سیاست کھلاتی ہے گل کیسے کیسے
عشق اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے کا مقولہ تو اب قصہ پارینہ بن چکا ہے، اب تو سیاست میں سب کچھ جائز بلکہ ناگزیر ہے...
KARACHI:
عشق اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے کا مقولہ تو اب قصہ پارینہ بن چکا ہے، اب تو سیاست میں سب کچھ جائز بلکہ ناگزیر ہے، اب دیکھیے نا کہ 2013 کے انتخابات میں کیسے کیسے پرانے اور وفادار بلکہ مخلص کہلانے والے سیاست دانوں نے اپنی وفاداریاں بدلنے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہ بیلے، بعض کے لیے ایک جماعت چھوڑ کر دوسری میں آنا ان کے حق میں بہت کامیاب رہا تو بعض کو ''عشق میں عزت سادات گنوا دی ہم نے'' والی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، مثلاً مخدوم جاوید ہاشمی ۔
مسلم لیگ ن نے صدارتی انتخاب کے لیے ایم کیو ایم کی جانب اتحاد کا ہاتھ بڑھایا تو تمام پاکستانی عوام بالخصوص سیاست سے دلچسپی رکھنے والے ورطۂ حیرت میں پڑگئے کہ 2007 میں لندن میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کی قرارداد جس میں ن لیگ کے رہنما نے تمام سیاسی جماعتوں کو ایم کیو ایم سے کسی بھی اتحاد اور رابطے سے روک دیا تھا صرف پی پی پی کی رہنما بینظیر بھٹو نے نہ صرف اس قرارداد کے خلاف اظہار خیال کیا بلکہ اختلافی نوٹ بھی لکھا... جس کے نتیجے میں 2008 میں ایم کیو ایم، پی پی پی کے ساتھ اقتدار میں شامل رہی... اس پس منظر میں یہ بات بڑے تعجب کا سبب بنی کہ وہی ن لیگ صدارتی انتخاب میں صرف چند ووٹوں کی خاطر چل کر ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پہنچ گئی جو خود تو کیا کسی دوسری پارٹی کے بھی ایم کیو ایم سے اتحاد کے خلاف تھی... ہمارے کچھ کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں نے الطاف حسین کے اس موقع پر دیے گئے بیان کو کہ ''ہم کبھی اتحاد کے لیے کسی کے پاس نہیں گئے، البتہ جس کو ضرورت پڑی وہ خود چل کر ہمارے پاس آیا'' طنز یا طعنے سے تعبیر کیا ہے کہ ن لیگ کو یہ طعنہ سننے کو ملا... مگر طنز کہیں یا طعنہ، ہے یہ حقیقت کہ ایم کیو ایم نے سیاسی تنہائی کا بھی سامنا کیا مگر خود کسی سے ساتھ دینے کی درخواست نہیں کی۔
مسلم لیگ ن کے پچھلے دور حکومت میں ایم کیو ایم کے خلاف فوجی آپریشن ہوا تھا، جس میں ایم کیو ایم کو بھاری جانی نقصان ہوا، سیکڑوں کارکنان مارے گئے اور بہت سے آج تک لاپتہ ہیں۔ مگر اس ابتلا کو جھیل کر ایم کیو ایم پہلے سے زیادہ مضبوط اور فعال ہوکر سامنے آئی۔ مگر سیاست بھی عجیب کھیل ہے کہ ایم کیو ایم یہ سب بھول کر ن لیگ سے ہاتھ ملانے پر نا صرف رضامند ہوگئی بلکہ کوٹہ سسٹم کا خاتمہ ایم کیو ایم کے قیام کا بنیادی مطالبہ تھا اس میں مزید 20 سال کی توسیع کو بھی نظر انداز کردیا۔
خیر پختونخوا میں پی ٹی آئی نے جو مخلوط حکومت بنائی ہے وہ کسی بھی طور پر کچھ بہتری لاتی نظر نہیں آرہی، انتخابات کے دوران بلند بانگ دعوے پی ٹی آئی کی جانب سے کیے گئے تھے جب کہ اس وقت عمران خان وزیراعظم پاکستان سے کم کا سوچنے پر بھی تیار نہ تھے مگر نتیجے میں انھیں صرف خیبر پختونخوا میں حکومت کا موقع ملا تو وہ اس ایک صوبے کو بھی سنبھال نہیں پارہے اور اپنا غصہ دوسری سیاسی جماعتوں بالخصوص ایم کیو ایم پر نکال رہے ہیں، اس سلسلے میں وہ لندن تک پہنچ گئے، بقول خود ان کے بے شمار ثبوت کے ساتھ اور انھوں نے زہرہ شاہد کے قتل کا جو الزام براہ راست الطاف حسین پر لگایاتھا جب اس کا کوئی خاص اثر ہوتا نظر نہ آیا تو انھوں نے حکومت برطانیہ کو بھی ملوث کرلیا... بیشتر پاکستانیوں کے سر شرم سے اس وقت جھک گئے جب محض الطاف حسین کی مخالفت میں گھر کے معاملے کو غیر ملک میں اٹھایا گیا کہ ہم اتنے گئے گزرے ہوگئے ہیں کہ اپنے معاملات کو از خود طے کرنے کے بجائے دوسروں کے سامنے گڑگڑائیں کہ خدارا اس شخص کو جلد از جلد سزا دے کر ہمارا کلیجہ ٹھنڈا کردو۔
لیاری کا معاملہ بھی بنیادی طور پر سیاسی ہے... مگر اس کے حل کے سلسلے میں پولیس، رینجرز اور دیگر اداروں کی کارکردگی کے بے مثال نمونے سامنے آرہے ہیں اور کچھ مفاد پرست اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے انسانی جانوں اور املاک کے ساتھ خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں اور کوئی ایسا نظر نہیں آتا کہ اس کا قرار واقعی حل تلاش کرسکے۔ حتیٰ کہ عدالت عالیہ کے احکامات تک کو نظر انداز کیا جارہا ہے... بھری عدالت میں اقبال جرم کرنے والے پولیس کی لاپرواہی کے باعث عدالت ہی سے فرار ہورہے ہیں
۔ ملک میں دہشت گردی اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ اگر کچھ دہشت گرد گرفتار ہوجاتے ہیں اور جیل میں ڈال بھی دیے جاتے ہیں تو ان کے ساتھی جیل توڑ کر انھیں آزاد کرا دیتے ہیں۔ دہشت گردی کے بڑے منصوبے جیل کے اندر تشکیل پاتے ہیں... ہمارا موضوع سیاست ہے مگر ہم امن و امان کی ابتر صورتحال پر لکھنے لگے ہیں... تو کیا یہ سب بھی سیاسی کھیل نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ملک پر مخصوص نظریے کے حامل لوگوں کے قبضہ کرنے کا ایک پہلو ہے، ایک مشق ہے، جس کا مظاہرہ آئے دن ہوتا رہتا ہے، کبھی کوئٹہ، کراچی، خیبر پختونخوا بلکہ حالیہ اطلاع کے مطابق اسلام آباد ایئرپورٹ تک پر حملہ یا قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہمارے فوجی مراکز اور کئی اہم مقامات تک ان دہشت گردوں کی رسائی آخر کس صورت حال کی طرف اشارہ کررہی ہے۔
ن لیگ کی اولین ترجیحات میں لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی کا خاتمہ تھا مگر اب تک یہ دونوں مسائل جوں کے توں چل رہے ہیں۔ ملک میں کسی بھی مثبت تبدیلی کا احساس نہیں ہورہا... آخر یہ خود ہمارے منتخب کردہ رہنما کب تک ہمیں یوں ہی آزماتے رہیںگے۔ خیر وہ تو آزماتے رہیں مگر ہم خود کب تک جھوٹے وعدوں پر بے وقوف بنتے رہیںگے۔ اصل سوال تو یہ ہے... جس پر شاید قوم نے کبھی سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔