فیشن ایبل علوم
وہ تومحض خود تیرتے ہیں، اڑتے ہیں اور بولتے ہیں جس سے بچہ خود بخود سیکھ جاتا ہے
ایک دوست نے پوچھا کہ ہم بچوں کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ ہم نے حقیقت بتائی کہ اتنا ہی جتنے خود بچے جانتے ہیں۔ بولا ، نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ اسلام آباد میں بچوں کی تعلیم و تربیت اور نفسیات وغیرہ کے بارے میں ایک کانفرنس یا سیمنار میں اگر کچھ بول سکتے ہو تو تمہارا نام دوں؟ ہم نے کہا، بالکل بھی نہیں۔ اس نے وجہ پوچھی تو عرض کیا کہ ہم ایسی کانفرنسوں سیمناروں کو فضول سمجھتے ہیں اور ان میں جو کہا جاتا ہے وہ اس سے بھی زیادہ فضول ہوتا ہے اور جو سنتے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ فضول ہوتے ہیں اور جو اس سے کسی فائدے کی توقع رکھتے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ فضول اور فاضل الفضول ہوتے ہیں۔ وہ کچھ نہیں سمجھا تو عرض کیا کہ صرف کانفرنس اور سیمنار ہی نہیں بلکہ ان میں جو ''علوم'' بگارے جاتے ہیں اور جو ماہرین بگارتے اور پکاتے ہیں سب کے سب فضول بھی ہوتے ہیں اور فیشن ایبل دانشور بھی ہوتے ہیں۔ کیونکہ فیشن کا تعلق صرف ظاہر یاجسم سے نہیں ہے بلکہ اندر اور ذہن سے بھی ہوتاہے۔
آج کل فیشن یہ ہے کہ جس طرح جسمانی فیشن کے لیے مغربی کاسمٹکس اور دیگرچیزوں کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے ویسے ہی ''علوم'' اور دانش کے لیے بھی امپورٹڈ نام استعمال کیے جاتے ہیں۔ بات کسی''ژونگ، فرائیڈ یا چومسکی یا ڈوم ڈومسکی اور اس کی کسی کتاب یا قول زریں کے گرد گھما گھما کر کسی ٹوائن تھری یا ول ڈیورانٹ پر ختم کی جاتی ہے۔ حالانکہ جب مغرب والوں نے ان علوم کی پروڈکشن شروع نہیں کی تھی تب بھی لوگ جیتے تھے اور وسائل نہ ہونے کے باوجود ہم سے اچھا جیتے تھے۔ آج کی دواؤں کے باوجود بھی لوگ صحت مند رہتے تھے اور ہم سے زیادہ صحت مند رہتے تھے۔ کاسمٹکس حسن افزا ٹانک اور وٹامنز وغیرہ نہیں تھے لیکن لوگوں کی جلدیں، بال اور دانت ہوتے تھے اور ہم سے بدرجہا بہتر ہوتے تھے۔
کسی بیوٹیشن یا بیوٹی پالر کے بغیر حسینائیں پیدا ہوتی تھیں اور کسی کاغذ یا پردے پر حسینائیں نہیں ہوتی تھیں بلکہ حقیقت میں شاہ وحش، ماہ رخ و زہرہ جبیں ہوا کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے حکمران اپنے وسیع و عریض بلکہ گنجان آباد، حرموں کے باوجود ان تیر نظر یازلفوں کے اسیر ہونے سے بال بال بھی بچ نہیں پاتے تھے۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہے تو مصر میں کوئی بیوٹی پارلر نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی زلیخا ،کلوپترا اور ملکہ تائی پیدا ہوتی تھیں۔
ایسا ہی ہند میں بھی، چین میں بھی، ایران، توران میں بھی ہوا کرتا تھا اور کسی بھی بیوٹی پارلر یا بیوٹیشن کی مدد کے بغیر۔ یہ تو جسمانی معاملہ ہوا، سقراط کسی بھی انگلش ماڈل اسکول میں نہیں پڑھا نہ آکسفورڈ اور دوسری عالمی یونی ورسٹیوں کے فہرست طلباء میں اس کا نام تھا۔ یہاں تک ماہرین تعلیم کی کتابیں بھی نہیں تھیں اور افلاطون نے کسی بھی عالیشان بلڈنگ یا لگژری یونیورسٹی کے بغیر اک چلتی پھرتی اکادمی قائم بھی کی تھی اور چلائی بھی۔ جس کے علوم آج نصابوں میں شامل ہیں بلکہ سب سے زیادہ تعجب تو ہمیں ارسطو پر ہوتا ہے باقی سارے کام تو چھوڑیے اس نے جو ''شعر وادب'' پر ایک ''بوطیقا'' لکھی ہے، اس وقت مغرب کے ناقدین ادب تنقید نگار اور ادبی تنقیدی علوم اور اصطلاحات اور تھیوریوں اورکلئیوں کا وجود تک نہیں تھا۔ صرف شاعری کو لے لیجیے۔
ہومر بچارے نے تو کچھ پڑھا نہیں تھا نہ شعر کا تنقیدی شعور لاشعور اور تحت الشعور کی کتابیں پڑھی تھیں اور اس امراولاقیس وغیرہ کو دیکھیے کہ نرے اجڈ اور جاہل یہاں تک کہ ژاں پال سارتر کی جدیدیت، ساختیات اور پس ساختیات سے واقف تھا۔ اوروں کو تو چھوڑیے ہمارے رحمان بابا، خوشحال خان خٹک، بلھے شاہ، وارث شاہ کے بارے میں تو ہمیں پکا پکا معلوم ہے کہ آج کے چکاچوند علوم تخلیق و تنقید اور ساختیات و پس ساختیات سے مکمل بے بہرہ تھے، پھر بھی عوام کے دل ایسے دھڑکاتے تھے بلکہ اب بھی دھڑکاتے ہیںکہ آج کے پاک و ہند کے سارے تنقید نگار بلکہ یورپ و امریکا کے ماہرین کو بھی ساتھ ملا کر اور سارے ایک ساتھ اپنے تمام تر کلیات اور تھیوری سمیت حملہ آور ہوکر بھی نہیں دھڑکا سکتے۔ ہم نے ایک مرتبہ ایک اکیڈیمی کے ماہرین علوم ڈاکٹروں، پروفیسروں اور دانشور وں سے کہا تھاکہ یہ خوشحال اور رحمان تو کسی انگلش ماڈل اسکول کیا کسی پرائمری اسکول کے سرٹیفیکٹ ہولڈر بھی نہیں تھے، ان کو تم نے کیوں اتنا سر پرچڑھا رکھاہے اور پوچھا کہ آج اگر وہ یا ایسے لوگ اکیڈیمی میں نوکری کے لیے آ جائیں تو چپراسی سے اونچی کوئی پوسٹ ان کو مل سکتی ہے؟
باقی تمام فیشن ایبل اور تھیوریوں ،کلئیوں اور فارمولوں سے مزین علوم کو تو گولی ماریے جو اس کے مستحق ہیں صرف بچوں کی ''تعلیم وتربیت'' پر فوکس کرتے ہیں اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب نہ تعلیم کے محکمے تھے نہ ماہرین تعلیم تھے نہ تعلیم و تربیت کے اتنے بڑے ڈگری ہولڈر تھے نہ انگلش ماڈل اسکولز، یونیورسٹیاں تھیں اور نہ ہی تعلیمی نفسیات کے یہ علامے اور سقراط بقراط تھے تو بچوں کو کون تربیت دیتا تھا؟ سچ تو یہ ہے کہ ساری دانش، علم، نفسیات، اور ''یہ بات'' اور ''وہ بات'' یا یہ لو جی اور وہ لو جی سب کے سب فضول ہیں جو نکموں کے روزی کمانے کے ذرائع ہیں۔ کیا کسی بطخ یا مچھلی نے کبھی اپنے بچوں کو تیرنا سکھایا یا کسی پرندے نے بچوں کو اڑنا اور انسان کے بچوں کو بولنا کوئی سکھاتا ہے۔
وہ تومحض خود تیرتے ہیں، اڑتے ہیں اور بولتے ہیں جس سے بچہ خود بخود سیکھ جاتا ہے۔ اسکولز کالجوں وغیرہ میں صرف پڑھنا لکھنا سکھایا جاتا ہے، باقی سب کچھ بچے اس مدرسے، اس اسکول اور اس یونیورسٹی میں پڑھ کر سیکھتے ہیں جس کا نام ''گھر'' ہے اور والدین معلم ہوتے ہیں لیکن اس یونیورسٹی یا درس گاہ میں وہ جو کچھ سیکھتے ہیں وہ الفاظ بتانے پر سکھانے پر پڑھانے پر نہیں سیکھتے ہیں بلکہ دیکھ دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ بچے کے پہلے اساتذہ، رول ماڈل اور نصاب اپنے والدین ہوتے ہیں، وہ وہی سیکھتے ہیں جو ان کے والدین کرتے ہیں، بولتے ہیں اور دکھاتے ہیں، بلکہ ان کے خون میں اور ڈی این اے میں وہی کچھ ہوتا ہے جو ان کے والدین میں ہوتا ہے۔ وہ ایک کورا کاغذ ہوتے ہیں اور ان پر فوٹو اسٹیٹ کی طرح وہی کچھ ثبت ہوتا ہے جو ''اصل'' میں ہوتا ہے۔ اگر والدین کچھ چھپاتے ہیں تو وہ بھی ان سے چھپا ہوا نہیں ہوتا کیونکہ ٹرو کاپی میں سب کچھ آتا ہے۔ بکواس کرتے ہیں، یہ سارے ماہرین والدین اور دانا دانشور جو بچوں کو سکھانا چاہتے ہیں۔ پہلے خود وہ سیکھ لیں جو آپ اپنے بچوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
''اصل'' کو درست کر لیجیے، فوٹو اسٹیٹ بھی درست آئے گی ، باتوں، حروف، الفاظ، تھیوریوں فارمولوں کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں۔یہ اسکول وغیرہ تو بچوں کو صرف ''پڑھانا'' سکھاتے ہیں اور باقی پڑھے گا وہ جو ''کتاب'' میں اصل کاپی یا رول ماڈل میں ہوتا ہے۔