بہو کا اپنی ساس کے نام محبت بھرا خط
جب میں اس نئے گھر میں آئی تو احساس ہوا کہ آپ کے ساتھ رہتے ہوئے کتنی بے فکری، آزادی اور آسانی تھی۔
پیاری امی جان،
السلام علیکم
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گی۔ یہاں بھی سب خیریت ہے، بچے آپ کو بہت یاد کرتے ہیں۔ بچوں اور گھر کے کاموں میں اتنی مصروف ہوگئی ہوں کہ آپ سے تفصیل سے بات نہیں کر پا رہی۔
امی جان! دنیا آج ماؤں کا عالمی دن منارہی ہے۔ سوچا اس موقع پر آپ سے خط کے ذریعے باتیں کروں۔ آپ کہتی تھیں کہ ہمیں یہ دن منانے کی بھلا کیا ضرورت ہے، مگر امی جان! آج میں وہ کہنا چاہتی ہوں جو کبھی نہیں کہہ پائی۔
اتنے برس اکٹھے رہنے کے بعد جب میں اس نئے گھر میں آئی تو احساس ہوا کہ آپ کے ساتھ رہتے ہوئے کتنی بے فکری، آزادی اور آسانی تھی۔ اب تو ذرا ذرا سی بات اور چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے ہلکان ہونا پڑتا ہے، سب دیکھنا اور ہر بات کی فکر رہتی ہے۔ بچے گرمی کے دنوں آپ کے پاس آپ کے کمرے میں بیٹھے رہتے، آپ کو آرام کرنا مشکل ہوجاتا تھا مگر کبھی منع نہیں کرتی تھیں، بچوں کے سَر میں تیل ڈالتیں، ان کے بال سنوار دیتی تھیں۔ مجھے تو پتا بھی نہیں چلتا تھا، کتنے ہی کام آپ کی وجہ سے آسان ہو جاتے تھے۔ آپ ہی کی وجہ سے بچوں کو بازار یا کسی تقریب میں اگر نہ جانا ہوتا تو یہ فکر نہ ہوتی کہ کہاں چھوڑیں گے، ان کا کھانا پینا کون کرے گا۔ آپ میرے آرام کا خیال رکھتی تھیں، لیکن شاید میں اسے سمجھ نہیں پائی۔
کبھی مجھے محسوس ہوتا تھا کہ آپ لاڈ پیار سے بچوں کو بگاڑ رہی ہیں، لیکن درحقیقت آپ نے وہ تربیت کی ہے جو میں نہیں کرسکتی تھی۔ آج سب میرے بچوں کی تعریف کرتے ہیں جو آپ کی محبت و شفقت کا نتیجہ ہے۔
یہاں سب میرے کھانوں کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ امی جان! آپ کا بہت شکریہ۔ کھانے کی تراکیب سے لے کر پکانے کے طریقے تک ہر مرحلے پر آپ نے میری راہ نمائی کی۔ میں جو ایک کم عمر، لاابالی سی لڑکی تھی، اسے آپ نے ایک ذمے دار عورت بنایا۔
امی جان! سچ بتاؤں تو شادی کے بعد ابتدائی دنوں میں آپ کا سمجھانا، سکھانا جس میں میری بہتری پوشیدہ تھی، مجھے ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ ساس کا ایک ایسا خاکہ میرے ذہن میں تھا کہ آپ کی محبت کو بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھتی رہی۔ جب کہ آپ نے ماں بن کر میرا خیال رکھا، آپ نے اپنا آرام قربان کر کے میرے بچوں کو سنبھالا، بہت سے کام نمٹا دیے تاکہ میں آرام کرسکوں۔
باجی، آپا جان وغیرہ جب ہمارے گھر آتیں تب بھی آپ کھانے کی تیاری میں میری مدد کرتی تھیں۔ آپ نے پکوان میں مجھے اتنا ماہر کردیا کہ اب میں بڑی دعوتیں بھی باآسانی کرلیتی ہوں۔ آپ نے اپنی بردباری سے اتنے بڑے کنبے کو جس طرح جوڑے رکھا سب اس کی مثال دیتے ہیں۔ رشتوں کو جوڑے رکھنے اور نبھانے کا فن بھی امی جان آپ ہی نے مجھے سکھایا ہے۔ نئے گھر میں شفٹ ہونا مجبوری تھی۔ میں دیکھتی تھی کہ میرے شوہر دفتر سے گھر آتے ہی سب سے پہلے آپ سے ملتے، چند منٹ ساتھ بیٹھتے، طبیعت پوچھتے تو جیسے ان کو عجیب سی خوشی ہوتی اور سکون مل جاتا۔ اب یہ بھی خالی پن محسوس کرتے ہیں، بچے بھی آپ کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ یہاں بوریت محسوس کرتے ہیں۔ مجھے یہ سب دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے، مگر کیا کروں مجبوری ہے۔
پیاری امی جان! آج ماؤں کا دن ہے اور اس موقع پر میں آپ سے اپنی نادانیوں اور کوتاہیوں کی معافی بھی چاہتی ہوں، مجھے معاف کردیجیے گا اور دعاؤں میں یاد رکھیے گا ۔
اچھا، اب اجازت دیں۔ اور اپنا بہت بہت خیال رکھیے، پھر بات ہوگی۔
آپ کی بیٹی
السلام علیکم
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گی۔ یہاں بھی سب خیریت ہے، بچے آپ کو بہت یاد کرتے ہیں۔ بچوں اور گھر کے کاموں میں اتنی مصروف ہوگئی ہوں کہ آپ سے تفصیل سے بات نہیں کر پا رہی۔
امی جان! دنیا آج ماؤں کا عالمی دن منارہی ہے۔ سوچا اس موقع پر آپ سے خط کے ذریعے باتیں کروں۔ آپ کہتی تھیں کہ ہمیں یہ دن منانے کی بھلا کیا ضرورت ہے، مگر امی جان! آج میں وہ کہنا چاہتی ہوں جو کبھی نہیں کہہ پائی۔
اتنے برس اکٹھے رہنے کے بعد جب میں اس نئے گھر میں آئی تو احساس ہوا کہ آپ کے ساتھ رہتے ہوئے کتنی بے فکری، آزادی اور آسانی تھی۔ اب تو ذرا ذرا سی بات اور چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے ہلکان ہونا پڑتا ہے، سب دیکھنا اور ہر بات کی فکر رہتی ہے۔ بچے گرمی کے دنوں آپ کے پاس آپ کے کمرے میں بیٹھے رہتے، آپ کو آرام کرنا مشکل ہوجاتا تھا مگر کبھی منع نہیں کرتی تھیں، بچوں کے سَر میں تیل ڈالتیں، ان کے بال سنوار دیتی تھیں۔ مجھے تو پتا بھی نہیں چلتا تھا، کتنے ہی کام آپ کی وجہ سے آسان ہو جاتے تھے۔ آپ ہی کی وجہ سے بچوں کو بازار یا کسی تقریب میں اگر نہ جانا ہوتا تو یہ فکر نہ ہوتی کہ کہاں چھوڑیں گے، ان کا کھانا پینا کون کرے گا۔ آپ میرے آرام کا خیال رکھتی تھیں، لیکن شاید میں اسے سمجھ نہیں پائی۔
کبھی مجھے محسوس ہوتا تھا کہ آپ لاڈ پیار سے بچوں کو بگاڑ رہی ہیں، لیکن درحقیقت آپ نے وہ تربیت کی ہے جو میں نہیں کرسکتی تھی۔ آج سب میرے بچوں کی تعریف کرتے ہیں جو آپ کی محبت و شفقت کا نتیجہ ہے۔
یہاں سب میرے کھانوں کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ امی جان! آپ کا بہت شکریہ۔ کھانے کی تراکیب سے لے کر پکانے کے طریقے تک ہر مرحلے پر آپ نے میری راہ نمائی کی۔ میں جو ایک کم عمر، لاابالی سی لڑکی تھی، اسے آپ نے ایک ذمے دار عورت بنایا۔
امی جان! سچ بتاؤں تو شادی کے بعد ابتدائی دنوں میں آپ کا سمجھانا، سکھانا جس میں میری بہتری پوشیدہ تھی، مجھے ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ ساس کا ایک ایسا خاکہ میرے ذہن میں تھا کہ آپ کی محبت کو بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھتی رہی۔ جب کہ آپ نے ماں بن کر میرا خیال رکھا، آپ نے اپنا آرام قربان کر کے میرے بچوں کو سنبھالا، بہت سے کام نمٹا دیے تاکہ میں آرام کرسکوں۔
باجی، آپا جان وغیرہ جب ہمارے گھر آتیں تب بھی آپ کھانے کی تیاری میں میری مدد کرتی تھیں۔ آپ نے پکوان میں مجھے اتنا ماہر کردیا کہ اب میں بڑی دعوتیں بھی باآسانی کرلیتی ہوں۔ آپ نے اپنی بردباری سے اتنے بڑے کنبے کو جس طرح جوڑے رکھا سب اس کی مثال دیتے ہیں۔ رشتوں کو جوڑے رکھنے اور نبھانے کا فن بھی امی جان آپ ہی نے مجھے سکھایا ہے۔ نئے گھر میں شفٹ ہونا مجبوری تھی۔ میں دیکھتی تھی کہ میرے شوہر دفتر سے گھر آتے ہی سب سے پہلے آپ سے ملتے، چند منٹ ساتھ بیٹھتے، طبیعت پوچھتے تو جیسے ان کو عجیب سی خوشی ہوتی اور سکون مل جاتا۔ اب یہ بھی خالی پن محسوس کرتے ہیں، بچے بھی آپ کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ یہاں بوریت محسوس کرتے ہیں۔ مجھے یہ سب دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے، مگر کیا کروں مجبوری ہے۔
پیاری امی جان! آج ماؤں کا دن ہے اور اس موقع پر میں آپ سے اپنی نادانیوں اور کوتاہیوں کی معافی بھی چاہتی ہوں، مجھے معاف کردیجیے گا اور دعاؤں میں یاد رکھیے گا ۔
اچھا، اب اجازت دیں۔ اور اپنا بہت بہت خیال رکھیے، پھر بات ہوگی۔
آپ کی بیٹی