مزاحمت کے سات سال
یہ جولائی 2006 کی بات ہے، صہیونی ریاست اسرائیل کی جانب سے لبنان پر وحشیانہ حملہ کیا گیا جس کا مقصد...
یہ جولائی 2006 کی بات ہے، صہیونی ریاست اسرائیل کی جانب سے لبنان پر وحشیانہ حملہ کیا گیا جس کا مقصد تحریک آزادی فلسطین کی علمبردار حزب اﷲ کو کمزور اور ختم کرنا تھا۔ البتہ اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا اور پورے لبنان کو دیکھتے ہی دیکھتے کھنڈر میں تبدیل کرکے رکھ دیا۔ واضح رہے کہ اس جنگ کا آغاز حزب اﷲ کی ایک چھاپہ مار کارروائی کے بعد شروع ہوا تھا جس کے تحت حزب اﷲ کے جوانوں نے سرحد کے پار اسرائیلی فوجیوں کو مشکوک حرکتیں کرتے ہوئے گرفتار کرلیا تھا اور ایک نامعلوم مقام پر منتقل کرنے کے بعد حزب اﷲ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اﷲ نے اعلان کیا تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت ان دو فوجیوں کو حزب اﷲ کے قبضے سے آزاد نہیں کروا سکتی، ماسوائے اس کے کہ اسرائیل فلسطینی اور لبنانی قیدیوں کو رہا کرے اور ہم ان دو قیدیوں کو رہا کردیں گے۔
اسرائیل نے امریکی شہہ میں آکر حزب اﷲ لبنان کے خلاف ایک وحشیانہ جنگ کا آغاز کردیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسرائیلی افواج نے زمینی، بحری اور فضائی راستوں سے لبنان پر حملہ شروع کر دیا۔ دوسری طرف حزب اﷲ جس کے پا س نہ تو فضائی اور بحری عسکری قوت ہے، اس جنگ میں دلیری کے ساتھ اسرائیل کا مقابلہ کیا اور بالآخر 33 روز گزر جانے کے بعد اسرائیل کو اس جنگ میں شکست کا سامنا ہوا۔ اسرائیل نے اعتراف کرلیا کہ وہ حزب اﷲ کو شکست دینے سے قاصر رہا ہے۔ البتہ اس 33 روزہ ہولناک جنگ میں اسرائیل نے لبنان کے دارالحکومت بیروت میں شدید بمباری کرکے بیروت کے انفرااسٹرکچر کو بری طرح تباہ کردیا تھا۔
یہ 14 اگست 2006 کی بات ہے، صبح کا وقت ہے، ڈاکٹر ویرونیکا بیروت کے علاقے ضاحیہ میں سید عباس موسوی شہید اسٹریٹ میں کھڑی ہے اور اس مقام کو دیکھ رہی ہے جہاں کبھی اس کا گھر ہوا کرتا ہے، وہ کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح اس بڑی عمارت کو ڈھونڈ سکے جس عمارت میں اس کا اپارٹمنٹ تھا، لیکن اس کی نگاہیں اپنے گھر کو تلاش کرنے میں ناکام رہی ہیں اور یکایک وہ ایک ایسے مقام پر پہنچتی ہے کہ جہاں اس کی عمارت کا معمولی سا نشان ملتا ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس جگہ اب نہ تو وہ عمارت باقی ہے اور نہ ہی اس عمارت میں قائم ڈاکٹر ویرونیکا کا اپارٹمنٹ ہے کیونکہ اسرائیلی دشمن نے اس علاقے میں وحشیانہ بمباری کرکے تمام عمارتوں کو تباہ کردیا ہے، اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک کر اس کے چہرے پر آ رہے ہیں اور وہ سوچ رہی ہے کہ آخر یہ سب کیسے ہوگیا کیونکہ جنگ تو جنگی علاقوں میں ہوا کرتی ہے جبکہ یہ تو شہر کے مرکز میں ایک رہائشی عمارت تھی، پھر اسرائیلی درندوں نے اس عمارت کو کیوں تباہ کر دیا؟
یہ سوال ویرونیکا کی طر ح ہزاروں لبنانیوں کے ذہنوں میں گونج رہا ہے۔ ویرونیکا سے اس کی پڑوسن ام علی آکر ملتی ہے اور اسے گلے سے لگاتے ہوئے کہتی ہے کہ حزب اﷲ کے سربراہ سید حسن نصراﷲ نے ہم سے فتح اور کامیابی کا وعدہ کیا ہے اور یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ یہ تمام نقصان پورا کر یں گے اور ان عمارتوں کو از سر نو تعمیر کریں گے۔ چار سال بعد ڈاکٹر ویرونیکا وعد کنسٹرکشن کمپنی کے آفس میں داخل ہوئیں، عموماً لوگ یہاں اپنی شکایات اور گلے ہی لے کر آتے ہیں، لیکن ڈاکٹر ویرونیکا کے ہاتھوں میں مٹھائی اور پھولوں کا گلدستہ تھا جو انھوں نے کمپنی کے انچارج کو دیتے ہوئے کہا کہ ''میں اﷲ تعالی کا شکر ادا کرتی ہوں اور سید حسن نصر اﷲ کا بھی جنھوں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا''۔ تقریباً چار ہزار آٹھ سو خاندان اس علاقے میں آباد ہیں جہاں 2006 میں اسرائیل نے حملہ کرکے گھروں کو تباہ کردیا تھا۔ یہ کہانی ہے ایثار و قربانی کی، جذبہ اور ہمت کی، از سر نو تعمیرات کی، ایک عظیم کامیابی کی، صبر و استقلال کی، جس کا مشاہدہ خود ڈاکٹر ویرونیکا نے کیا۔
حیرت کی بات ہے کہ اگست میں جیسے ہی اسرائیلی دشمن نے اپنی پسپائی کا اعلان کیا اور جنگ سے ہاتھ ہٹائے تو اگلے ہی روز حزب اﷲ کے مجاہدین ان عمارتوں کی طرف کام کرتے ہوئے نظر آ رہے تھے جن عمارتوں کو اسرائیلی فوجوں نے تباہ کردیا تھا۔ اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اﷲ نے اسی روز سے وعد کنسٹرکشن کمپنی متعارف کرواتے ہوئے ضاحیہ کے علاقے میں از سر نو تعمیرات کا آغاز کردیا ، دراصل یہی سید حسن نصر اﷲ کا وعدہ تھا۔یہ ایک ناقابل یقین بات تھی کہ مزاحمتی تحریک حزب اﷲ اب ان مقامات کو از سر نو تعمیر کرنے جا رہی تھی کہ جسے اسرائیلیوں نے تباہ کردیا تھا، یقیناً اس راستے میں حزب اﷲ کو بہت سی مشکلات کا سامنا تھا جس میں سے ایک یہ تھی کہ تباہ شدہ مکانات کے مکینوں کو کہاں رہائش دی جائے اور پھر یہ خدشات بھی تھے کہ بہت سے تعمیراتی منصوبے ناکام ہوجایا کرتے ہیں، تاہم حزب اﷲ نے اس کام کا آغاز کیا اور لوگوں نے حزب اﷲ پر بھرپور اعتماد کرتے ہوئے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں اوائل میں مشکلات کا سامنا رہا لیکن بہت جلد ان لوگوں نے مشکلات سے نجات حاصل کرلی اور بہترین پھل حاصل کیا۔
یہ 16 اگست 2013 ہے، اس دن اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اﷲ لبنان میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی کامیابی کی ساتویں سالگرہ منانے کی تیاریوں میں مصروف عمل تھی لیکن دوسری طرف اسرائیلی دشمن کے چند مقامی ایجنٹ دہشت گردوں نے بیروت کے اسی علاقے میں ایک زور دار بم دھماکا کیا جس علاقے کا ذکر درج بالا سطور میں کیا گیا ہے، یہ وہی علاقہ ہے جسے پہلے اسرائیلیوں نے براہ راست 2006 کی جنگ میں تہس نہس کیا تھا اور آج ٹھیک سات سال بعد پھر اسی علاقے میں ایک ہزار کلو گرام وزنی دھماکا خیز مواد سے حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں 31 افراد شہید ہو ئے جبکہ 250 افراد جن میں خواتین اور معصوم بچے بھی شامل ہیں زخمی ہوگئے۔
اس دھماکے کے فوری بعد شام میں شامی حکومت کے خلاف دہشت گردی کرنے والے ایک گروہ نے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی تاہم دوسری طرف حزب اﷲ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اﷲ نے اسی دن ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے دنیا بھر سے شام پہنچنے والے دہشت گردوں کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی دشمن کے اشاروں پر شام اور لبنان کے معصوم عوام پر دہشت گردانہ حملے روک دیں۔ اس موقع پر سید حسن نصر اﷲ نے ان دہشت گردوں کو متنبہ کیا اور کہا کہ میں اور حزب اﷲ بنفس نفیس اسرائیلی ایجنٹ دہشت گردوں سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن ہم یہ ہرگز برداشت نہیں کرسکتے کہ کوئی دہشت گرد ہمارے وطن کے معصوم شہریوں کو نشانہ بنائے۔
ان تمام باتوں سے ہٹ کر جو اہم ترین بات ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح 2006 میں اسرائیل کی جانب سے بیروت کے علاقوںکو تہس نہس کیے جانے کے بعد لبنانی عوام نے حزب اﷲ پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا تھا اسی طرح آج سات سال بیت جانے کے بعد بھی وہی مناظر دیکھنے میںآٓئے ہیں کہ لوگوں کے پیارے ان سے جدا ہوگئے، متعدد افراد کے جسد ملے ہی نہیں، سیکڑوں معصوم بچے اور خواتین اسپتالوں میں زیر علاج ہیں لیکن سلام ہو ان عظیم قوم کے عظیم لوگوں پر کہ جنھوں نے تمام تر مصائب اور آلام کے باوجود ایک ہی نعرہ بلند کیا ہے '' ہم مزاحمت (حزب اﷲ) کے ساتھ ہیں۔'' اس کی عظیم مثال ایک تصویر سے ملتی ہے جو حال ہی میں سوشل میڈیا نیٹ ورک پر شائع ہوئی ہے کہ ایک گھر جو کہ بم دھماکے سے بالکل تباہ ہوچکا ہے لیکن اس گھر کے مکین کسی طرح خود کو بالکونی میں جمع کیے ہوئے اور ایک چھوٹا سا ٹی وی لگا کر حزب اﷲ کے سربراہ سید حسن نصر اﷲ کی وہ تقریر سن رہے ہیں جو انھوں نے دھماکے کے بعد کی اور ایک چھوٹا سا بچہ ہاتھوں میں حزب اﷲ کا پرچم تھامے بیٹھا ہوا ہے۔ یقیناً یہ عالمی استعماری طاقتوں کے لیے بڑا اہم پیغام ہے کہ لبنان کے عوام پر جس قدر بھی ظلم اور بربریت کرلو لیکن لبنانی عظیم ملت، صہیونی ریاست اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو ترک نہیں کرے گی اور فلسطین کو تنہا نہیں ہونے دے گی۔