یہ شادی نہیں ہوسکتی

دنیا میں ہر دو سیکنڈ پر کسی ایک لڑکی کی زبردستی شادی کردی جاتی ہے۔ جی ہاں شاید یہ سچ آپ کو حیران کن لگے...

wabbasi@yahoo.com

دنیا میں ہر دو سیکنڈ پر کسی ایک لڑکی کی زبردستی شادی کردی جاتی ہے۔ جی ہاں شاید یہ سچ آپ کو حیران کن لگے لیکن دنیا بھر میں چودہ ملین لڑکیوں کی ان کی مرضی کے بنا شادی کردی جاتی ہے، یعنی کہ ستائیس لڑکیاں ہر منٹ ''جبری شادی'' کا شکار ہوتی ہیں۔

پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، ایران، عراق، سری لنکا وہ ممالک ہیں جہاں لڑکیوں کی زبردستی شادی کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں رہنے والی کئی لڑکیوں کی جب زبردستی شادی ہوتی ہے تو ان کے گھر والوں کے علاوہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی کہ لڑکی کی مرضی اس رشتے میں شامل نہیں ہے۔ لیکن وہ سوسائٹی کے دباؤ میں زبردستی شادی کرکے رہ جاتی ہے۔انگلینڈ، امریکا میں رہنے والی پاکستانی لڑکیوں کے لیے یہ چیزیں مختلف ہیں۔ اکثر پاکستانی لڑکیاں جنھیں گھر والے شادی کے لیے مجبور کر رہے ہوتے ہیں اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں یا پھر کچھ ایسا کرتی ہیں جس سے گھر والوں کو مجبوراً ہار ماننا ہی پڑتی ہے۔

کچھ عرصہ پہلے کینساس امریکا میں رہنے والی عائشہ خان اچانک اپنے کالج سے غائب ہوگئیں۔ پورا امریکا ہل گیا، گھر والوں سے لے کر کالج والوں تک نے مختلف ریڈیو، ٹی وی چینلز پر منتیں کرلیں کہ جس نے بھی عائشہ کو اغوا کیا ہے وہ اسے لوٹا دے۔عائشہ چھ دن بعد خود ہی صحیح سلامت واپس آگئیں اور پھر پتہ چلا کہ وہ اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر گئی تھیں کیونکہ ان کے گھر والے ان کی زبردستی رخصتی کرنے والے تھے۔ اس واقعے سے امریکا میں رہنے والی پاکستانی کمیونٹی کی خاصی بدنامی ہوئی، چاہے وہ عائشہ کے کیس جتنی شہرت نہ پائیں لیکن ایسے واقعے امریکا، انگلینڈ میں رہنے والی اکثر پاکستانی فیملیز میں بار بار دہرائے جاتے ہیں۔

اسی طرح کا ایک قصہ شفیلیہ احمد کا بھی ہے جو انگلینڈ میں رہتی تھی اور وہیں کے طور طریقے اپنانے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان جاکر شادی کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔ ایک دن ان کے والدین نے تاؤ میں آکر انھیں اتنا مارا کہ شفیلیہ کی موت واقع ہوگئی۔ کئی سال مقدمہ چلنے کے بعد شفیلیہ کے والدین کو سزا ہوگئی لیکن اس کے بعد انگلینڈ میں Forced Marriage کو لے کر کئی نئے قوانین کی بابت بحث چھڑ گئی۔


کچھ دن پہلے لندن کے ایئرپورٹ پر بڑا تماشا ہوا، وہاں ایک پاکستانی لڑکی کی سیکیورٹی چیکنگ کے دوران آفیشلز کو شک ہوا کہ لڑکی نے اپنے کپڑوں میں کوئی ہتھیار چھپایا ہوا ہے، علیحدہ لے جاکر تلاشی پر معلوم ہوا کہ لڑکی نے کپڑوں کے اندر ایک چمچہ چھپایا ہوا تھا تاکہ اسے تلاشی کے لیے الگ لے جایا جائے اور وہ اتھارٹیز سے مدد مانگ سکے کیوں کہ اس کے گھر والے زبردستی شادی کے لیے پاکستان لے جارہے تھے۔پچھلے سال انگلینڈ میں ساڑھے سات سو کیسز سامنے آئے تھے جس میں گھر والے لڑکیوں کو زبردستی شادی کے لیے پاکستان لے جارہے تھے اور لڑکی کسی طرح بچ نکلی۔ ان واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ''کرما نروانا'' نامی آرگنائزیشن نے لڑکیوں کو یہ صلاح دی ہے کہ اگر انھیں زبردستی ملک سے باہر لے جایا جارہا ہو تو وہ اپنے کپڑوں میں چمچہ چھپالیں تاکہ انھیں تلاشی کے لیے الگ لے جایا جائے۔

اس کیس کے سامنے آنے پر انگلینڈ کے میڈیا نے اس لڑکی کو ایک ''ہیرو'' کی طرح پیش کیا لیکن اس خبر کے باہر آنے سے لڑکیوں کے گھر والے اب ایئرپورٹ جانے سے پہلے ہی لڑکیوں کی تلاشی لے لیا کریں گے، ساتھ ہی ضروری نہیں کہ پرائیویٹ میں لے جاکر چیکنگ کرنے والا آفیشل لڑکیوں کی بات کا یقین بھی کرے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز جہاز میں چھپاکر لے جانے پر الٹا وہ لڑکی پر دہشت گردی میں مرتکب ہونے کا الزام لگا دے۔

اس مسئلے کو لے کر انگلینڈ میں ایک نئے قانون کو پاس کرنے پر غور ہورہا ہے، اس قانون کے مطابق ماں باپ لڑکی کو اگر زبردستی شادی کے لیے مجبور کریں تو انھیں سات سال کی قید ہوسکتی ہے۔ امریکا میں ہر چیز کے لیے قوانین ہیں، یہاں تک کہ سڑک پر چلنے، گھر کی گھاس کاٹنے اور نہانے تک پر قانون موجود ہیں لیکن ''جبری شادی'' کے خلاف پورے ملک میں کوئی قانون نہیں۔ انگلینڈ میں سات سال والی سزا کے حوالے سے کچھ چیزیں سامنے آتی ہیں۔ انگلینڈ ویسے ہی تارکین وطن کی بڑی تعداد سے پریشان ہے، ان کے ویلفیئر سسٹم کا ایک بڑا حصہ ان امیگرنٹس کو جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ امیگرنٹس انگریزی زبان نہیں جانتے اس لیے انھیں کام نہیں ملتا۔ پچھلے سال متعارف کیے جانے والے قانون کے مطابق اگر کوئی انگلینڈ میں رہنے والا کسی نان انگلش ملک سے شادی کرکے اپنے اسپاؤس کو بلانا چاہتا ہے تو انگلینڈ میں رہنے والے دلہا میاں کی تنخواہ کم ازکم اٹھارہ ہزار پونڈ سالانہ ہونی چاہیے، ساتھ ہی جو بیاہ کر انگلینڈ آرہا ہے اسے انگریزی کا امتحان بھی پاس کرنا ہوگا۔انگلینڈ میں اس قانون کو نافذ ہوئے کچھ ہی ماہ ہوئے لیکن امیگرنٹس نے اس قانون کو توڑنے کے راستے تلاش کرلیے ہیں، جھوٹی تنخواہ دکھا کر یا پھر ایسے ملک کے ذریعے اپنے اسپاؤس کو بلانا جہاں یہ قانون لاگو نہیں ہوتا یعنی دوسرا انگلش اسپیکنگ ملک۔

ہر سال جون سے اگست کے بیچ انگلینڈ سے لڑکیوں کو زبردستی پاکستان لے جاکر شادیاں کرائی جاتی ہیں۔ اس سال انگلینڈ میں ایسے کتنے کیسز سامنے آئے ہیں یہ تو پتہ نہیں لیکن سات سال کی جیل والے قانون کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ انگلینڈ کے آفیشلز اور اتھارٹیز کے لیے یہ ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔زبردستی یا جبری شادی کی جانے والی لڑکیوں کی عمر پچیس سال سے کم بتائی جاتی ہے اور یہ عموماً پوری طرح اپنے والدین پر انحصار کررہی ہوتی ہیں، یعنی وہ خود کوئی جاب نہیں کر رہی ہوتی ہیں نہ آمدنی کا کوئی ذریعہ ہوتا ہے۔ اب ان میں سے کتنی پولیس کے پاس جاکر جیل کرائیں گی گھر والوں کو، یہ کہنا تو مشکل ہے لیکن اس قانون کے آجانے سے عائشہ خان اور شفیلیہ احمد جیسے واقعات ہونے کم ضرور ہوجائیں گے، جس سے باہر رہنے والی کمیونٹی کو اکثر شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔
Load Next Story