گر ہوسکے تو مداوا کیوں نہ کریں ہم کسی کا
شہروں کے ساتھ غریب دیہاتی بچوں کے لئے بھی تعلیم کے دروازے کھولیں
وطن عزیزکی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں تعلیم ہمیشہ کسی نہ کسی سہارے کی منتظر رہی ہے ۔
حکومتوں نے اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کی اور اگر کبھی کسی تعلیمی منصوبے کا آغاز کیا بھی تو وہ ہمیشہ منصوبہ بندی کے اجلاسوں، کاغذی کارروائیوں یا سرخ فیتے کی حد تک محدود رہا۔ پاکستان میں یہ تعلیم دشمن روایت گزشتہ 66 سال سے تسلسل کے ساتھ چلی آرہی ہے۔ ایسے میں ہم یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ پاکستان میں تعلیم کے بچائو اور فروغ کیلئے اگر کسی نے کام کیا ہے تو اس میں نجی اداروں کے کردار کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔
ہمارا مجموعی مزاج یہ بن چکا ہے کہ عموماً نجی اداروں کو کاروباری نظام کے ساتھ ملحق کیا جاتا اور این جی اوز کو غیرملکی ایجنڈا گردانتے ہوئے منفی تاثر دیا جاتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ متعدد این جی اوز نے ہی پاکستان میں تعلیم کے عمل کو مستحکم کیا اور حکومتوں کی ذمہ داری کو اپنے اوپر لیتے ہوئے وسیع تر بنیادوں پر کسی سرکاری سرپرستی کے بغیریہ کارنامہ سرانجام دے رہی ہیں، کیوں کہ تعلیمی انحطاط کے شکار پاکستان میں ایسے اداروں کو دیکھ کر حوصلہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں حکومتی نہ سہی کم از کم نجی سطح پر تو تعلیمی ترقی کی کاوشیں جاری ہے ۔
پاکستان کا تعلیمی منظر نامہ کچھ یوں ہے کہ یہاں اگر کسی بھی سطح پر تعلیم کے فروغ کی کوششیں ہوئی بھی تو، صرف شہروں تک محدود رہی ہیں حالاں کہ دیہاتوں کو بھی اس سے آشکارکرنے کی ترجیحاً ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پسماندہ دیہاتوں کو ترقی کے مواقع نہیں مل سکے اور نہ ہی وہاں کے بچوں کو تعلیم کا بنیادی حق مل سکا ہے۔ ان حالات میں جبکہ وسائل کا رخ شہروں کی بجائے دیہاتوں کی طرف موڑنے کی اشد ضرورت ہے ، حکومت کو چھوڑیئے، نجی سیکٹر میں سے بھی صرف چند این جی اوز نے ہی اس جانب توجہ دی ہے، تام یہ امر حوصلہ افزاء ہے کہ کوئی تو ہے جس نے دیہاتوں کی تعلیمی ترقی کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کیا اور تعلیمی پسماندگی کے خلاف جہاد کرتے ہوئے وسائل سے محروم اور سطح غربت سے نیچے زندگی بسرکرنے والے ان بچوں کو تعلیم تک رسائی دیتے ہوئے ایک امید اور ان کے دکھوں کا مداوا بنے، جن کی آنکھوں میں سوائے دکھوں اور محرومیوں کے کچھ بھی نہ تھا اور جو اپنی بھیگی پلکوں اور نم آنکھوں کے ساتھ اپنے جیسے دیگر بچوں کو شہری تعلیمی اداروں میں پڑھتے دیکھتے تھے ۔
پلکیں ہیں بھیگی کسی کی ، رخسار ہے نم کسی کا
گر ہوسکے تو مداوا ، کیوں نہ کریں ہم کسی کا
ہمارے تعلیمی منظرنامے میں یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اقوام متحدہ نے پاکستان کی ناخواندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کررکھا ہے ۔ ہنگامی حالت کے نفاذ کے باوجود حکومتوں کے لہجے میں سنجیدگی کا عنصر نمایاں ہوا اور نہ ہی عملاً اس حوالے سے کوئی قابلِ ذکر پیش رفت مجموعی طور پر تاحال سامنے آسکی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود آج بھی وطنِ عزیز میں پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے اڑھائی کروڑ سے زائد بچے سکول سے باہر اور کتنے ہی گلی، چوراہوں پر بھیک مانگتے، بوٹ پالش کی آواز بلند کرتے، گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے، ٹریفک اشاروں پر اخبارات بیچتے، چائے خانوں اور ہوٹلوں پر کام کرتے، کپڑوں پر ذری کا کام اور قالین بافی یا ورکشاپوں، مکینک کی دکانوں پر اپنے ننھے ننھے ہاتھ کالے کرتے اور فیکٹریوں میں محنت مزدوری کرکے زندگی کی گاڑی کھینچتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ہمارے ارد گرد موجود یہ معصوم بچے معاشرے کی بے بسی و بے کسی کی عکاسی کررہے ہیں۔ ان کی تعلیم کا خیال کسی کو نہیں آیا بلکہ حالیہ بجٹ کے بعد تو تعلیم کو عام فرد کی پہنچ سے مزید دور کردیا گیا ہے ۔
زندہ رہنے کے سب اسباب مٹا کر ہم کو
کس قدر پیار سے جینے کی دعا دیتے ہیں
ہم نجانے اس حقیقت کو کیوں فراموش کئے ہوئے ہیںکہ دیہی و کم ترقی یافتہ علاقے تعلیمی آبیاری سے ہی ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں ۔ پاکستان میں دیہی شرح خواندگی 40 فیصد بھی نہیں ہے ، آج دیہی عوام اگر بہتر معیارِ زندگی اور بنیادی سہولیات کیلئے ترس رہے ہیں تو اس کا قصور وار کون ہے ؟ ... اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ارباب اختیار و اقتدار کی عدم دلچسپی و عدم توجہی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ان حالات میں ہمارے معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم سے محروم بچوں کو اس تک رسائی دیں اور ان کے والدین کی آنکھوں میں سموئے حسرت کے سمندر میں امید کے موتی جگمگا دیں۔
ہم میں سے ہر فرد اگر کسی ایک غریب بچے کی تعلیمی آبیاری کا بیڑہ اٹھالے تو وہ وقت دور نہیں جب ہم بھی شرح خواندگی کے اعتبار سے بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ اور بھارت سے آگے نکل جائیں گے ۔ یہ قومی منصوبہ ہے جس کی ترقی کا باعث ہم سب کو بننا ہے ۔ یاد رکھیں ! پاکستان کا عالمی، معاشی اور سماجی سطح پر وجود قائم رکھنے کے لئے تعلیمی ترقی کی منازل طے کرانا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی بچہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہ جاتا ہے تو اس کا قصور وار پورا معاشرہ ہے جس نے مل کر اس کے لئے کوشش نہیں کی۔ یہی بچے بڑے ہوکر جرائم پیشہ بنتے ہیں تو ہم انہیں مجرم گردانتے ہیں اور اس امر کو فراموش کردیتے ہیں کہ اگر ہم نے ان کیلئے انفرادی یا اجتماعی کوشش کی ہوتی آج پاکستان میں بیروزگاری اور جرائم کی شرح میں اتنا اضافہ نہ ہوتا۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ جس طرح ہم اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے فکرمند رہتے ہیں، وہیں یہ محروم طبقہ بھی ہماری توجہ کا مستحق ہے۔ ان کی تعلیم کا جاری رہنا ... ان کا مستقبل سنوارنا ... اور پاکستان کو تعلیمی انحطاط سے نکال کر ترقی یافتہ بنانے کیلئے ایسے اداروں کا ہاتھ بٹانا جو تعلیم کو ان تک رسائی دیئے ہوئے ہیں ، یقیناً ہماری ، بنیادی اخلاقی اور قومی ذمہ داری ہے، کیوں کہ تعلیم کی ترقی ہی پاکستان کی ترقی ہے۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ تمام اہلِ علم، تعلیمی شعبے سے وابستہ تجربہ کار افراد، لکھاری حضرات اور میڈیا گروپس شرح خواندگی میں اضافے کے حوالے سے ممکنہ اقدامات سامنے لائیں تاکہ تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کی آزمائش سے صحیح اور عملی معنوں میں عہدہ برآء ہوا جاسکے۔
حکومتوں نے اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کی اور اگر کبھی کسی تعلیمی منصوبے کا آغاز کیا بھی تو وہ ہمیشہ منصوبہ بندی کے اجلاسوں، کاغذی کارروائیوں یا سرخ فیتے کی حد تک محدود رہا۔ پاکستان میں یہ تعلیم دشمن روایت گزشتہ 66 سال سے تسلسل کے ساتھ چلی آرہی ہے۔ ایسے میں ہم یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ پاکستان میں تعلیم کے بچائو اور فروغ کیلئے اگر کسی نے کام کیا ہے تو اس میں نجی اداروں کے کردار کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔
ہمارا مجموعی مزاج یہ بن چکا ہے کہ عموماً نجی اداروں کو کاروباری نظام کے ساتھ ملحق کیا جاتا اور این جی اوز کو غیرملکی ایجنڈا گردانتے ہوئے منفی تاثر دیا جاتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ متعدد این جی اوز نے ہی پاکستان میں تعلیم کے عمل کو مستحکم کیا اور حکومتوں کی ذمہ داری کو اپنے اوپر لیتے ہوئے وسیع تر بنیادوں پر کسی سرکاری سرپرستی کے بغیریہ کارنامہ سرانجام دے رہی ہیں، کیوں کہ تعلیمی انحطاط کے شکار پاکستان میں ایسے اداروں کو دیکھ کر حوصلہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں حکومتی نہ سہی کم از کم نجی سطح پر تو تعلیمی ترقی کی کاوشیں جاری ہے ۔
پاکستان کا تعلیمی منظر نامہ کچھ یوں ہے کہ یہاں اگر کسی بھی سطح پر تعلیم کے فروغ کی کوششیں ہوئی بھی تو، صرف شہروں تک محدود رہی ہیں حالاں کہ دیہاتوں کو بھی اس سے آشکارکرنے کی ترجیحاً ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پسماندہ دیہاتوں کو ترقی کے مواقع نہیں مل سکے اور نہ ہی وہاں کے بچوں کو تعلیم کا بنیادی حق مل سکا ہے۔ ان حالات میں جبکہ وسائل کا رخ شہروں کی بجائے دیہاتوں کی طرف موڑنے کی اشد ضرورت ہے ، حکومت کو چھوڑیئے، نجی سیکٹر میں سے بھی صرف چند این جی اوز نے ہی اس جانب توجہ دی ہے، تام یہ امر حوصلہ افزاء ہے کہ کوئی تو ہے جس نے دیہاتوں کی تعلیمی ترقی کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کیا اور تعلیمی پسماندگی کے خلاف جہاد کرتے ہوئے وسائل سے محروم اور سطح غربت سے نیچے زندگی بسرکرنے والے ان بچوں کو تعلیم تک رسائی دیتے ہوئے ایک امید اور ان کے دکھوں کا مداوا بنے، جن کی آنکھوں میں سوائے دکھوں اور محرومیوں کے کچھ بھی نہ تھا اور جو اپنی بھیگی پلکوں اور نم آنکھوں کے ساتھ اپنے جیسے دیگر بچوں کو شہری تعلیمی اداروں میں پڑھتے دیکھتے تھے ۔
پلکیں ہیں بھیگی کسی کی ، رخسار ہے نم کسی کا
گر ہوسکے تو مداوا ، کیوں نہ کریں ہم کسی کا
ہمارے تعلیمی منظرنامے میں یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اقوام متحدہ نے پاکستان کی ناخواندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کررکھا ہے ۔ ہنگامی حالت کے نفاذ کے باوجود حکومتوں کے لہجے میں سنجیدگی کا عنصر نمایاں ہوا اور نہ ہی عملاً اس حوالے سے کوئی قابلِ ذکر پیش رفت مجموعی طور پر تاحال سامنے آسکی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود آج بھی وطنِ عزیز میں پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے اڑھائی کروڑ سے زائد بچے سکول سے باہر اور کتنے ہی گلی، چوراہوں پر بھیک مانگتے، بوٹ پالش کی آواز بلند کرتے، گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے، ٹریفک اشاروں پر اخبارات بیچتے، چائے خانوں اور ہوٹلوں پر کام کرتے، کپڑوں پر ذری کا کام اور قالین بافی یا ورکشاپوں، مکینک کی دکانوں پر اپنے ننھے ننھے ہاتھ کالے کرتے اور فیکٹریوں میں محنت مزدوری کرکے زندگی کی گاڑی کھینچتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ہمارے ارد گرد موجود یہ معصوم بچے معاشرے کی بے بسی و بے کسی کی عکاسی کررہے ہیں۔ ان کی تعلیم کا خیال کسی کو نہیں آیا بلکہ حالیہ بجٹ کے بعد تو تعلیم کو عام فرد کی پہنچ سے مزید دور کردیا گیا ہے ۔
زندہ رہنے کے سب اسباب مٹا کر ہم کو
کس قدر پیار سے جینے کی دعا دیتے ہیں
ہم نجانے اس حقیقت کو کیوں فراموش کئے ہوئے ہیںکہ دیہی و کم ترقی یافتہ علاقے تعلیمی آبیاری سے ہی ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں ۔ پاکستان میں دیہی شرح خواندگی 40 فیصد بھی نہیں ہے ، آج دیہی عوام اگر بہتر معیارِ زندگی اور بنیادی سہولیات کیلئے ترس رہے ہیں تو اس کا قصور وار کون ہے ؟ ... اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ارباب اختیار و اقتدار کی عدم دلچسپی و عدم توجہی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ان حالات میں ہمارے معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم سے محروم بچوں کو اس تک رسائی دیں اور ان کے والدین کی آنکھوں میں سموئے حسرت کے سمندر میں امید کے موتی جگمگا دیں۔
ہم میں سے ہر فرد اگر کسی ایک غریب بچے کی تعلیمی آبیاری کا بیڑہ اٹھالے تو وہ وقت دور نہیں جب ہم بھی شرح خواندگی کے اعتبار سے بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ اور بھارت سے آگے نکل جائیں گے ۔ یہ قومی منصوبہ ہے جس کی ترقی کا باعث ہم سب کو بننا ہے ۔ یاد رکھیں ! پاکستان کا عالمی، معاشی اور سماجی سطح پر وجود قائم رکھنے کے لئے تعلیمی ترقی کی منازل طے کرانا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی بچہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہ جاتا ہے تو اس کا قصور وار پورا معاشرہ ہے جس نے مل کر اس کے لئے کوشش نہیں کی۔ یہی بچے بڑے ہوکر جرائم پیشہ بنتے ہیں تو ہم انہیں مجرم گردانتے ہیں اور اس امر کو فراموش کردیتے ہیں کہ اگر ہم نے ان کیلئے انفرادی یا اجتماعی کوشش کی ہوتی آج پاکستان میں بیروزگاری اور جرائم کی شرح میں اتنا اضافہ نہ ہوتا۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ جس طرح ہم اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے فکرمند رہتے ہیں، وہیں یہ محروم طبقہ بھی ہماری توجہ کا مستحق ہے۔ ان کی تعلیم کا جاری رہنا ... ان کا مستقبل سنوارنا ... اور پاکستان کو تعلیمی انحطاط سے نکال کر ترقی یافتہ بنانے کیلئے ایسے اداروں کا ہاتھ بٹانا جو تعلیم کو ان تک رسائی دیئے ہوئے ہیں ، یقیناً ہماری ، بنیادی اخلاقی اور قومی ذمہ داری ہے، کیوں کہ تعلیم کی ترقی ہی پاکستان کی ترقی ہے۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ تمام اہلِ علم، تعلیمی شعبے سے وابستہ تجربہ کار افراد، لکھاری حضرات اور میڈیا گروپس شرح خواندگی میں اضافے کے حوالے سے ممکنہ اقدامات سامنے لائیں تاکہ تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کی آزمائش سے صحیح اور عملی معنوں میں عہدہ برآء ہوا جاسکے۔