عوام کیا سوچ رہے ہیں

عمران خان کی سب سے بڑی خوش قسمتی یہی ہے کہ انھیں عوام اور طاقتور قوتیں اپنی مرضی سے منتخب کر کے لائی ہیں۔


[email protected]

عمران خان کی سب سے بڑی خوش قسمتی یہی ہے کہ انھیں عوام اور طاقتور قوتیں اپنی مرضی سے منتخب کر کے لائی ہیں۔ وہ سب کی چوائس ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کی سیاست میں طاقتور حلقوں کا کردار ایک ہی ہے۔ عمران خان نے اسی لیے اقتدار سنبھالنے کے بعد باآواز بلند اعلان کیا کہ ان کی حکومت اور ریاستی ادارے ایک پیج پر ہیں۔ پارلیمان میں عددی اعتبار سے ایک نہایت کمزور حکومت بھی اسی وجہ سے مضبوط تر دکھائی دے رہی ہے ورنہ اتنی کمزور حکومت کو اپوزیشن ایک دن میں تارے دکھا سکتی ہے۔

یہ بات بھی واضح ہے کہ عمران خان کی یہ سیاسی طاقت تب تک ہی قائم ہے جب تک انھیں اقتدار کے کھلاڑیوںکی مکمل حمایت حاصل رہے گی۔ جس دن وہ ناراض ہو گئے، طاقت ختم ہو جائے گی۔ ویسے تو پاکستان میں ان کھلاڑیوں کی ناراضی مول لے کر کوئی بھی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ ماضی میں جس بھی سیاسی حکومت نے ان کھلاڑیوں سے لڑنے کی کوشش کی ہے، وہ ختم ہی ہوئی ہے۔ ان کھلاڑیوں سے لڑ کوئی بھی اقتدار کے کھیل کا حصہ نہیں رہ سکتا۔ ان کی بالادستی پر نہ کل کوئی سوا ل تھا اور نہ ہی آج کوئی سوال ہے۔

ابھی تک پاکستان کے سیاسی کھیل میں ایسا کوئی پہلوان نہیں آیا جو اقتدار کے کھلاڑیوں کی طاقت کو چیلنج کر سکے۔ یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ کھیل کو کب تک جاری رکھتے ہیں۔ ان کی مرضی ہے کہ کسی ایک کھلاڑی کی حمایت شروع کر کے کھیل کو یک طرفہ کر دیں۔ یہ مائنس کرنے کا طریقہ کوئی نیا نہیں ہے۔ پھر بھی کچھ عرصہ بعد کسی نہ کسی کھلاڑی کو یہ ابہام پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ اب وہ عوامی لیڈر بن گیا ہے۔

کسی نہ کسی سیاستدان کو یہ خیال آجاتا ہے کہ وہ اسٹیٹس کو کی قوتوں کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت رکھتا ہے۔ لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ایسے ہر کھلاڑی کو سیاست میں عبرت کا نشان بنا دیا گیا ہے۔ اس کو اور اس کی سیاسی جماعت کو تنہا کر دیا گیا ہے۔ اس کے اپنے لوگ بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ اس لیے کل کوئی تحریک کامیاب ہوئی تھی نہ ابھی مستقل قریب میں ایسی کسی تحریک کے کامیاب ہونے کا کوئی امکان ہے۔ کل بھی سٹسٹس کو کی قوتیں کی بالادستی قائم تھی ۔ آج بھی قائم ہے۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا اسٹیٹس کو قوتیں ابھی تک عمران خان کے ساتھ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان حکومت کی بری کارکردگی سے وہ پریشان نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ملک کی معاشی صورتحال تشویش کا باعث نہیں ہے۔ کیا ملک میں روز بروز بڑھتی سیاسی تفریق مشکلات نہیں پیدا کر ر ہی۔ اس وقت ملک میں جو صورتحال ہے کیا سب اس سے خوش ہیں۔ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ اب فیصلہ سازکیا سوچ رہا ہیں۔ کیا وہ بھی پریشان ہیں۔ کیا انھیں اندازہ ہو گیا ہے کہ اس بار کمزور کھلاڑی پر دائو لگا دیا ہے۔ لیکن ماضی گواہ ہے کہ طاقتور قوتوں نے ہمیشہ کمزور کھلاڑی کی حمایت کی ہے۔ اور پھر وہ کمزور کھلاڑی ان کی طاقت کی مدد سے طاقتور ہو گیا ہے۔

بہر حال یہ تاثر بھی عام ہے کہ عمران خان کو معاشی ٹیم میں ان تبدیلیوں پر کسی نے ہی قائل کیا ہے۔ عمران خان کو باور کروا دیا گیا ہے کہ اس کی ٹیم کی کارکردگی نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ بہت بری ہے۔ اتنی بری کارکردگی کے ساتھ عمران خان کی حمایت جاری رکھنا بہت مشکل ہے۔اس لیے ملک کے وسیع مفاد میں کسی پرانے کھلاڑی کی طرف دوبارہ بھی رجوع کیا جاسکتا ہے۔ واقف حال بتاتے ہیں کہ عمران خان نے اس صورتحال میں رد عمل ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔

عمران خان نے اپنی معاشی ٹیم کی قربانی دے دی ۔ معاشی ٹیم میں اس تبدیلی کی بہت بازگشت ہے۔ عمران خان کو اپنے مخالف سیاسی حریفوں سے بہت تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سیاست میں اس طرح کی پوائنٹ اسکورنگ کی اجازت ہوتی ہے۔

نئی معاشی ٹیم نے آئی ایم ایف سے ڈیل طے کر لی ہے۔ لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس وقت ملک میں جو مہنگائی کا طوفان آرہا ہے۔ بالادست طبقے اس سے لاتعلق نہیںہیں۔ بجلی گیس کی بڑھتی قیمتوں سے عوام خوش نہیں ہیں۔ روپے کی گرتی قدر سے بھی وہ خوش نہیں ہے۔ لیکن پالیسی سازوں کو اندازہ ہے کہ ابھی فوری ان مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ کہیں نہ کہیں انھیں پتہ ہے کہ اس سارے معاشی بحران مہنگائی اور روپے کی گرتی قدر میں عمران خان کی معاشی ٹیم کی نا تجربہ کاری کا بہت قصور ہے۔

اس تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عمران خان اور ان کی ٹیم کے پاس اب غلطی کی مزید گنجائش نہیں ہے۔ حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ کیا شروع سے عمران خان اور ان کی ٹیم کو مشکلات کا اندازہ نہیں تھا۔کیا سب حالات کو جانچنے میں دھوکہ کھا گئے ۔ کیا عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم کے بیانات جعلی تھے۔ مجھے ایسی توقع نہیں تھی اور نہ ہے۔ تحریک انصاف بہت جہاندیدہ ہے۔ زمانہ شناس ہے۔

ادھر حالات نے عمران کو کام کرنے موقع دیا لیکن شاید انھیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اس طرح کاکھلا موقع کس قدر نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اسی لیے اب نئی معاشی ٹیم لانی پڑی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک چلے گا۔

دوست تو کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن اور عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔ اس لیے عمران خان کا کائونٹ ڈائون شروع ہو گیا ہے۔ یا تو عمران خان کو اپنی پرفارمنس دینی ہو گی۔ پاکستان کی عوام کے لیے مشکلات نہیں آسانیاں پیدا کرنی ہوںگی۔ کیونکہ اب عمران خان عوام کی ناراضی کا متحمل نہیں ہوسکتا ہیں۔ اس کچھ نہ کچھ ڈلیور کرنا ہوگا ، بس یہی میری اور آپ کی آخری امید ہے۔ باقی اللہ خیر کرے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں