وزیرِ اعظم کی دانشمندی فوجی و سویلین حکام کے درمیان نیا پُل
یہ خبر ملک بھر کے اہلِ دانش اور سنجیدہ حلقوں میں اطمینان اور مسرت کے جذبات کے ساتھ سُنی گئی ہے کہ ...
یہ خبر ملک بھر کے اہلِ دانش اور سنجیدہ حلقوں میں اطمینان اور مسرت کے جذبات کے ساتھ سُنی گئی ہے کہ وزیرِ اعظم نواز شریف نے کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نیشنل سیکیورٹی کونسل کی تشکیلِ نو کا اعلان کر دیا ہے۔ تشکیلِ نو کے بعد اب اِسے ''نیشنل سیکیورٹی کمیٹی'' کے نام سے پکارا جائے گا۔ ویسے نام میں کیا رکھا ہے؟ مقصد تو یہ ہے کہ پاکستان کی سلامتی کی خاطر سرکار کا ایک اہم ادارہ کیا خدمت انجام دے رہا ہے۔ اور خدمت بھی ایسی کہ جس سے سیاستدان غصے میں آئیں نہ ملک کے سیکیورٹی ادارے یہ سمجھیں کہ اُنہیں اعتماد میں نہیں لیا جا رہا۔ اب وزیرِ اعظم نواز شریف کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی اِسی طور اپنی خدمات انجام دے گی۔
اِس حوالے سے 22 اگست 2013ء کو کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس غیر معمولی طور پر اہم گردانا گیا ہے جس میں جنرل اشفاق پرویز کیانی، ائر چیف طاہر رفیق بٹ، امیر البحر آصف سندھیلہ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل وائیں، وزیرِ اعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیز، طارق فاطمی، وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار، وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان، وزیرِ اطلاعات سینیٹر پرویز رشید اور سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی و دیگر نے شرکت کی۔ رواں لمحوں میں ایل او سی پر بھارت نے جو سنگین صورتحال پیدا کر رکھی ہے (جس کی وجہ سے چند روز قبل پاک فوج کے ایک کپتان حافظ سرفراز میر شہید کر دیے گئے) اِس پس منظر میں اِس اجلاس اور مذکورہ فیصلے کو غیر معمولی قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دراصل عسکری قیادت کی خواہش پر وفاقی کابینہ کی کمیٹی برائے دفاع کو سلامتی کمیٹی کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
پاکستان میں نیشنل سیکیورٹی کونسل بنانے کا بنیادی تصور جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں سامنے آیا تھا۔ خیال تھا کہ یہ ادارہ رکن مشیروں کی ایک کونسل کے ساتھ صدرِ مملکت اور وزیرِ اعظم کو قومی سلامتی کے حساس معاملات اور خارجہ امور پر صلاح مشورے بھی دے گا اور اپنی سفارشات بھی وقتاً فوقتاً پیش کرتا رہے گا لیکن اِس تصور کو باقاعدہ ایک ادارے کی شکل میں ڈھالنے کا کام متنازعہ ہی رہا، اِس لیے یہ معاملہ لٹکتا ہی رہا۔ ملک میں بعض سیاسی حلقوں کا اصرار کے ساتھ کہنا تھا کہ ''نیشنل سیکیورٹی کونسل'' کی تشکیل کا مطلب یہ ہے کہ فوج کو ملک کے اہم ترین سیاسی معاملات میں بالا دستی حاصل ہو جائے گی۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ماضی میں و زیرِ اعظم نواز شریف کے ایک دور میں جب پاک فوج کے (سابق) سربراہ جنرل جہانگیر کرامت نے نیشنل سیکیورٹی کونسل بنانے کے بارے میں اشارتاً عندیہ دیا تو وزیرِ اعظم اور اُن کے درمیان شدید کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔
آخر کار جنرل جہانگیر کرامت کو از خود مستعفی ہو کر گھر جانا پڑا۔ اِس استعفے کو اگرچہ نواز شریف کی سیاسی فتح سے تعبیر بھی کیا گیا لیکن فوج کے حلقوں میں مبینہ طور پر اِسے پسند نہ کیا گیا۔ اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف وزیرِ اعظم نواز شریف کا تختہ اُلٹنے کے بعد برسرِ اقتدار آئے تو اُنہوں نے اپریل 2004ء میں نیشنل سیکیورٹی کونسل ایکٹ کے تحت نیشنل سیکیورٹی کونسل کو دوبارہ ''تخلیق'' کیا۔ طارق عزیز کو اِس کا پہلا ایڈوائزر تعینات کیا گیا جو پیشے کے اعتبار سے تو انکم ٹیکس کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے لیکن اِس اہم ترین عہدے پر فائز ہونے کے لیے اُن کا سب سے بڑا ''اعزاز'' یہ تھا کہ وہ جنرل مشرف کے ایف سی کالج (لاہور) میں ہم جماعت بھی تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ جنرل مشرف نے طارق عزیز کے ساتھ میجر جنرل احتشام ضمیر کو بھی لگا دیا جو آئی ایس آئی کے پولیٹیکل وِنگ کے سربراہ تھے۔ جب جنرل پرویز مشرف نے استعفیٰ دیا تو طارق عزیز بھی نیشنل سیکیورٹی کونسل سے از خود علیحدہ ہو گئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی تو اُس نے پارلیمنٹ کی اشیر باد سے نیشنل سیکیورٹی کونسل کو منجمد کر کے بے اثر کر دیا تھا۔ اب ایک بار پھر نیشنل سیکیورٹی کونسل (بشکل ''نیشنل سیکیورٹی کمیٹی'') کا غلغلہ اُٹھا ہے۔ وزیرِ اعظم اِس کے سربراہ اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ہوں گے جب کہ چاروں وزرائے اعلیٰ، وزیرِ دفاع، وزیرِ داخلہ، وزیرِ اعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیز اِس کے رکن ہوں گے۔ نئی نیشنل سیکیورٹی کونسل دراصل سویلین اور فوجی حکام کے درمیان مضبوط پُل کا کردار ادا کرے گی۔ ملک کے بہترین مفاد میں دونوں دھڑوں نے ایک دوسرے کی ضرورت کو تسلیم کر لیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فریقین کو آخر اِس حوالے سے ایڈجسٹمنٹ کرنا ہی تھی۔
یہ باہمی کوارڈی نیشن رواں حالات میں، جب کہ ملک بھر میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال دگر گوں ہے، ملک اور عوام کے بہترین مفاد میں ثابت ہو گی۔ نیشنل سیکیورٹی کونسل کی تشکیلِ نو یعنی ''نیشنل سیکیورٹی کمیٹی'' اِس لیے بھی ملک کے لیے مفید ثابت ہو گی کہ اگلے برس افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا عمل میں آ رہا ہے، ملک میں شدت پسند قوتوں کے ساتھ وزیرِ اعظم کی طرف سے مذاکرات کا عندیہ دیا جا چکا ہے اور ایل او سی پر بھارت کے مذموم عزائم نے تشویشناک صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ خصوصاً افغانستان سے امریکی فوجوں کے نکلنے کے بعد جو خلاء پیدا ہو گا، بھارت اِسے پُر کرنے اور اِس کی جگہ لینے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔
ایسے میں وزیرِ اعظم نواز شریف کو نئے حالات سے نمٹنے کے لیے اپنی نئی نیشنل سیکیورٹی کونسل یعنی ''نیشنل سیکیورٹی کمیٹی'' کی مشاورت اور اسٹرٹیجی پر انحصار کرنا پڑے گا۔ دریں حالات وزیرِ اعظم نواز شریف کی زیرِ نگرانی یہ نیا فیصلہ بھارت کے لیے بھی ایک واضح پیغام ثابت ہو سکتا ہے۔ ملک کے استحکام، دہشت گردی کے خاتمے اور پاکستان کے اسٹرٹیجک اثاثوں کے تحفظ کے پیش منظر میں جناب وزیرِ اعظم نواز شریف اور سپہ سالارِ پاکستان جنرل اشفاق پرویز کیانی کے باہمی تعاون کے حوالے سے ملک بھر میں اِس دانشمندانہ فیصلے کی تحسین کی گئی ہے۔ خصوصاً اِس حوالے سے بھی کہ چند روز قبل ہی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی اعلان کیا تھا کہ نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا پہلا ڈرافٹ تیار کر لیا گیا ہے۔
اِس حوالے سے 22 اگست 2013ء کو کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس غیر معمولی طور پر اہم گردانا گیا ہے جس میں جنرل اشفاق پرویز کیانی، ائر چیف طاہر رفیق بٹ، امیر البحر آصف سندھیلہ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل وائیں، وزیرِ اعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیز، طارق فاطمی، وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار، وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان، وزیرِ اطلاعات سینیٹر پرویز رشید اور سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی و دیگر نے شرکت کی۔ رواں لمحوں میں ایل او سی پر بھارت نے جو سنگین صورتحال پیدا کر رکھی ہے (جس کی وجہ سے چند روز قبل پاک فوج کے ایک کپتان حافظ سرفراز میر شہید کر دیے گئے) اِس پس منظر میں اِس اجلاس اور مذکورہ فیصلے کو غیر معمولی قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دراصل عسکری قیادت کی خواہش پر وفاقی کابینہ کی کمیٹی برائے دفاع کو سلامتی کمیٹی کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
پاکستان میں نیشنل سیکیورٹی کونسل بنانے کا بنیادی تصور جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں سامنے آیا تھا۔ خیال تھا کہ یہ ادارہ رکن مشیروں کی ایک کونسل کے ساتھ صدرِ مملکت اور وزیرِ اعظم کو قومی سلامتی کے حساس معاملات اور خارجہ امور پر صلاح مشورے بھی دے گا اور اپنی سفارشات بھی وقتاً فوقتاً پیش کرتا رہے گا لیکن اِس تصور کو باقاعدہ ایک ادارے کی شکل میں ڈھالنے کا کام متنازعہ ہی رہا، اِس لیے یہ معاملہ لٹکتا ہی رہا۔ ملک میں بعض سیاسی حلقوں کا اصرار کے ساتھ کہنا تھا کہ ''نیشنل سیکیورٹی کونسل'' کی تشکیل کا مطلب یہ ہے کہ فوج کو ملک کے اہم ترین سیاسی معاملات میں بالا دستی حاصل ہو جائے گی۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ماضی میں و زیرِ اعظم نواز شریف کے ایک دور میں جب پاک فوج کے (سابق) سربراہ جنرل جہانگیر کرامت نے نیشنل سیکیورٹی کونسل بنانے کے بارے میں اشارتاً عندیہ دیا تو وزیرِ اعظم اور اُن کے درمیان شدید کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔
آخر کار جنرل جہانگیر کرامت کو از خود مستعفی ہو کر گھر جانا پڑا۔ اِس استعفے کو اگرچہ نواز شریف کی سیاسی فتح سے تعبیر بھی کیا گیا لیکن فوج کے حلقوں میں مبینہ طور پر اِسے پسند نہ کیا گیا۔ اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف وزیرِ اعظم نواز شریف کا تختہ اُلٹنے کے بعد برسرِ اقتدار آئے تو اُنہوں نے اپریل 2004ء میں نیشنل سیکیورٹی کونسل ایکٹ کے تحت نیشنل سیکیورٹی کونسل کو دوبارہ ''تخلیق'' کیا۔ طارق عزیز کو اِس کا پہلا ایڈوائزر تعینات کیا گیا جو پیشے کے اعتبار سے تو انکم ٹیکس کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے لیکن اِس اہم ترین عہدے پر فائز ہونے کے لیے اُن کا سب سے بڑا ''اعزاز'' یہ تھا کہ وہ جنرل مشرف کے ایف سی کالج (لاہور) میں ہم جماعت بھی تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ جنرل مشرف نے طارق عزیز کے ساتھ میجر جنرل احتشام ضمیر کو بھی لگا دیا جو آئی ایس آئی کے پولیٹیکل وِنگ کے سربراہ تھے۔ جب جنرل پرویز مشرف نے استعفیٰ دیا تو طارق عزیز بھی نیشنل سیکیورٹی کونسل سے از خود علیحدہ ہو گئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی تو اُس نے پارلیمنٹ کی اشیر باد سے نیشنل سیکیورٹی کونسل کو منجمد کر کے بے اثر کر دیا تھا۔ اب ایک بار پھر نیشنل سیکیورٹی کونسل (بشکل ''نیشنل سیکیورٹی کمیٹی'') کا غلغلہ اُٹھا ہے۔ وزیرِ اعظم اِس کے سربراہ اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ہوں گے جب کہ چاروں وزرائے اعلیٰ، وزیرِ دفاع، وزیرِ داخلہ، وزیرِ اعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیز اِس کے رکن ہوں گے۔ نئی نیشنل سیکیورٹی کونسل دراصل سویلین اور فوجی حکام کے درمیان مضبوط پُل کا کردار ادا کرے گی۔ ملک کے بہترین مفاد میں دونوں دھڑوں نے ایک دوسرے کی ضرورت کو تسلیم کر لیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فریقین کو آخر اِس حوالے سے ایڈجسٹمنٹ کرنا ہی تھی۔
یہ باہمی کوارڈی نیشن رواں حالات میں، جب کہ ملک بھر میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال دگر گوں ہے، ملک اور عوام کے بہترین مفاد میں ثابت ہو گی۔ نیشنل سیکیورٹی کونسل کی تشکیلِ نو یعنی ''نیشنل سیکیورٹی کمیٹی'' اِس لیے بھی ملک کے لیے مفید ثابت ہو گی کہ اگلے برس افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا عمل میں آ رہا ہے، ملک میں شدت پسند قوتوں کے ساتھ وزیرِ اعظم کی طرف سے مذاکرات کا عندیہ دیا جا چکا ہے اور ایل او سی پر بھارت کے مذموم عزائم نے تشویشناک صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ خصوصاً افغانستان سے امریکی فوجوں کے نکلنے کے بعد جو خلاء پیدا ہو گا، بھارت اِسے پُر کرنے اور اِس کی جگہ لینے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔
ایسے میں وزیرِ اعظم نواز شریف کو نئے حالات سے نمٹنے کے لیے اپنی نئی نیشنل سیکیورٹی کونسل یعنی ''نیشنل سیکیورٹی کمیٹی'' کی مشاورت اور اسٹرٹیجی پر انحصار کرنا پڑے گا۔ دریں حالات وزیرِ اعظم نواز شریف کی زیرِ نگرانی یہ نیا فیصلہ بھارت کے لیے بھی ایک واضح پیغام ثابت ہو سکتا ہے۔ ملک کے استحکام، دہشت گردی کے خاتمے اور پاکستان کے اسٹرٹیجک اثاثوں کے تحفظ کے پیش منظر میں جناب وزیرِ اعظم نواز شریف اور سپہ سالارِ پاکستان جنرل اشفاق پرویز کیانی کے باہمی تعاون کے حوالے سے ملک بھر میں اِس دانشمندانہ فیصلے کی تحسین کی گئی ہے۔ خصوصاً اِس حوالے سے بھی کہ چند روز قبل ہی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی اعلان کیا تھا کہ نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا پہلا ڈرافٹ تیار کر لیا گیا ہے۔