سارے رنگ
کیا پھر ’’چاند رات‘‘ بھی دَم توڑ دے گی۔۔۔؟
نانی ماں۔۔۔ میرے ناز اٹھائو ناں۔۔۔!
محمد علم اللہ (نئی دلی)
یہ یادیں بھی بڑی عجیب ہیں، کبھی کوئی تازہ بات یاد نہ آئے گی اور کبھی بہت پرانی یادوں کا طویل سلسلہ چل نکلے گا۔ جب میری نگاہ اپنی ڈائری میں مرحومہ نانی اماں پر لکھے گئے الفاظ پرگئی تو یادوں کا ایک پٹارا کھل گیا۔ میری نانی کا انتقال تقریبا آٹھ برس قبل ہوا۔
''رفتہ رفتہ/ تیرا چہرا/ کہیں دور کھو جاتا ہے/ مگر آنکھوں میں تیرا عکس اب بھی باقی ہے۔۔۔!'' یہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ ایک سات آٹھ سال کے بچے کے ہیںِ، جس میں اُس کا درد پنہاں ہے، جسے اس نے اپنے انداز میں اپنے دکھ کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن آج اتنے دن بعد بھی میں چشم تصور سے دیکھ سکتا ہوں۔۔۔ وہ میرے سامنے ہی جلی حرف والا تقطیع سائز کا قران مجید رحل پر لیے بیٹھی انتہائی پر سوز آواز میں تلاوت کر رہی ہیں۔
میری آنکھوں میں جاڑوں کا منظر اُجل جاتا ہے، ایک بڑی سے کڑاہی کے نیچے لکڑیاں سلگ رہی ہیں، دھوئیں کے مرغولے فضا میں غالب ہیں، اس کی جھانج سے آنکھیں اَشک بار ہیں، لیکن گھر بھر اس کے گرد جما بیٹھا دنیا جہاں کے قصوں میں مصروف ہے۔۔۔ اور نانی اماں گفتگو میں ٹکڑے بھی لگا رہی ہیں اور مٹر کی پھلیاں بھی تل رہی ہیں۔
کبھی اس حلقے میں شکر قندی بھنی جا رہی ہے، تو کبھی نہاری اور پائے گرم کیے جا رہے ہیں اور سارا 'کُٹم' نانی اماں کے گرد گھیرا ڈالے ان کے ہاتھ کے لذیذ پکوان سے لطف اٹھا رہا ہے۔
پھر مجھے تیوہار یاد آتے ہیں۔۔۔ مہمان آنے والے ہیں، تو نانی اماں پیشانی پر کوئی شکن لائے بغیر، شاداں وفرحاں ان کی راہ تک رہی ہیں۔ گھر کی ڈیوڑھی پر غریب وناداروں کی آوا جاہی لگی ہوئی ہے اور نانی سب کو کچھ نہ کچھ دے رہی ہیں۔ کام کرنے والیاں واپس جا رہی ہے، تو ڈھیر ساری سبزیاں، اشیائے خور دو نوش اور بچوں کے کھانے کے لیے چیزیں اس کے جھولے میں ڈالی جا رہی ہیں۔ جس پر ماموں کچھ خفا بھی ہوتے۔
یادوں کے پردے پر ایک اور منظر ابھرتا ہے، میں گلی سے دیکھتا ہوں، نانی اماں دروازے کی اوٹ سے لگی ہوئی ہیں، مدرسے کے چھوٹے بچوں اور ضرورت مند راہ گیر وں کی منتظر ہیں کہ ابھی کوئی اِدھر سے گزرے اور وہ آواز دے کر اُسے کچھ نہ کچھ تھما دیں۔
چلچلاتی گرمیاں ہیں، تربوز، آم، امرود اور لیچی کا دور چل رہا، سارے بچوں کا محور نانی اماں ہی ہیں، وہ بڑے چائو سے پھل چھیلتی جا رہی ہیں اور باری باری سب کو قاشیں دے رہی ہیں۔ کچھ بچے کسی بات پر رو دیے، تو نانی انہیں چپ کرا نے کو بے کل ہوئی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ادھر بیل اور آم کے شربت کے لیے ہدایات دے رہی ہیں،کہ دیکھنا، شکر بس اتنا ہو اور پانی کی مقدار اس طرح رہے۔ ابھی گلی میں 'سِل، بٹّا' (مسالا پیسنے کے مخصوص پتھر) 'بنانے' والے کی آواز آئی ہے اور وہ یوں اُسے پانی پلانے کو دوڑیں کہ اُن کا کوئی عزیز مہمان آگیا ہو۔
میں اپنے ہاسٹل کے تکلیف دہ ماحول سے بھاگ کر نانی اماں کے گھر پر پناہ لیتا، وہ میری تواضع میں جُت جاتیں، انہوں نے اپنے پوتے پوتیوں سے بچا کر مٹھائی یا اور کوئی چیز میرے لیے رکھی ہوتیں۔ وہ مجھے ابو کی پٹائی سے بچاتیں، میں جب ہاسٹل نہ جانے کی ضد کرتا، رونے لگتا تو نانی بھی میرے ساتھ رو دیتیں۔۔۔ پھر ابو سے مجھے ہاسٹل نہ بھیجنے کی سفارش کر ڈالتیں، لیکن نانی کا کہنا بھی کچھ کام نہ آتا اور مجھے ہاسٹل جانا پڑتا! مجھے وہ منظر بھی یاد ہے، جب میں پہلی بار ہاسٹل کے لیے نکل رہا تھا اور نانی کی آنکھیں ڈبڈبا رہی تھیں، وہ بار بار اپنے دوپٹے کے پلو سے آنسو پونچھتیں اور دعائیں دیتی جاتی تھیں۔
نانی اماں کے انتقال کے چھے سال بعد آج دلی کے پر شور ماحول میں جب اُن کا نواسا یہ الفاظ لکھ رہا ہے، تو اسے بالکل ویسا ہی محسوس ہو رہا ہے، جیسے ابھی وہ ہاسٹل میں ہے اور بھاگ کے ابھی نانی اماں کے گھر پہنچ جائے گا اور نانی اس کے خوب ناز اٹھائیں گی۔ وہ سوچ رہا ہے، نانی کا یہ نواسا اگرچہ بڑا ہو گیا ہے، لیکن مناسب نوکری نہ ملنے اوراب تک ایسے ہی پردیس کی زندگی اور تلخ تجربات کے بارے میں نانی اماں کو بتائے گا، تو وہ تسلی دیں گی اور دنیا جہاں کے قصے سنا کر دل جوئی کریں گی۔
مگر یک دم یہ سارے مناظر ویران ہوئے جاتے ہیں، آج یہ نواسا اگر کچھ دیر کو غم روزگار بھلا کر بچہ بن بھی جائے تو مٹی کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سو جانے والی نانی ماں کو کہاں سے ڈھونڈ کر لائے۔۔۔ ان کی بے کراں محبت تو اب قصہ پارینہ ہوئی، دائمی ہجر کی تلخی دور تلک کسی اندھیارے کی صورت پھیلتی محسوس ہوتی ہے۔ مَن میں ایک ٹیس سی اٹھتی ہے، پلکیں ڈبڈبائی جاتی ہیں، ساون بھادوں کا ایک ریلا سا ہے، جسے اب پلکوں پر روکے رکھنا مشکل ہوئے جا رہا ہے۔
۔۔۔
صرف کھاتا پیتا ہوں لیکن 'روزے' سے ہوں۔۔۔!
سارہ شاداب، لانڈھی، کراچی
کچھ نوجوانوں نے دیکھا، ایک بوڑھا چپکے سے کچھ کھانے میں مشغول ہے۔ ایک نوجوان نے نزدیک جا کر پوچھا:
''چچا جان! کیا آپ نے روزہ نہیں رکھا؟''
بوڑھے نے جواب دیا:
''کیوں نہیں، میں نے روزہ رکھا ہوا ہے، صرف پانی پیتا ہوں اور کھانا کھاتا ہوں۔''
نوجوان ہنس پڑے اور بولے ''کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟''
بوڑھے نے کہا: ''ہاں میں جھوٹ نہیں بولتا۔۔۔ کسی پر بری نگاہ نہیں ڈالتا۔۔۔ کسی کو گالی نہیں دیتا۔۔۔ کسی کا دل نہیں دکھاتا۔۔۔ کسی سے حسد نہیں کرتا۔۔۔ مالِ حرام نہیں کھاتا اور اپنی ذمے داریاں اور فرائض دیانت داری سے انجام دیتا ہوں، لیکن چوںکہ مجھے شدید بیماری لاحق ہے، اس لیے میں اپنے معدے کو روزے دار نہیں بنا سکتا۔''
پھر اس بوڑھے آدمی نے ان نوجوانوں سے پوچھا :
کیا آپ بھی روزہ دار ہیں؟
ان میں سے ایک نوجوان نے سر جھکائے ہوئے آہستگی سے جواب دیا:
''نہیں، ہم صرف کھانا نہیں کھاتے۔۔۔!''
۔۔۔
کیا پھر ''چاند رات'' بھی دَم توڑ دے گی۔۔۔؟
وفاقی وزارت اطلاعات میں تشویش کی بہت سی لہریں دوڑانے کے بعد اِن دنوں فواد چوہدری صاحب، سائنس وٹیکنالوجی کا قلم دان سنبھالے ہوئے ہیں، ماہ صیام کی آمد کے موقع پر موصوف نے 'رویت ہلال' یعنی چاند دیکھنے کے روایتی سلسلے پر بات کر ڈالی، اور کہا کہ طے شدہ ہجری کلینڈر کے ذریعے اس طرح چاند دیکھے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ جس پر ہماری 'رویت ہلال کمیٹی' کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن سمیت بہت سے حلقوں نے تنقید کی۔
دوسری طرف بہت سے لوگ فواد چوہدری کے حامی بھی سامنے آئے، جب کہ ہم ہر دو موقف پر کچھ کہے بغیر صرف چاند کی دِید سے جڑی اس روایت میں کھو کر رہ گئے۔۔۔ ابھی زیادہ پرانی بات تو نہیں نا، جب ہم بھی بچے ہوا کرتے تھے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہر سال شعبان اور رمضان کی 29 ویں تاریخ کو باقاعدہ یہ ایک 'موقع' ہوتا تھا، جس کا انتظار کیا جاتا اور پھر نوعمر لڑکے باقاعدہ چاند دیکھنے کا اہتمام کیا کرتے تھے کہ اس بار فلاں مسجد کی چھت پر چاند دیکھنے جائیں گے۔۔۔ اسی سبب اکثر نمازوں سے غافل رہنے والے بچے ٹولیوں کی صورت میں نماز مغرب کے لیے مختلف مساجد کا رخ کرتے۔۔۔ اور نماز کے بعد اتنظار کرتے کہ کب مسجد کا خادم یا موذن سیڑھیوں کا تالا کھولے اور وہ مسجد کی چھت پر جا کر 'ہلال' کو ڈھونڈا کیے۔۔۔
حالاں کہ شاید ہی کبھی 29 کا چاند یوں دکھائی دیا ہو۔۔۔ سنتے تھے کہ 29 کا چاند مغرب کے بعد بہت مختصر سے وقت تک ہی دکھائی دیتا ہے، پھر بھی ایک لگن ہوتی تھی کہ شاید دکھائی دے جائے۔۔۔ بچوں کی ہمیشہ خواہش ہوتی تھی کہ رمضان ہو یا عید، بس کل ہی ہو جائے۔۔۔ پرسوں تک کا انتظار تو بہت پہاڑ معلوم ہوتا تھا، اور جب 29 ویں کو عید کا چاند دکھائی دے گیا، تو پھر 'چاند رات' کہاں کٹتی تھی۔۔۔ اب اگر عیسوی کی طرح ہجری تقویم بھی جاری ہوگئی تو عملاً 'چاند رات' کا تو کریا کرم ہو ہی جائے گا۔ بھئی جب پہلے سے پتا ہو کہ عید یا رمضان فلاں دن ہے، تو پھر ایک دن پہلے کو آپ کہنے کو 'چاند رات' کہہ لیں، لیکن وہ دیر تک کا اضطراب کہ خبر نہیں کہ آج چاند رات ہے بھی یا نہیں، وہ بات نہیں آسکے گی۔
آپ کو چاہے ہماری یہ باتیں کتنی ہی 'دقیانوسی' یا ''غیر سائنسی'' لگے، لیکن وہ جو رمضان اور عید کے آج یا کل ہونے کے بیچ کا لطف ہے، اُس کی کشش ہی کچھ ایسی ہے، کہ ہم یہ سب لکھنے پر مجبور ہو گئے اور اگر کبھی پہلے 29 کا چاند نہیں بھی ہوتا تھا، تب بھی اگلے دن کے یقینی چاند دیکھنے کے لیے بھی مساجد اور بلند عمارتوں کی چھتوں پر جمگھٹا لگ جاتا تھا۔۔۔ اور اب یقینی چاند کا تو یہ حال ہے کہ اس 30 شعبان کو ہمیں بھی مغرب کی سمت رخ کر کے یوں ہی چاند دیکھنا یاد نہ رہا۔۔۔ورنہ پہلے یہ ہماری ایک عادت سی تھی۔۔۔
۔۔۔
ناصر کاظمی اور بنگلا سرزمین
مرسلہ: سید اظہر علی، گلشن اقبال
گھروں میں، محفلوں میں، جلسوں میں سوگ کی فضا تھی اور ناصر کاظمی کی حالت بگڑتی چلی جا رہی تھی۔ یکم مارچ 1972 کو صبح منہ اندھیرے جب ابھی چڑیوں نے بولنا شروع کیا تھا، وہ درختوں اور چڑیوں کی اس دنیا سے سدھار گیا۔ پاکستان اور ناصر چند مہینوں کے فرق سے بس آگے پیچھے گئے۔ یعنی وہ پاکستان جس میں، میں نے 1947ء کے آتے جاڑوں آکر قدم رکھا تھا اور بنگالی جس کا جزو لاینفک تھے اور اس نئے ملک کی اکثریت تھے، اب جو پاکستان تھا وہ تو بھٹو صاحب کے دیے ہوئے نام کے مطابق 'نیا پاکستان' تھا اور اب مجھے یاد آرہا ہے کہ ناصر جب ڈھاکا اور ڈھاکا کے آس پاس کی بستیوں میں گھوم پھر کر واپس آیا تو کتنا گرم جوش نظر آرہا تھا لگتا تھا کہ اس ہری بھری دھرتی نے اس کے تخیل کو نئے سرے سے تازہ کردیا ہے اور اس نے کس درد سے اس سرزمین کو یاد کیا:
جنت کے ماہی گیروں کی
ٹھنڈی رات جزیروں کی
سبز سنہرے کھیتوں پر
پھواریں سرخ لکیروں کی
اس بستی سے آتی ہیں
آوازیں زنجیروں کی
(انتظار حسین کی کتاب ''چراغوں کا دھواں'' سے انتخاب)
۔۔۔
''میں نے اِسے رکاوٹ نہیں جانا۔۔۔''
مرسلہ: اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
میں نے پوری زندگی اس مقصد کے لیے وقف کر دی ہے کہ میں عملی طور پر یہ ثابت کر دوں کہ پردے کی حدود میں رہتے ہوئے بھی علم و عمل کی وسعتیں اپنے دامن میں سمیٹی جا سکتی ہیں۔ میں نے عملی، دینی، سماجی ، تہذیبی اور سیاسی الغرض ہر شعبۂ زندگی میں حصہ لیا۔ انجمنیں چلائیں اور ملک کے اندر اور باہر کانفرنسوں میں شمولیت کی اور ڈٹ کر اپنے موقف کے حق میں تقریریں کرتی رہی۔ میں نے اورنٹیل کانفرنس لاہور منعقدہ 1956ء میں نہایت اہم کردار ادا کیا تھا۔ میں نے اسی نقاب کے ساتھ بے شمار ممالک کی سیر کی، وہاں کے ذہین طبقوں سے خطاب کیا اور اپنے دل کا درد ان کے اندر منتقل کرنے کا تجربہ کیا مگر یہ برقع میری راہ میں کبھی حائل نہیں ہوا جو خواتین اسے ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ تصور کرتی ہیں دراصل ان کے نزدیک ترقی کا مفہوم ہی دوسرا ہے۔ اگر ترقی سے مراد نسوانی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرکے معاشرے کی خواہشات کا کھلونا بننا ہے تو یقیناً پردہ ایسی ترقی کے راستے میں ایک سنگ گراں ہے، لیکن کیا اسلام ایسی ہی ترقی پسند عورت کی تخلیق کے لئے آیا تھا؟
(''ملاقاتیں کیا کیا'' از الطاف حسین قریشی میں ڈاکٹر مس خدیجہ فیروزالدین کی باتیں)
۔۔۔
صد لفظی کتھا
'رونق'
رضوان طاہر مبین
چنّو برسوں بعد پرانے محلے کی مسجد آیا، ثمر سے ملا، بولا:
''اپنی کالونی میں روزوں کے رنگ ہی الگ ہیں۔
نئے محلے میں رمضان کی وہ رونق نہیں۔۔۔!''
''ہاں یہ بات تو ہے۔۔۔'' ثمر نے کہا۔
پہلے یاد ہے، رمضان میں مسجد باہر صحن تک بھر جاتی تھی۔۔۔
پھر ہم سردی میں چھت پر صفیں بنواتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں؟''
چنّو نے پوچھا۔
''ہاں، اب بہت سے نمازی ہم سائے محلے کی مساجد چلے جاتے ہیں۔''
ثمر نے بتایا۔
''وہ کیوں؟'' چنو حیران ہوا۔
''وہاں کی مساجد میں 'اے سی' نصب ہیں نا۔۔۔!''
ثمر نے جواب دیا۔
محمد علم اللہ (نئی دلی)
یہ یادیں بھی بڑی عجیب ہیں، کبھی کوئی تازہ بات یاد نہ آئے گی اور کبھی بہت پرانی یادوں کا طویل سلسلہ چل نکلے گا۔ جب میری نگاہ اپنی ڈائری میں مرحومہ نانی اماں پر لکھے گئے الفاظ پرگئی تو یادوں کا ایک پٹارا کھل گیا۔ میری نانی کا انتقال تقریبا آٹھ برس قبل ہوا۔
''رفتہ رفتہ/ تیرا چہرا/ کہیں دور کھو جاتا ہے/ مگر آنکھوں میں تیرا عکس اب بھی باقی ہے۔۔۔!'' یہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ ایک سات آٹھ سال کے بچے کے ہیںِ، جس میں اُس کا درد پنہاں ہے، جسے اس نے اپنے انداز میں اپنے دکھ کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن آج اتنے دن بعد بھی میں چشم تصور سے دیکھ سکتا ہوں۔۔۔ وہ میرے سامنے ہی جلی حرف والا تقطیع سائز کا قران مجید رحل پر لیے بیٹھی انتہائی پر سوز آواز میں تلاوت کر رہی ہیں۔
میری آنکھوں میں جاڑوں کا منظر اُجل جاتا ہے، ایک بڑی سے کڑاہی کے نیچے لکڑیاں سلگ رہی ہیں، دھوئیں کے مرغولے فضا میں غالب ہیں، اس کی جھانج سے آنکھیں اَشک بار ہیں، لیکن گھر بھر اس کے گرد جما بیٹھا دنیا جہاں کے قصوں میں مصروف ہے۔۔۔ اور نانی اماں گفتگو میں ٹکڑے بھی لگا رہی ہیں اور مٹر کی پھلیاں بھی تل رہی ہیں۔
کبھی اس حلقے میں شکر قندی بھنی جا رہی ہے، تو کبھی نہاری اور پائے گرم کیے جا رہے ہیں اور سارا 'کُٹم' نانی اماں کے گرد گھیرا ڈالے ان کے ہاتھ کے لذیذ پکوان سے لطف اٹھا رہا ہے۔
پھر مجھے تیوہار یاد آتے ہیں۔۔۔ مہمان آنے والے ہیں، تو نانی اماں پیشانی پر کوئی شکن لائے بغیر، شاداں وفرحاں ان کی راہ تک رہی ہیں۔ گھر کی ڈیوڑھی پر غریب وناداروں کی آوا جاہی لگی ہوئی ہے اور نانی سب کو کچھ نہ کچھ دے رہی ہیں۔ کام کرنے والیاں واپس جا رہی ہے، تو ڈھیر ساری سبزیاں، اشیائے خور دو نوش اور بچوں کے کھانے کے لیے چیزیں اس کے جھولے میں ڈالی جا رہی ہیں۔ جس پر ماموں کچھ خفا بھی ہوتے۔
یادوں کے پردے پر ایک اور منظر ابھرتا ہے، میں گلی سے دیکھتا ہوں، نانی اماں دروازے کی اوٹ سے لگی ہوئی ہیں، مدرسے کے چھوٹے بچوں اور ضرورت مند راہ گیر وں کی منتظر ہیں کہ ابھی کوئی اِدھر سے گزرے اور وہ آواز دے کر اُسے کچھ نہ کچھ تھما دیں۔
چلچلاتی گرمیاں ہیں، تربوز، آم، امرود اور لیچی کا دور چل رہا، سارے بچوں کا محور نانی اماں ہی ہیں، وہ بڑے چائو سے پھل چھیلتی جا رہی ہیں اور باری باری سب کو قاشیں دے رہی ہیں۔ کچھ بچے کسی بات پر رو دیے، تو نانی انہیں چپ کرا نے کو بے کل ہوئی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ادھر بیل اور آم کے شربت کے لیے ہدایات دے رہی ہیں،کہ دیکھنا، شکر بس اتنا ہو اور پانی کی مقدار اس طرح رہے۔ ابھی گلی میں 'سِل، بٹّا' (مسالا پیسنے کے مخصوص پتھر) 'بنانے' والے کی آواز آئی ہے اور وہ یوں اُسے پانی پلانے کو دوڑیں کہ اُن کا کوئی عزیز مہمان آگیا ہو۔
میں اپنے ہاسٹل کے تکلیف دہ ماحول سے بھاگ کر نانی اماں کے گھر پر پناہ لیتا، وہ میری تواضع میں جُت جاتیں، انہوں نے اپنے پوتے پوتیوں سے بچا کر مٹھائی یا اور کوئی چیز میرے لیے رکھی ہوتیں۔ وہ مجھے ابو کی پٹائی سے بچاتیں، میں جب ہاسٹل نہ جانے کی ضد کرتا، رونے لگتا تو نانی بھی میرے ساتھ رو دیتیں۔۔۔ پھر ابو سے مجھے ہاسٹل نہ بھیجنے کی سفارش کر ڈالتیں، لیکن نانی کا کہنا بھی کچھ کام نہ آتا اور مجھے ہاسٹل جانا پڑتا! مجھے وہ منظر بھی یاد ہے، جب میں پہلی بار ہاسٹل کے لیے نکل رہا تھا اور نانی کی آنکھیں ڈبڈبا رہی تھیں، وہ بار بار اپنے دوپٹے کے پلو سے آنسو پونچھتیں اور دعائیں دیتی جاتی تھیں۔
نانی اماں کے انتقال کے چھے سال بعد آج دلی کے پر شور ماحول میں جب اُن کا نواسا یہ الفاظ لکھ رہا ہے، تو اسے بالکل ویسا ہی محسوس ہو رہا ہے، جیسے ابھی وہ ہاسٹل میں ہے اور بھاگ کے ابھی نانی اماں کے گھر پہنچ جائے گا اور نانی اس کے خوب ناز اٹھائیں گی۔ وہ سوچ رہا ہے، نانی کا یہ نواسا اگرچہ بڑا ہو گیا ہے، لیکن مناسب نوکری نہ ملنے اوراب تک ایسے ہی پردیس کی زندگی اور تلخ تجربات کے بارے میں نانی اماں کو بتائے گا، تو وہ تسلی دیں گی اور دنیا جہاں کے قصے سنا کر دل جوئی کریں گی۔
مگر یک دم یہ سارے مناظر ویران ہوئے جاتے ہیں، آج یہ نواسا اگر کچھ دیر کو غم روزگار بھلا کر بچہ بن بھی جائے تو مٹی کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سو جانے والی نانی ماں کو کہاں سے ڈھونڈ کر لائے۔۔۔ ان کی بے کراں محبت تو اب قصہ پارینہ ہوئی، دائمی ہجر کی تلخی دور تلک کسی اندھیارے کی صورت پھیلتی محسوس ہوتی ہے۔ مَن میں ایک ٹیس سی اٹھتی ہے، پلکیں ڈبڈبائی جاتی ہیں، ساون بھادوں کا ایک ریلا سا ہے، جسے اب پلکوں پر روکے رکھنا مشکل ہوئے جا رہا ہے۔
۔۔۔
صرف کھاتا پیتا ہوں لیکن 'روزے' سے ہوں۔۔۔!
سارہ شاداب، لانڈھی، کراچی
کچھ نوجوانوں نے دیکھا، ایک بوڑھا چپکے سے کچھ کھانے میں مشغول ہے۔ ایک نوجوان نے نزدیک جا کر پوچھا:
''چچا جان! کیا آپ نے روزہ نہیں رکھا؟''
بوڑھے نے جواب دیا:
''کیوں نہیں، میں نے روزہ رکھا ہوا ہے، صرف پانی پیتا ہوں اور کھانا کھاتا ہوں۔''
نوجوان ہنس پڑے اور بولے ''کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟''
بوڑھے نے کہا: ''ہاں میں جھوٹ نہیں بولتا۔۔۔ کسی پر بری نگاہ نہیں ڈالتا۔۔۔ کسی کو گالی نہیں دیتا۔۔۔ کسی کا دل نہیں دکھاتا۔۔۔ کسی سے حسد نہیں کرتا۔۔۔ مالِ حرام نہیں کھاتا اور اپنی ذمے داریاں اور فرائض دیانت داری سے انجام دیتا ہوں، لیکن چوںکہ مجھے شدید بیماری لاحق ہے، اس لیے میں اپنے معدے کو روزے دار نہیں بنا سکتا۔''
پھر اس بوڑھے آدمی نے ان نوجوانوں سے پوچھا :
کیا آپ بھی روزہ دار ہیں؟
ان میں سے ایک نوجوان نے سر جھکائے ہوئے آہستگی سے جواب دیا:
''نہیں، ہم صرف کھانا نہیں کھاتے۔۔۔!''
۔۔۔
کیا پھر ''چاند رات'' بھی دَم توڑ دے گی۔۔۔؟
وفاقی وزارت اطلاعات میں تشویش کی بہت سی لہریں دوڑانے کے بعد اِن دنوں فواد چوہدری صاحب، سائنس وٹیکنالوجی کا قلم دان سنبھالے ہوئے ہیں، ماہ صیام کی آمد کے موقع پر موصوف نے 'رویت ہلال' یعنی چاند دیکھنے کے روایتی سلسلے پر بات کر ڈالی، اور کہا کہ طے شدہ ہجری کلینڈر کے ذریعے اس طرح چاند دیکھے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ جس پر ہماری 'رویت ہلال کمیٹی' کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن سمیت بہت سے حلقوں نے تنقید کی۔
دوسری طرف بہت سے لوگ فواد چوہدری کے حامی بھی سامنے آئے، جب کہ ہم ہر دو موقف پر کچھ کہے بغیر صرف چاند کی دِید سے جڑی اس روایت میں کھو کر رہ گئے۔۔۔ ابھی زیادہ پرانی بات تو نہیں نا، جب ہم بھی بچے ہوا کرتے تھے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہر سال شعبان اور رمضان کی 29 ویں تاریخ کو باقاعدہ یہ ایک 'موقع' ہوتا تھا، جس کا انتظار کیا جاتا اور پھر نوعمر لڑکے باقاعدہ چاند دیکھنے کا اہتمام کیا کرتے تھے کہ اس بار فلاں مسجد کی چھت پر چاند دیکھنے جائیں گے۔۔۔ اسی سبب اکثر نمازوں سے غافل رہنے والے بچے ٹولیوں کی صورت میں نماز مغرب کے لیے مختلف مساجد کا رخ کرتے۔۔۔ اور نماز کے بعد اتنظار کرتے کہ کب مسجد کا خادم یا موذن سیڑھیوں کا تالا کھولے اور وہ مسجد کی چھت پر جا کر 'ہلال' کو ڈھونڈا کیے۔۔۔
حالاں کہ شاید ہی کبھی 29 کا چاند یوں دکھائی دیا ہو۔۔۔ سنتے تھے کہ 29 کا چاند مغرب کے بعد بہت مختصر سے وقت تک ہی دکھائی دیتا ہے، پھر بھی ایک لگن ہوتی تھی کہ شاید دکھائی دے جائے۔۔۔ بچوں کی ہمیشہ خواہش ہوتی تھی کہ رمضان ہو یا عید، بس کل ہی ہو جائے۔۔۔ پرسوں تک کا انتظار تو بہت پہاڑ معلوم ہوتا تھا، اور جب 29 ویں کو عید کا چاند دکھائی دے گیا، تو پھر 'چاند رات' کہاں کٹتی تھی۔۔۔ اب اگر عیسوی کی طرح ہجری تقویم بھی جاری ہوگئی تو عملاً 'چاند رات' کا تو کریا کرم ہو ہی جائے گا۔ بھئی جب پہلے سے پتا ہو کہ عید یا رمضان فلاں دن ہے، تو پھر ایک دن پہلے کو آپ کہنے کو 'چاند رات' کہہ لیں، لیکن وہ دیر تک کا اضطراب کہ خبر نہیں کہ آج چاند رات ہے بھی یا نہیں، وہ بات نہیں آسکے گی۔
آپ کو چاہے ہماری یہ باتیں کتنی ہی 'دقیانوسی' یا ''غیر سائنسی'' لگے، لیکن وہ جو رمضان اور عید کے آج یا کل ہونے کے بیچ کا لطف ہے، اُس کی کشش ہی کچھ ایسی ہے، کہ ہم یہ سب لکھنے پر مجبور ہو گئے اور اگر کبھی پہلے 29 کا چاند نہیں بھی ہوتا تھا، تب بھی اگلے دن کے یقینی چاند دیکھنے کے لیے بھی مساجد اور بلند عمارتوں کی چھتوں پر جمگھٹا لگ جاتا تھا۔۔۔ اور اب یقینی چاند کا تو یہ حال ہے کہ اس 30 شعبان کو ہمیں بھی مغرب کی سمت رخ کر کے یوں ہی چاند دیکھنا یاد نہ رہا۔۔۔ورنہ پہلے یہ ہماری ایک عادت سی تھی۔۔۔
۔۔۔
ناصر کاظمی اور بنگلا سرزمین
مرسلہ: سید اظہر علی، گلشن اقبال
گھروں میں، محفلوں میں، جلسوں میں سوگ کی فضا تھی اور ناصر کاظمی کی حالت بگڑتی چلی جا رہی تھی۔ یکم مارچ 1972 کو صبح منہ اندھیرے جب ابھی چڑیوں نے بولنا شروع کیا تھا، وہ درختوں اور چڑیوں کی اس دنیا سے سدھار گیا۔ پاکستان اور ناصر چند مہینوں کے فرق سے بس آگے پیچھے گئے۔ یعنی وہ پاکستان جس میں، میں نے 1947ء کے آتے جاڑوں آکر قدم رکھا تھا اور بنگالی جس کا جزو لاینفک تھے اور اس نئے ملک کی اکثریت تھے، اب جو پاکستان تھا وہ تو بھٹو صاحب کے دیے ہوئے نام کے مطابق 'نیا پاکستان' تھا اور اب مجھے یاد آرہا ہے کہ ناصر جب ڈھاکا اور ڈھاکا کے آس پاس کی بستیوں میں گھوم پھر کر واپس آیا تو کتنا گرم جوش نظر آرہا تھا لگتا تھا کہ اس ہری بھری دھرتی نے اس کے تخیل کو نئے سرے سے تازہ کردیا ہے اور اس نے کس درد سے اس سرزمین کو یاد کیا:
جنت کے ماہی گیروں کی
ٹھنڈی رات جزیروں کی
سبز سنہرے کھیتوں پر
پھواریں سرخ لکیروں کی
اس بستی سے آتی ہیں
آوازیں زنجیروں کی
(انتظار حسین کی کتاب ''چراغوں کا دھواں'' سے انتخاب)
۔۔۔
''میں نے اِسے رکاوٹ نہیں جانا۔۔۔''
مرسلہ: اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
میں نے پوری زندگی اس مقصد کے لیے وقف کر دی ہے کہ میں عملی طور پر یہ ثابت کر دوں کہ پردے کی حدود میں رہتے ہوئے بھی علم و عمل کی وسعتیں اپنے دامن میں سمیٹی جا سکتی ہیں۔ میں نے عملی، دینی، سماجی ، تہذیبی اور سیاسی الغرض ہر شعبۂ زندگی میں حصہ لیا۔ انجمنیں چلائیں اور ملک کے اندر اور باہر کانفرنسوں میں شمولیت کی اور ڈٹ کر اپنے موقف کے حق میں تقریریں کرتی رہی۔ میں نے اورنٹیل کانفرنس لاہور منعقدہ 1956ء میں نہایت اہم کردار ادا کیا تھا۔ میں نے اسی نقاب کے ساتھ بے شمار ممالک کی سیر کی، وہاں کے ذہین طبقوں سے خطاب کیا اور اپنے دل کا درد ان کے اندر منتقل کرنے کا تجربہ کیا مگر یہ برقع میری راہ میں کبھی حائل نہیں ہوا جو خواتین اسے ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ تصور کرتی ہیں دراصل ان کے نزدیک ترقی کا مفہوم ہی دوسرا ہے۔ اگر ترقی سے مراد نسوانی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرکے معاشرے کی خواہشات کا کھلونا بننا ہے تو یقیناً پردہ ایسی ترقی کے راستے میں ایک سنگ گراں ہے، لیکن کیا اسلام ایسی ہی ترقی پسند عورت کی تخلیق کے لئے آیا تھا؟
(''ملاقاتیں کیا کیا'' از الطاف حسین قریشی میں ڈاکٹر مس خدیجہ فیروزالدین کی باتیں)
۔۔۔
صد لفظی کتھا
'رونق'
رضوان طاہر مبین
چنّو برسوں بعد پرانے محلے کی مسجد آیا، ثمر سے ملا، بولا:
''اپنی کالونی میں روزوں کے رنگ ہی الگ ہیں۔
نئے محلے میں رمضان کی وہ رونق نہیں۔۔۔!''
''ہاں یہ بات تو ہے۔۔۔'' ثمر نے کہا۔
پہلے یاد ہے، رمضان میں مسجد باہر صحن تک بھر جاتی تھی۔۔۔
پھر ہم سردی میں چھت پر صفیں بنواتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں؟''
چنّو نے پوچھا۔
''ہاں، اب بہت سے نمازی ہم سائے محلے کی مساجد چلے جاتے ہیں۔''
ثمر نے بتایا۔
''وہ کیوں؟'' چنو حیران ہوا۔
''وہاں کی مساجد میں 'اے سی' نصب ہیں نا۔۔۔!''
ثمر نے جواب دیا۔