وجہ ڈھونڈیں خامی دور کریں غلطی سدھاریں
انکار یا مسترد کیے جانے کا خوف دل سے نکال کر آگے بڑھیں
اس نے تعلیم مکمل کی تو ماں کو اس کے رشتے کی فکر ہوگئی اور پھر رشتہ کرانے والی کے توسط سے گھر میں ہر دوسرے تیسرے روز اسے دیکھنے کے لیے خواتین کا آنا جانا شروع ہو گیا۔
چائے اور دیگر لوازامات ٹرے میں سجائے اور سَر پر دوپٹہ جمائے وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوتی تو لمحوں میں اس کی نظریں ان خواتین کی نظروں میں اپنے لیے ناپسندیدگی کے جذبات پڑھ لیتیں۔ ان کے جانے کے بعد رشتے کرانے والی خاتون کی کال آتی تو معلوم ہوتا کہ وہ لڑکے والوں کو پسند نہیں آئی۔ متعدد بار مسترد کیے جانے سے وہ ذہنی طور کرب اور اضطراب کا شکار ہوگئی۔ والدہ ماہرِ نفسیات کے پاس لے گئیں جس کے بعد وہ کچھ بہتر محسوس کرنے لگی۔ دن گزرتے رہے۔ چھوٹی بہنوں کے رشتے طے ہوگئے اور وہ بیاہ کر چلی گئیں، مگر اس کا نصیب نہ جاگا۔ ماں نے رشتہ ڈھونڈنے کی کوششیں مزید تیز کردیں۔ بالآخر شادی ہوگئی۔
شادی کے بعد پتا چلا کہ شوہر نشے کا عادی ہے۔ وہ اس پر تشدد کرتا۔ وہ چپ چاپ ہر ظلم سہتی رہی، مگر ایک روز شوہر نے اسے طلاق دے دی۔ اب وہ کسی اور سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ یہ اس لڑکی کے لیے ناقابل برداشت ثابت ہوا۔ وہ یہ سمجھتی کہ گویا شوہر نے بھی اسے ٹھکرا دیا ہے۔ طلاق لے کر جب میکے واپس آئی تو کچھ عرصے بعد ماں کا انتقال ہو گیا اور بھائی نے ایک بات پر اسے گھر سے نکال دیا۔ اب وہ ایک عزیز کے گھر رہنے پر مجبور ہوگئی۔ وہ ذہنی و نفسیاتی دباؤ کے زیر اثر تھی!!
ایسے کئی واقعات اور بے شمار کردار ہمارے سامنے ہیں۔ یوں تو ہر انسان اپنے جذبات، خواہشات اور کسی بات کے رد ہونے پر، کسی بھی حوالے سے نظرانداز کیے جانے پر رنجیدہ، مایوس اور بعض صورتوں میں ذہنی دباؤ کا شکار بھی ہو سکتا ہے، مگر لڑکیاں اس حوالے سے زیادہ حساس ہوتی ہیں۔ پچھلے دنوں ایک خبر پڑھی جس کے مطابق ایک لڑکی نے رنگت کی وجہ سے ہر بار رشتے سے انکار کے بعد اپنا رنگ گورا کرنے کا علاج کروایا، مگر بدقسمتی سے اس علاج نے اسے جلد کی ایسی بیماری کا شکار بنا دیا جس نے اسے موت کے منہ میں دھکیل دیا۔
کسی بھی حوالے سے مسلسل انکار سننے، نظر انداز اور مسترد کیے جانے کا خوف ہماری شخصیت میں ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنتا ہے۔ یہ اعتماد کو نگل کر کسی کو بھی احساسِ کمتری کا شکار کر سکتا ہے اور اسے اپنی بے وقعتی کا احساس ستانے لگتا ہے۔ یہ کیفیت اسے شدید مایوسی کا شکار کر دیتی ہے اور ایسا کوئی بھی فرد مستقبل میں بھی ہر قدم پر ٹھکرائے جانے اور مسترد ہونے کے اندیشے کی وجہ سے آگے بڑھنے سے ڈرتا ہے۔ اپنی بے وقعتی کا خوف اتنا شدید ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی لڑکی اپنی کسی خواہش، کسی جذبے کے اظہار اور خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے سے کترانے لگتی ہے اور زندگی بے معنی محسوس ہوتی ہے۔
تاہم ایسی کسی کیفیت اور مسئلے سے دوچار لڑکیوں کو چاہیے کہ وہ مایوس اور خوف کا شکار ہونے کے بجائے اس کی کوئی ٹھوس وجہ اور اسباب تلاش کریں۔ ہر بار خود کو مسترد کیے جانے کی وجوہات پر غور کر کے ان کا سدباب کرلیا جائے تو زندگی بدل سکتی ہے۔ بعض اوقات کسی بھی حوالے سے انکار اور نظر انداز کیے جانے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہوتی بلکہ آپ کسی کی منفی سوچ اور آزار پسند طبیعت کا نشانہ بنتی ہیں۔ ان دونوں میں تمیز کرنے کے بعد ہی آپ اس کا حل نکال سکتی ہیں۔ مسترد ہوجانے کا خوف جب اعصاب پر سوار ہوجائے تو جینے کی امنگ ختم ہو جاتی ہے۔ یہ خوف صرف رشتوں ناتوں اور گھر تک محدود نہیں رہتا بلکہ ملازمت، دوستی، تعلیم، الغرض زندگی کے ہر مرحلے پر اس کا اثر ہوتا ہے۔
تعلیمی میدان:
عموماً اساتذہ ذہین طلبا کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو پڑھائی میں کم زور طلبا و طالبات میں احساسِ کم تری پیدا کردیتا ہے۔ وہ ایک قسم کا ذہنی دباؤ محسوس کرنے لگتے ہیں جو اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ ان کو امتحانات میں بھی اپنی ناکامی کا گویا یقین ہوجاتا ہے۔ یہ کیفیت اور احساس ایسے طلبا کی تعلیم سے دوری کا سبب بنتا ہے۔ بسا اوقات طلبا یہ مفروضہ قائم کرلیتے ہیں کہ اساتذہ مجھے پسند نہیں کرتے، لہٰذا امتحان میں بھی کم نمبر دیتے ہیں۔ ایسے طلبا کے دل و دماغ پر مسترد کیے جانے کا خوف اس قدر حاوی ہو جاتا ہے کہ وہ ہوم ورک اور اسائنمنٹ کرتے ہوئے بھی یہی سوچتے ہیں کہ اسے مسترد کردیا جائے گا۔ اساتذہ کی حوصلہ افزائی، توجہ اور والدین کی راہ نمائی ان کو اس کیفیت سے باہر نکال سکتی ہے۔
گھریلو ماحول:
گھر کا ماحول ایسا نہ ہو کہ جب بچے کسی معاملے میں مشورہ یا تجویز دیں تو بڑے اسے غور سے سنیں، اہمیت دیں یا یکسر مسترد کرنے کے بجائے سلیقے اور طریقے سے سمجھائیں تو بھی ان کا اعتماد مجروح ہوتا ہے اور مسترد ہو جانے کا خوف دل میں بیٹھ جاتا ہے۔ یہ مشورہ گھر کی سجاوٹ کے معاملے سے لے کر چھوٹے بہن بھائیوں کی اسکولنگ یا کپڑوں کی خریداری کے حوالے سے بھی ہوسکتا ہے۔ اگر والدین کے لیے اولاد کی تجویز قابلِ قبول نہ ہو تب بھی ان کی بات غور سے سنیں، سراہیں اور مثبت انداز میں اس کے قابلِ عمل نہ ہونے کی وجہ یا جواز بتائیں تو یہ بچے کی شخصیت میں اعتماد پیدا کرتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ ایک خاص عمر سے بچوں سے بات کرنا، مشورہ کرنا یا تجویز لینا شروع کریں، ان کو اہمیت دیں، کپڑوں کی خریداری میں ان کی پسند ناپسند پوچھیں، ان کی بات غور سے سنیں۔ اور پھر اس کے مثبت و منفی پہلو سے آگاہ کریں تو ان کا اعتماد بڑھے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہو گا کہ ہر مشورہ، تجویز قابل عمل نہیں ہوتی جس سے مستقبل میں کسی موڑ پر ناکامی یا مسترد ہونے پر وہ بددل ہونے کے بجائے مثبت ردعمل کا مظاہرہ کریں گے۔
ملازمت:
ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکلنا عملی زندگی میں پہلا قدم رکھنا ہوتا ہے۔ نوکری کے لیے انٹرویوز دینا پڑتے ہیں جہاں انکار اور رد کیا مایوسی کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر ایسا متعدد بار ہو تو آپ ذہنی تناؤ اور مسترد کیے جانے خوف میں بھی مبتلا ہوسکتی ہیں۔ اس موقع پر کڑھنے اور دوسروں کو اس کا ذمے دار ٹھہرانے کے بجائے خود پر نظر ڈالیں، اپنی کم زوریوں کا جائزہ لیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ آپ کو کیوں مسترد کیا گیا۔ ملازمت کے لیے لکھی جانے والی درخواست سے لے کر انٹرویو دینے تک بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں۔ صلاحیت و قابلیت میں کمی سے لے کر اعتماد کا مظاہرہ نہ کرنا بھی رد کیے جانے کا سبب ہو سکتا ہے۔
اگلی بار اپنی ایسی کم زوری، خرابی یا خامی دور کرکے آگے بڑھنے کی تیاری کریں۔ بسا اوقات ملازمت کے دوران ترقی نہ ملنا اور کسی دوسری ساتھی کو اہم عہدے پر فائز کیا جانا بھی تکلیف دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن کیا آپ اسے بھی خود کو مسترد کیا جانا تصور کریں گی؟ غور کریں تو شاید آپ کی وہ دفتری ساتھی کسی حوالے سے آپ سے بہتر ہوں اور اعلیٰ تعلیمی سند کے ساتھ ساتھ ایسے کورسز بھی کرچکی ہوں جس کی بنیاد پر اس عہدے کے لیے ان کو آپ کے مقابلے میں زیادہ موزوں سمجھا گیا ہو۔ لہٰذا اپنی خامیوں پر بھی نظر رکھیں اور اس کو مثبت انداز سے سوچیں۔ فارغ وقت میں ایسے کورسز کرنے پر توجہ دیں جو ملازمت میں ترقی کا سبب بنیں۔
سوشل میڈیا:
بعض تحقیقی رپورٹوں اور جائزوں میں سامنے آیا ہے کہ سماجی ذرائع ابلاغ کی ویب سائٹ پر تصاویر یا پوسٹ پر لائک یا کمنٹس نہ آنا بھی نوجوانوں میں مایوسی کا سبب بن رہا ہے۔ وہ اسے نظر انداز کرنا یا مسترد کیا جانا تصور کرتے ہیں اور وقت کے ساتھ یہ احساس شدت اختیار کر جاتا ہے۔ یہ بظاہر ایک معمولی عمل یا سوشل میڈیا کی دنیا میں لوگوں کا ایک خاص قسم کا برتاؤ ہے، لیکن یہ ذات کی نفی کے احساس کو جنم دے کر مسائل پیدا کر رہا ہے۔ اس کی بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اسے اہمیت نہ دیں تو پُرسکون رہیں گی۔
درحقیقت عوامل کچھ بھی ہوں، کسی بھی موقع پر اور کسی بھی حوالے سے رد ہو جانے یا نظر انداز کیے جانے کا احساس ہمیشہ اس خیال کو جنم دیتا ہے کہ دوسرے میرے متعلق منفی سوچ رکھتے ہوں گے۔ میں کچھ نہیں کرسکتی اور اسی قسم کے دوسرے مایوس کن خیالات تنگ کرتے ہیں، لیکن اس کیفیت سے باہر نکلنے کی کوشش اور مثبت سوچ کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کی صورت میں آپ اچھا محسوس کریں گی۔
اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش ترک کر دیں۔ زندگی کو بامقصد بنائیں، وہ مشغلہ ضرور اپنائیں جو آپ کی خوشی کا باعث ہو۔ اپنی خوبیوں پر نظر رکھیں۔ زندگی میں آگے بڑھنے کی کوشش جاری رکھیں اور منفی خیالات کو ذہن میں جگہ نہ دیں۔ یاد رکھیے آپ پہلی عورت نہیں جسے ایسے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ ہر انسان زندگی میں کئی مراحل پر اس قسم کے حالات کا سامنا کرتا ہے۔ مثبت طرز فکر آپ کی کام یابی کی ضمانت ثابت ہو گا۔
چائے اور دیگر لوازامات ٹرے میں سجائے اور سَر پر دوپٹہ جمائے وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوتی تو لمحوں میں اس کی نظریں ان خواتین کی نظروں میں اپنے لیے ناپسندیدگی کے جذبات پڑھ لیتیں۔ ان کے جانے کے بعد رشتے کرانے والی خاتون کی کال آتی تو معلوم ہوتا کہ وہ لڑکے والوں کو پسند نہیں آئی۔ متعدد بار مسترد کیے جانے سے وہ ذہنی طور کرب اور اضطراب کا شکار ہوگئی۔ والدہ ماہرِ نفسیات کے پاس لے گئیں جس کے بعد وہ کچھ بہتر محسوس کرنے لگی۔ دن گزرتے رہے۔ چھوٹی بہنوں کے رشتے طے ہوگئے اور وہ بیاہ کر چلی گئیں، مگر اس کا نصیب نہ جاگا۔ ماں نے رشتہ ڈھونڈنے کی کوششیں مزید تیز کردیں۔ بالآخر شادی ہوگئی۔
شادی کے بعد پتا چلا کہ شوہر نشے کا عادی ہے۔ وہ اس پر تشدد کرتا۔ وہ چپ چاپ ہر ظلم سہتی رہی، مگر ایک روز شوہر نے اسے طلاق دے دی۔ اب وہ کسی اور سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ یہ اس لڑکی کے لیے ناقابل برداشت ثابت ہوا۔ وہ یہ سمجھتی کہ گویا شوہر نے بھی اسے ٹھکرا دیا ہے۔ طلاق لے کر جب میکے واپس آئی تو کچھ عرصے بعد ماں کا انتقال ہو گیا اور بھائی نے ایک بات پر اسے گھر سے نکال دیا۔ اب وہ ایک عزیز کے گھر رہنے پر مجبور ہوگئی۔ وہ ذہنی و نفسیاتی دباؤ کے زیر اثر تھی!!
ایسے کئی واقعات اور بے شمار کردار ہمارے سامنے ہیں۔ یوں تو ہر انسان اپنے جذبات، خواہشات اور کسی بات کے رد ہونے پر، کسی بھی حوالے سے نظرانداز کیے جانے پر رنجیدہ، مایوس اور بعض صورتوں میں ذہنی دباؤ کا شکار بھی ہو سکتا ہے، مگر لڑکیاں اس حوالے سے زیادہ حساس ہوتی ہیں۔ پچھلے دنوں ایک خبر پڑھی جس کے مطابق ایک لڑکی نے رنگت کی وجہ سے ہر بار رشتے سے انکار کے بعد اپنا رنگ گورا کرنے کا علاج کروایا، مگر بدقسمتی سے اس علاج نے اسے جلد کی ایسی بیماری کا شکار بنا دیا جس نے اسے موت کے منہ میں دھکیل دیا۔
کسی بھی حوالے سے مسلسل انکار سننے، نظر انداز اور مسترد کیے جانے کا خوف ہماری شخصیت میں ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنتا ہے۔ یہ اعتماد کو نگل کر کسی کو بھی احساسِ کمتری کا شکار کر سکتا ہے اور اسے اپنی بے وقعتی کا احساس ستانے لگتا ہے۔ یہ کیفیت اسے شدید مایوسی کا شکار کر دیتی ہے اور ایسا کوئی بھی فرد مستقبل میں بھی ہر قدم پر ٹھکرائے جانے اور مسترد ہونے کے اندیشے کی وجہ سے آگے بڑھنے سے ڈرتا ہے۔ اپنی بے وقعتی کا خوف اتنا شدید ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی لڑکی اپنی کسی خواہش، کسی جذبے کے اظہار اور خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے سے کترانے لگتی ہے اور زندگی بے معنی محسوس ہوتی ہے۔
تاہم ایسی کسی کیفیت اور مسئلے سے دوچار لڑکیوں کو چاہیے کہ وہ مایوس اور خوف کا شکار ہونے کے بجائے اس کی کوئی ٹھوس وجہ اور اسباب تلاش کریں۔ ہر بار خود کو مسترد کیے جانے کی وجوہات پر غور کر کے ان کا سدباب کرلیا جائے تو زندگی بدل سکتی ہے۔ بعض اوقات کسی بھی حوالے سے انکار اور نظر انداز کیے جانے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہوتی بلکہ آپ کسی کی منفی سوچ اور آزار پسند طبیعت کا نشانہ بنتی ہیں۔ ان دونوں میں تمیز کرنے کے بعد ہی آپ اس کا حل نکال سکتی ہیں۔ مسترد ہوجانے کا خوف جب اعصاب پر سوار ہوجائے تو جینے کی امنگ ختم ہو جاتی ہے۔ یہ خوف صرف رشتوں ناتوں اور گھر تک محدود نہیں رہتا بلکہ ملازمت، دوستی، تعلیم، الغرض زندگی کے ہر مرحلے پر اس کا اثر ہوتا ہے۔
تعلیمی میدان:
عموماً اساتذہ ذہین طلبا کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو پڑھائی میں کم زور طلبا و طالبات میں احساسِ کم تری پیدا کردیتا ہے۔ وہ ایک قسم کا ذہنی دباؤ محسوس کرنے لگتے ہیں جو اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ ان کو امتحانات میں بھی اپنی ناکامی کا گویا یقین ہوجاتا ہے۔ یہ کیفیت اور احساس ایسے طلبا کی تعلیم سے دوری کا سبب بنتا ہے۔ بسا اوقات طلبا یہ مفروضہ قائم کرلیتے ہیں کہ اساتذہ مجھے پسند نہیں کرتے، لہٰذا امتحان میں بھی کم نمبر دیتے ہیں۔ ایسے طلبا کے دل و دماغ پر مسترد کیے جانے کا خوف اس قدر حاوی ہو جاتا ہے کہ وہ ہوم ورک اور اسائنمنٹ کرتے ہوئے بھی یہی سوچتے ہیں کہ اسے مسترد کردیا جائے گا۔ اساتذہ کی حوصلہ افزائی، توجہ اور والدین کی راہ نمائی ان کو اس کیفیت سے باہر نکال سکتی ہے۔
گھریلو ماحول:
گھر کا ماحول ایسا نہ ہو کہ جب بچے کسی معاملے میں مشورہ یا تجویز دیں تو بڑے اسے غور سے سنیں، اہمیت دیں یا یکسر مسترد کرنے کے بجائے سلیقے اور طریقے سے سمجھائیں تو بھی ان کا اعتماد مجروح ہوتا ہے اور مسترد ہو جانے کا خوف دل میں بیٹھ جاتا ہے۔ یہ مشورہ گھر کی سجاوٹ کے معاملے سے لے کر چھوٹے بہن بھائیوں کی اسکولنگ یا کپڑوں کی خریداری کے حوالے سے بھی ہوسکتا ہے۔ اگر والدین کے لیے اولاد کی تجویز قابلِ قبول نہ ہو تب بھی ان کی بات غور سے سنیں، سراہیں اور مثبت انداز میں اس کے قابلِ عمل نہ ہونے کی وجہ یا جواز بتائیں تو یہ بچے کی شخصیت میں اعتماد پیدا کرتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ ایک خاص عمر سے بچوں سے بات کرنا، مشورہ کرنا یا تجویز لینا شروع کریں، ان کو اہمیت دیں، کپڑوں کی خریداری میں ان کی پسند ناپسند پوچھیں، ان کی بات غور سے سنیں۔ اور پھر اس کے مثبت و منفی پہلو سے آگاہ کریں تو ان کا اعتماد بڑھے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہو گا کہ ہر مشورہ، تجویز قابل عمل نہیں ہوتی جس سے مستقبل میں کسی موڑ پر ناکامی یا مسترد ہونے پر وہ بددل ہونے کے بجائے مثبت ردعمل کا مظاہرہ کریں گے۔
ملازمت:
ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکلنا عملی زندگی میں پہلا قدم رکھنا ہوتا ہے۔ نوکری کے لیے انٹرویوز دینا پڑتے ہیں جہاں انکار اور رد کیا مایوسی کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر ایسا متعدد بار ہو تو آپ ذہنی تناؤ اور مسترد کیے جانے خوف میں بھی مبتلا ہوسکتی ہیں۔ اس موقع پر کڑھنے اور دوسروں کو اس کا ذمے دار ٹھہرانے کے بجائے خود پر نظر ڈالیں، اپنی کم زوریوں کا جائزہ لیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ آپ کو کیوں مسترد کیا گیا۔ ملازمت کے لیے لکھی جانے والی درخواست سے لے کر انٹرویو دینے تک بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں۔ صلاحیت و قابلیت میں کمی سے لے کر اعتماد کا مظاہرہ نہ کرنا بھی رد کیے جانے کا سبب ہو سکتا ہے۔
اگلی بار اپنی ایسی کم زوری، خرابی یا خامی دور کرکے آگے بڑھنے کی تیاری کریں۔ بسا اوقات ملازمت کے دوران ترقی نہ ملنا اور کسی دوسری ساتھی کو اہم عہدے پر فائز کیا جانا بھی تکلیف دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن کیا آپ اسے بھی خود کو مسترد کیا جانا تصور کریں گی؟ غور کریں تو شاید آپ کی وہ دفتری ساتھی کسی حوالے سے آپ سے بہتر ہوں اور اعلیٰ تعلیمی سند کے ساتھ ساتھ ایسے کورسز بھی کرچکی ہوں جس کی بنیاد پر اس عہدے کے لیے ان کو آپ کے مقابلے میں زیادہ موزوں سمجھا گیا ہو۔ لہٰذا اپنی خامیوں پر بھی نظر رکھیں اور اس کو مثبت انداز سے سوچیں۔ فارغ وقت میں ایسے کورسز کرنے پر توجہ دیں جو ملازمت میں ترقی کا سبب بنیں۔
سوشل میڈیا:
بعض تحقیقی رپورٹوں اور جائزوں میں سامنے آیا ہے کہ سماجی ذرائع ابلاغ کی ویب سائٹ پر تصاویر یا پوسٹ پر لائک یا کمنٹس نہ آنا بھی نوجوانوں میں مایوسی کا سبب بن رہا ہے۔ وہ اسے نظر انداز کرنا یا مسترد کیا جانا تصور کرتے ہیں اور وقت کے ساتھ یہ احساس شدت اختیار کر جاتا ہے۔ یہ بظاہر ایک معمولی عمل یا سوشل میڈیا کی دنیا میں لوگوں کا ایک خاص قسم کا برتاؤ ہے، لیکن یہ ذات کی نفی کے احساس کو جنم دے کر مسائل پیدا کر رہا ہے۔ اس کی بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اسے اہمیت نہ دیں تو پُرسکون رہیں گی۔
درحقیقت عوامل کچھ بھی ہوں، کسی بھی موقع پر اور کسی بھی حوالے سے رد ہو جانے یا نظر انداز کیے جانے کا احساس ہمیشہ اس خیال کو جنم دیتا ہے کہ دوسرے میرے متعلق منفی سوچ رکھتے ہوں گے۔ میں کچھ نہیں کرسکتی اور اسی قسم کے دوسرے مایوس کن خیالات تنگ کرتے ہیں، لیکن اس کیفیت سے باہر نکلنے کی کوشش اور مثبت سوچ کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کی صورت میں آپ اچھا محسوس کریں گی۔
اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش ترک کر دیں۔ زندگی کو بامقصد بنائیں، وہ مشغلہ ضرور اپنائیں جو آپ کی خوشی کا باعث ہو۔ اپنی خوبیوں پر نظر رکھیں۔ زندگی میں آگے بڑھنے کی کوشش جاری رکھیں اور منفی خیالات کو ذہن میں جگہ نہ دیں۔ یاد رکھیے آپ پہلی عورت نہیں جسے ایسے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ ہر انسان زندگی میں کئی مراحل پر اس قسم کے حالات کا سامنا کرتا ہے۔ مثبت طرز فکر آپ کی کام یابی کی ضمانت ثابت ہو گا۔