آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج 2 سال بدترین مہنگائی رہے گی
عارف حبیب گروپ کے ڈائریکٹر ریسرچ سمیع اﷲ طارق کی ’’ ایکسپریس‘‘ سے گفتگو
LOS ANGELES:
عارف حبیب گروپ کے ڈائریکٹر ریسرچ سمیع اللہ طارق نے کہا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے کڑی شرائط پر8ارب ڈالرکے بیل آؤٹ پیکیج پر رضامندی سے جہاں پاکستان کے لیے دنیابھر کی مالیاتی مارکیٹیں کھلیں گی وہیں پاکستان کے عوام کو آئندہ ڈیڑھ سے 2 سال بدترین مہنگائی کا سامناکرنا پڑے گا۔
سمیع اﷲ طارق نے ایکسپریس سے بات چیت کے دوران کہا کہ مختلف اہم نوعیت کی کموڈٹیز اورخام تیل کی عالمی قیمتیں اگر قابو میں رہیں تویہ ملکی معیشت کے لیے بہترثابت ہوںگی جس سے رواں سال اور آئندہ سال افراط زر کی شرح 10فیصد پر مستحکم رہے گی اور مہنگائی کی شرح میں اضافہ بھی کنٹرول میں رہے گا۔
انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17فیصد سے بڑھاکر18فیصد کرنے کے علاوہ ہر شعبے پر عائد ٹیکس کی شرح بڑھانے جیسی شرائط پر عمل درآمد مجبوری ہے کیونکہ حکومت کے پاس کوئی متبادل راستہ نہیں ہے۔ جی ایس ٹی سمیت دیگرشعبوں پر ٹیکس کی شرح میں اضافے سے روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں بڑھیں گی اس طرح سے یہ اقدامات عوام کے لیے غیر معروف ہوںگے جوان اقدامات کی ذمے دار موجودہ حکومت کو ٹھیرائیں گے۔
سمیع اﷲ طارق نے کہا کہ آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کے بعد ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سلسلہ رک جائے گا تاہم حکومت کو بھی اپنے نظام کو چلانے کے لیے سینٹرل بینک سے قرضوں کے حصول کے نظام کو بہتربنانا پڑے گاکیونکہ گذشتہ ایک سال کے دوران مرکزی بینک سے حکومت نے3200ارب روپے کے قرضے حاصل کیے اس طرح سے حکومتی قرضوں کا مجموعی حجم بڑھ کر6800 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ قرضہ کنٹرول کرنے کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ کرنا پڑے گا۔
عارف حبیب گروپ کے ڈائریکٹر ریسرچ سمیع اللہ طارق نے کہا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے کڑی شرائط پر8ارب ڈالرکے بیل آؤٹ پیکیج پر رضامندی سے جہاں پاکستان کے لیے دنیابھر کی مالیاتی مارکیٹیں کھلیں گی وہیں پاکستان کے عوام کو آئندہ ڈیڑھ سے 2 سال بدترین مہنگائی کا سامناکرنا پڑے گا۔
سمیع اﷲ طارق نے ایکسپریس سے بات چیت کے دوران کہا کہ مختلف اہم نوعیت کی کموڈٹیز اورخام تیل کی عالمی قیمتیں اگر قابو میں رہیں تویہ ملکی معیشت کے لیے بہترثابت ہوںگی جس سے رواں سال اور آئندہ سال افراط زر کی شرح 10فیصد پر مستحکم رہے گی اور مہنگائی کی شرح میں اضافہ بھی کنٹرول میں رہے گا۔
انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17فیصد سے بڑھاکر18فیصد کرنے کے علاوہ ہر شعبے پر عائد ٹیکس کی شرح بڑھانے جیسی شرائط پر عمل درآمد مجبوری ہے کیونکہ حکومت کے پاس کوئی متبادل راستہ نہیں ہے۔ جی ایس ٹی سمیت دیگرشعبوں پر ٹیکس کی شرح میں اضافے سے روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں بڑھیں گی اس طرح سے یہ اقدامات عوام کے لیے غیر معروف ہوںگے جوان اقدامات کی ذمے دار موجودہ حکومت کو ٹھیرائیں گے۔
سمیع اﷲ طارق نے کہا کہ آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کے بعد ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سلسلہ رک جائے گا تاہم حکومت کو بھی اپنے نظام کو چلانے کے لیے سینٹرل بینک سے قرضوں کے حصول کے نظام کو بہتربنانا پڑے گاکیونکہ گذشتہ ایک سال کے دوران مرکزی بینک سے حکومت نے3200ارب روپے کے قرضے حاصل کیے اس طرح سے حکومتی قرضوں کا مجموعی حجم بڑھ کر6800 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ قرضہ کنٹرول کرنے کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ کرنا پڑے گا۔