خوبصورت انداز میں بیان کی ہے، اس کے علاوہ مشہور وکیل برکت علی غیور کی ایک کتاب ''جرم، جیل اور پولیس'' بھی جیل کے قواعد و ضوابط پر ایک بہترین تحقیقی کتاب کے درجے پر فائز ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایوان اقتدار کو جانے والا راستہ جیل کی بیرکوں اور کوٹھڑیوں کے اندر سے ہوکر گزرتا ہے۔ مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہونیوالے حکمرانوں کی بہت بڑی تعداد بھی جیل کی چار دیواری کے اندر اسی وجہ سے رہتی چلی آرہی ہے۔ بہرکیف جرم و جیل کے حوالے سے یہ آفاقی سچائی ہے کہ جرم کے راستے کتنے ہی مخملی کیوں نہ ہوں وہ ختم جیل کے کمبل میں ہی ہوتے ہیں۔
یہ بات بھی جیل کی تاریخ ہی کی طرح خاصی پرانی ہے کہ جیلوں میں بااثر لوگوں کے ساتھ گھر جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے اور بے نوا لوگوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے جس سے ان کے دل و دماغ ، شخصیت ، ذہنیت ، اعصاب، یاد داشت اورکردار پر بہت منفی ردعمل ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اتفاقیہ جرم کا ارتکاب کرکے جیل کے اندر جانے والے لوگ جیل کے کرائمز ٹریننگ اسکولوں سے عادی مجرم بن کر باہر نکلتے ہیں۔
ملک کے بڑے شہروں کی جیلوں میں تعداد سے بہت زیادہ قیدیوں کی روایت بھی خاصی دیرینہ ہوچکی ہے، خواتین اور بچوں کی جیلوں میں ان کے ساتھ بدفعلی یا جنسی جرائم کے کیس عام ہیں ان سب کے باوجود جیل جانیوالوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار، اصلاح معاشرہ کے علمبردار، این جی اوز اور ارباب فکر و نظر نے جیلوں کے موجودہ نظام کی افادیت اور جیلوں کے اندر رہنے والوں کے مسائل و مشکلات، جیل حکام کی زیادتیوں اور قیدیوں کیساتھ غیر انسانی اور وحشیانہ سلوک کے بارے میں سنجیدگی کیساتھ سوچنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ یوں ہمارے ملک کی جیلیں جرائم ختم یا کم کرنے میں اپنا کوئی مثبت اور موثر کردار آج تک ادا نہ کرسکیں اور یوں وہ قومی وسائل اور سرمائے کے بل بوتے پر مجرموں کی تعداد میں روز افزوں اضافے اور جرائم کے فروغ کا سبب ہی بن رہی ہیں۔