دیو کو مارا جاسکتا ہے
پاکستان اپنی بیماریوں (خرابیوں) کی وجہ سے تڑپ رہا ہے لیکن اسے معلوم ہی نہیں کہ اسے بیماری کیا ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں جب چرچل نے یہ اعلان کیاکہ اسے انگریزوں کا خون ، پسینہ اور آنسو درکار ہیں تو اس کے اس اعلان کی مزاحمت نہیں ہوئی بلکہ اسے دل وجان سے قبول کیاگیا، کیونکہ اس نے ان کے دل کی گہرائیوں میں چھپی قربانی کی خواہش کو زندہ کیا۔
انگریزوں ، جرمنوں اور روسیوں کا ردعمل بھی ایسا ہی تھا لوگوں پر بم گرائے جا رہے تھے اور بل گرانٹ کے مطابق جب عام مشکلات ہوں تو لوگوں کے حوصلے اور جذبے میں شگاف نہیں پڑتا بلکہ مشکلات ان کے حوصلے کو مضبوط بناتی ہے ۔ سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ جب بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی ہوئی ہو توکیا خوشگوار تبدیلی ممکن ہے اگر ممکن ہے تو پھر تبدیلی کیسے لائی جاسکتی ہے۔
دنیا کے نامور ماہر نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ درج ذیل شرائط تبدیلی کے لیے پوری کرنا لازمی ہیں (1) ہم تکالیف میں مبتلا ہیں تو ہمیں اس سے واقف ہونا چاہیے(2) ہمیں اپنی بیماری (برائی ) کی اصل وجوہات سے آگا ہ ہونا چاہیے، اس بیماری کے ماخذ کی پہچان ہو۔ (3) اس بیماری (برائی) پر قابو پانے کا کوئی نہ کوئی راستہ ہونا چاہیے۔ (4) اس سے نجات کے لیے ہمیں کچھ زندگی کے قواعد کو قبول کرنا ہوگا اور تبدیلی کے لیے موجودہ طرز زندگی کو ترک کرنا ہوگا۔ یہ چار نکات چار عظیم سچائیاںہیں جو بدھا کی تعلیمات سے اخذ کی گئی ہیں جب وہ زندگی کی شرائط سے نبرد آزما ہوئے ۔
فرائیڈکا زخم خوردہ انسانیت کی بحالی کا طریقہ بھی اسی جیسا تھا، مریض فرائیڈ سے رابطہ کرتے تھے مگر و ہ جانتے تھے کہ ہم بیمار ہیں مگر وہ اس بیماری کی وجوہات سے آگاہ نہ تھے۔ فرائیڈ کہتا ہے کہ سب سے تسلی بخش تشخیص وہ ہے جو مریض خود اپنے بارے میں رائے قائم کرتا ہے۔ اس طرح نفسیاتی تجزیہ کے عمل کے ذریعے سے مریض کی بیماری کی اصل وجوہات کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ تمام تکالیف ختم ہوسکتی ہیں اگر ان تکالیف کی وجوہات کو ختم کر دیاجائے ۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی ابھی تک کوئی قوم نہیں بن سکی۔ جہاں وطن والے بے وطن ہیں اور بے وطن اہل وطن ہیں۔ پاکستان اپنی بیماریوں (خرابیوں) کی وجہ سے تڑپ رہا ہے لیکن اسے معلوم ہی نہیں کہ اسے بیماری کیا ہے ۔کرپشن ، انتہا پسندی ، ملاوٹ ، اقربا پروری ، رشو ت خوری ، دہشت گردی ، ذخیرہ اندوزی ، قبضے ، اسمگلنگ ، دھوکہ دہی میں ہم دنیا بھر میں اول نمبر پر ہیں۔ 71سال بعد بھی ہم سیاسی استحکام کی تلاش میں مارے مارے پھررہے ہیں۔
بانی پاکستان نے ہم کو جو نظریاتی اساس دی تھی ، ان کی وفات کے بعد ہی ہم نے اس کے پرخچے اڑا کے رکھ دیے ۔ ہمارے حکمرانوں اور اکثر سیاست دانوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ ریاست کی ناکامی کس چیزکا نام ہے۔ ظلم کیا ہوتا ہے بھوک ، افلاس کس بلا کا نام ہے تڑپنا ، بلکنا اورسسکنا کسے کہتے ہیں، فاقوں کی اذیتیں کیا ہوتی ہیں ۔71سال سے ہم نے سب اچھا ہے کی رٹ لگائی ہوئی ہے ہمارے کرتا دھرتا لوگ نہ مسائل کا حل چاہتے ہیں اور نہ ہی ان کی وجوجات کا کھو ج لگا نے کی کسی کو اجازت دیتے ہیں جن لوگوں کے پاس اقتدار رہا۔
انھوں نے دنیا بھرکے برعکس اخلاقیات ، مذہب ، تعلیم ، آزادی ، اظہار اور جمہوریت کی اپنے انداز میں تفسیریں کیں عوام کو یہ باورکرایا گیا کہ وہ انھیں عقل کل سمجھیں، ان کے اشاروں پر ناچیں اوراپنے تمام اختیارات ان کے حوالے کر دیں ۔ ہم ساری عمر قومی شناخت کی تلاش میں سر گرداں رہے اور اب تک بنیادی سوالوں کا جواب تلاش نہ کرسکے ہیں نظریاتی صحرا میں بھٹکتے پھر رہے ہیں ۔
ہمارے تاریخی حقائق اس قدر پیچیدہ اور الجھے ہوئے ہیںکہ جس نے ریاست کی اہلیت پر قدغن لگا رکھی ہے ہم ایک دوسر ے سے خوفزدہ ہیں ایک دوسرے سے ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں ۔ ہماری خوشی اور خوشحالی کا سارا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمیں وراثت میں کیا ملا ؟ ہمارا کردارکیا ہے؟ ہمیں رشتے میں کیسے لوگ ملے ہیں ہم کہاں اورکن حالات میں پیدا ہوئے ہیں اور پھر یہ بھی کہ ہمارا نصیب کیسا ہے۔
دور جدید میں انسان کی خوشی اور خوشحالی کا سارا دارومدار ریاست کی اہلیت پر منحصر ہے۔ حال ہی میں دنیا کے پچاس ملکوں سے اعداد وشمار حاصل کرکے ایک تجزیہ مرتب کیاگیا، جس میں مختلف علاقوں اور معاشروں میں پائے جانے والے خوشی و مسرت کے مختلف درجوں اور ان کے تعین میں اہم کردار ادا کرنے والے عوامل کا جائز ہ لیا گیا۔ اس تجزیے جسے ہم اب تک کیا جانے والابہترین تجزیہ قرار دے سکتے ہیں کہ مطابق عوام کی خوشی وخوشحالی پر اچھی حکومت جس قدر زیادہ اثرات مرتب کرتی ہے، وہ ان اثرات سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہیں جوکہ اچھی تعلیم ، اچھی آمدن اور بہترصحت سے مرتب ہوتے ہیں کیونکہ یہ سب چیزیں خود بھی معیار حکومت کی مرہون منت ہوتی ہیں۔
کنفیوشس نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں دہائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''آہ ! کسی ذی عقل بادشاہ کو یہ سجھائی نہیں دیتا کہ مجھے اپنا اتالیق بنائے ''۔ افلاطون نے کہا ہے سچ ابدی ہوتا ہے ، یہ سچ ہے کہ ہم بحیثیت قوم ناکام رہے ہیں اور اس سچ کو جتنی جلدی ہم تسلیم کرلیں گے اتنی ہی جلدی ہم کامیابی کا سفر طے کرلیں گے جب ہم اس سچ کو تسلیم کرلیں گے تو ہم اس کے اسباب کو ڈھو نڈیں گے۔ جب اسباب مل جائیں گے تو ہم اس کا حل تلاش کریں گے اور جب ہمیں اس کا حل مل جائے گا تو وہ ہماری کامیابی کا پہلا قدم ہوگا۔
آپ نے حضرت دائود علیہ السلام اورگولائتھہ کی لڑائی کاواقعہ تو سنا ہوگا ۔ گولائتھہ ایک دیو نما شخص تھا ہرکوئی اس سے خوف کھاتا تھا، ایک دن پندرہ سالہ چرواہا بچہ اپنے بھائیوں سے ملنے آیا۔ اس بچے نے کہا تم اس دیو سے لڑنے کے لیے کیوں نہیں اٹھتے ۔ اس کے بھائی گولائتھہ سے خو ف زدہ تھے، انھوں نے کہا ، تمہیں دکھائی نہیں دیتا کہ وہ اتنا لحیم شحیم ہے کہ اسے مارا نہیں جاسکتا، حضرت دائود علیہ السلام نے کہا نہیں وہ اتنا بڑانھیں ہے کہ اسے مارا نہ جاسکے اس کے لحیم شحیم ہونے کا تو فائدہ یہ ہے کہ ہمارا کوئی وارخالی نہیں جاسکتا۔
باقی واقعہ تاریخ کاحصہ ہے ہم سب جانتے ہیں کہ کیا ہوا تھا حضرت دائود علیہ السلام نے اسے غلیل سے مار ڈالا تھا۔ہاورڈ یونیورسٹی کے ولیم جیمز نے کہا تھا میری نسل کی عظیم ترین دریافت یہ ہے کہ انسان اپنے ذہنی رحجان کو بدل کر اپنی زندگیوں کو یکسر تبدیل کرسکتے ہیں ۔ پاکستان کے عوام بہت بہادر ہیں وہ اپنا خون ، پسینہ اور آنسو دیناجانتے ہیں قربانیاں دینے میں ان کاکوئی ثانی نہیں ۔
آئیں ! ہم اپنی بیماریوں ، خرابیوں کی وجوہات کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں ، اپنے ذہنی رحجان کو یکسر بدل دیں ۔یہ کام اس وقت ممکن ہے جب ہم سب مل کر متحد ہوکر تمام تر اختلافات بھلا کر یکسوئی کے ساتھ ریاست کے نظام کی ساری خرابیوں کو دور کرنے میں اپنا اپنا کردار اداکریں جب ریاست کے نظام کی ساری خرابیاں دور ہوجائیں گی تو پھر ریاست کو ایسے حکمران بھی مل جائیں گے جو حکمرانی نہیں بلکہ خدمت کرنے آئیں گے ۔ عوام کی ساری خوشیوں اور خوشحالی کا سارا دارومدار اچھی حکومت پر منحصر ہوتا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ ہمارے ملک میں پھیلی ہوئی برائیاں اور خرابیاں دیو بن گئی ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اس دیوکو مارا نہ جاسکے ۔