دہشت گردی اور انتہا پسندی کا بیانیہ

پاکستان دہشت گردی کے خلاف کثیرالجہتی لڑائی لڑ رہا ہے

پاکستان دہشت گردی کے خلاف کثیرالجہتی لڑائی لڑ رہا ہے۔فوٹو فائل

گزشتہ چند روز سے ہونے والی دہشت گردی کی وارداتیں اس امر کی مظہر ہیں کہ ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اور امن و امان کی صورت حال کو دگرگوں کرنے والی ملک دشمن قوتیں ایک بار پھر متحرک ہو گئی ہیں۔ ان دہشت گرد قوتوں کے خلاف نبرد آزما سیکیورٹی اہلکار سرفروشی اور جواں ہمتی کی نئی داستانیں رقم کر رہے اور ہر قسم کے خطرات کے سامنے سینہ سپر ہو کر پُرعزم اور غیر متزلزل ارادوں کا علم تھامے ہر قدم آگے بڑھ رہے ہیں۔ ملک سے دہشت گردی کے ناسور کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا تھا، لیکن بوجہ ماضی میں اس پر پوری سنجیدگی سے عمل نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور ان کے سلیپر سیلز موجود رہے جو دوبارہ سر اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اب اس پلان پر عملدر آمد مزید تیز کرتے ہوئے کالعدم تنظیموں کے ساتھ معاونت کرنے والی تنظیموں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے' اطلاعات کے مطابق بین الاقوامی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے اور منی لانڈرنگ کے خاتمے کے لیے شدید دباؤ ہے جس کے نتیجے میں حکومت نے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ بہرحال دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر اس کی حقیقی روح کے مطابق عملدرآمد کرنا انتہائی ضروری ہے۔

حکومت دہشت گردی مخالف حکمت عملی کو مزید موثر بنانے اور ملکی امن و امان کو بہتر بنانے پر بھرپور توجہ دے رہی ہے لیکن دہشت گردوں کا مضبوط اور مربوط نیٹ ورک تاحال ایک چیلنج کی صورت بدستور موجود ہے۔ ہفتے کو روز گوادر میں ایک بڑے ہوٹل میں دہشت گردوں کے حملے کو ناکام بنا دیا گیا'ہوٹل پر دہشت گردوں کے حملے کی اطلاع ملتے ہی پاک فوج، پاک بحریہ اور پولیس موقع پر پہنچ گئے اور دہشت گردوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز نے بروقت آپریشن شروع کردیا، آپریشن میں تینوں حملہ آور مارے گئے جب کہ آپریشن کے دوران ہوٹل کے چار ملازمین اور پاک بحریہ کا ایک اہلکار شہید ہوئے جب کہ پاک فوج کے دو کیپٹن،پاک بحریہ اور ہوٹل کے دو دو اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔فورسز نے مہمانوں اور اسٹاف کو بحفاظت ہوٹل سے نکل لیا ہے اور آپریشن مکمل ہوگیا ہے۔ اس کارروائی سے ثابت ہو گیا کہ ملک کے سیکیورٹی ادارے ہائی الرٹ ہیں، اگر سیکیورٹی فورسز بروقت کارروائی نہ کرتیں تو دہشت گرد بہت زیادہ جانی نقصان کرتے۔

دہشت گردوں نے حالیہ دنوں میں کئی کاررائیاں کی ہیں۔ 8 مئی کو لاہور میں داتا دربار کے باہر ایلیٹ پولیس کی گاڑی کے نزدیک ہونے والے خودکش دھماکے میں پانچ اہلکاروں سمیت دس افراد شہید ہو گئے' اب پانچ روز بعد شہدا کی تعداد تیرہ ہو چکی ہے، دہشت گردوں کے سہولت کاروں تک پہنچنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے اور عنقریب حقائق سامنے آ جائیں گے۔ لاہور میں داتا دربا کے باہر دہشت گرد حملے کا مقصد ایک جانب سیکیورٹی فورسز کو نقصان پہنچانا تھا تو دوسری طرف ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچا کر یہ پیغام بھی دینا تھا کہ دہشت گرد تمام تر حکومتی دعوؤں اور اقدامات کے باوجود اپنے ہدف تک پہنچنے کی صلاحیت سے محروم نہیں ہوئے' بلوچستان میں گوادر کے ہوٹل میں دہشت گردی کرنے سے پہلے بلوچستان میں ہی ہرنائی میں دہشت گردوں نے کارروائی کی تھی۔


بلوچستان میں غیر ملکی ایجنسیوں کی مدد پر پلنے والے شرپسند وطن عزیز کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ حملے اس امر کے متقاضی ہیں کہ مختلف سیکیورٹی اداروں کو ٹکڑوں یا انفرادی سطح پر خطرات کا مقابلہ کرنے کے بجائے ایک مربوط اور منظم طریقے سے کام کرنا چاہیے۔پولیس کو اپنا انٹیلی جنس سٹسم زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے، اگر پولیس کا انٹیلی جنس سٹم فعال اور متحرک ہوتا تو لاہور میں داتا دربار کے باہر دہشت گردی کرنے والوں کو واردات سے پہلے ہی گرفتار کیا جا سکتا تھا۔

پاکستان دہشت گردی کے خلاف کثیرالجہتی لڑائی لڑ رہا ہے، ملک میں بعض گروہ مذہب کے نام دہشت گردی کر رہے ہیں اور انتہاپسندی کے بیانپے کو آگے بڑھا رہے جب کہ کچھ گروہ لسانیت اور قومی پرستی کی آڑ میں شرپسندی اور دہشت گردی کی وارداتیں کر رہے ہیں، ایسے گروہ کو پاکستان دشمن قوتیں مالی امداد فراہم کر رہی ہیں اور انھیں تربیت بھی دے رہی ہیں۔ اس ماہ کے آغاز میں افغانستان سے دہشت گردوں کے حملے میں پاک فوج کے تین جوان شہید اور سات زخمی ہو گئے۔ دہشت گردی کی ان وارداتوں کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ دہشت گردی کے ڈانڈے اندرون ملک سے شروع ہو کر بیرون ملک تک پھیلے ہوئے ہیں۔ تمام تر کوششوں اور قربانیوں کے باوجود دہشت گردی کے عفریت کا قابو میں نہ آنا دو امور پر دلالت کرتا ہے کہ بیرونی قوتوں سے ملنے والی امداد اور تربیت دہشت گردی کے نیٹ ورک کو ختم نہیں ہونے دے رہی اور دوسرا اندرون ملک سہولت کاروں کا تعاون دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بن رہا ہے۔

معاشرے میں چھپے ہوئے ان سہولت کاروں اور بے چہرہ دہشت گردوں کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو گراس روٹ لیول پر عوام کا تعاون حاصل کرنا ہو گا۔ دوسری جانب سیاستدانوں' علمائے کرام اور معاشرے کے موثر اور متحرک دیگر شعبوں کو بھی ملکی سلامتی کے اس عظیم مقصد میں شامل کار کرنا ہو گا۔ سیکیورٹی فورسز تو دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہیں لیکن اس سلسلے میں سیاسی قوتوں کا کردار کہیں نظر نہیں آتا۔ سیاستدان خواہ وہ حکومت کا حصہ ہیں یا اپوزیشن کا' اپنے سیاسی مفادات کے لیے ایک دوسرے کے خلاف لفظی گولہ باری اور سیاسی کشیدگی کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لیکن دہشت گردی جو اس وقت ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے' کے خاتمے کے لیے وہ کبھی ایک پلیٹ فارم پر متحد نہیں ہوئے۔

جس طرح رمضان کے مہینے میں داتا دربار کے باہر خود کش حملہ ہوا تھا اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام سیاستدان ہر قسم کے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوتے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے لائحہ عمل طے کرتے لیکن افسوس ایسی کوئی صورت حال نظر نہیں آئی بلکہ سیاستدانوں نے اپنے سیاسی پوائنٹ اسکور کرنے کے لیے دیگر ایشوز پر حکومت کو تو خوب لتاڑا مگر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کسی نے بھی روایت سے ہٹ کر موثر اور جاندار کردار ادا نہیں کیا۔ دہشت گرد جس انداز میں متحرک ہو چکے ہیں اس سے ہر وقت کسی نہ کسی سانحے کا خدشہ لگا رہتا ہے۔ سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے افغانستان کے ساتھ ساتھ باڑ تو لگائی جا رہی ہے لیکن اندرون ملک دہشت گردی کے نظریے کو فروغ دینے والی سوچ کو شکست دینے کے لیے بھی ایک طاقتور نظریاتی باڑ لگانے کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ پوری قوم کو متحد ہوکر لڑنی ہے۔پاکستان کی بقا اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ملک دشمنوں کو شکست دینا وقت کی لازمی ضرورت ہے۔
Load Next Story