یہ بستیاں ہماری
بیروت اب ہمارے لیے کوئی اجنبی شہر نہیں ہے۔ ایک رشتے میں اب ہم بھی اس کے ساتھ منسلک ہیں۔
بیروت کی ایک اخباری رپورٹ نظر سے گزری۔ بیروت کا حوالہ اب آ ہی گیا ہے تو پہلے یہ بتانا ضرور ہے کہ بیروت اب ہمارے لیے کوئی اجنبی شہر نہیں ہے۔ ایک رشتے میں اب ہم بھی اس کے ساتھ منسلک ہیں۔ کسی زمانے میں بیروت عرب دنیا کا پیرس سمجھا جاتا تھا۔ دنیائے عرب کے مختلف شہروں میں کھاتے پیتے عرب اپنے ملک کی بند فضا سے اکتا کر اس شہر کا رخ کیا کرتے تھے۔ یہاں آ کر خوب کھل کھیلتے تھے۔ پھر تازہ دم ہوکر اپنے قفل صفت شہروں میں لوٹتے تھے۔ مگر بیروت کو کسی بدنظر کی نظر لگ گئی۔ وہ خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ بس پھر وہ دنیائے عرب کا سب سے پر آشوب شہر بن گیا۔
خیر خدا خدا کر کے وہ دور گزر گیا۔ متذکرہ رپورٹ میں چلتے چلتے اس دور کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ دور 1975ء سے شروع ہوا اور 1990ء میں جا کر ختم ہوگیا۔ تو اب تو وہ زمانہ قصۂ ماضی ہے۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ اس شہر کی وہ رمی جمی جس کا ابھی ذکر ہوا، پھر واپس نہیں آئی۔ ہر پھر کر لگتا ہے کہ وہ زمانہ واپس آ گیا ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ اب پھر وہاں یہ فضا ہے کہ آئے دن بم پھٹتے ہیں۔ اور اب کے تو یہ ہوا کہ عین حزب اللہ کے گڑھ کے بیچ ایک بم پھٹا۔ اس گڑھ میں آباد مخلوق اپنے آپ کو کتنا محفوظ سمجھتی تھی۔ مگر جب اچانک یہ قیامت ٹوٹی تو بہت افراتفری پھیلی، مگر حزب اللہ والوں نے پورا اہتمام کیا کہ لوگ بے حوصلہ نہ ہوں۔ اس سلسلہ میں ایک عجب نسخہ استعمال کیا گیا۔ کوئی شادی ہوئی، دولہا دلہن کو اس تمام واردات کی سیر کرائی گئی جو اب ایک بڑی تباہی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ شادی کی رسموں میں ایک نئی رسم کا اضافہ۔ شاید اس کی معنویت یہی ہے کہ نغمۂ شادی برحق۔ مگر کیا مضائقہ ہے کہ اس میں تھوڑی چاشنی نوحۂ غم کی شامل کر لی جائے کہ زندگی یوں بھی ہے اور یوں بھی۔ گھر کی رونق ہنگامہ ہی پر تو موقوف ہے اور ہنگامہ میں یہ رنگ بھی شامل ہے اور تھوڑی یہ بدرنگی بھی۔
بہرحال اس وقت بیروت میں جو فضا ہے اس کا اندازہ ایک نوجوان کے اس تبصرے سے لگائیے جو اس رپورٹ میں نقل ہوا ہے۔ کہتا ہے کہ ''جب میں گھر سے قدم نکالتا ہوں تو گھر کے ایک ایک فرد کو سلام آخر کرتا ہوں۔ اور جب دفتر سے واپس ہونے لگتا ہوں تو انھیں بھی الوداع کہہ کر نکلتا ہوں کہ؎
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
کیا خبر ہے میں جا کر پھر واپس آئوں یا نہ آئوں
اس پر ہمارا کراچی کا ایک دوست کہنے لگا کہ بیروتی نوجوان نے یہ کونسی انوکھی بات کہی۔ ارے مجھ سے پوچھو۔ کب سے اس شہر کراچی سے اپنا یہ طور چلا آتا ہے کہ جب صبح کو میں دفتر جانے کے لیے نکلنے لگتا ہوں تو میری اماں مجھے امام ضامن کی ضامنی میں رخصت کرتی ہیں اور دعا دیتی ہیں کہ جیسے پیٹھ دکھا رہے ہو ویسے ہی صورت بھی دکھانا۔ اور جب شام کو گھر واپس آتا ہوں تو بلائیں لیتی ہیں اور کہتی جاتی ہیں کہ الٰہی تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ میرا بیٹا خیریت سے گھر واپس آ گیا ہے۔''
ہم نے اسے دلاسہ دیا کہ ''میرے دوست۔ بھلے دن پھر آئیں گے۔ بس آس رکھو۔ اور اب تو نئی حکومت آ گئی ہے۔ اچھے دن آتے دیر تھوڑا ہی لگتی ہے۔''
''نئی حکومت۔'' وہ سوچ میں پڑ گیا۔ پھر کہنے لگا ''نئی حکومت اس سے پہلے بھی آئی تھی۔ آج سے پانچ برس پہلے۔''
اس عزیز نے ایسے مایوس لہجہ میں یہ بات کہی کہ ہمیں بیساختہ اختر الایمان کی ایک نظم یاد آ گئی۔
اس سے پہلے بھی یہ دروازہ کھلا
اس سے پہلے بھی یہ دروازہ کھلا
اس سے پہلے بھی یہ دروازہ کھلا
لو ہم کہاں سے کہاں نکل گئے۔ ذکر بیروت کا تھا۔ بیروت میں بھی اس وقت بم دھماکوں کا موسم چل رہا ہے۔ اس موسم نے اتنا زور باندھا ہے کہ شہر کے جس گوشے کو سب سے محفوظ گوشہ سمجھا جاتا تھا، بم دھماکوں کی گونج اب وہاں بھی' نہیں بلکہ وہاں سے بھی سنائی دے رہی ہے۔ یہ افسوس ناک بات ہے۔ مگر اس میں ہمارے لیے ایک تسکین کا پہلو بھی ہے۔ وہ یوں کہ ہم تو یہ سمجھ رہے تھے کہ اس بلائے ناگہانی کا نزول بطور خاص ہم پر ہوا ہے۔ باقی دنیا کے شہر چین کی بانسری بجاتے ہیں۔ اب پتہ چلا کہ ہمارے اس غم میں دنیا کے اور دیار و امصار بھی شریک ہیں۔ خیر باقی دنیا سے ہمیں کیا لینا۔ تسکین کا پہلو یہ ہے کہ ہمیں شرکائے غم اپنی اسلامی دنیا سے میسر آئے ہیں۔ اصل میں اس وقت سب سے بڑھ کر اسلامی دنیا کے مختلف دیار اور مختلف شہر اس مصیبت میں گرفتار ہیں۔ خیر کراچی کو اس ابتلاء میں جو رفیق میسر آیا ہے وہ بیروت ہے۔ یعنی کراچی ایک طرح سے پاکستان کا بیروت ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ بیروت بھی اپنی جگہ اچھا خاصہ شہر کراچی بنا ہوا ہے۔
ایک وقت تھا کہ ہم بیروت کا احوال اخباروں میں پڑھتے تھے اور حیران ہوتے تھے کہ ایسے عالم میں بیروت میں لوگ کیسے گزر بسر کرتے ہیں۔ اب جب بیروت سے ایسی خبریں آ رہی ہیں تومطلق حیرانی نہیں ہوتی بلکہ تھوڑی سی تسکین ہوتی ہے کہ اچھا ہمارے شہروں کے سوا بھی ایسے شہر ہیں جو اسی منزل فنا سے گزر رہے ہیں جن سے ہمارے شہر گزر رہے ہیں۔
مگر انسان بڑی صابر مخلوق ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ دنیائے اسلام کے پاس بڑے صابر و شاکر قسم کے لوگ ہیں۔ دوسرے آزاد ملکوں کے لوگوں کی طرح بے صبرے نہیں ہیں کہ ایسی صورتحال کو زیادہ عرصے تک برداشت نہیں کرتے۔ مگر ادھر لوگ حالات کیسے ہی ناقابل برداشت ہوں وہ جلدی ان سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ ایسے زمانوں میں رنج کھینچتے کھینچتے جلد ہی ناقابل برداشت حالات میں جینے کے آداب سیکھ لیتے ہیں۔ متذکرہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیروت کے لوگوں کا احوال اب کچھ اس قسم کا ہے کہ؎
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں
لوگ اب ایسے حادثوں کے عادی ہو گئے ہیں۔ بم دھماکہ ہوتا ہے تو تھوڑی دیر کے لیے بہت چیخ پکار ہوتی ہے۔ مگر پھر جلدی ہی لوگ ادھر سے فراغت پا کر اپنے کاروبار حیات میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ بیوی کو جلد ہی احساس ہوتا ہے کہ گھر میں بیٹھے بیٹھے اس کا دم گھٹ رہا ہے۔ شوہر سے کہتی ہے کہ تم نے جو مجھ سے نئے جوڑے کا وعدہ کیا تھا۔ اس وعدے کو پورا کرنے کا وقت کب آئے گا اور بس فوراً ہی دونوں شاپنگ کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
اس طرح جینے کا سلیقہ ہمیں بھی آ گیا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ سلیقہ کراچی میں نظر آتا ہے جو ہمارے سب شہروں سے بڑھ کر آفت زدہ شہر ہے۔ ہم لاہور میں بیٹھ کر کتنے متفکر ہوتے ہیں کہ اس شہر میں آفت ٹوٹ رہی ہے۔ لوگوں پر کیا گزر رہی ہو گی۔ مگر ایسے ہی عالم میں ہمیں اس دیار میں جانا پڑ جائے تو دیکھ کر کتنے حیران ہو رہے ہیں کہ بم بھی پھٹ رہے ہیں، گولیاں بھی چل رہی ہیں اور زندگی کے کاروبار بھی جاری ہیں۔ ایک کوچے میں قیامت مچی ہوئی ہے۔ قریب ہی دوسرے کوچے میں زندگی رواں دواں ہے۔ صبح فلاں کوچے میں بم پھٹتا تھا۔ کتنی جانیں زد میں آتی تھیں۔ کتنے درو دیوار ڈھے گئے۔ کتنا شور مچا تھا۔ خلقت دہل گئی تھی۔ پولیس سیٹیاں بجا رہی ہے۔ سیکیورٹی والے دوڑے پھر رہے ہیں۔ پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے۔
شام ہوتے ہوتے پریشان مخلوق موقعہ واردات سے جیسے ایک ایک کر کے سرک گئی ہو۔ رکا ہوا ٹریفک رفتہ رفتہ چل پڑتا ہے۔ ایک دو موٹریں فراٹے سے گزرتی چلی جاتی ہیں۔ پھر اسکوٹر فراٹے بھرتے نظر آتے ہیں اور ٹریفک پوری رفتار سے رواں دواں ہو جاتا ہے۔ کاروبار زندگی پھر چل پڑا ہے۔ مطلب یہ کہ جتنا چیخ و پکار کرسکتے تھے کر لی اور اب ؎
پھر وہی زندگی ہماری ہے
خیر خدا خدا کر کے وہ دور گزر گیا۔ متذکرہ رپورٹ میں چلتے چلتے اس دور کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ دور 1975ء سے شروع ہوا اور 1990ء میں جا کر ختم ہوگیا۔ تو اب تو وہ زمانہ قصۂ ماضی ہے۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ اس شہر کی وہ رمی جمی جس کا ابھی ذکر ہوا، پھر واپس نہیں آئی۔ ہر پھر کر لگتا ہے کہ وہ زمانہ واپس آ گیا ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ اب پھر وہاں یہ فضا ہے کہ آئے دن بم پھٹتے ہیں۔ اور اب کے تو یہ ہوا کہ عین حزب اللہ کے گڑھ کے بیچ ایک بم پھٹا۔ اس گڑھ میں آباد مخلوق اپنے آپ کو کتنا محفوظ سمجھتی تھی۔ مگر جب اچانک یہ قیامت ٹوٹی تو بہت افراتفری پھیلی، مگر حزب اللہ والوں نے پورا اہتمام کیا کہ لوگ بے حوصلہ نہ ہوں۔ اس سلسلہ میں ایک عجب نسخہ استعمال کیا گیا۔ کوئی شادی ہوئی، دولہا دلہن کو اس تمام واردات کی سیر کرائی گئی جو اب ایک بڑی تباہی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ شادی کی رسموں میں ایک نئی رسم کا اضافہ۔ شاید اس کی معنویت یہی ہے کہ نغمۂ شادی برحق۔ مگر کیا مضائقہ ہے کہ اس میں تھوڑی چاشنی نوحۂ غم کی شامل کر لی جائے کہ زندگی یوں بھی ہے اور یوں بھی۔ گھر کی رونق ہنگامہ ہی پر تو موقوف ہے اور ہنگامہ میں یہ رنگ بھی شامل ہے اور تھوڑی یہ بدرنگی بھی۔
بہرحال اس وقت بیروت میں جو فضا ہے اس کا اندازہ ایک نوجوان کے اس تبصرے سے لگائیے جو اس رپورٹ میں نقل ہوا ہے۔ کہتا ہے کہ ''جب میں گھر سے قدم نکالتا ہوں تو گھر کے ایک ایک فرد کو سلام آخر کرتا ہوں۔ اور جب دفتر سے واپس ہونے لگتا ہوں تو انھیں بھی الوداع کہہ کر نکلتا ہوں کہ؎
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
کیا خبر ہے میں جا کر پھر واپس آئوں یا نہ آئوں
اس پر ہمارا کراچی کا ایک دوست کہنے لگا کہ بیروتی نوجوان نے یہ کونسی انوکھی بات کہی۔ ارے مجھ سے پوچھو۔ کب سے اس شہر کراچی سے اپنا یہ طور چلا آتا ہے کہ جب صبح کو میں دفتر جانے کے لیے نکلنے لگتا ہوں تو میری اماں مجھے امام ضامن کی ضامنی میں رخصت کرتی ہیں اور دعا دیتی ہیں کہ جیسے پیٹھ دکھا رہے ہو ویسے ہی صورت بھی دکھانا۔ اور جب شام کو گھر واپس آتا ہوں تو بلائیں لیتی ہیں اور کہتی جاتی ہیں کہ الٰہی تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ میرا بیٹا خیریت سے گھر واپس آ گیا ہے۔''
ہم نے اسے دلاسہ دیا کہ ''میرے دوست۔ بھلے دن پھر آئیں گے۔ بس آس رکھو۔ اور اب تو نئی حکومت آ گئی ہے۔ اچھے دن آتے دیر تھوڑا ہی لگتی ہے۔''
''نئی حکومت۔'' وہ سوچ میں پڑ گیا۔ پھر کہنے لگا ''نئی حکومت اس سے پہلے بھی آئی تھی۔ آج سے پانچ برس پہلے۔''
اس عزیز نے ایسے مایوس لہجہ میں یہ بات کہی کہ ہمیں بیساختہ اختر الایمان کی ایک نظم یاد آ گئی۔
اس سے پہلے بھی یہ دروازہ کھلا
اس سے پہلے بھی یہ دروازہ کھلا
اس سے پہلے بھی یہ دروازہ کھلا
لو ہم کہاں سے کہاں نکل گئے۔ ذکر بیروت کا تھا۔ بیروت میں بھی اس وقت بم دھماکوں کا موسم چل رہا ہے۔ اس موسم نے اتنا زور باندھا ہے کہ شہر کے جس گوشے کو سب سے محفوظ گوشہ سمجھا جاتا تھا، بم دھماکوں کی گونج اب وہاں بھی' نہیں بلکہ وہاں سے بھی سنائی دے رہی ہے۔ یہ افسوس ناک بات ہے۔ مگر اس میں ہمارے لیے ایک تسکین کا پہلو بھی ہے۔ وہ یوں کہ ہم تو یہ سمجھ رہے تھے کہ اس بلائے ناگہانی کا نزول بطور خاص ہم پر ہوا ہے۔ باقی دنیا کے شہر چین کی بانسری بجاتے ہیں۔ اب پتہ چلا کہ ہمارے اس غم میں دنیا کے اور دیار و امصار بھی شریک ہیں۔ خیر باقی دنیا سے ہمیں کیا لینا۔ تسکین کا پہلو یہ ہے کہ ہمیں شرکائے غم اپنی اسلامی دنیا سے میسر آئے ہیں۔ اصل میں اس وقت سب سے بڑھ کر اسلامی دنیا کے مختلف دیار اور مختلف شہر اس مصیبت میں گرفتار ہیں۔ خیر کراچی کو اس ابتلاء میں جو رفیق میسر آیا ہے وہ بیروت ہے۔ یعنی کراچی ایک طرح سے پاکستان کا بیروت ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ بیروت بھی اپنی جگہ اچھا خاصہ شہر کراچی بنا ہوا ہے۔
ایک وقت تھا کہ ہم بیروت کا احوال اخباروں میں پڑھتے تھے اور حیران ہوتے تھے کہ ایسے عالم میں بیروت میں لوگ کیسے گزر بسر کرتے ہیں۔ اب جب بیروت سے ایسی خبریں آ رہی ہیں تومطلق حیرانی نہیں ہوتی بلکہ تھوڑی سی تسکین ہوتی ہے کہ اچھا ہمارے شہروں کے سوا بھی ایسے شہر ہیں جو اسی منزل فنا سے گزر رہے ہیں جن سے ہمارے شہر گزر رہے ہیں۔
مگر انسان بڑی صابر مخلوق ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ دنیائے اسلام کے پاس بڑے صابر و شاکر قسم کے لوگ ہیں۔ دوسرے آزاد ملکوں کے لوگوں کی طرح بے صبرے نہیں ہیں کہ ایسی صورتحال کو زیادہ عرصے تک برداشت نہیں کرتے۔ مگر ادھر لوگ حالات کیسے ہی ناقابل برداشت ہوں وہ جلدی ان سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ ایسے زمانوں میں رنج کھینچتے کھینچتے جلد ہی ناقابل برداشت حالات میں جینے کے آداب سیکھ لیتے ہیں۔ متذکرہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیروت کے لوگوں کا احوال اب کچھ اس قسم کا ہے کہ؎
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں
لوگ اب ایسے حادثوں کے عادی ہو گئے ہیں۔ بم دھماکہ ہوتا ہے تو تھوڑی دیر کے لیے بہت چیخ پکار ہوتی ہے۔ مگر پھر جلدی ہی لوگ ادھر سے فراغت پا کر اپنے کاروبار حیات میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ بیوی کو جلد ہی احساس ہوتا ہے کہ گھر میں بیٹھے بیٹھے اس کا دم گھٹ رہا ہے۔ شوہر سے کہتی ہے کہ تم نے جو مجھ سے نئے جوڑے کا وعدہ کیا تھا۔ اس وعدے کو پورا کرنے کا وقت کب آئے گا اور بس فوراً ہی دونوں شاپنگ کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
اس طرح جینے کا سلیقہ ہمیں بھی آ گیا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ سلیقہ کراچی میں نظر آتا ہے جو ہمارے سب شہروں سے بڑھ کر آفت زدہ شہر ہے۔ ہم لاہور میں بیٹھ کر کتنے متفکر ہوتے ہیں کہ اس شہر میں آفت ٹوٹ رہی ہے۔ لوگوں پر کیا گزر رہی ہو گی۔ مگر ایسے ہی عالم میں ہمیں اس دیار میں جانا پڑ جائے تو دیکھ کر کتنے حیران ہو رہے ہیں کہ بم بھی پھٹ رہے ہیں، گولیاں بھی چل رہی ہیں اور زندگی کے کاروبار بھی جاری ہیں۔ ایک کوچے میں قیامت مچی ہوئی ہے۔ قریب ہی دوسرے کوچے میں زندگی رواں دواں ہے۔ صبح فلاں کوچے میں بم پھٹتا تھا۔ کتنی جانیں زد میں آتی تھیں۔ کتنے درو دیوار ڈھے گئے۔ کتنا شور مچا تھا۔ خلقت دہل گئی تھی۔ پولیس سیٹیاں بجا رہی ہے۔ سیکیورٹی والے دوڑے پھر رہے ہیں۔ پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے۔
شام ہوتے ہوتے پریشان مخلوق موقعہ واردات سے جیسے ایک ایک کر کے سرک گئی ہو۔ رکا ہوا ٹریفک رفتہ رفتہ چل پڑتا ہے۔ ایک دو موٹریں فراٹے سے گزرتی چلی جاتی ہیں۔ پھر اسکوٹر فراٹے بھرتے نظر آتے ہیں اور ٹریفک پوری رفتار سے رواں دواں ہو جاتا ہے۔ کاروبار زندگی پھر چل پڑا ہے۔ مطلب یہ کہ جتنا چیخ و پکار کرسکتے تھے کر لی اور اب ؎
پھر وہی زندگی ہماری ہے