رمضان اور عوام

سبزیاں اور پھل جو رمضان میں زیادہ استعمال ہوتے ہیں،رمضان شروع ہوتے ہی انتہائی مہنگے کردیے جاتے ہیں۔

دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح پاکستانیوں کو بھی ماہ ِ رمضان المبارک کا شدت سے انتظار رہتا ہے۔ ہر کوئی کوشش کرتا ہے کہ رمضان آئے اور اُسے صحیح طریقے سے گزار کر نیکیاں سمیٹی جائیں اور اپنے گناہوں کا بوجھ ہلکا کیا جائے ۔

اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید کے ذریعے اور پھر اپنے حبیب حضرت محمد ﷺ اور ان کے نمائندوں کے ذریعے مسلمانوں کو ماہ ِ رمضان اُس کی اصل روح کے مطابق گزارنے کا حکم دیا ہے ۔

اللہ تعالیٰ اور نبی آخرالزماں ﷺ کی ہدایات کی روشنی میں لوگ رمضان کو بھرپور طریقے سے گزارنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن عام آدمی پھر بھی کچھ پریشان پریشان رہتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ نہیں لوگ روزے رکھنے سے پریشان ہیں یا خدانخواستہ عبادات سے گھبرا رہے ہیں، ایسا بالکل نہیں ہے ۔ لوگ تو اپنی جسمانی کیفیت، حالت سے زیادہ بڑھ کر عبادات میں حصہ لیتے ہیں، اُن کی پریشانی کی وجہ صرف اور صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے رمضان المبارک میں آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی۔

یہ کوئی مبالغہ آرائی ہے نہ کوئی الزام، یہ ایسی تلخ حقیقت ہے جس کو تسلیم کرتے ہوئے بحیثیت قوم شرمندگی بھی محسوس ہوتی ہے اور ارباب اختیار پر غصہ بھی آتا ہے۔ آپ یکم رمضان سے قبل اپنے علاقے کے بازار میں جائیں اور وہاں پھلوں، سبزیوں، پرچون کی دکانوں سے روزمرہ اشیا کی قیمتیں معلوم کریں اور پھر رحمتوں اور برکتوں کے مہینے رمضان المبارک کی پہلی، دوسری تاریخوں میں اُسی بازار میں اُنہی اشیا کے نرخ معلوم کریں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہاں کیسا اندھیر مچایا جارہا ہے۔

روزنامہ ایکسپریس کی اشاعت میں ہی یہ خبر نمایاں طور پر شائع ہوچکی ہے کہ ذخیرہ اندوزوں نے رمضان کے آغاز پر ہی کیسی لوٹ مار مچائی۔ رپورٹ کے مطابق رمضان کی پہلی تاریخ کو ہی رمضان سے قبل 50 روپے کلو بِکنے والاخربوزہ 120 روپے کلو تک پہنچ گیا۔ دیگر پھلوں میں گرما کی قیمت150روپے کلو پہنچی تو کیلے بھی 100روپے درجن سے زیادہ فروخت ہونے لگے۔

اسی طرح آڑو 200 روپے کلو سے زائد، مقامی سیب 150 سے 200 روپے کلو، فالسہ 80 روپے پائو، کھجور بھی ڈیڑھ سو سے 200روپے کے درمیان بک رہی ہے۔ یہ تو چند پھلوں کا تذکرہ ہے، تمام سبزیوں کی بھی قیمتوں میں نمایاں اضافہ کردیا گیا ہے جب کہ دیگر اشیا بھی مہنگے داموں فروخت کرکے پتہ نہیں کس کو خوش کیا جارہا ہے یہ بات تو طے ہے کہ ایسے اقدامات سے اللہ تعالیٰ تو خوش نہیں ہوگا۔

یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی صریحاً نفی دیکھنی ہو تو رمضان سے بڑاموقعے ہمیں نہیں ملتا، یہ بہت افسوسناک صورتحال ہے ۔ یہ المیہ صرف شہر ِ کراچی کا ہی نہیں، پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر کا یہی حال ہے۔ جہاں عوام پریشان اور سرمایہ دار اور ذخیرہ اندوز صورتحال سے ''لطف'' اٹھارہے ہوتے ہیں۔


پاکستان کے علاوہ دیگر اسلامی ملکوں میں عام طور پر اور غیر اسلامی ملکوں میں خاص طور پر دیکھا گیا ہے کہ ماہ رمضان کے موقع پر مسلمانوں کے لیے خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ اُن کے لیے ضروری اشیا کی قیمتیں کافی حد تک کم کردی جاتی ہیں، اُنہیں تمام اشیا کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ بازاروں میں رمضان المبارک کے حوالے سے زیادہ استعمال کی جانے والی چیزوں کی کمی نہ ہو۔ غیر اسلامی ممالک بھی رمضان کا احترام کرتے ہوئے بہت حد تک ایسے انتظامات کرتے ہیں جس سے مسلمانوں کو سہولت ملتی ہے۔کاش کہ ہمارے ملک میں بھی ایسا ہی ہولیکن ابھی ایسا ہو نہیں رہا۔

ابھی تو ہمارے ملک کی اور ہمارے شہروں کی صورتحال یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے رمضان ریلیف پیکیج کے تحت یوٹیلیٹی اسٹورز پر اشیائے ضروریہ کی کم قیمتوں پر فراہمی کا اعلان ضرور کیا گیا لیکن ملک کے اکثریتی علاقوں میں لوگ یوٹیلیٹی اسٹورز پر ضروری اشیا ڈھونڈتے ہی رہے اور اب تک ڈھونڈ رہے ہیں۔ اسی طرح کراچی اور دیگر شہروں میں پھلوں ، سبزیوں اور دیگر اشیا کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے دعوے اور وعدے کیے گئے، کچھ لوگوں کے خلاف گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی پر کارروائیاں بھی کی گئیں لیکن عوام اب بھی پریشان ہیں اور وہ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ''رمضان ریلیف پیکیج کہاں ہے؟''

عام مشاہدہ ہے کہ سبزیاں اور پھل جو رمضان میں زیادہ استعمال ہوتے ہیں،رمضان شروع ہوتے ہی انتہائی مہنگے کردیے جاتے ہیں۔ ایک حد تک تو منافع کمانا ٹھیک ہے لیکن قیمتیں ایسی کردی جاتی ہیں کہ غریب آدمی کے ساتھ اب تو تنخواہ دار طبقہ بھی شدید پریشانیوں کا شکار ہے کہ بچوں کو افطار میں ''فروٹ چاٹ '' کھلائے بھی یا نہیں اور اگر کھلانے کا ارادہ اور وعدہ کرلیا ہے تو اس کا انتظام کیسے ہوگا۔ اسی طرح دودھ اور دہی کی قیمتیں بھی لوگوں کی پہنچ سے باہر ہورہی ہیں ، افسوسناک بات یہ ہے کہ جن چیزوں کی قیمت کم ہوتی ہے اُنہیں بازار سے غائب کردیا جاتا ہے۔

یہ عوام سے مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔ ایسے میں شہری یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ بے حسی، منافع خوری کی کوئی حد ہوتی ہے۔ ذاتی فائدے سے ہٹ کر بھی اجتماعی مفادات کے لیے بھی سوچنا چاہیے اور اگر کوئی صرف اپنا فائدہ دیکھ کر عوام سے اس طرح ''لُوٹ مار '' کررہا ہے تو اس کے خلاف موثر قانونی کارروائی ہونی ضروری ہے۔

غیر مختلف ملکوں میں کرسمس کے موقع پر بھی مختلف ممالک میں اپنے شہریوں کو جو رعایتیں دی جاتی ہیں، وہ اسی وجہ سے ہوتی ہیں کہ ہر خاص و عام خوشیوں میں شریک ہو۔ اسی طرح پاکستان کے علاوہ اسلامی ملکوں اور غیر اسلامی ممالک میں بھی دوسرے ملکوں میں رمضان المبارک کے موقع پر ضروری اشیا کی قیمتوں میں کمی اور تمام چیزوں کی عوام تک آسان رسائی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تمام لوگ اپنے اس تہوار کو بھرپور طریقے سے منائیں اور اس کی خوشیوں کا لطف اٹھائیں۔ مگر ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اس بڑے اسلامی تہوار ''رمضان '' کو لوگوں کے لیے مشکل بنادیا ہے۔

اب تو صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ اگر جگہ جگہ افطار کرانے والے موجود نہ ہوں تو شاید غریبوں اور مستحقین کو افطار کرنے کا بھی موقعے نہ مِلے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت مخیر حضرات، درد مند دل رکھنے والے شہریوں اور ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار لوگوں کو توفیق دی ہے کہ وہ بلاامتیاز رنگ و نسل لوگوں کو سحری اور افطاری کرائیں۔

آخر میں دیوانے کا خواب ہے کہ ماہ ِ رمضان کی آمد پر ہی تمام اشیا کی قیمتوں میں 50 فیصد تک کمی کردی جائے۔ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ عوام کو تمام اشیا فوری طور پر اور ہر جگہ باآسانی ملیں جب کہ ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کو ''نمائشی'' نہیں موثر اور قابل عبرت سزائیں دی جانی بھی ضروری ہو گیا ہے ۔ اس کے بغیر کوئی سُدھرنے والا نہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ مہنگائی کی چکی میں بری طرح پِسنے والے عوام اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے عام حالات میں بھی دو وقت کی روٹی کا بندوبست بمشکل کرپاتے ہیں، رمضان میں تو اُن کے لیے آسانیاں پیدا کرنی ضروری ہیں۔
Load Next Story