سندھ ایک اور’’ رُتھ فاؤ‘‘ کا منتظر
آج عمومی طور پر پاکستان اور بالخصوص سندھ کے ڈاکٹروں کودیکھ کراُنہیں مسیحا نہیں بلکہ قصائی کے القابات سے نوازاجاتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم سے متاثرہ ایک جرمن خاندان کی ڈاکٹر بیٹی رُتھ فاؤ کی زخمی و بے چین روح نے اپنے زخموں کا علاج دوسروں کے لیے مرہم بن جانے میں تلاش کیا ۔ وہ 1955کا زمانہ تھا، جب اُس نے Nunیعنی راہبہ ( عیسائیت کے مطابق شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرکے خود کو چرچ یا فلاحی کاموں کے لیے وقف کرنے ) کا فیصلہ کیا ۔ وہ 1956میں اپنے ایک مشن کے سلسلے میں انڈیا جاتے ہوئے کراچی سندھ میں تشریف لائیں ۔ یہاں اُس کی ملاقات اپنے جیسی ایک اور میکسیکن ڈاکٹر بیرنس سے ہوئی اور پھر ڈاکٹر رُتھ فاؤ کی زندگی کا مقصد ہی بدل گیا ۔
ڈاکٹر بیرنس نے اُسے بتایا کہ وہ اس وقت سندھ میں کوڑھ یعنی جذام( Leprosy) کے مریضوں کے لیے کام کررہی ہے ۔ اُن دنوں کوڑھ ایک موذی مرض کی شکل رکھتا تھا ۔ یہاں تک کہ مریض کو اپنے خاندان بلکہ معاشرے سے ہی الگ تھلگ ویرانوں میں چھوڑدیا جاتا تھا ۔ ایسے میں کراچی میں ایک علاقہ بنایا گیا اور صوبہ بھر سے ایسے مریضوں کو لاکر اُس میں رکھا جاتاتھا، اور وہاں اُن کے علاج کی کوششیں کی جانے لگیں ۔
ڈاکٹر رُتھ فاؤ نے جب یہاں اس مرض کی شدت اور مریضوں کے لیے لوگوں کے سماج میں بے حسی دیکھی تو اُس کی روح تڑپ اُٹھی اور اُس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اپنی باقی زندگی یہیں رہ کر اس مرض اور سماجی بے حسی سے جنگ کرے گی ۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ اُس کے عزم ، شفقت اور انسانی خدمت کے جذبے نے نہ صرف سندھ بلکہ پورے پاکستان کو اس مرض سے پاک کردیا،جس کا اعلان 1986میں حکومت اور عالمی ادارہ صحت نے کیا ۔یوں ڈاکٹر رُتھ فاؤ ایک عام ڈاکٹر سے کہیں اوپر ایک حقیقی مسیحا کے طور پر جانی جانے لگیں ۔
کہتے ہیں کہ ڈاکٹر ہوتا ہی مسیحا ہے، لیکن آج عمومی طور پر پاکستان اور بالخصوص سندھ کے ڈاکٹروں کو دیکھ کر اُنہیں مسیحا نہیں بلکہ قصائی کے القابات سے نوازا جاتا ہے ، اورلوگ اس پر غلط بھی نہیں ہیں، کیونکہ عام طور پر معاشرے میں ڈاکٹر کا کردار ایسا ہی ہوکر رہ گیا ہے ۔ اب مریض کی شفا ڈاکٹر کی ترجیح نہیں رہی ، اولیت اپنا بینک بیلنس بڑھانا، اسپتالوں و لیباریٹریوں اور دوا ساز کمپنیوں کی سیل بڑھانا رہ گئی ہے، جس کے لیے مریضوں کو بے جا ٹیسٹ اور ادویات لکھ کر دی جاتی ہیں، استعمال شدہ سرنج باربار دوبارہ استعمال کی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ 70سال سے ظلم کا شکار اس معاشرے نے بات یہاں تک بھی قبول کرلی تھی لیکن پھر جان بوجھ کر مریضوں کو غلط انجیکشن لگانے کا ایک سلسلہ چل نکلا، جوکہ انسانیت اور مسیحائی پیشے کی دھجیاں اُڑانے لگا۔
کبھی کراچی میں9ماہ کی'' بچی نشوہ'' اس کا شکار ہوئی تو کبھی کشمورمیں غلط ادویات ملنے سے ایک شخص کی آنکھ ضایع ہوگئی، اور کبھی تو کورنگی میں'' عصمت خانی جو ''کو ریپ(Rape) کے بعد زہریلا انجیکشن لگا کر قتل کیا گیا۔ تب سندھ کا صوفی مزاج معاشرہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ نے سُر 'یمن کلیان'میں اللہ رب العزت کی صفات بیان کرتے ہوئے ''تون حبیب ، تون طبیب'' کی صورت حمد ثناء میں جو ڈاکٹری پیشے کو عزت بخشی ہے ، آج کے یہ ڈاکٹر اُس تشریح کے بالکل برعکس ہیں ، ڈاکٹر ادیب رضوی اور اُن جیسے تمام مسیحائی کردار والے ڈاکٹروں سے معذرت کرتے ہوئے یہ سطور لکھنے پر مجبور ہوں کہ آج کے ڈاکٹرشیطانی پرماریت کے وہ وحشی کردار نظر آتے ہیں جو مُردوں کو قبروں سے نکال کر اُن کا گوشت نوچتے تھے ، لیکن شاید یہ اُن سے بھی گئے گذرے ہیں، کیونکہ وہ تو پھر بھی مُردوں کا ماس نوچتے تھے لیکن یہ ڈاکٹر تو زندہ جاگتے انسانوں کو موت کی گھاٹیوں میں بھیجنے والے کرائے کے قاتل بن کر رہ گئے ہیں ۔
یہ معاشرہ جو پہلے ہی غذائی قلت ، گیسٹرو ، پولیو اور کالے یرقان (Hepatitis) جیسے امراض کی لپیٹ میں ہے اُس پر تازہ HIV /ایڈز ایک اور عذاب بن کر گرا ہے ۔ جس کے لیے بھی ایک ڈاکٹر کو ہی ذمے دار ٹھہرایا جارہا ہے ۔ ڈاکٹر مظفر گھانگھرو جو کہ خود بھی ایڈز کا شکار ہیں ۔ اُن پر الزام ہے کہ وہ بچوں میں یہ مرض پھیلانے کے ذمے دار ہیں ۔ جس کی وہ تردید کرچکے ہیں ۔سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ لاڑکانہ سے ظاہر ہونیوالے مریضوں کی یہ لہر اب ٹنڈو الہیار اور کنری و صوبہ کے دیگر علاقوں تک پہنچ گئی ہے ، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہاں کونسا ڈاکٹر مظفر گھانگھرو موجود تھا جو یہ مرض پھیلا رہا تھا؟
پھر دیکھا جائے تو 2016میں بھی لاڑکانہ میں ایڈز کے مریض ظاہر ہونے کی میڈیا پررپورٹس آئی تھیں اور اسی طرح محکمہ صحت میں بھگدڑ مچ گئی تھی ، لیکن بعد میں اس پرضابطے کا اعلان بھی کیا گیا مگر حالیہ تشویشناک صورتحال ایڈز کنٹرول پروگرام اور محکمہ صحت کی نااہلی و بدعنوانیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ پھر دیکھا جائے تو اگر وہ ڈاکٹر اس کا براہ ِ راست ذمے دار نہ بھی ہو ، تو بھی سندھ بھر کے وہ تمام ڈاکٹر ہی اس کے ذمے دار ہیں جو اس ایڈز کے خاتمے کے لیے گذشتہ تین عشروںسے ملک بھر میںوفاقی اور صوبائی اداروں و پروگرامز کے نام پر بڑے بڑے بجٹ کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں ۔ سوال یہ نہیں کہ یہ مرض اتنی شدت سے معاشرے میں موجود ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ 30سال سے مسلسل اس مرض کے خاتمے کے لیے کام کرنے والے اداروں اور ڈاکٹروں کی کارکردگی کیا ہے ؟ اُنہیں اس کی موجودگی کا علم کیوں نہ ہوا؟
کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ یہ تمام ماجرا بجٹ اور روزی روٹی کا ہے ، کیونکہ ابھی 15روز قبل ہی 25اپریل 2019کو وزیر اعلیٰ سندھ نے یونیسیف (UNICEF) اور صوبائی و قومی ایڈز کنٹرول پروگرام و اداروں کے وفود کے ساتھ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں میٹنگ کے دوران سندھ میں ایڈز پر مکمل ضابطے کا اعلان کیا تھا۔ اس پروگرام میںصوبائی پروگرام منیجر نے صوبہ میں ایڈز پر کنٹرول کے لیے کیے گئے اقدامات اور کارآمد منصوبہ سازی پر تفصیلی بریفنگ بھی دی ۔ جس کے بعد ہی وزیر اعلیٰ نے یہ اعلان کیا ۔ جس سے اس پروگرام کی عالمی فنڈنگ کم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ، پھر اعلان کے محض 10دن بعد اچانک بڑے پیمانے پر ایڈز سے متاثرہ مریضوں کا ملنا شاید عالمی فنڈنگ حاصل کرنے کا بہانا ہو۔
جس کی ایک مثال یہ ہے کہ مریضوں کے ظاہر ہونے کی رپورٹس کے بعد حکومت سندھ نے فوری طور پر 8کروڑ روپے فنڈ جاری کردیا ہے، جب کہ عالمی ادارہ صحت (WHO)، سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام اور آغا خان یونیورسٹی اسپتال سمیت پبلک پرائیوٹ ادارے حرکت میں آگئے ہیں ۔ لیکن اگر اس بات میں سچائی ہونے نہ ہونے کو سائیڈ پر بھی رکھا جائے ،تو بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ پروگرام ملک بالخصوص صوبہ سندھ میں بجا طور پر کام کررہے تھے ۔چلیں باقی تمام باتوں کو چھوڑ کر صرف یہ سوال کرتے ہیں کہ ایڈز ظاہر ہونیوالے علاقوں میں انھوں نے HIVٹیسٹ کیے تھے ؟ وہاں پر اُن کے یونٹ کا بجٹ کہاں خرچ ہوا؟ اور وزیر اعلیٰ کو ایڈز سے پاک سندھ کی رپورٹ کس نے اور کیوں دی ؟ اور اگر دی تو پھر یکایک یہ مریض کہاں سے پیدا ہوگئے ؟
یہ اور ایسی کئی باتیں ہیں جو پیپلز پارٹی کے سربراہ کے خاندان سے وابستہ طاقتور فرد کی وزارت کے ماتحت محکمہ صحت سے لے کر ایڈز کنٹرول پروگرام کی انتظامیہ کی کارکردگی اور اہلیت پر سوالیہ نشان لگا رہی ہیں ۔پھر حیرت کی بات ہے کہ ملاوی آفریقاسمیت دیگر براعظموں میں ایڈز پر کنٹرول میںکامیاب رہنے والے اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ ، محکمہ صحت کے کنسلٹنٹ پی ایچ ڈی ہولڈر ڈاکٹر گل منیر وسطڑو بھی یہاں اتنے لاعلم اور ناکام نظر آتے ہیں کہ میڈیا میں رپورٹس آنے کے بعد اُنہیں اس مرض کی شدت سے موجودگی کا علم ہوتا ہے اور پھر وہ پُھرتی دکھاتے ہوئے پبلک پرائیوٹ اداروں کے ماہر ڈاکٹروں کی ٹیمیں لے کر متاثرہ علاقوں میں ہنگامی بنیادوں پر کام کرتے نظر آتے ہیں ۔ وہ یہ کام اور یہ پُھرتی اس مرض سے متاثرہ علاقوں میں پہلے دکھاتے تو شاید آج میڈیا میں دو بچوں کی ہلاکت اور 200سے زیادہ مریضوں کے اعداد و شمار نہیں چھپتے بلکہ اس مرض پر قابو پانے کے لیے اُن کی کوششوں کی اعزازی داستان شایع ہوتی نظر آتی ۔!
آئیے دیکھتے ہیں یہ ایڈز ہے کیا اور یہ کب پھیلی ؟ ایڈز دنیا میں پہلی بار 1980کے آغاز میں تشخیص ہوئی اور اِ سے ''ایک خاموش قاتل '' قرار دیا گیا۔اس مرض سے دنیا میں اب تک ڈھائی کروڑ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، جب کہ آج دنیا بھر میں تقریباً 4کروڑ اور 20لاکھ لوگ اس سے متاثر ہیں ۔ اس کے خاتمے کے لیے اقوام ِ متحدہ کی جانب سے ایک پروگرام کا آغاز کیا گیا، جس کے تحت دنیا میں عمومی طور پر اور بالخصوص ترقی پذیر ممالک کو فنڈنگ بھی کی جانے لگی، جب کہ اس مرض سے متعلق آگاہی اور علاج کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے عالمی سطح پر ایک دن منانے کااعلان بھی کیا گیااور یوں یکم دسمبر کو ایڈز کا عالمی دن قرار دیا گیا ۔ 1981میں تشخیص ہونیوالے اس مرض کے ضابطے پر اب تک کھربوں ڈالر خرچ کیے جاچکے ہیں لیکن اب تک اس پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے ۔ اقوام متحدہ نے دنیا سے اس مرض کے یقینی خاتمے کے لیے 2030کا سال مقرر کیا ہے لیکن ہم اور ہمارے جیسے دیگر ترقی پذیر ممالک کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ ممکن ہوتا نہیں لگ رہا ۔ویسے بھی ایسے ملک میں اتنی بڑی بیماری پر یقینی کنٹرول کی شرح کیا ہوسکتی ہے ، جہاںجعلی ادویات کی روک تھام،سرکاری اسپتالوں کی فعالیت اور عطائی ڈاکٹر کے کلینک تک بند کرانے کے عمل کی شرح ہی صفر ہو۔!پھرجس ملک کا حکمران روحونیت (روحانیت) کو ہی سپر سائنس سمجھ کر ''جدید عمومی سائنس '' کے علم کی تضحیک اُڑاتا ہو، اُس ملک میں بھلا ''عمومی سائنس'' کے ایک شعبے میڈیکل سائنس پر کیا توجہ دی جاتی ہوگی ؟ شاید اسی لیے پاکستان اس وقت تقریباًڈیڑھ لاکھ کے قریب HIV /ایڈز سے متاثرہ افراد کی تعدادکے ساتھ ایشیا میں دوسرے نمبر پر ہے ۔ جب کہ سندھ میں متاثرہ مریضوں کی تعداد 56ہزار بتائی جاتی ہے ۔ عالمی سطح پر پاکستان کو ایڈز پھیلانے کے مواقع فراہم کرنے والا ملک قرار دیا گیا ہے ، جس کے اسباب : کم شرح ِ تعلیم ، بیماری سے متعلق خاموشی اور انکاری رویہ اختیار کرنا، صحت اور تعلیم پر کم بجٹ صرف کرنا ،بڑی تعداد میں اندرونی و بیرونی طور پر مہاجرین کی موجود تعداد و نقل مکانی ، غربت اور صنف کی عدم مساوات اور اس بیماری سے متعلق آگاہی کی کمی وغیرہ شامل ہیں ۔
سندھ کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ سندھ اس وقت ایسا مظلوم صوبہ ہے ، جو صرف صحت کے مسائل سے ہی نہیں بلکہ انتظامی ، سیاسی و جغرافیائی مسائل کا بھی بڑے پیمانے پر شکار ہے ۔ یہاں کی منتخب حکومت مسائل کو حل کرنے اور اپنے عوام کے لیے تسلی بننے کے بجائے اُن کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے میں اغیار کی سانجھی بنی ہوئی ہے۔ ایسے میں سندھ کو ضرورت ہے ایک ایسے مسیحا کی جو عوام کے سرپر شفقت و ممتا کا ہاتھ رکھے اور تحفظ کے احساس کے ساتھ ساتھ اُن کے لیے دھوپ میں چھاؤں اور درد میں دوا بن جائے ۔ جب کہ اگر صحت کے شعبے کی بات کی جائے تو یہاں ہیپا ٹائٹس ، پولیو اور دیگر وبائی امراض پر سالوں سے بجٹ اور وسائل خرچ کرنے کے بعد بھی اگر ناکامی نصیب ہورہی ہے تو اس میں ڈاکٹر'' رُتھ فاؤ'' جیسے پُرعزم اور خود کو وقف کرنے والے مسیحائی کردار کے حامل ڈاکٹرز کی کمی ہے ۔ اس لیے سندھ اس وقت ڈاکٹر'' رُتھ فاؤ ''جیسے کسی مسیحاکا منتظر ہے ۔بس دیکھنا یہ ہے کہ وہ مسیحا مقامی سطح سے اُبھرتا ہے یا پھر 1956کی طرح پھر سے کوئی باہر سے آکر ہمارا مسیحا بنتا ہے ۔!