ماہ رمضان میں مہنگائی۔۔۔۔۔۔

ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کرنا ہوگی!!


حکومت، تاجر برادری اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

ماہ رمضان رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک میں دنیا بھر کے مسلمان اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے اور اپنے گناہ بخشوانے کیلئے عبادات اور مخلوق خدا کی خدمت کرتے ہیں۔ روزہ داروں کیلئے سحری اور افطار کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے جبکہ غرباء اور مساکین کی روزہ کشائی کیلئے بھی ملک کے طول و عرض میں دسترخوان سجائے جاتے ہیں اور اللہ کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے۔

ایک طرف تو یہ سماں ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف اس ماہ مبارک کی آمد سے قبل ہی ہمارے معاشرے میں ناجائز منافع خوراور ذخیرہ اندوز متحرک ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے اس مہینے میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں اور عوام کی پہنچ سے باہر ہوجاتی ہیں۔رسد اور طلب میں عدم توازن، ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی اور متعلقہ حکومتی اداروں کی صورتحال پر قابو رکھنے میں ناکامی اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجوہات ہیں اور بسا اوقات قیمتوں میں 100 فیصد سے بھی زائد اضافے کا باعث بنتی ہیں۔

رواں سال بھی ماہ رمضان کا آغاز ہوتے ہی اشیائے خورونوش اور پھلوں کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔اسلام آباد، لاہور ، کراچی ، کوئٹہ ، پشاور الغرض ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے باسیوں کوگراں فروشی کے طوفان کا سامنا ہے جبکہ انتظامیہ مہنگائی کی روک تھام میں مکمل طور پر ناکام نظر آ رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے عوام کو ریلیف دینے کیلئے خصوصی رمضان بازار لگائے گئے ہیں اور ایگریکلچر فیئر پرائس شاپس بھی قائم کی گئی ہیں جہاں عوام کو سستے داموں اور ہول سیل ریٹ پر اشیائے ضروریات فراہم کی جارہی ہیں۔ ان بازاروں میں قیمتیں عام مارکیٹ کی نسبت کم ضرور ہیں لیکن ناقص اشیاء کی شکایات سامنے آرہی ہیں جبکہ لمبی قطاروں کے بعد ایک کلو چینی اور ایک پائو لیموں فروخت کیے جارہے ہیں۔

جس پر عوام سیخ پا ہیں۔ دوسری جانب اوپن مارکیٹ میں بعض دکانداروں کے پاس ریٹ لسٹ نہیں جن کے پاس ہے وہ بھی من مانی قیمت وصول کررہے ہیں۔موسمی دکاندار بھی بکثرت نظر آرہے ہیں جو اس ماہ مقدس میں ٹھیلے لگا کے زائد قیمت پر اشیاء بیچ رہے ہیں۔ درجہ اول پھلوں کے نام پر درجہ دوم پھل بیچے کر مرضی کے دام وصول کیے جا رہے ہیں۔ یہ باعث افسوس ہے کہ ماہ رمضان میں ناجائز منافع خوری کو تاجروں ، دکانداروں نے جائز بنا لیا ہے جو انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

مہنگائی، ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے عوام کن مشکلات سے دوچار ہیں اور حکومت انہیں ریلیف دینے کیلئے کیا اقدامات کر رہی ہے، اس بارے میں جاننے کیلئے ''ماہ رمضان میں مہنگائی اور حکومتی اقدامات ''کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، تاجر برادری اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ملک نعمان احمد لنگڑیال
(صوبائی وزیر زراعت پنجاب )
یوٹیلیٹی سٹورز وفاق کے زیر انتظام کام کر رہے ہیں، پنجاب حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ ماہ رمضان میں لوگوں کو ریلیف دینے کیلئے پنجاب بھر میں 309 رمضان بازار اور 309ایگریکلچر فیئر پرائس شاپس قائم کی گئی ہیں جہاں لوگوں کو سستے داموں اشیاء فراہم کی جارہی ہیں۔ چند مخصوص اشیاء پر سبسڈی کے ساتھ ساتھ دیگر اشیاء ہول سیل ریٹ پر فراہم کی جارہی ہیں، یہاں ایک کلو چینی اور ایک پائو لیموں کی فراہمی پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، یہ واضح ہونا چاہیے کہ رمضان بازار اور ایگریکلچر فیئر پرائس شاپس خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے لیے قائم کی گئی ہیں لہٰذا ان کی قوت خرید اور سپلائی کے حوالے سے انہیں اشیاء فراہم کی جارہی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ریلیف دیا جاسکے۔

جو شخص کاروبار کرتا ہے وہ منافع کیلئے کرتا ہے اور اس کی سوچ ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ منافع اکٹھا کیا جائے۔ افسوس ہے کہ ماہ رمضان میں منافع خوری کی انتہا کر دی جاتی ہے جس کی وجہ ایمان کی کمزوری ہے۔ حکومت مہنگائی پر قابو پانے کیلئے اقدامات کر رہی ہے۔ منڈیوں میں بولی کے وقت کمشنر، ڈپٹی کمشنر یا اسسٹنٹ کمشنر موجود ہوتے ہیں اور ہول سیل ریٹ مقرر کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ریٹیلرز اپنی مرضی کے ریٹ پر اشیاء فروخت کرتے ہیں، ہر محلے میںا لگ ریٹ ہے جس پر کارروائی کی جارہی ہے۔ ہر ڈسٹرکٹ میں مجسٹریٹس کی فورس بڑھائی گئی ہے، ناجائز منافع خوروں کو سزا دی جارہی ہے ، ذخیرہ اندوزوں اور مہنگائی کرنے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔چینی کی قیمت مقرر کرتے وقت تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی۔

حکومت نے چینی کا ریٹ 60 روپے فی کلو مقرر کیا ہے جبکہ مارکیٹ میں 66 روپے بھی فروخت ہورہی ہے، اس حوالے سے کارروائی کا آغاز ہوچکا ہے لہٰذا 60 روپے فی کلو چینی کی فروخت یقینی بنائیں گے۔ اس ماہ کے اختتام پر لیموں کی فصل آجائے گی جس کے بعد ریٹ میں کمی آئے گی۔ گزشتہ حکومت نے رمضان بازاروں میں ایئر کنڈیشنڈ اور سی سی ٹی وی کیمروں پر اربوں روپے ضائع کیے، ہم نے وہ رقم بچا کر اس مرتبہ ڈھائی ارب روپے کی زائد سبسڈی دی ہے۔فلور ملز ایسوسی ایشن نے ہمیں 30 روپے کی سبسڈی دی ہے۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن نے 7 روپے سبسڈی دی ہے۔ گھی ملز ایسوسی ایشن نے 10 سے 15 روپے فی کلو سبسڈی دی ہے۔ آٹے پر 30 روپے کی سبسڈی فلور ملز ایسوسی ایشن جبکہ 40 روپے حکومت نے سبسڈی دی جس سے عوام کو خاطر خواہ ریلیف ملا ہے۔ ہماری سمت درست ہے اور ہم عوامی بہتری کیلئے کام کر رہے ہیں۔

عرفان اقبال شیخ
(نمائندہ تاجر برادری)
ماہ رمضان میں مہنگائی کا تعلق ڈیمانڈ اور سپلائی کے اصول پر مبنی ہے۔یہ معاشیات کا اصول ہے کہ جب ڈیمانڈ زیادہ ہوگی اور سپلائی کم ہوگی تو مہنگائی میں اضافہ ہوگا لیکن اگر ڈیمانڈ اور سپلائی متوازن ہو تو مہنگائی نہیں ہوگی۔ سرکاری سطح پرمنصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ عمومی طور پر اگر 2 ٹن پھل روزانہ استعمال ہوتا ہے تو ماہ رمضان میں 18 ٹن روزانہ پر پہنچ جاتا ہے۔

اس کے لیے حکومت نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی کہ یہ پھل کس طرح فراہم کیے جائیں گے اور ان کی کمی کو کس طرح دور کیا جائے گا۔ اگر ماہ رمضان سے کم از کم 2 ماہ پہلے موثر منصوبہ بندی کی جائے تو بہتری لائی جاسکتی ہے۔پھل، سبزیاں، بیسن، سفید چنا، چینی،سرخ مرچ سمیت 10 کے قریب ایسی اشیاء ہیں جن کا ماہ رمضان میں استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ اگر حکومت ان کی ڈیمانڈ کے مطابق سپلائی کا بندوبست کر لے تو مہنگائی نہیں ہوگی۔ اس وقت منڈی میں 66 روپے کلوچینی فروخت ہورہی ہے جبکہ حکومت نے اس کا ریٹ 60 روپے فی کلو مقرر کیا ہے۔ دکانداروں کیلئے مسئلہ یہ ہے کہ وہ 66 روپے منڈی سے خرید کر اس میں ٹرانسپورٹ اور پیکنگ کا خرچ جمع کریں تو 69 سے 70 روپے فی کلو بن جاتی ہے، وہ کس طرح 60 روپے فروخت کرسکتے ہیں۔

دکانداروں کو گرفتار کرنے سے فائدہ نہیں ہوگا بلکہ حکومت کو تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کرنے چاہئیں اور موثر منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ اگر ڈیمانڈ کے مطابق سپلائی یقینی بنائی جائے تو قیمتوں میں خود بخود کمی آجائے گی۔ماہ رمضان میں مہنگائی دیرینہ مسئلہ ہے۔

میری حکومت سے گزارش ہے کہ ماہ رمضان سے قبل تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے گودام بنائے جائیں، اس طرح اشیائے خورونوش کی کمی نہیں ہوگی، قیمتیں قابو میں رہیں گی اور لوگوں کو ریلیف ملے گا۔ من حیث القوم ہمارا فرض ہے کہ اس ماہ مقدس میں لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کریں اورجہاں خرابی ہے اسے دور کیا جائے۔ اس حوالے سے حکومت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ روزہ داروں کا خیال رکھے۔ رمضان بازاروں میں تمام حکومتی ادارے کام کر رہے ہیں جن کے اخراجات خزانے پر بوجھ ہیں، یہ بازار قائم کرنے کے بجائے اگر اتنی رقم ڈیمانڈ اور سپلائی کو بہتر بنانے میں خرچ کی جائے تو مہنگائی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ڈالر، آئل و بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، عوام کو ریلیف دینے کیلئے موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔

حافظ عارف گجر
(صدر کریانہ مرچنٹ ایسوسی ایشن لاہور)
یہ تاثر غلط ہے کہ ماہ رمضان میں صرف بیرونی ممالک میں ہی رعایت دی جاتی ہے اور یہاں مہنگائی کر دی جاتی ہے بلکہ ہمارے ملک میں بھی بے شمار کمپنیاں اس ماہ مبارک میں لوگوں کو خصوصی رعایت دیتی ہیں تاہم دالیں، سبزیاں و دیگر اشیاء جن کا ریٹ حکومت طے کرتی ہے، ان کے معاملات خراب ہیں۔

چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے مسائل درپیش ہیں کیونکہ حکومت کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کونسی چیز کم ہے کہ باہر سے منگوا لی جائے۔ دوسرے ممالک میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے مگر وہ کمی ہونے سے پہلے ہی ڈیمانڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے اشیاء درآمد کر لیتے ہیں۔ لیموں کا ریٹ آسمان کو چھو رہا ہے جس کی وجہ اس کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہے، اگر یہ درآمد کر لیا جاتا تو مسائل پیدا نہ ہوتے۔ پہلے بھی دوسرے ممالک سے پھل و سبزیاں درآمد کرتے رہے ہیں، اب بھی اگر کر لیتے تو کوئی برائی نہیں تھی مگر ایسا لگتا ہے کہ کوئی اپنی ذمہ داری نبھانا نہیں چاہتا۔ حکومت نے رمضان بازاروں میں اپنے سٹالز لگائے ہیں جہاں لمبی قطاریں ہیں اور صرف ایک پائو لیموں دیے جاتے ہیں۔

حکومت نے ماہ رمضان میں لاہور کیلئے سبسڈی کی مد میں 20 کروڑ روپے رکھے جو بہت بڑی رقم ہے، اگر اس رقم سے پورے لاہور کو دالیں مفت دی جائیں تو وہ ختم نہیں ہوگی۔ یہ الگ سوال ہے کہ یہ رقم کہاں خرچ ہوگی۔ رمضان بازار اور سستی دکانیں لگانا حکومت کا کام نہیں۔ یہ کام پرائیویٹ سیکٹر کے سپرد کر دیا جائے، اس سے بہتری آئے گی۔ حکومتی ادارے خسارے میں ہیں جن سے نقصان ہو رہا ہے۔ یوٹیلیٹی سٹورز میں 26 ارب روپے ڈوب گئے۔ میں نے حکومت سے کہا تھا کہ صرف لاہور کے یوٹیلیٹی سٹورز کریانہ مرچنٹ ایسوسی ایشن کو دے دیں، ہم حکومت سے ایک روپیہ بھی نہیں لیں گے، نہ منافع لیں گے اور نہ ہی کسی ورکر کو نکالا جائے گا۔ اس وقت ہم سے پوچھا گیا کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟ ہم ایک کریانہ سٹور سے دوسرا سٹور بنا لیتے ہیں، ہم زیادہ تعلیم یافتہ نہیں مگر ہمارا تجربہ زیادہ ہے۔ حکومتی اداروں میں تو 4، 4 لاکھ روپے تنخواہ والے افسران کام کر رہے ہیں۔ ہم اگر کریانہ سٹورز چلا سکتے ہیں تو یوٹیلیٹی سٹورز کیوں نہیں۔

ماضی میں یوٹیلیٹی سٹورز منافع بخش تھے مگر اب وہ اربوں روپے کے خسارے میں ہیں۔ اب حکومت نے یوٹیلیٹی سٹورز کو 2 ارب روپے دیے ہیں مگر وہاں اشیاء میسر نہیں ہیں۔ اگر یوٹیلیٹی سٹورز کے انتظامی امور پرائیویٹ سیکٹر کو دے دیتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ میں نے یہ بھی تجویز دی تھی کہ رمضان بازار کریانہ مرچنٹ ایسوسی ایشن کو دے دیں، ہم خود ہی تمام ماڈل بازار لگائیں گے۔ ایک مرتبہ رمضان بازاروں کے 20 کروڑ روپے بچا لیے جائیں تو آئندہ ان کی بازاروں کی تعداد دوگنا کی جاسکتی ہے۔ حکومت نے چینی پر 11 روپے فی کلو سبسڈی دی اور قیمت میں 15 روپے فی کلو اضافہ کر دیا گیا۔ افسوس ہے کہ 53 روپے فی کلو والی چینی 66 روپے کلو فروخت ہورہی ہے۔ ملز مالکان سے پوچھا ہی نہیں گیا کہ ریٹ میں اضافہ کیوں ہوا۔ اداروں اور ہمارے درمیان رابطوں کی کمی ہے، اس خلاء کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں، اسے دور کرنا ہوگا۔ اگر تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان کووآڈینیشن ہوتی تو اس ماہ رمضان میں صورتحال یکسر مختلف ہوتی اور عوام کو ریلیف ملتا۔

آمنہ ملک
(نمائندہ سول سوسائٹی )
بدقسمتی سے مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید کم ہوگئی ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ لوگ بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ یہ نعرہ لگایا جاتا ہے کہ ''ریاست ہوگی ماں کے جیسی'' مگر افسوس ہے کہ ماں اپنے بچوں کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کر پا رہی۔ یوٹیلیٹی سٹورز خالی ہیں۔ وہاں مشروبات بھی دستیاب نہیں۔ وہاں اشیاء خورونوش ناپید ہیں۔ جب ان سے پوچھا جاتاہے تو کہتے ہیں کمپنیاں مال نہیں دے رہی، حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے اور ذخیرہ اندوزو ں کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔مہنگائی کی وجہ سے خاندانی نظام متاثر ہوگیا ہے۔ دسترخوان پر رشتہ داروں کو بلانا تو دور، اپنے گھر والوں کو پیٹ بھر کر کھلانا مشکل ہوگیا ہے۔ ماہ رمضان میں دنیا 50 فیصد تک رعایت دے رہی ہے مگر افسوس ہے کہ ہماری حکومت نے 200 فیصد مہنگائی کر دی۔

اگر مشکل حالات بھی ہیں تو ایک ماہ انتظار کر لیتے پھر مہنگائی بم گرا دیتے۔ مارکیٹ میں خریدار کم ہیں اور جو کچھ خرید بھی رہے ہیں وہ بھی بہت ساری اشیاء خرید نہیں پاتے۔ دھنیا اور ہری مرچ، سبزی کے ساتھ مفت ملتے تھے مگر اب وہ بھی مہنگے داموں فروخت ہورہے ہیں۔ بازاروں میں غیر معیاری اشیاء فروخت ہورہی ہیں جبکہ لمبی قطار کے بعد صرف ایک پائو لیموں دیے جاتے ہیں جو افسوسناک ہے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ 70 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ والا شخص بھی پریشان ہے جس کے لیے خاندانی امور چلانا مشکل ہوگیا ہے۔دودھ کا ڈبہ مہنگا ہوگیا ہے، سوال یہ ہے کہ جس ملک میں بچہ دودھ نہیں پی سکتا وہاں اچھی نسل کی افزائش کیسے ہوگی۔ یہاں تو اشیاء بھی غیر معیاری اور ملاوٹ زدہ فروخت ہورہی ہیں جنہیں کھانے والے بیمار ہو رہے ہیں۔حکومت کو ان تمام مسائل پر قابو پانے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس وقت کرپشن بہت زیادہ ہے، اگر اعلیٰ افسران کو نچلی سطح کی کرپشن نظر نہیں آرہی تو یہ مسئلہ بھی حکومت کا ہے، ریاست کو ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے عوام کے مسائل حل کرنا ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں