جادوئی جھاڑی پہاڑی علاقوں کی قسمت بدل سکتی ہے
سی بک تھورن کے بیری نما پھل میں 190 سے زیادہ غذائی مرکبات موجود ہیں جو لاتعداد طبی خوبیوں کی حامل ہیں
اسکردو اور اس کے گردونواح، یعنی دوردراز پہاڑی علاقوں میں اگر آپ کو خواتین کے فعال بزنس گروپ نظر آئیں تو ایک خوشگوار حیرت تو ہوگی۔ مزید حیرت اس پر ہوگی کہ یہ تمام خواتین باقاعدہ تربیت یافتہ اور اپنے اپنے چھوٹے پیمانے پر کاروباری یونٹس چلارہی ہیں۔ گویا دنیا بھر میں اب معاشرے کی ترقی کےلیے ملازمتوں کے بجائے چھوٹے پیمانے پر جو ویمن اینٹریپرینیور کا فلسفہ پیش کیا جارہا ہے اور جس پر عالمی سطح پر بڑی بڑی کانفرنسیں منعقد ہورہی ہیں، اس کا عملی نمونہ آپ اپنے شمالی علاقہ جات میں دیکھ سکتے ہیں۔
ہم نے ایک خاتون زبیدہ بی بی سے پوچھا کہ وہ سالانہ کتنے پیسے کمالیتی ہیں؟ تو انہوں نے نہایت خوشی سے بتایا کہ وہ سالانہ 80 ہزار سے ایک لاکھ تک کما لیتی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں ''اندازہ ہی نہیں تھا کہ یہ جھاڑی 'سی بک تھارن' جو ہمارے علاقے میں اگی ہوئی ہے، اتنے کام کی ہوسکتی ہے۔ ہم تو اسے صرف جلانے کےلیے استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔''
یہ سی بک تھارن (Sea Buckthorn) جھاڑی ہی کا کمال ہے کہ اس سے پانچ سے چھ ہزار لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور کم از کم چار سو خواتین اس جھاڑی سے مختلف مصنوعات کی تیاری کے کام سے وابستہ ہیں۔ یہ ایک ایسا انقلاب ہے جو دھیرے دھیرے پہاڑی علاقوں میں تبدیلی کا نقیب ثابت ہورہا ہے۔ تاہم بہت کچھ کرنا ابھی باقی ہے۔
پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار حیاتیاتی انواع اور قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ ان ہی میں ایک ''سی بک تھارن'' نامی ایک خودرو جھاڑی دار پودا بھی ہے۔ یہ پودا بلوچستان، خیبرپختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ اس میں خشک سالی کی صورت میں بھی نشوونما پانے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ یہ شدید سرد و گرم موسموں اور زیر زمین نمکیات کے مقابلے میں مدافعتی قوت کا حامل ہے۔ اس لیے کسی بھی قسم کے موسمی حالات کی حامل زمین میں بھی بہ آسانی پنپ جاتا ہے۔ ہم اسے ایک طرح کی بیری یا بیر کا پودا بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ اس پودے میں بیر کی طرح کانٹے ہوتے ہیں اور اس کا پھل بھی جنگلی بیری کی طرح کا ہوتا ہے۔ ہمارے ان قصبوں اور دیہاتوں میں جہاں یہ پایا جاتا ہے، اسے نوکیلے کانٹوں کی وجہ سے زیادہ تر دفاعی باڑھ یا پھر بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک اس کا پھل کوئی مقبولیت حاصل نہیں کرسکا تھا اور نہ ہی اس کی افادیت کے بارے میں عوام کو زیادہ علم تھا، لیکن اب صورت حال بدل چکی ہے۔
ماہرین کے مطابق سی بک تھورن کے بیری نما پھل کے بیج، گودے اور رس میں 190 سے زیادہ غذائی مرکبات موجود ہیں جن میں لاتعداد طبی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بعض ترقی یافتہ ممالک مثلاً چین، روس، یورپ اور شمالی امریکا اس پودے کے غذائی مرکبات کے ذریعے تجارتی فوائد حاصل کررہے ہیں اور یہ تجارت اربوں ڈالر سالانہ پر مشتمل ہے۔ صرف چین میں اس وقت 200 کے قریب کارخانوں میں اس جنگلی بیر کے ذریعے ادویہ، غذا اور بناؤ سنگھار کی اشیا تیار ہورہی ہیں۔
1996 میں اس جنگلی بیر کے چینی ماہر پروفیسر لیورونجن نے گلگت، چترال، اسکردو اور سوات کی وادیوں کا ابتدائی دورہ کرکے اندازہ لگایا تھا کہ پاکستان میں یہ پودا تقریباً تین ہزار ہیکٹر پر پیدا ہورہا ہے، جس سے سالانہ بارہ سو سے ڈھائی ہزار ٹن تک پھل حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر رونجن کا خیال تھا کہ اس پودے کی کاشت اور نشوونما کےلیے پاکستان کے موسمی حالات اور آب و ہوا نہایت موزوں ہیں۔ پروفیسر رونجن کے اس ابتدائی جائزے کی بنیاد پر چند سال قبل حکومت پاکستان کی وفاقی وزارت برائے غذا و زراعت نے آئی سی موڈ (ICIMOD) نامی ادارے کے تعاون سے، بارانی اراضی پر تحقیق و ترقی کے قومی ادارے (PARC-AZRI) کے ذریعے تجرباتی منصوبے پر کام شروع کیا تھا۔ کاشت کاروں کو پودے اور اس کے پھل کی افادیت سے روشناس کرانے کے ضمن میں منصوبے کو کامیابی حاصل ہوئی۔ بعدازاں اسکردو میں کاشت کاروں کی سہولت کی خاطر ایک کارخانہ بھی لگایا گیا جہاں اس بیری کا عرق نکالا جانا مقصود تھا۔ اسکردو میں پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (PCSIR) کا دفتر بھی موجود ہے، جو اس ضمن میں بہت فعال ہے۔
اسکردو کے قرب و جوار میں واقع دیہات کے لوگوں کو محدود پیمانے پر ہی سہی لیکن اس خودرو پودے کی تجارتی اہمیت کا اندازہ ہوگیا ہے۔ اسی وجہ سے وہ سی بک تھورن کی حفاظت کےلیے انتظامات کررہے ہیں۔ بعض جگہوں پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس زمین پر یہ موجود ہے، اس کے مالکان نے اس رقبے کو چار دیواری میں محفوظ کرلیا ہے۔ اس کی حفاظت اور باقاعدہ کاشت پر بھی توجہ دی جانے لگی ہے۔
اس سلسلے میں ہم مقامی تنظیم ''پاک سی بک تھارن انٹرنیشنل'' کے کام کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ یہ تنظیم ان علاقوں میں 2002 سے کام کررہی ہے۔ اس تنظیم کے بانی غلام نبی شگری ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے 17 سال میں ان کی تنظیم نے ہزاروں افراد میں سی بک تھارن کی غذائی اور طبی اہمیت کے حوالے سے آگاہی فراہم کی ہے، خصوصاً خواتین میں۔ اب تک باقاعدہ 400 سے زائد خواتین کو سی بک تھارن کی مختلف مصنوعات تیار کرنے کے حوالے سے تربیت دی جاچکی ہے۔ اس جھاڑی کی مربوط پیداوار کےلیے کسانوں اور کاشت کاروں کو بھی معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ ان ہی کی تنظیم کے تحت تقریباً ہر سال 100 ٹن سے زائد سی بک تھارن کے خشک پھل ایکسپورٹ کیے جاتے ہیں۔ 70 فیصد سے زائد مصنوعات یورپی ممالک کو سپلائی کی جاتی ہیں جبکہ تیس فیصد اندرون ملک استعال ہوتی ہیں۔
سی بک تھارن کی مصنوعات میں اس کا خشک پھل سب سے اہم ہے جسے ''بیری'' بھی کہا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، اسی ''بیری'' سے کشید کیا ہوا تیل، پاؤڈر، جام، ڈائٹ جام، کینڈی، چائے اور اسکن کیئر آئل قابل ذکر ہیں۔ اسے ہر شکل میں کھایا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر میں اس کی غذائی اور طبی اہمیت تسلیم کی جاچکی ہے؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں اس کا استعمال بہت کم ہے۔
ایسے میں کہ جب پاکستان کی زرعی پیداوار روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں ناکافی ہوتی جارہی ہے، تو غیر روایتی اور قدرتی توانائی فراہم کرنے والے وسائل کی تلاش ناگزیر ہوگئی ہے جس کے اجزا سے غذا کو متوازن بنانے کے ضروری عناصر حاصل کیے جاسکیں نیز جن کی شمولیت سے غذا متوازن جسمانی ضروریات کے عین مطابق ہوسکے۔ علاوہ ازیں زراعت سے وابستہ طبقے کو نئی نئی چیزوں کی کاشت اور آمدنی کے حصول کا راستہ بھی سُجھایا جائے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے پالیسی ساز، زرعی، طبی اور غذائی تحقیق کے ادارے اور ترقیاتی شعبے اس پھل سے بھرپور فائدہ اٹھانے کےلیے باضابطہ تحقیق اور عملی کوششیں کریں تاکہ اس خودرو پودے کے فوائد سے بھرپور فائدہ اٹھا کر غربت میں کمی اور پائیدار معاشی ترقی کی راہ پر چلا جاسکے۔
غذا کو صرف زبان کا چٹخارہ یا پیٹ بھرنے کا ذریعہ سمجھا جائے تو یہ غلط ہوگا۔ حقیقت میں متوازن غذا وہ ہے جس سے جسم کو درکار توانائی ملے۔ متوازن غذا کے حوالے سے دیکھیں تو اس جھاڑی کے پھل، گٹھلی، گودے اور عرق میں 197 سے زیادہ مفید وٹامنز پائے گئے ہیں۔ ان میں وٹامن 'سی' اور وٹامن 'ای' کے علاوہ مختلف معدنیات اور مفید کیمیائی عناصر بھی شامل ہیں۔ بظاہر معمولی سا نظر آنے والا ایک خودرو پھل صحت و توانائی کےلیے درکار تمام ضروری غذائی اجزا سے بھرپور ہے۔ اگر اس کے اجزا روزمرہ کی غذائی اشیا مثلاً جوس، جیلی، جیم، مارملیڈ، ٹافیوں اور چاکلیٹ وغیرہ میں بھی شامل کرلیے جائیں تو اس سے جسم کو درکار توانائی اور ضروری کیمیائی مادّوں کا بڑا حصہ فراہم ہوسکتا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے سی بک تھورن کے بیری نما پھل میں کچھ ایسے قدرتی حیاتیاتی اجزا شامل ہیں جو طبی نقطہ نظر سے شریانوں میں خون کی رکاوٹ، امراض قلب، اعصابی کمزوری، ورم، جلدی خارش، بڑھاپے میں کمزوری جیسی عام بیماریوں اور جسمانی تکالیف میں فائدہ پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگرچہ سی بک تھورن کے پھل اور اس کے مختلف اجزا پر تحقیق کا سلسلہ ہنوز جاری ہے لیکن چین، کینیڈا اور بعض یورپی ممالک میں مختلف امراض کے علاج کےلیے اس کا استعمال عام طور پر کیا جارہا ہے۔ خصوصاً چین اور روس میں تو اس سے تیار کردہ طبی ادویہ بہت مقبول ہیں۔
بعض جلدی امراض، آگ سے جلنے، حتیٰ کہ تابکاری وغیرہ کے اثرات کے علاج کےلیے بھی اس پودے کے پتوں سے تیل نکال کر مرہم تیار کرکے کامیابی سے استعمال کیا جارہا ہے۔ 1986 میں روس کے چرنوبل کے مقام پر موجود جوہری توانائی کے مرکز میں ہونے والے حادثے کے بعض متاثرین کا علاج اس تیل اور مرہم سے کامیابی کے ساتھ کیا گیا۔ علاوہ ازیں اس تیل میں بالائے بنفشی شعاعوں (الٹراوائلٹ ریز) کو جذب کرنے کی بھی صلاحیت پائی گئی ہے۔ اسی خاصیت کی بنا پر اس کا استعمال جلد کو دھوپ سے بچانے والی کریم اور لوشن کی تیاری میں بھی کیا جارہا ہے۔
سی بک تھورن کی جڑیں چونکہ زمین میں خاصی دور تک پھیل جاتی ہیں، اس لیے زمین کی بردگی روکنے کےلیے یہ ایک انتہائی موزوں اور اہم پودا ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں سے ملک کے پہاڑی علاقوں میں جنگلات کے تیزی سے کٹنے کے باعث بارشوں میں پہاڑی ڈھلوانوں کی مٹی کو بہہ جانے سے روکنے کے ضمن میں یہ خودرو جھاڑی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ علاوہ ازیں وہ علاقے جہاں زمین بوسیدگی کا شکار ہے یا زمینی بردگی کا عمل تیز ہے، وہاں اس کی کاشت کو فروغ دے کر نہایت کم قیمت پر ماحولیاتی انحطاط کو روکا جاسکتا ہے۔
سی بک تھورن میں جراثیم یا کیڑے مکوڑوں سے بچاؤ کی قدرتی اہلیت موجود ہے۔ اس لیے جہاں یہ وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے، وہاں فصلوں کو نقصان دہ حشرات الارض اور کیڑے مکوڑوں سے بچاؤ کےلیے مہنگی جراثیم کش اور ماحول اور قدرتی وسائل کو نقصان پہنچانے والی کیمیائی ادویہ کے استعمال کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہ بات نہ صرف ماحول کو خوشگوار رکھنے کا باعث بنتی ہے بلکہ فصل کو قدرتی انداز میں پنپنے اور کسان کےلیے بہتر منافع حاصل کرنے کا سبب بھی بنتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ہم نے ایک خاتون زبیدہ بی بی سے پوچھا کہ وہ سالانہ کتنے پیسے کمالیتی ہیں؟ تو انہوں نے نہایت خوشی سے بتایا کہ وہ سالانہ 80 ہزار سے ایک لاکھ تک کما لیتی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں ''اندازہ ہی نہیں تھا کہ یہ جھاڑی 'سی بک تھارن' جو ہمارے علاقے میں اگی ہوئی ہے، اتنے کام کی ہوسکتی ہے۔ ہم تو اسے صرف جلانے کےلیے استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔''
یہ سی بک تھارن (Sea Buckthorn) جھاڑی ہی کا کمال ہے کہ اس سے پانچ سے چھ ہزار لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور کم از کم چار سو خواتین اس جھاڑی سے مختلف مصنوعات کی تیاری کے کام سے وابستہ ہیں۔ یہ ایک ایسا انقلاب ہے جو دھیرے دھیرے پہاڑی علاقوں میں تبدیلی کا نقیب ثابت ہورہا ہے۔ تاہم بہت کچھ کرنا ابھی باقی ہے۔
پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار حیاتیاتی انواع اور قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ ان ہی میں ایک ''سی بک تھارن'' نامی ایک خودرو جھاڑی دار پودا بھی ہے۔ یہ پودا بلوچستان، خیبرپختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ اس میں خشک سالی کی صورت میں بھی نشوونما پانے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ یہ شدید سرد و گرم موسموں اور زیر زمین نمکیات کے مقابلے میں مدافعتی قوت کا حامل ہے۔ اس لیے کسی بھی قسم کے موسمی حالات کی حامل زمین میں بھی بہ آسانی پنپ جاتا ہے۔ ہم اسے ایک طرح کی بیری یا بیر کا پودا بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ اس پودے میں بیر کی طرح کانٹے ہوتے ہیں اور اس کا پھل بھی جنگلی بیری کی طرح کا ہوتا ہے۔ ہمارے ان قصبوں اور دیہاتوں میں جہاں یہ پایا جاتا ہے، اسے نوکیلے کانٹوں کی وجہ سے زیادہ تر دفاعی باڑھ یا پھر بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک اس کا پھل کوئی مقبولیت حاصل نہیں کرسکا تھا اور نہ ہی اس کی افادیت کے بارے میں عوام کو زیادہ علم تھا، لیکن اب صورت حال بدل چکی ہے۔
ماہرین کے مطابق سی بک تھورن کے بیری نما پھل کے بیج، گودے اور رس میں 190 سے زیادہ غذائی مرکبات موجود ہیں جن میں لاتعداد طبی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بعض ترقی یافتہ ممالک مثلاً چین، روس، یورپ اور شمالی امریکا اس پودے کے غذائی مرکبات کے ذریعے تجارتی فوائد حاصل کررہے ہیں اور یہ تجارت اربوں ڈالر سالانہ پر مشتمل ہے۔ صرف چین میں اس وقت 200 کے قریب کارخانوں میں اس جنگلی بیر کے ذریعے ادویہ، غذا اور بناؤ سنگھار کی اشیا تیار ہورہی ہیں۔
1996 میں اس جنگلی بیر کے چینی ماہر پروفیسر لیورونجن نے گلگت، چترال، اسکردو اور سوات کی وادیوں کا ابتدائی دورہ کرکے اندازہ لگایا تھا کہ پاکستان میں یہ پودا تقریباً تین ہزار ہیکٹر پر پیدا ہورہا ہے، جس سے سالانہ بارہ سو سے ڈھائی ہزار ٹن تک پھل حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر رونجن کا خیال تھا کہ اس پودے کی کاشت اور نشوونما کےلیے پاکستان کے موسمی حالات اور آب و ہوا نہایت موزوں ہیں۔ پروفیسر رونجن کے اس ابتدائی جائزے کی بنیاد پر چند سال قبل حکومت پاکستان کی وفاقی وزارت برائے غذا و زراعت نے آئی سی موڈ (ICIMOD) نامی ادارے کے تعاون سے، بارانی اراضی پر تحقیق و ترقی کے قومی ادارے (PARC-AZRI) کے ذریعے تجرباتی منصوبے پر کام شروع کیا تھا۔ کاشت کاروں کو پودے اور اس کے پھل کی افادیت سے روشناس کرانے کے ضمن میں منصوبے کو کامیابی حاصل ہوئی۔ بعدازاں اسکردو میں کاشت کاروں کی سہولت کی خاطر ایک کارخانہ بھی لگایا گیا جہاں اس بیری کا عرق نکالا جانا مقصود تھا۔ اسکردو میں پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (PCSIR) کا دفتر بھی موجود ہے، جو اس ضمن میں بہت فعال ہے۔
اسکردو کے قرب و جوار میں واقع دیہات کے لوگوں کو محدود پیمانے پر ہی سہی لیکن اس خودرو پودے کی تجارتی اہمیت کا اندازہ ہوگیا ہے۔ اسی وجہ سے وہ سی بک تھورن کی حفاظت کےلیے انتظامات کررہے ہیں۔ بعض جگہوں پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس زمین پر یہ موجود ہے، اس کے مالکان نے اس رقبے کو چار دیواری میں محفوظ کرلیا ہے۔ اس کی حفاظت اور باقاعدہ کاشت پر بھی توجہ دی جانے لگی ہے۔
اس سلسلے میں ہم مقامی تنظیم ''پاک سی بک تھارن انٹرنیشنل'' کے کام کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ یہ تنظیم ان علاقوں میں 2002 سے کام کررہی ہے۔ اس تنظیم کے بانی غلام نبی شگری ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے 17 سال میں ان کی تنظیم نے ہزاروں افراد میں سی بک تھارن کی غذائی اور طبی اہمیت کے حوالے سے آگاہی فراہم کی ہے، خصوصاً خواتین میں۔ اب تک باقاعدہ 400 سے زائد خواتین کو سی بک تھارن کی مختلف مصنوعات تیار کرنے کے حوالے سے تربیت دی جاچکی ہے۔ اس جھاڑی کی مربوط پیداوار کےلیے کسانوں اور کاشت کاروں کو بھی معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ ان ہی کی تنظیم کے تحت تقریباً ہر سال 100 ٹن سے زائد سی بک تھارن کے خشک پھل ایکسپورٹ کیے جاتے ہیں۔ 70 فیصد سے زائد مصنوعات یورپی ممالک کو سپلائی کی جاتی ہیں جبکہ تیس فیصد اندرون ملک استعال ہوتی ہیں۔
سی بک تھارن کی مصنوعات میں اس کا خشک پھل سب سے اہم ہے جسے ''بیری'' بھی کہا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، اسی ''بیری'' سے کشید کیا ہوا تیل، پاؤڈر، جام، ڈائٹ جام، کینڈی، چائے اور اسکن کیئر آئل قابل ذکر ہیں۔ اسے ہر شکل میں کھایا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر میں اس کی غذائی اور طبی اہمیت تسلیم کی جاچکی ہے؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں اس کا استعمال بہت کم ہے۔
ایسے میں کہ جب پاکستان کی زرعی پیداوار روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں ناکافی ہوتی جارہی ہے، تو غیر روایتی اور قدرتی توانائی فراہم کرنے والے وسائل کی تلاش ناگزیر ہوگئی ہے جس کے اجزا سے غذا کو متوازن بنانے کے ضروری عناصر حاصل کیے جاسکیں نیز جن کی شمولیت سے غذا متوازن جسمانی ضروریات کے عین مطابق ہوسکے۔ علاوہ ازیں زراعت سے وابستہ طبقے کو نئی نئی چیزوں کی کاشت اور آمدنی کے حصول کا راستہ بھی سُجھایا جائے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے پالیسی ساز، زرعی، طبی اور غذائی تحقیق کے ادارے اور ترقیاتی شعبے اس پھل سے بھرپور فائدہ اٹھانے کےلیے باضابطہ تحقیق اور عملی کوششیں کریں تاکہ اس خودرو پودے کے فوائد سے بھرپور فائدہ اٹھا کر غربت میں کمی اور پائیدار معاشی ترقی کی راہ پر چلا جاسکے۔
غذائی اہمیت
غذا کو صرف زبان کا چٹخارہ یا پیٹ بھرنے کا ذریعہ سمجھا جائے تو یہ غلط ہوگا۔ حقیقت میں متوازن غذا وہ ہے جس سے جسم کو درکار توانائی ملے۔ متوازن غذا کے حوالے سے دیکھیں تو اس جھاڑی کے پھل، گٹھلی، گودے اور عرق میں 197 سے زیادہ مفید وٹامنز پائے گئے ہیں۔ ان میں وٹامن 'سی' اور وٹامن 'ای' کے علاوہ مختلف معدنیات اور مفید کیمیائی عناصر بھی شامل ہیں۔ بظاہر معمولی سا نظر آنے والا ایک خودرو پھل صحت و توانائی کےلیے درکار تمام ضروری غذائی اجزا سے بھرپور ہے۔ اگر اس کے اجزا روزمرہ کی غذائی اشیا مثلاً جوس، جیلی، جیم، مارملیڈ، ٹافیوں اور چاکلیٹ وغیرہ میں بھی شامل کرلیے جائیں تو اس سے جسم کو درکار توانائی اور ضروری کیمیائی مادّوں کا بڑا حصہ فراہم ہوسکتا ہے۔
طبی اہمیت
سائنس دانوں کا کہنا ہے سی بک تھورن کے بیری نما پھل میں کچھ ایسے قدرتی حیاتیاتی اجزا شامل ہیں جو طبی نقطہ نظر سے شریانوں میں خون کی رکاوٹ، امراض قلب، اعصابی کمزوری، ورم، جلدی خارش، بڑھاپے میں کمزوری جیسی عام بیماریوں اور جسمانی تکالیف میں فائدہ پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگرچہ سی بک تھورن کے پھل اور اس کے مختلف اجزا پر تحقیق کا سلسلہ ہنوز جاری ہے لیکن چین، کینیڈا اور بعض یورپی ممالک میں مختلف امراض کے علاج کےلیے اس کا استعمال عام طور پر کیا جارہا ہے۔ خصوصاً چین اور روس میں تو اس سے تیار کردہ طبی ادویہ بہت مقبول ہیں۔
بعض جلدی امراض، آگ سے جلنے، حتیٰ کہ تابکاری وغیرہ کے اثرات کے علاج کےلیے بھی اس پودے کے پتوں سے تیل نکال کر مرہم تیار کرکے کامیابی سے استعمال کیا جارہا ہے۔ 1986 میں روس کے چرنوبل کے مقام پر موجود جوہری توانائی کے مرکز میں ہونے والے حادثے کے بعض متاثرین کا علاج اس تیل اور مرہم سے کامیابی کے ساتھ کیا گیا۔ علاوہ ازیں اس تیل میں بالائے بنفشی شعاعوں (الٹراوائلٹ ریز) کو جذب کرنے کی بھی صلاحیت پائی گئی ہے۔ اسی خاصیت کی بنا پر اس کا استعمال جلد کو دھوپ سے بچانے والی کریم اور لوشن کی تیاری میں بھی کیا جارہا ہے۔
ماحولیاتی اہمیت
سی بک تھورن کی جڑیں چونکہ زمین میں خاصی دور تک پھیل جاتی ہیں، اس لیے زمین کی بردگی روکنے کےلیے یہ ایک انتہائی موزوں اور اہم پودا ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں سے ملک کے پہاڑی علاقوں میں جنگلات کے تیزی سے کٹنے کے باعث بارشوں میں پہاڑی ڈھلوانوں کی مٹی کو بہہ جانے سے روکنے کے ضمن میں یہ خودرو جھاڑی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ علاوہ ازیں وہ علاقے جہاں زمین بوسیدگی کا شکار ہے یا زمینی بردگی کا عمل تیز ہے، وہاں اس کی کاشت کو فروغ دے کر نہایت کم قیمت پر ماحولیاتی انحطاط کو روکا جاسکتا ہے۔
زراعت
سی بک تھورن میں جراثیم یا کیڑے مکوڑوں سے بچاؤ کی قدرتی اہلیت موجود ہے۔ اس لیے جہاں یہ وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے، وہاں فصلوں کو نقصان دہ حشرات الارض اور کیڑے مکوڑوں سے بچاؤ کےلیے مہنگی جراثیم کش اور ماحول اور قدرتی وسائل کو نقصان پہنچانے والی کیمیائی ادویہ کے استعمال کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہ بات نہ صرف ماحول کو خوشگوار رکھنے کا باعث بنتی ہے بلکہ فصل کو قدرتی انداز میں پنپنے اور کسان کےلیے بہتر منافع حاصل کرنے کا سبب بھی بنتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔