پتھر کا جگر رکھنے والو…
آئینہ دکھائوں تو پتھر مار کر مجھے کرچی کرچی کر دیتے ہو ، زبان کھولوں تو لبوں کو سی کر فخر سے دندناتے پھرتے ہو...
آئینہ دکھائوں تو پتھر مار کر مجھے کرچی کرچی کر دیتے ہو ، زبان کھولوں تو لبوں کو سی کر فخر سے دندناتے پھرتے ہو ، گلیوں میں گھروں سے اٹھتی آہوں کو سُن کر بغاوت نہ کر دوں،اس لیے کانوں میں سیسہ ڈال کر مجھے بہرہ بنا دیا گیا ہے ۔ آنکھیں ظلم کی حقیقی کہانیوں کو محفوظ نہ کر پائیں اس لیے نعروں کے ایسے سُرمے بنائے گئے ہیں کہ آنکھیں رکھتے ہوئے بھی ہم اندھے ہیں ۔ اگر تم آنکھیں رکھنے کے بعد بھی نہیں دیکھ سکتے تو اپنی تبدیلی کا چشمہ آنکھوں سے اُتار دو ۔ ریل کی پٹریوں پر کیا کچھ نہیں کہا تھا تم نے ۔ ہم عوام ہیں،کسی کو کاندھے پر بٹھا سکتے ہیں تو اُتار کر پھینک سکتے ہیں۔ دو دن پہلے ہی کہا تھا نہ مجھے ووٹ دو میری عزت کا مسئلہ ہے ۔ مگر انھوں نے تمھاری بات کا پاس نہیں رکھا ۔ وہ بہرے ضرور ہیں مگر اپنے بچوں کی سسکیوں کو محسوس کر سکتے ہیں ۔ ہاں وہ اندھے ہونگے مگر انھیں بھوک سے بلکتے بچے نظر آتے ہیں ۔ لمبی تقریروں کا اثر اب بیٹھ چکا خادم اعلی کو اب لاہور کے آگے کا پنجاب بھی دیکھنا ہو گا۔
ہم سب کو دیکھنا ہو گا کہ کراچی سے خیبر تک 85 فیصد اسکول ایسے ہیں جہاں مکمل سہولیات موجود نہیں ۔ میں مان لیتا ہوں وزیر اعلی سندھ کی اس بات کو کہ عمر سے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ آج بھی دوڑ سکتے ہیں ۔ تو دوڑ لگا دیجیے ۔ پچھلے پانچ سالوں میں بتا دیجیے کہ سندھ کے 49 ہزار سرکاری اسکول میں سے کتنے اس وقت مکمل طور پر ٹھیک چل رہے ہیں؟ 2008 میں حکومت سنبھالتے ہی اسمبلی میں وزیر تعلیم نے کہا تھا کہ 29 ہزار اسکول ایسے ہیں جہاں کوئی بھی سہولت مکمل طور پر موجود نہیں ۔ عمر کوٹ کے کسی گائوں کی مثال تو چھوڑ دیجیے بس اتنا بتا دیجیے کہ خیر پور کے تمام اسکول صحیح چل رہے ہیں ؟ 5 سال پہلے ایک بین الاقوامی ادارے نے لکھا تھا کہ شاید حکومت کو تعلیم میں دلچسپی ہی نہیں۔ کیا اب بھی دلچسپی نہیں؟ اگر اعتبار نہ ہو تو پوچھ لیجیے ،اب بھی اگر بارش ہو جائے تو کتنے اسکول ایسے ہیں جن کی چھت نہ ٹپکتی ہو ۔دانش نام رکھ لینے سے اگر عقل آجاتی تو شاید آج ہر بچے کا نام ہی دانش ہوتا ۔
اتنے بڑے بہاولپور میں کتنے دانش اسکول ہیں بس ایک ؟ْ اور اس کے بعد ہر جگہ ہاتھوں میں کتابیں لیے میرے بچے کیسے ڈھونڈھ رہے ہوتے ہیں ۔ پنجاب میں 57 ہزار سے زائد سرکاری اسکول ہیں۔ میں نے اگر یہاں ہر اسکول کی داستان کھولی تو کئی سفید چہروں کے رنگ بدل جائیں گے ۔ منصوبہ تھا ایک ٹیچر ایک کمرہ ۔ پوچھ لیجیے کہ کتنے کمرے ہیں اور کتنے ٹیچر ؟لاہور میں حکمرانوں کے حلقے میں کہیں دور دور ایک پٹھان کالونی ہے ۔ اگر پورے پنجاب اور ملک کے اسکول ٹھیک نہیں ہو سکتے تو وہاں کا پرائمری اسکول تو ٹھیک کر دیں ۔ میں رہتی دنیا تک آپ کو سلام کرونگا ۔ملتان میں علم پور کے سرکاری اسکول کو بھی دیکھ لیں جہاں بچے کس عذاب سے گزر رہے ہیں۔پھر مجھے یقین ہیں آپ سے یہ سیٹ کوئی نہیں لے سکے گا ۔ تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے تبدیلی لانی پڑے گی ۔ اگر باتوں سے پیٹ بھرتا تو ہم کیوں دیس دیس کی خاک چھانتے؟
مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی یہ دیکھ کر کہ جھنگ صدر میں بستی دیوان والی بھی انسانوں کی بستی ہے جہاں سیوریج کا نظام ہی نہیں، بتانے والے بتا گئے کہ وہاں کے اسکول میں اکثر ہی گندہ پانی کھڑا ہوتا ہے ۔ اگر میری بات مذاق لگ رہی ہو تو ایک بار اپنے بااثر قدموں کو تو زمین پر رکھ کر اُس کا مقدر سنوار دیں ۔مجھے عدسے لے کر ڈھونڈھنا پڑا جب میں خیبر پختونخوا کے 15 ہزار تعلیمی اداروں میں تبدیلی ڈھونڈھنے نکلا ۔ دو ماہ میں اگر بلور کامیاب ہوئے تو اسے سازش اور دھاندلی کے علاوہ بھی کسی چشمہ سے دیکھیں ۔ میں دکھائوں گا تو پھر پتھر مار کر میرے آئینہ کو کرچی کرچی کر دیں گے ۔ مگر کیا کروں کہ پتھروں کے شہر میں آئینے بیچنے کا ہی کام مجھے آتا ہے ۔ پشاور میں تبدیلی کے بعد آنے والے وزیر اعلیٰ سے چند منٹوں کے فاصلے پر بڈبیر کا علاقہ ہے ۔ کاش کہ کوئی وہاں جا کر اُن کھنڈرات کو بھی دیکھ لیتا جس کے اوپر اسکول کی تختی لگی ہوئی ہے ۔کاش اُس کے ساتھ ہی متلی کی گلیوں میں بھی کوئی جا کر پوچھ لیتا کہ یہاں کہ پرائمری اسکول کس حال میں ہیں ۔ کاش ایسا ہو جاتا تو بلور نہ جیتتے ۔
کبھی نہ جیتتے ...ڈاکٹر سے زیادہ تعلیم کا کسے معلوم ہو گا ؟؟ وہ جان سکتا ہے کہ تربت کے پہاڑوں سے کوئٹہ کتنا دور ہے ۔ ہم جیسے لوگ تو شاید یہ ہی سمجھتے ہوں کہ ایک ہی صوبے کے دو علاقے ہیں مگر پہاڑوں کے درمیان سے راستہ کیسے صحراؤں تک لے جاتا ہے وہ کوئی نہیں جانتا ۔ جیسے یہ کوئی نہیں جانتا کہ پہاڑوں پر بیٹھے ہوئے بھی کئی ایسے ہیں جو تعلیم کی اعلی ڈگریاں رکھتے ہیں مگر اب اُن کے ہاتھوں میں قلم نہیں پستول ہے ۔ اُن سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ ڈاکٹر بننا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ کروڑوں نہیں اربوں نہیں بلکہ کھربوں کے منصوبے بنائے جارہے ہیں ۔
گوادر کو پھر سنہری خواب دکھائے جا رہے ہیں ۔ اُسی کا تو علاقہ ہے کُلانچ جہاں ایک اسکول بھی ایسا نہیں جس پر ہم اپنا سینہ چوڑا کر کے گھوم سکیں ۔ دشت کے پتھروں پر کبھی چل کر دیکھنا یہ بھی تو بلوچستان ہے ۔ کون نہیں جانتا دشت کی گرمی کو ، کون واقف نہیں وہاں کی پیاسی زمین سے اور کون نہیں جانتا کہ وہاں کے اسکولوں میں چھت بھی نہیں ۔ روک لو ان بغاوتوں کو ، ہمارے بچوں کو بندوق نہیں قلم چاہیے ۔ اگر تبدیلی چاہتے ہو تو سوچ لو کہ اُس کا وقت تیزی سے گزرتا جارہا ہے ۔ سوچ لو کہ اب تمھارے پتھروں سے آئینہ نہیں ٹوٹے گا ۔ جہالت کے ملبے سے انارکی ہی نکلے گی ۔ وقت کم ہے اور جہالت کی دیوار تیزی سے اونچی ہو رہی ہے ۔ اتنی اونچی نہ ہو جائے کہ پھر ہم تمھیں ڈھونڈھنے سے بھی نہ ملیں اور پھر پتھر لوٹ کر سروں پر برسنے لگیں۔