سیلاب کشمیر اور منصوبہ بندی

1948 میں محدودجنگ کے نتیجےمیں جب کشمیر کی تقسیم ہوئی تواس کا وہ حصہ بھارت کےقبضےہی میں رہاجہاں سےیہ 6 دریا نکلتے ہیں۔


Muqtida Mansoor August 25, 2013
[email protected]

KARACHI: لائن آف کنٹرول پر تسلسل کے ساتھ ہونے والے پرتشدد واقعات نے سیاسی اور عسکری قیادت کو ایک میز پر بیٹھنے پر مجبور کردیا۔ کابینہ کی اس میٹنگ میں جس میں فوجی قیادت نے بھی شرکت کی، اس اجلاس میںکابینہ کی دفاعی کمیٹی کا نام تبدیل کرکے اسے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا نام دینے اور اس کا دائرہ کار وسیع کرنے کی منظوری دی گئی۔ حالانکہ میاں نواز شریف اپنے پچھلے دونوں ادوار حکومت میں اس کمیٹی یا کونسل کے قیام کے شدید مخالف رہے ہیں۔ یہی سبب تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نیشنل سیکیورٹی کونسل کے قیام کا مشورہ دینے پر مستعفی ہونے پر مجبورہوئے تھے۔ مگر اب پندرہ برس بعد یا تو وہ اس کمیٹی کی اہمیت و افادیت کے قائل ہوچکے ہیں یا پھر اپنے سابقہ تلخ تجربات کی روشنی میں انھوں نے عسکری قیادت کے ساتھ ٹکرائو کے بجائے مفاہمت کی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وجہ جو بھی ہو، اہم قومی امور پر سیاسی اور عسکری قیادت کا ایک پوائنٹ پر آناخوش آیند ہے۔

ویسے تو پاکستان ان گنت چھوٹے بڑے اور سنگین و پیچیدہ مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ ان گوناگوں مسائل میں ایک اہم اور سنگین مسئلہ زراعت، صنعت اور عام استعمال کے لیے سال بھر پانی کی فراہمی اور برسات کے موسم میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کی حکمت عملی تیار کرنا ہے۔ اس وقت جب کہ ملک کے بیشتر علاقے سیلاب کی زد میں آئے ہوئے ہیں، LOC پر پیدا شدہ کشیدگی نے پورے ملک میں فکرمندی کی نئی لہر دوڑا دی ہے۔ یہ کسی نہ کسی شکل میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے معاملات ہیں، جن کی جڑیں ماضی میں کیے گئے بعض فیصلوں میں پیوست ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر تنازعہ صرف کشمیر کی آزادی یا پاکستان سے الحاق سے آگے بڑھ کر آبی وسائل کی منصفانہ تقسیم تک پھیل چکا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان قدرتی آبی ذخائر کی تقسیم کے حوالے سے گفتگو کی جائے اور دیکھا جائے کہ ماضی میں کیے گئے فیصلوں کی کس حد تک پاسداری کی جارہی، اور کہاں کہاں ان کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔

پاکستان کی آبی ضروریات کا انحصار دریائے سندھ کے نظام پر ہے، جس میں کل چھ دریا شامل ہیں، جن میں سندھ، جہلم، چناب، راوی، ستلج اور بیاس شامل ہیں۔ یہ دریائی نظام چین کے علاقے تبت میں واقع کوہ ہمالیہ سے نکل کر کشمیر کے راستے پاکستان تک پہنچتا ہے۔ تکنیکی اعتبار سے اس نظام کو دو حصوں یعنی مغربی اور مشرقی رینج میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ مغربی رینج کے دریائوں میں سندھ، جہلم اور چناب شامل ہیں، جب کہ مشرقی رینج میں راوی، ستلج اور بیاس شامل ہیں۔ یہ تمام دریا ملتان کے قریب پنج ند کے مقام پر سندھو میں شامل ہوجاتے ہیں، جو صوبہ سندھ کے میدانی علاقے کا سینہ چیرتا ہوا ٹھٹھہ کے قریب بحیرہ عرب میںگرجاتا ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بیاس کشمیر سے جموں کے راستے بھارتی پنجاب میں چلا جاتا ہے اور پھر ستلج میں شامل ہوکر پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ یہ تمام دریا پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقوں میں زراعت، آبپاشی اور عام استعمال کے پانی کی فراہمی کا بنیادی ذریعہ ہیں۔

اگست 1947 میں تقسیم ہند کے موقع پر پنجاب بھی تقسیم ہوا اور کشمیر بھارت کے قبضے میں چلا گیا۔ 1948 میں محدود جنگ کے نتیجے میں جب کشمیر کی تقسیم ہوئی تو اس کا وہ حصہ بھارت کے قبضے ہی میں رہا جہاں سے یہ چھ دریا نکلتے ہیں۔ یوں تقسیم ہند کے ساتھ جہاں ان دونوں ممالک کے درمیان دیگر مسائل کھڑے ہوئے، وہیں پانی کی تقسیم کا مسئلہ بھی کھڑا ہوا۔ پاکستان کو یہ خدشہ لاحق تھا کہ بھارت کی طرف سے پانی روکے جانے کی صورت میں اس کے دو اہم میدانی صوبے سندھ اور پنجاب بالکل بنجر ہوکر رہ جائیں گے۔ جب کہ برسات میں اضافی پانی چھوڑے جانے کی صورت میں امڈنے والا سیلاب کھڑی فصلیں تباہ کردے گا۔ چنانچہ 4 مئی 1948 کو دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک عارضی معاہدہ ہوا، جو وقتی طور پر پانی کی تقسیم اور پاکستان میں بہائو کو جاری رکھنے کے لیے کیا گیا تھا، مگر ایک وسیع البنیاد معاہدے کی ضرورت اپنی جگہ موجود تھی، تاکہ اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نکالا جاسکے۔

اس دوران دونوں ممالک نے زراعت کی ترقی اور زرعی معیشت کو سہارا دینے کے لیے عالمی بینک (جو اس وقت بین الاقوامی بینک برائے تعمیر نو اور ترقی IBRD کہلاتا تھا) سے رجوع کیا۔ IBRD نے ان دونوں ممالک کو اس مد میں کسی قسم کی مدد فراہم کرنے سے قبل پانی کی منصفانہ اور دیرپا تقسیم کا فارمولہ تیار کرنے پر آمادہ کیا، تاکہ دونوں ممالک کو آبپاشی اور دیگر ضروریات کے لیے مناسب مقدار میں پانی مل سکے۔ IBRD کی تیکنکی مدد، تعاون اور ثالثی کے نتیجے میں دونوں ممالک ایک معاہدے پر متفق ہوئے، جس پر اس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور پاکستان کے مرد آہن فیلڈ مارشل ایوب خان نے 19 ستمبر 1960 کو کوہسار مری میں دستخط کیے۔ یہ معاہدہ Indus Water Treaty 1960 کہلاتا ہے۔

اس معاہدے کی شق III کی رو سے مغربی رینج کے دریائوں کے پانی پر پاکستان کو کلیتاً اختیار ہوگا، جب کہ بھارت کو پابند کیا گیا کہ وہ پاکستان کی طرف ان دریائوں کے بہائو میں کسی قسم کی مداخلت نہیںکرے گا۔ البتہ ضمیمہ C کے پیراگراف 5 میں دی گئی شرائط کے مطابق وہ اپنے حصے کا پانی حاصل کرسکے گا، جب کہ مشرقی دریائوں کے پانی کے استعمال پر بھارت کو مکمل اختیار ہوگا۔ لیکن آیندہ دس برس (31مارچ1970ء) تک بھارت ان دریائوں کی پاکستان کی طرف بہائو میں مداخلت نہیں کرے گا۔ یہ بھی طے کیا گیا کہ اس مدت میں باہمی رضامندی سے دو برس کی توسیع کی جاسکے گی، تاآنکہ پاکستان اپنے حصے کے دریائوں کے پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیموں کی تعمیر اورآبپاشی کے لیے نہری نظام وضع نہیں کرلیتا۔ اس کے علاوہ ضمیمہ B میں دی گئی شرائط کے مطابق دریائے راوی اور دریائے ستلج کے پانی پر BRB لنک کینال کے ذریعے پاکستان کو زراعت اور گھریلو استعمال کاحق حاصل ہوگا۔

اس معاہدے میں یہ بھی طے کیا گیا کہ بھارت پاکستان کو 6 کروڑ 20 لاکھ پونڈ اسٹرلنگ ادا کرے گا، تاکہ پنجاب کے وہ حصے جو مشرقی دریائوں کا پانی نہری نظام کے ذریعے استعمال کیا کرتے تھے اور جن کی ضروریات کا انحصار اسی پانی پر ہوتا تھا اور جو 15 اگست 1947 کے بعد پاکستان کا حصہ بن گئے، ان کے لیے پانی کے متبادل ذرایع تعمیر کیے جاسکیں۔ اس سلسلے میں طے کیا گیا کہ پہلے برس 1 کروڑ 31 لاکھ 25 ہزار، دوسرے برس ایک کروڑ 64 لاکھ 6 ہزار 250 اور تیسرے برس 2 کروڑ 98 لاکھ 50 ہزار جب کہ 26 لاکھ 19 ہزار پونڈ اسٹرلنگ اس معاہدے کے ساتھ ادا کیے جائیں۔ یہ رقم کب آئی، کیسے آئی اور کہاں گئی، اس بارے میں کوئی دستاویز دستیاب نہیں ہے یا کم از کم عوام کی اس تک رسائی نہیں ہے۔ معاہدے میں جن متبادل آبی ذرایع کی تعمیر کا ذکر کیا گیا ہے، وہ بھی کہیں نظر نہیں آرہے۔

اس کے علاوہ معاہدے میں یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ بھارت برسات کے موسم میں مشرقی دریائوں کے نظام میں برساتی پانی نہیں چھوڑے گا اور مغربی دریائوں کے پانی کو پاکستان کی مرضی کے بغیر استعمال نہیں کرے گا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت مغربی رینج کے دریائے جہلم پر بگلیہار ڈیم تعمیر کررہا ہے، اسی طرح برسات کے موسم میں مشرقی رینج کے دریائوں خاص طور پر راوی اور ستلج میں اضافی پانی چھوڑ کر سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے۔ مگر پاکستان کی جانب سے اس مسئلے پر کوئی معقول اور ٹھوس ردعمل نہیں آرہا۔ گزشتہ برس ایک اہم آبی ماہر جماعت علی شاہ بگلیہار ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے عالمی ٹریبونل میں پاکستان کی نمایندگی کرنے کے لیے پیش ہوئے۔

یہ ان کی نااہلی تھی یا لاپرواہی کہ وہ مناسب دستاویز اور اعداد و شمار پیش کرنے میں ناکام رہے، جس کی وجہ سے پاکستان اپنا مقدمہ ہار گیا۔ حالانکہ اگر مناسب تیاری کے ساتھ اس کیس کی پیروی کی جاتی تو پاکستان کی کامیابی کے روشن امکانات تھے۔ ظاہر ہے کہ بھارت جو کچھ کررہا ہے، وہ اس کے اپنے مفادات ہے۔ لیکن ہمیں اپنے اقدامات اور فیصلوں کا تنقیدی کاجائزہ لینا ہوگا تاکہ اندازہ ہوسکے کہ ہم سے کہاں اور کس مرحلے پر غلطیاں سرزد ہوئیں۔ چونکہ کشمیر کا بڑا حصہ بھارت کے قبضہ میں ہے، اس لیے پانی کے ذخائر کے ماخذ پر اس کو دسترس حاصل ہے۔ لیکن بین الاقوامی قانون کے مطابق قدرتی آبی ذرایع پر پہلا حق نچلی سطح کے ممالک کا ہوتا ہے اور اوپری سطح کے ممالک ان کی مرضی کے بغیر اپنے مقررہ تناسب سے زیادہ پانی حاصل کرنے کے مجاز نہیں ہوتے۔

پاکستان کو قدرتی آبی وسائل میں طے شدہ حصے داری کے حصول اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اولاً بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ اس کے بغیر ہم اپنے حصے کا پانی صحیح مقدار میں حاصل نہیں کرسکیں گے۔ دوئم پاکستان کو فوری طور پر پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے بڑے Reservoirs اور ڈیم تعمیر کرنا ہوں گے، تاکہ بجلی کی قلت کے علاوہ موسم گرما میں پانی کی کمی اور برسات کے موسم میں سیلابوں کی تباہ کاریوں سے بچا جاسکے۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ تیل سپلائی کرنے والی بڑی کمپنیاں پن بجلی کی تیاری میں روڑے اٹکاتی ہیں، کیونکہ اس طرح فرنس آئل کی فروخت میں کمی آتی ہے۔ لہٰذا حکومت کو دیکھنا چاہیے کہ اگر یہ بات درست ہے، تو اس رجحان کا کیسے خاتمہ کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں