عوام کی چھنتی ہوئی آزادی… وارث رضا
طاقتور اداروں کے خلاف بھی بے خوف و خطر اظہار کرتے نظر آئے ہیں
میں سوچتا ہوں کہ ہماری تاریخ کا وہ قابل فخر کارنامہ کہاں سے لاؤں جس کو فخریہ بیان کیا جا سکے۔ قائد اعظم کی نشر نہ ہونے دینے والی تقریر سے لے کر جمہوریت پر بار بار شب خون کی بات کروں یا اس دہشت اور وحشت کا تذکرہ کروں جس نے دہشت کے جنونی پیدا کرکے میرے نہتے اور بے گناہ افراد کا خون بہایا یا پھر اس مذہبی دہشت گردی کا ذکرکروں جس نے امریکی ڈالرکے عوض جہادیوں کی کھیپ پیدا کی اور '' امیر المومنین'' کی تختی سجا کر ملک میں اظہار کے تمام راستوں کو روندا اور سیاست کی نرسری طلبہ یونین کی آواز کو طاقت تلے روندا ۔ بات طلبہ تنظیوں تک ہی رہتی تو شاید قبول کر لی جاتی ، مگر جب ریاست کا بیانیہ مذہبی جنونیت سے لسانیت تک وسیع کیا گیا تو ایک آمر نے اقتدار کی طوالت کی خاطر 12 مئی کو ایسے خونیں واقعہ کو تاریخ کا حصہ بنا دیا جس سے آج تک خون رس رہا ہے۔
ملک کا چلن جب جمہوریت کی بیخ کنی بنا دیا جائے تو اقتدارکے سنگھاسن پر ان افراد کی تعیناتی ٹہرجاتی ہے جن کو عرف عام میں'' کٹھ پتلی'' یا غلام ذہنیت کا کہا جاتا ہے۔ جب عوام دو روٹی کے با عزت حصول کی خاطر عزتوں کی نیلامی پر اتر آئیں یا اعضا کی فروخت کے ساتھ اپنی نسل کا ''دان'' کرنے پر مجبور کر دیے جائیں تو اقتدار کے سنگھاسنی ''غلام حکمران'' عوام کی تسلی کے لیے سوائے ٹامک ٹوئیاں مارنے کے اورکچھ نہیں کر سکتے۔ وہ حکومت جو چناؤ کے شفاف ڈھنڈورے کی تھاپ پر ہو اس کا کردار'' پتلی تماشے'' سے زیادہ ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ موجودہ انصاف کی داعی تحریک انصاف کے منتخب وزیر اعظم اور اراکین جب عوام کی ''چیخیں'' نکلوانے پر مامورکردیے جائیں تو حکومت کے احتساب سے بچنے کا بہترین بیانیہ ''منتخب'' اور '' غیر منتخب'' کی وہ بحث ہے جو حکومت کے اقتدارکو مصنوعی سہارے کا جواز تو کہا جا سکتا ہے،مگر اسے کسی طور منتخب اداروں کے تقدس اور عوام کے ووٹ کا احترام نہیں کہا جا سکتا۔
عجب طرفہ تماشہ ہے کہ منتخب ایوان کے ہوتے ہوئے''صلاحیت'' کا ڈھونگ رچا کر عالمی آقاؤں کے طے شدہ منصوبوں کو مکمل کرنے کا کام سرعت کے ساتھ جاری ہے مگر دوسری جانب عوام کی معاشی تنگ دستی بلکہ محرومی کو ''وقتی مشکلات'' کا لولی پوپ دینے کے لیے وزیر اعظم ریاست چلانے والوں کے من پسند افراد کو رسمی کارروائی کے ذریعے عوام پر سوار '' غیر منتخب'' افراد کی وکالت کی جائے۔ جس وزیراعظم کو یہ علم نہ ہونے دیا جائے کہ کون کب اور کہاں لگایا جائے گا تو اسے ''سلیکٹیڈ '' کے علاوہ بھلا کیا کہا جا سکتا ہے۔ موجودہ معاشی ابتلا کے دور میں جہاں عوام کے استعمال کی بنیادی ضرورت بجلی اورگیس کی قیمتوں کے ہوش ربا اضافے کو حکومت اور طاقتور ادارے محض اس خاطر درست کہتے رہیں کہ پچھلی معیشت کا سب کچھ کیا دھرا ہے۔ تو عوام اس بیانیے سے بھلا کیوں کر مطمئن ہو۔ عوام کے شعور کو تاریخ میں جب بھی پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے تو عوام ''حکمران طبقات'' کے علاوہ ان کی پشت پرکام کرنے والے طاقتور اداروں کے خلاف بھی بے خوف و خطر اظہار کرتے نظر آئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ موجودہ عالمی مالیاتی ادارے کی دھوم سے آؤ بھگت کرنے والی حکومت کیا کسی طور اس قابل ہے کہ وہ اپنی گرتی ہوئی معاشی صورت حال ہر کوئی اپنی پیش کردہ شرط منوا سکے؟ ابھی ہمارے وزیر اعظم کے ترجمانوں کی جانب سے مسلسل بیانیہ دیا جا رہا ہے کہ IMF سے مذاکرات کو فائنل کرنے سے پہلے وزیراعظم کی حتمی منظوری ضروری ہے لہذا جب تک وزیر اعظم اس عالمی ادارے کے معاہدے کی حتمی منظوری نہیں دیتے اس وقت تک IMF سے معاہدہ نہیں ہو سکتا۔ مذکورہ حکومتی بیانیہ دراصل موجودہ حکومت کی اس کمزوری کی طرف نشاندہی کر رہا ہے جو عالمی دباؤ کے تحت نظر آرہی ہے۔عالمی ادارے سے معاہدے کی حتنی منظوری نہ دینے کی مجال نہ حکومت کو ہے اور نہ ہی اس معاملے میں وہ ادارے کچھ کر سکتے ہیں جو ''سلیکٹیڈ'' کا کھیل کھیلنے کے عادی ہیں۔
اب عالمی ادارے کی ''عوام دشمن'' شرائط اور موجودہ حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ بچانے خاطر آخری پتے کے طور پر وزیر اعظم کو طاقتور بنا کر پیش کرنے کی وہ سیاسی اور خطرناک چال ہے جو جمہوری حکمرانوں کی نا اہلی پر مخمول کی جائے گی تاکہ عوام کا جمہوری حکومتوں کے اعتماد کو مزید شکستہ کیا جا سکے۔ مگر اب حالات و واقعات ایسے ہرگز نہیں کہ حکومت اور ان کے مربی عوام کو مزید بیوقوف بنا سکیں۔لہذا اس صورتحال کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ حکومت کو مکمل اقتدار کا حق ملنا چاہیے تاکہ آیندہ'' سلیکٹیڈ'' کو مظلوم بنا کر پیش کرنے کے کھیل کا خاتمہ ہو سکے۔
اس سلسلے میں ن لیگ کا بیانیہ کسی حد تک درست معلوم ہوتا ہے کہ اس حکومت کو پورا وقت دیا جانا چاہیے جب کہ پیپلز پارٹی کا بیانیہ اقتدارکے طاقتوروں کی چغلی کھاتا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ جس میں حکومت کو گرانے کی بات کی گئی ہے۔پیپلز پارٹی کے مذکورہ بیانیے کے پس پردہ حقائق طاقتوروں کے ساتھ ساز باز کر کے دوبارہ اپنی جگہ بنانا یا بہترین فرمانبردار ہونا نظر آتا ہے۔آئی ایم ایف کی کڑی عوام دشمن اور ملکی ترقی دشمن پالیسیوں کے نفاذ کا سیدھا مطلب یہ نکالا جا سکتا ہے کہ ریاستی طور اور عوامی طاقت کے طور پر یا تو ہم اپنی وقعت کھوچکے ہیں یا ہمارے طاقت کے ستون جنہوں نے ہمیشہ عالمی طاقتوں کے مفادات کا کھیل کھیلا ہے وہ اتنے فرمانبردار بنا دیے گئے ہیں کہ وہ عالمی ادارے کی آڑ میں اپنی گروہی معاشی کمپنیوں کو بچانے کی فکر میں بے دست و پا ہیں۔
اس ساری ملکی اور خطے کی خطرناک صورتحال میں عالمی دباؤ کے زیر اثر چین کے مراسم میں سرد مہری اور چین کے حوالے سے گوادر اور شادی اسکینڈل کی خبریں۔ دراصل چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اختیارات کو روکنے کی وہ امریکا سعودی حکمت عملی ہے جس سے ایران کے ساتھ روس کو مشرق وسطی کے معاملات سے دور رکھنے کا پیغام ہے۔ مستقبل میں جہاں یہ پورا خطہ معاشی جنگ کی دلدل میں جاتا ہوا محسوس ہوتا ہے وہیں عوام کے گرتے ہوئے معاشی حالات بھی کسی بڑی جدوجہد کا شاخسانہ دکھائی دیتے ہیں۔
اس پوری صورتحال میں عوامی جتھوں کے منظم ہونے اور نظریاتی سیاست کا ایک ایسا وقت نظر آرہا ہے جو شاید خطے کو بہت بڑے بحران سے بچانے کا سبب ہو۔
ملک کا چلن جب جمہوریت کی بیخ کنی بنا دیا جائے تو اقتدارکے سنگھاسن پر ان افراد کی تعیناتی ٹہرجاتی ہے جن کو عرف عام میں'' کٹھ پتلی'' یا غلام ذہنیت کا کہا جاتا ہے۔ جب عوام دو روٹی کے با عزت حصول کی خاطر عزتوں کی نیلامی پر اتر آئیں یا اعضا کی فروخت کے ساتھ اپنی نسل کا ''دان'' کرنے پر مجبور کر دیے جائیں تو اقتدار کے سنگھاسنی ''غلام حکمران'' عوام کی تسلی کے لیے سوائے ٹامک ٹوئیاں مارنے کے اورکچھ نہیں کر سکتے۔ وہ حکومت جو چناؤ کے شفاف ڈھنڈورے کی تھاپ پر ہو اس کا کردار'' پتلی تماشے'' سے زیادہ ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ موجودہ انصاف کی داعی تحریک انصاف کے منتخب وزیر اعظم اور اراکین جب عوام کی ''چیخیں'' نکلوانے پر مامورکردیے جائیں تو حکومت کے احتساب سے بچنے کا بہترین بیانیہ ''منتخب'' اور '' غیر منتخب'' کی وہ بحث ہے جو حکومت کے اقتدارکو مصنوعی سہارے کا جواز تو کہا جا سکتا ہے،مگر اسے کسی طور منتخب اداروں کے تقدس اور عوام کے ووٹ کا احترام نہیں کہا جا سکتا۔
عجب طرفہ تماشہ ہے کہ منتخب ایوان کے ہوتے ہوئے''صلاحیت'' کا ڈھونگ رچا کر عالمی آقاؤں کے طے شدہ منصوبوں کو مکمل کرنے کا کام سرعت کے ساتھ جاری ہے مگر دوسری جانب عوام کی معاشی تنگ دستی بلکہ محرومی کو ''وقتی مشکلات'' کا لولی پوپ دینے کے لیے وزیر اعظم ریاست چلانے والوں کے من پسند افراد کو رسمی کارروائی کے ذریعے عوام پر سوار '' غیر منتخب'' افراد کی وکالت کی جائے۔ جس وزیراعظم کو یہ علم نہ ہونے دیا جائے کہ کون کب اور کہاں لگایا جائے گا تو اسے ''سلیکٹیڈ '' کے علاوہ بھلا کیا کہا جا سکتا ہے۔ موجودہ معاشی ابتلا کے دور میں جہاں عوام کے استعمال کی بنیادی ضرورت بجلی اورگیس کی قیمتوں کے ہوش ربا اضافے کو حکومت اور طاقتور ادارے محض اس خاطر درست کہتے رہیں کہ پچھلی معیشت کا سب کچھ کیا دھرا ہے۔ تو عوام اس بیانیے سے بھلا کیوں کر مطمئن ہو۔ عوام کے شعور کو تاریخ میں جب بھی پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے تو عوام ''حکمران طبقات'' کے علاوہ ان کی پشت پرکام کرنے والے طاقتور اداروں کے خلاف بھی بے خوف و خطر اظہار کرتے نظر آئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ موجودہ عالمی مالیاتی ادارے کی دھوم سے آؤ بھگت کرنے والی حکومت کیا کسی طور اس قابل ہے کہ وہ اپنی گرتی ہوئی معاشی صورت حال ہر کوئی اپنی پیش کردہ شرط منوا سکے؟ ابھی ہمارے وزیر اعظم کے ترجمانوں کی جانب سے مسلسل بیانیہ دیا جا رہا ہے کہ IMF سے مذاکرات کو فائنل کرنے سے پہلے وزیراعظم کی حتمی منظوری ضروری ہے لہذا جب تک وزیر اعظم اس عالمی ادارے کے معاہدے کی حتمی منظوری نہیں دیتے اس وقت تک IMF سے معاہدہ نہیں ہو سکتا۔ مذکورہ حکومتی بیانیہ دراصل موجودہ حکومت کی اس کمزوری کی طرف نشاندہی کر رہا ہے جو عالمی دباؤ کے تحت نظر آرہی ہے۔عالمی ادارے سے معاہدے کی حتنی منظوری نہ دینے کی مجال نہ حکومت کو ہے اور نہ ہی اس معاملے میں وہ ادارے کچھ کر سکتے ہیں جو ''سلیکٹیڈ'' کا کھیل کھیلنے کے عادی ہیں۔
اب عالمی ادارے کی ''عوام دشمن'' شرائط اور موجودہ حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ بچانے خاطر آخری پتے کے طور پر وزیر اعظم کو طاقتور بنا کر پیش کرنے کی وہ سیاسی اور خطرناک چال ہے جو جمہوری حکمرانوں کی نا اہلی پر مخمول کی جائے گی تاکہ عوام کا جمہوری حکومتوں کے اعتماد کو مزید شکستہ کیا جا سکے۔ مگر اب حالات و واقعات ایسے ہرگز نہیں کہ حکومت اور ان کے مربی عوام کو مزید بیوقوف بنا سکیں۔لہذا اس صورتحال کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ حکومت کو مکمل اقتدار کا حق ملنا چاہیے تاکہ آیندہ'' سلیکٹیڈ'' کو مظلوم بنا کر پیش کرنے کے کھیل کا خاتمہ ہو سکے۔
اس سلسلے میں ن لیگ کا بیانیہ کسی حد تک درست معلوم ہوتا ہے کہ اس حکومت کو پورا وقت دیا جانا چاہیے جب کہ پیپلز پارٹی کا بیانیہ اقتدارکے طاقتوروں کی چغلی کھاتا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ جس میں حکومت کو گرانے کی بات کی گئی ہے۔پیپلز پارٹی کے مذکورہ بیانیے کے پس پردہ حقائق طاقتوروں کے ساتھ ساز باز کر کے دوبارہ اپنی جگہ بنانا یا بہترین فرمانبردار ہونا نظر آتا ہے۔آئی ایم ایف کی کڑی عوام دشمن اور ملکی ترقی دشمن پالیسیوں کے نفاذ کا سیدھا مطلب یہ نکالا جا سکتا ہے کہ ریاستی طور اور عوامی طاقت کے طور پر یا تو ہم اپنی وقعت کھوچکے ہیں یا ہمارے طاقت کے ستون جنہوں نے ہمیشہ عالمی طاقتوں کے مفادات کا کھیل کھیلا ہے وہ اتنے فرمانبردار بنا دیے گئے ہیں کہ وہ عالمی ادارے کی آڑ میں اپنی گروہی معاشی کمپنیوں کو بچانے کی فکر میں بے دست و پا ہیں۔
اس ساری ملکی اور خطے کی خطرناک صورتحال میں عالمی دباؤ کے زیر اثر چین کے مراسم میں سرد مہری اور چین کے حوالے سے گوادر اور شادی اسکینڈل کی خبریں۔ دراصل چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اختیارات کو روکنے کی وہ امریکا سعودی حکمت عملی ہے جس سے ایران کے ساتھ روس کو مشرق وسطی کے معاملات سے دور رکھنے کا پیغام ہے۔ مستقبل میں جہاں یہ پورا خطہ معاشی جنگ کی دلدل میں جاتا ہوا محسوس ہوتا ہے وہیں عوام کے گرتے ہوئے معاشی حالات بھی کسی بڑی جدوجہد کا شاخسانہ دکھائی دیتے ہیں۔
اس پوری صورتحال میں عوامی جتھوں کے منظم ہونے اور نظریاتی سیاست کا ایک ایسا وقت نظر آرہا ہے جو شاید خطے کو بہت بڑے بحران سے بچانے کا سبب ہو۔