یہ آپ کا گھر ہے محاذِ جنگ نہیں
بہو سے خوش گوار تعلقات استوار کرنے میں پہل کریں
انسانی رشتے ناتے اور تعلقات ایثار، قربانی اور تعاون کا تقاضا کرتے ہیں۔ اپنائیت اور خلوص کا مظاہرہ ان رشتوں کو نکھارتا اور مضبوط بناتا ہے۔
غرور، احساسِ برتری، بے جا ضد، انا، من مانی یا دوسرے پر اپنی رائے مسلط کرنے کی کوشش کی جائے تو خونی رشتے اور دیرینہ تعلقات بکھر سکتے ہیں۔ اگر ہم بہو اور ساس کی بات کریں تو یہ نازک اور حساس نوعیت کا تعلق ہے۔ شادی کے بعد اگر کسی کی بیٹی، ایک گھر کی بہو بنتی ہے تو وہ عورت بھی جو کل تک صرف ماں تھی، ساس کہلانے لگتی ہے۔
کئی برس تک اپنے گھر پر راج کرنے، اسے اپنے اصولوں کے مطابق چلانے والی یہ عورت وسیع اختیارات کی حامل اور طاقت ور ہوتی ہے۔ وہ اپنے گھر کی فضا کو مخصوص روایات کا پابند کرکے نہ صرف خود اس کی پاس داری کرتی ہے بلکہ اپنی اولاد سے بھی کرواتی ہے۔ وہ اپنی اولادوں کی گھر میں حیثیت، ان کے رتبوں کا تعین بھی خود کرتی ہے۔ بیٹیاں پرایا دھن سمجھی جاتی ہیں، وہ ان کی قدر و منزلت بھی اپنے بیٹوں کے ذہنوں پر نقش کرنا نہیں بھولتی۔ اسی طرح وہ بہو کے اپنے گھر میں مقام کا تعین بھی پہلے سے کر لیتی ہے، مگر اسے خوش دلی سے اور کب مکمل طور پر قبول کرنا ہے، اس کا فیصلہ کرنا شاید اس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔
ہمارے سماج میں عورت نہ صرف مرد کے تابع اور زیرِ اثر رہی ہے جب کہ پسماندہ سوچ اور فرسودہ روایات کی پروردہ بھی ہے اور ایسے ماحول میں اس کی شخصیت کے ارتقاء کی کوئی گنجائش نہیں نکل پاتی، اس لیے وہ گھر کے سربراہ سے تو من مانی نہیں کرسکتی، مگر موقع ملتے ہی اپنی ساری حسرتیں پوری کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ عورت ایک لڑکی کو خود بڑے چاؤ سے اپنے بیٹے کے لیے پسند کرتی ہے اور پھر بیاہ کر تو لے آتی ہے، مگر یہ خوشی اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک بہو اس کی مرضی کے مطابق چلتی رہے۔
گھر کے ایک نئے فرد کے طور پر بہو کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ خوش اسلوبی سے تمام ذمہ داریاں نبھائے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی اہمیت اور ساکھ بھی بنائے اور جب وہ اس میں کام یاب ہونے لگتی ہے تو ساس کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی اہمیت رہی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب ایک ساس تحفظات اور اندیشوں کا شکار ہو جاتی ہے اور ساس، بہو کے درمیان اختیارات کی کھینچا تانی اور گھر میں اپنی برتری قائم رکھنے یا برقرار رکھنے کی رسہ کشی شروع ہوجاتی ہے جو نہ صرف ان دونوں کے باہمی تعلقات کو متاثر کرتی ہے بلکہ گھر کے دیگر لوگوں میں بھی اضطراب اور کھنچاؤ کو جنم دیتی ہے۔ مشرقی سماج کی عورت بھی اب جذبۂ قربانی سے معمور اور پرانے خیالات کی نہیں رہی کہ بہو کے بے جا ناز نخرے برداشت کرے یا اس کے ستم پر کچھ کہہ نہ سکے۔ وہ فریادی بن کر چپ چاپ زندگی گزار کے بجائے محاذ آرائی کے سارے ہتھکنڈے بخوبی استعمال کرتی ہے۔ اسے یہ برداشت نہیں ہوتا کہ کماؤ پوت بیٹا مکمل طور پر بیوی کے حوالے کردے، اس لیے وہ گاہے بہ گاہے اپنی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے گھریلو امور میں بے جا مداخلت بھی کرتی ہے جس سے گھر کی فضا کشیدہ رہتی ہے۔
اس کا آغاز وہ کچن سے کرتی ہے کیوں کہ وہ بہت جلد بھانپ لیتی ہے کہ امورخانہ داری میں یہ لڑکی کتنی طاق ہے۔ بہو کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا ایسے چیک کیا جاتا ہے جیسے اسے پکوان سے متعلق کسی مقابلے میں پیش کرنے کے لیے تیار کیا گیا، حوصلہ افزائی کا دور دور امکان نہیں ہوتا، مگر نقص زبان کی نوک پر دھرے رہتے ہیں۔ شروع شروع میں تو نقص بیانی اکا دکا نوالے میں سمیٹ دی جاتی ہے مگر پھر یہ ریت ہر کھانے پر بڑی مہارت اور خوبی سے نبھائی جاتی ہے۔ اس دوران باتوں باتوں میں لڑکی کے ساتھ ساتھ اس کی ماں کی تربیت کی ''دھلائی'' بھی فرض سمجھی جاتی ہے۔ بہو کی عزت کم کرنے کے لیے موقع ملتے ہی اس طرح کی باتیں بیٹے کے سامنے ذرا زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی ہیں کہ جس سے وہ اپنی بیوی سے متنفر ہو یا اس کی طرف جھکاؤ کم ہو، مگر اس کا الٹا نتیجہ بھی نکل سکتا ہے۔ بہو یا تو روٹھ کر میکے چلی جاتی ہے یا پھر شوہر پر زور دیتی ہے کہ اسے الگ گھر لے کر دیا جائے۔ دونوں صورتوں میں نقصان صرف ساس کا ہی ہوتا ہے۔ ایک تو وہ بیٹے سے محروم ہوجاتی ہے یا بیٹے کی نظر میں اپنی حیثیت اور مقام کھو دیتی ہے۔
مانا کہ اپنے دورِ اقتدار کا سورج غروب ہوتے دیکھنا آسان نہیں ہوتا، لیکن حقیقت پسند بنیے۔ اگر عورت فطرت اور سماج کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کرے تو یہ بہت آسان اور باعثِ راحت ہو گا۔ دراصل اسے سماجی اور خاندانی نظام اور روایت کے طور پر سمجھنے کی کوشش اور پھر قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیے سدا بادشاہی تو کسی کی بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ یہی قانونِ فطرت ہے۔ اس حقیقت کو ایک ساس جتنی جلدی سمجھ جائے اتنا ہی اپنے وقار کو بچا سکتی ہے۔
ساس کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر میں بہو کو دل سے قبول کرے اور جہاں پہلے وہ خود فیصلے کیا کرتی تھی اور سب اسے تسلیم کرتے تھے، اب اس میں بہو کو بھی کھلے دل سے شریک کر لے جس سے اعتماد کی فضا قائم ہو گی۔
ساس کو یہ سمجھنا چاہیے کہ آنے والی اپنے تمام جذباتی رشتے ناتے چھوڑ کر آتی ہے، اس کے لیے سسرال کے تمام رشتے ناتے اور یہ جذبے سب نئے ہوتے ہیں جنہیں سمجھنے اور اپنانے میں اسے وقت تو لگے گا۔ لہٰذا اسے وقت دیا جائے۔ ساس اسے ماحول کو سمجھنے میں مدد دے اور نئے گھر کو اپنانے کے حوالے سے اس کی راہ نمائی کرے۔
کچن میں، گھر میں چیزوں کی من پسند ترتیب ہر بہو کی اولین خواہش ہوتی ہے جس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ یہ بات خوشی اور محبت میں اضافہ کرتی ہے۔ بہت جلد بہو کو احساس ہونے لگتا ہے کہ یہ گھر میرا ہے، جس دن اس کے اندر یہ احساس پیدا ہوگا تو پھر اس کے لیے سب سے مقدم بھی یہی گھر اور اس کے تمام رشتے ہوں گے۔
کچن میں روٹی جل جائے، سالن میں گھی زیادہ ہو جائے یا تیل برتن میں ڈالتے ڈالتے گر جائے، پلیٹ یا گلاس ٹوٹ جائیں تو بہو کو پھوہڑ اور بے ڈھنگی نہ فرض کر لیا جائے۔ اس طرح اس کا اعتماد متزلزل ہو گا اور وہ احساسِ کمتری میں بھی مبتلا ہو سکتی ہے۔ ایسے میں آپ کا بس ذرا سا ساتھ دینا اسے آپ کا گرویدہ بنانے کے لیے کافی ہے۔ اسے یہ احساس ہی نہ ہونے دیں کہ آپ نے اس کی غلطی پکڑ لی ہے یا کام میں کم زوری اور کوتاہی کو جان گئی ہیں۔ جب آپ کچن میں نگراں سے زیادہ مہربان بن کر اس کے ساتھ کھڑی ہوں گی تو اس کے لیے تمام مرحلے طے کرنا آسان ہوجائیں گے۔
آپ کی بہو کی ایک فطری خواہش اور جذبہ سجنا سنورنا بھی ہے۔ آپ کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ یہ میک اپ کرنے کی اس کی عمر ہے۔ اسے ٹوکنے کے بجائے ایک بزرگ کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کریں۔ اسے زمانے کی اونچ نیچ سمجھائیں، اپنی تہذیب اور روایت، گھر کے ماحول اور مردوں کے مزاج سے آگاہ کریں، لیکن اس پر اپنی رائے مسلط کرنے سے پرہیز کریں۔ یاد رکھیے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے کبھی خوشی نہیں ملتی بلکہ یہ نئے رشتے میں کدورت اور فاصلہ پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ساس بننے سے پہلے آپ کو اپنا جائزہ لینے کی زیادہ ضرورت ہے، کیوں کہ اب آپ صرف ماں نہیں رہیں گی بلکہ اس بندھن کی صورت میں ایک خاندان آپ کو ایک جیتا جاگتا کردار سونپ رہا ہے اور دراصل عورت کا نیا امتحان بھی اب شروع ہوتا ہے جہاں کرنے کو اس کے پاس کوئی کام، کوئی ذمہ داری نہیں رہتی مگر یہاں محبت اور اخلاص جیسے جذبوں سے ایک نئے رشتے کی آب یاری میں پہل اسے ہی کرنی پڑتی ہے۔
دیکھا جائے تو وہ لڑکی جو بہو بن کر آپ کے گھر آتی ہے، بڑی تہی داماں ہوتی ہے۔ وہ اپنے تمام خونی رشتے، سہیلیوں کو چھوڑ کر آپ کے گھر چلی آتی ہے تو کیا اس کا ہاتھ تھامنے میں، اسے اپنانے اور اس سے خوش گوار تعلقات استوار کرنے میں آپ کو پہل نہیں کرنی چاہیے؟
غرور، احساسِ برتری، بے جا ضد، انا، من مانی یا دوسرے پر اپنی رائے مسلط کرنے کی کوشش کی جائے تو خونی رشتے اور دیرینہ تعلقات بکھر سکتے ہیں۔ اگر ہم بہو اور ساس کی بات کریں تو یہ نازک اور حساس نوعیت کا تعلق ہے۔ شادی کے بعد اگر کسی کی بیٹی، ایک گھر کی بہو بنتی ہے تو وہ عورت بھی جو کل تک صرف ماں تھی، ساس کہلانے لگتی ہے۔
کئی برس تک اپنے گھر پر راج کرنے، اسے اپنے اصولوں کے مطابق چلانے والی یہ عورت وسیع اختیارات کی حامل اور طاقت ور ہوتی ہے۔ وہ اپنے گھر کی فضا کو مخصوص روایات کا پابند کرکے نہ صرف خود اس کی پاس داری کرتی ہے بلکہ اپنی اولاد سے بھی کرواتی ہے۔ وہ اپنی اولادوں کی گھر میں حیثیت، ان کے رتبوں کا تعین بھی خود کرتی ہے۔ بیٹیاں پرایا دھن سمجھی جاتی ہیں، وہ ان کی قدر و منزلت بھی اپنے بیٹوں کے ذہنوں پر نقش کرنا نہیں بھولتی۔ اسی طرح وہ بہو کے اپنے گھر میں مقام کا تعین بھی پہلے سے کر لیتی ہے، مگر اسے خوش دلی سے اور کب مکمل طور پر قبول کرنا ہے، اس کا فیصلہ کرنا شاید اس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔
ہمارے سماج میں عورت نہ صرف مرد کے تابع اور زیرِ اثر رہی ہے جب کہ پسماندہ سوچ اور فرسودہ روایات کی پروردہ بھی ہے اور ایسے ماحول میں اس کی شخصیت کے ارتقاء کی کوئی گنجائش نہیں نکل پاتی، اس لیے وہ گھر کے سربراہ سے تو من مانی نہیں کرسکتی، مگر موقع ملتے ہی اپنی ساری حسرتیں پوری کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ عورت ایک لڑکی کو خود بڑے چاؤ سے اپنے بیٹے کے لیے پسند کرتی ہے اور پھر بیاہ کر تو لے آتی ہے، مگر یہ خوشی اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک بہو اس کی مرضی کے مطابق چلتی رہے۔
گھر کے ایک نئے فرد کے طور پر بہو کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ خوش اسلوبی سے تمام ذمہ داریاں نبھائے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی اہمیت اور ساکھ بھی بنائے اور جب وہ اس میں کام یاب ہونے لگتی ہے تو ساس کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی اہمیت رہی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب ایک ساس تحفظات اور اندیشوں کا شکار ہو جاتی ہے اور ساس، بہو کے درمیان اختیارات کی کھینچا تانی اور گھر میں اپنی برتری قائم رکھنے یا برقرار رکھنے کی رسہ کشی شروع ہوجاتی ہے جو نہ صرف ان دونوں کے باہمی تعلقات کو متاثر کرتی ہے بلکہ گھر کے دیگر لوگوں میں بھی اضطراب اور کھنچاؤ کو جنم دیتی ہے۔ مشرقی سماج کی عورت بھی اب جذبۂ قربانی سے معمور اور پرانے خیالات کی نہیں رہی کہ بہو کے بے جا ناز نخرے برداشت کرے یا اس کے ستم پر کچھ کہہ نہ سکے۔ وہ فریادی بن کر چپ چاپ زندگی گزار کے بجائے محاذ آرائی کے سارے ہتھکنڈے بخوبی استعمال کرتی ہے۔ اسے یہ برداشت نہیں ہوتا کہ کماؤ پوت بیٹا مکمل طور پر بیوی کے حوالے کردے، اس لیے وہ گاہے بہ گاہے اپنی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے گھریلو امور میں بے جا مداخلت بھی کرتی ہے جس سے گھر کی فضا کشیدہ رہتی ہے۔
اس کا آغاز وہ کچن سے کرتی ہے کیوں کہ وہ بہت جلد بھانپ لیتی ہے کہ امورخانہ داری میں یہ لڑکی کتنی طاق ہے۔ بہو کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا ایسے چیک کیا جاتا ہے جیسے اسے پکوان سے متعلق کسی مقابلے میں پیش کرنے کے لیے تیار کیا گیا، حوصلہ افزائی کا دور دور امکان نہیں ہوتا، مگر نقص زبان کی نوک پر دھرے رہتے ہیں۔ شروع شروع میں تو نقص بیانی اکا دکا نوالے میں سمیٹ دی جاتی ہے مگر پھر یہ ریت ہر کھانے پر بڑی مہارت اور خوبی سے نبھائی جاتی ہے۔ اس دوران باتوں باتوں میں لڑکی کے ساتھ ساتھ اس کی ماں کی تربیت کی ''دھلائی'' بھی فرض سمجھی جاتی ہے۔ بہو کی عزت کم کرنے کے لیے موقع ملتے ہی اس طرح کی باتیں بیٹے کے سامنے ذرا زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی ہیں کہ جس سے وہ اپنی بیوی سے متنفر ہو یا اس کی طرف جھکاؤ کم ہو، مگر اس کا الٹا نتیجہ بھی نکل سکتا ہے۔ بہو یا تو روٹھ کر میکے چلی جاتی ہے یا پھر شوہر پر زور دیتی ہے کہ اسے الگ گھر لے کر دیا جائے۔ دونوں صورتوں میں نقصان صرف ساس کا ہی ہوتا ہے۔ ایک تو وہ بیٹے سے محروم ہوجاتی ہے یا بیٹے کی نظر میں اپنی حیثیت اور مقام کھو دیتی ہے۔
مانا کہ اپنے دورِ اقتدار کا سورج غروب ہوتے دیکھنا آسان نہیں ہوتا، لیکن حقیقت پسند بنیے۔ اگر عورت فطرت اور سماج کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کرے تو یہ بہت آسان اور باعثِ راحت ہو گا۔ دراصل اسے سماجی اور خاندانی نظام اور روایت کے طور پر سمجھنے کی کوشش اور پھر قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیے سدا بادشاہی تو کسی کی بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ یہی قانونِ فطرت ہے۔ اس حقیقت کو ایک ساس جتنی جلدی سمجھ جائے اتنا ہی اپنے وقار کو بچا سکتی ہے۔
ساس کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر میں بہو کو دل سے قبول کرے اور جہاں پہلے وہ خود فیصلے کیا کرتی تھی اور سب اسے تسلیم کرتے تھے، اب اس میں بہو کو بھی کھلے دل سے شریک کر لے جس سے اعتماد کی فضا قائم ہو گی۔
ساس کو یہ سمجھنا چاہیے کہ آنے والی اپنے تمام جذباتی رشتے ناتے چھوڑ کر آتی ہے، اس کے لیے سسرال کے تمام رشتے ناتے اور یہ جذبے سب نئے ہوتے ہیں جنہیں سمجھنے اور اپنانے میں اسے وقت تو لگے گا۔ لہٰذا اسے وقت دیا جائے۔ ساس اسے ماحول کو سمجھنے میں مدد دے اور نئے گھر کو اپنانے کے حوالے سے اس کی راہ نمائی کرے۔
کچن میں، گھر میں چیزوں کی من پسند ترتیب ہر بہو کی اولین خواہش ہوتی ہے جس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ یہ بات خوشی اور محبت میں اضافہ کرتی ہے۔ بہت جلد بہو کو احساس ہونے لگتا ہے کہ یہ گھر میرا ہے، جس دن اس کے اندر یہ احساس پیدا ہوگا تو پھر اس کے لیے سب سے مقدم بھی یہی گھر اور اس کے تمام رشتے ہوں گے۔
کچن میں روٹی جل جائے، سالن میں گھی زیادہ ہو جائے یا تیل برتن میں ڈالتے ڈالتے گر جائے، پلیٹ یا گلاس ٹوٹ جائیں تو بہو کو پھوہڑ اور بے ڈھنگی نہ فرض کر لیا جائے۔ اس طرح اس کا اعتماد متزلزل ہو گا اور وہ احساسِ کمتری میں بھی مبتلا ہو سکتی ہے۔ ایسے میں آپ کا بس ذرا سا ساتھ دینا اسے آپ کا گرویدہ بنانے کے لیے کافی ہے۔ اسے یہ احساس ہی نہ ہونے دیں کہ آپ نے اس کی غلطی پکڑ لی ہے یا کام میں کم زوری اور کوتاہی کو جان گئی ہیں۔ جب آپ کچن میں نگراں سے زیادہ مہربان بن کر اس کے ساتھ کھڑی ہوں گی تو اس کے لیے تمام مرحلے طے کرنا آسان ہوجائیں گے۔
آپ کی بہو کی ایک فطری خواہش اور جذبہ سجنا سنورنا بھی ہے۔ آپ کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ یہ میک اپ کرنے کی اس کی عمر ہے۔ اسے ٹوکنے کے بجائے ایک بزرگ کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کریں۔ اسے زمانے کی اونچ نیچ سمجھائیں، اپنی تہذیب اور روایت، گھر کے ماحول اور مردوں کے مزاج سے آگاہ کریں، لیکن اس پر اپنی رائے مسلط کرنے سے پرہیز کریں۔ یاد رکھیے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے کبھی خوشی نہیں ملتی بلکہ یہ نئے رشتے میں کدورت اور فاصلہ پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ساس بننے سے پہلے آپ کو اپنا جائزہ لینے کی زیادہ ضرورت ہے، کیوں کہ اب آپ صرف ماں نہیں رہیں گی بلکہ اس بندھن کی صورت میں ایک خاندان آپ کو ایک جیتا جاگتا کردار سونپ رہا ہے اور دراصل عورت کا نیا امتحان بھی اب شروع ہوتا ہے جہاں کرنے کو اس کے پاس کوئی کام، کوئی ذمہ داری نہیں رہتی مگر یہاں محبت اور اخلاص جیسے جذبوں سے ایک نئے رشتے کی آب یاری میں پہل اسے ہی کرنی پڑتی ہے۔
دیکھا جائے تو وہ لڑکی جو بہو بن کر آپ کے گھر آتی ہے، بڑی تہی داماں ہوتی ہے۔ وہ اپنے تمام خونی رشتے، سہیلیوں کو چھوڑ کر آپ کے گھر چلی آتی ہے تو کیا اس کا ہاتھ تھامنے میں، اسے اپنانے اور اس سے خوش گوار تعلقات استوار کرنے میں آپ کو پہل نہیں کرنی چاہیے؟