سیلاب اور حکمرانوں کی نااہلی
ہمارے ملک میں سیلاب حکمرانوں کے سالانہ عرس کی طرح نازل ہوتا ہے اور سیکڑوں انسانوں کی قربانی...
KARACHI:
ہمارے ملک میں سیلاب حکمرانوں کے سالانہ عرس کی طرح نازل ہوتا ہے اور سیکڑوں انسانوں کی قربانی، ہزاروں گھروں کی تباہی اور لاکھوں ایکڑ زرعی زمین اور ہزاروں ایکڑ کھڑی فصلوں کو تباہ کرکے سیلاب زدگان کو روتا چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ اس سال بھی سیلاب کی تباہ کاریاں اپنے پچھلے ریکارڈ کو توڑ رہی ہیں۔ ابھی برسات کا مہینہ باقی ہے لیکن تباہ کاریوں کا عالم یہ ہے کہ دو سو کے لگ بھگ نادار انسان اس کی نذر ہوچکے ہیں، سیکڑوں زخمی اور لاپتہ ہیں، ہزاروں مکانات تباہ ہوگئے ہیں، 4 لاکھ ایکڑ زمین اور سیکڑوں دیہات زیر آب ہیں، ہزاروں ایکڑ کھڑی فصل پانی کی نذر ہوگئی ہے، بے شمار جانور جان سے گئے ہیں، گلے گلے پانی میں سیلاب زدگان سروں پر ضروری سامان اٹھائے پناہ کی تلاش میں بھٹکتے پھر رہے ہیں۔
معلوم ہوا کہ بھارت نے اپنے شہریوں کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے اپنے ندی نالوں اور ڈیموں کے پانی کا رخ پاکستان کی طرف کردیا ہے اور بھارت سے آنے والے یہ سیلابی ریلے پاکستان میں داخل ہوکر ہر طرف تباہی پھیلا رہے ہیں۔ بھارت کی اس حرکت کو ہمارے سیاستدان خاص طور پر مذہبی رہنما پاکستان دشمنی سے تعبیر کر رہے ہیں لیکن جب ہم بھارت کی اس ظالمانہ حرکت کی مذمت کرنے جاتے ہیں تو ہمارے سامنے ان ظالم وڈیروں کے چہرے آجاتے ہیں جو اپنی زمینوں کو سیلاب سے بچانے کے لیے سیلاب کا رخ غریب بستیوں کی طرف کردیتے ہیں اور ان کی اس نیچ حرکت سے سیکڑوں دیہات سیلاب کی نذر ہوجاتے ہیں۔
حکمرانوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ کسی قدرتی یا انسانوں کی لائی ہوئی تباہی کا ازالہ اس طرح کرتے ہیں کہ سیلاب زدگان کے لیے مختص ملکی اور بین الاقوامی بھاری امداد کو راستے ہی میں ہڑپ کرجاتے ہیں اور رسم ادائی کے لیے کھانے پینے کی اشیا کے چند ٹرک بھوک کے مارے ہجوموں میں بھیج دیتے ہیں اور بھوکے ہجوم ان ٹرکوں پر اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں کہ اس لوٹ مار میں کئی ایک کی جانیں چلی جاتی ہیں اور وہ سیکڑوں لوگ جو اس لوٹ مار میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہوتے وہ بھوکے رہ جاتے ہیں۔ سرکار بہرحال اپنا فرض ادا کر دیتی ہے۔
مسئلہ سیلاب کا ہو، زلزلوں کا، سمندری طوفانوں کا یاانسانی دہشت گردی کا، سرکار اور اس کی انتظامیہ موقعہ واردات پر اس وقت پہنچتی ہے جب تباہی ہوچکی ہوتی ہے۔ مثلاً کسی خودکش حملے، کسی بارودی گاڑی، کسی ٹائم بم، کسی ٹارگٹ کلنگ کے سانحے پر پولیس، رینجرز اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے جائے وقوعہ پر اس وقت پہنچتے ہیں جب بے گناہوں کے جسم ٹکڑوں میں بٹ کر دور دور تک پھیل جاتے ہیں اور ''نامعلوم لوگ'' آسانی سے فرار ہوجاتے ہیں۔ سرکاری اہلکار متاثرہ علاقے کو گھیرے میں لے لیتے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا ان سرکاری اہلکاروں کی اس بعد از وقت کارروائی کو اس طرح پیش کرتا ہے جیسے کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا گیا ہو۔ نامعلوم لوگوں کی تلاش اور انھیں قرار واقعی سزا دلانے کا عمل شروع ہوتا ہے جس کا کوئی نتیجہ عوام کے سامنے نہیں آتا، تحقیقاتی کمیٹیاں اور کمیشن بنائے جاتے ہیں جو ''نامعلوم افراد'' کی طرح یادوں کے دھندلکوں میں غائب ہوجاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں مون سون کے موسم میں عموماً سیلاب آتے ہیں، یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں بلکہ عشروں پر پھیلا ہوا ہے، مون سون کی آمد سے پہلے ہر شہر ہر صوبے کے اعلیٰ اور ادنیٰ حکام کی طرف سے مون سون کی تباہیوں سے عوام کو بچانے کے ہنگامی اقدامات کا اعلان ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان بلاؤں سے عوام کو بچانے کی ساری تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں لیکن جب یہ بلائیں آکر اپنا کام کرجاتی ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہنگامی اقدامات اور عوام کو ان تباہیوں سے بچانے کے سارے اعلانات زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس پر ستم یہ کہ ہماری انتظامیہ، اعلیٰ حکام اور عوام کے منتخب نمایندوں کی ساری توجہ امدادی رقوم پر مرکوز رہتی ہے جو سرکاری خزانے اور غیر ملکی بھاری امداد کے شکل میں ان کے سامنے ہوتی ہے۔ کشمیر کے زلزلہ زدگان کی کروڑوں ڈالر کی امداد کی لوٹ مار کی داستانیں میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں اور سندھ کے سیلاب زدگان کی آباد کاری ابھی تک زیر التوا چلی آرہی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عشروں سے جاری اس تباہی کو روکنے کے لیے کسی حکومت نے کوئی سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کیے؟ اب سیلاب اور طوفان ماضی کی طرح انسانوں کے گناہوں کی سزا نہیں رہے کہ ان کے آگے سر جھکاکر اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا جائے۔ اب اس قسم کی آسمانی بلاؤں سے بچنے کے پورے پورے امکانات موجود ہیں۔ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی سیلاب آتے ہیں، طوفان آتے ہیں لیکن امریکا اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک انھیں قسمت کا لکھا کہہ کر عوام کو ان بلاؤں کے حوالے نہیں کردیتے بلکہ ان بلاؤں کی آمد سے پہلے حفاظتی انتظامات کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے نقصانات سے بچا جاسکتا ہے یا بہت کم نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک موٹی سی بات یہ ہے کہ اگر سنجیدگی اور ذمے داری سے ان آفات سے بچاؤ کی قبل از وقت تدابیر کرلی جائیں تو بھاری نقصانات سے بچا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے طویل المدتی اقدامات میں سیلابی پانی کو روکنے کے لیے پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیموں کی تعمیر ایک موثر طریقہ ہے جس سے نہ صرف جانی و مالی نقصانات سے بچا جاسکتا ہے بلکہ ان آبی ذخائر سے ہم اپنی پانی کی ضروریات بھی پوری کرسکتے ہیں۔
بھارت کی طرف سے مون سون میں جو پانی پاکستانی علاقوں کی طرف چھوڑا جاتا ہے اس کا بھی یہی علاج ہے کہ دونوں ملک مشترکہ طور پر ایسے ڈیم بنائیں جو برساتی ریلوں کو ذخیرہ کرسکیں۔ ہم اس حوالے سے کوئی ماہرانہ یا حتمی رائے تو نہیں دے سکتے لیکن ہمیں اتنا اندازہ ضرور ہے کہ سیلابی پانی کا ذخیرہ کرکے اسے عوام کی جان و مال کو تباہ کرنے سے روکا جاسکتا ہے اور ان ذخائر کو آبی ضرورتیں پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا کوئی حکومت اس حوالے سے کسی تحقیق کسی منصوبہ بندی کے لیے تیار ہے؟
اس کا جواب ہمیں بجلی گیس کی جان لیوا لوڈشیڈنگ میں ملتا ہے، اگر دس پندرہ سال پہلے بجلی اور گیس کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کام کیا جاتا تو آج ہمیں اس بدترین صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جس سے آج ہم دوچار ہیں۔ موجودہ مون سون سے پنجاب میں زیادہ تباہ کاریاں ہورہی ہیں، سیلاب سے متاثرین اپنے گھروں میں کھڑے چار چار، پانچ پانچ فٹ اور سڑکوں پر پھیلے کئی کئی فٹ پانی میں جس طرح لاچار بے یارومددگار دیکھے جارہے ہیں یہ دل ہلادینے والے مناظر نئے نہیں ہیں۔ ہم اس قسم کے المناک مناظر ٹی وی چینلوں پر برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔ کیا سیلاب زدہ علاقوں کا ہوائی معائنہ یا ازراہ کرم ان علاقوں میں جانا سیلاب سے عوام کو بچانے میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے؟
ہاں اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ حکمرانوں کا ہم رکاب میڈیا حکمرانوں کی اس جانفشانی کو عوام کے سامنے پیش کرکے حکمرانوں کی نااہلیوں کو کم کرنے کا کام انجام دیتا ہے۔ ہمارا آئین عوام کی جان و مال کی حفاظت کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور آئین کے تحت عوام کی جان و مال کی حفاظت صوبائی اور مرکزی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔ اگر کوئی حکومت اپنی یہ آئینی ذمے داری پوری نہیں کرتی تو آئین میں اس کے لیے کوئی سزا ہے؟ کیا حکمرانوں کی غفلت اور نااہلی کی وجہ سے بے بس اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں تو اس کی ذمے داری حکومتوں پر آتی ہے؟ اگر آتی ہے تو کیا ان کے خلاف قتل کے مقدمات بننا چاہئیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن پر وکلا اور آزاد عدلیہ کو غور کرنا چاہیے۔