غریب اور پسماندہ ملکوں کی معاشی غلامی
ایک غریب کمزور آدمی کس طرح دولت مند طاقتور شخص کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ تعلقات کو تر جیح دیتا ہے۔ دنیا کے حالات جو بھی ہوں چین ہمیشہ پاکستان کی حمایت جاری رکھے گا۔ نیز پاکستان دہشت گردی کے خلاف جو جنگ لڑ رہا ہے ، اس کی حمایت کرتا ہے۔ چینی صدر نے ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات میں کیا اور اسٹریٹیجک شراکت داری کا خیر مقدم کیا۔چینی صدر نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ پاکستان اور بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے اقدامات اٹھائیں گے۔
عمران خان نے کہا کی سی پیک کے دوسرے مرحلے کی توسیع سے زراعت، صنعتی ترقی اور مختلف نئے شعبوں کو شامل کیا گیا ہے، چین پاکستان راہداری شراکت داری میں تبدیل ہو چکی ہے جب کہ چین ٹیکنالوجی کے شعبے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ ہم چین کی مدد سے سائنس اور ٹیکنالوجی کی شاندار یونیورسٹی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین کے دوران ایم ایل ون منصوبے پر دستخط ہوئے جو اگلے پانچ سال میں مکمل ہو گا۔ جس کے تحت پشاور، کراچی کے درمیان 1872 کلومیٹر طویل ٹریک کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔
ٹرین کی اوسط اسپیڈ 120 سے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو جائے گی جب کہ ابھی یہ اسپیڈ 60 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ بڑھی ہوئی اسپیڈ پر ٹرین راولپنڈی سے کراچی دس گھنٹوں میں پہنچے گی جو حال میں تقریباً24 گھنٹے یا اس سے زائد وقت میں پہنچتی ہے اور راولپنڈی سے صرف اڑھائی گھنٹے میں لاہور پہنچ جائے گی۔ ایم ایل منصوبے سے ٹرینوں کی تعداد دگنی ہو جائے گی فریٹ شیئر 20 فیصد ہو جا ئے گا جو آج 4 فیصد سے بھی کم ہے۔ صرف ایم ایل ون منصوبے پر عملدرآمد سے 20 ہزار ڈائریکٹ اور ڈیڑھ لاکھ بالواسطہ نوکریاں دستیاب ہوں گی۔یہ منصوبہ پاکستان ریلوے میں انقلاب لے آئے گا۔ دنیا میں ہوائی جہاز اور سڑک کی نسبت ریل کے ذریعے سفر کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
کیونکہ یہ محفوظ ہے، اس سفر کو زیادہ سے زیادہ پر آسائش اور سستا بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ایک سازش کے تحت پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کو فروغ دینے کے لیے ریل کے سفر کو تکلیف دہ بنا دیا گیا۔ پاکستان ریلوے کا خسارہ ساڑھے تین سو ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ گزشتہ سال ریلوے نے تقریباً 50 ارب آمدنی کے مقابلے 86 ارب سے زائد کا خرچہ کیا جس سے قومی ادارے کو 36 ارب 60 کروڑ کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ گزشتہ پانچ سال میں ریلوے کو 188 ارب کی آمدنی کے مقابلے میں210 ارب سے زائد کا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ جب کہ ریلوے کا ماہانہ خسارہ ڈھائی ارب رپے ہے۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ریلوے کو 125 ارب روپے کا خسارہ ہوا جب کہ ن لیگ دور حکومت میں193 ارب روپے کا خسارہ ہوا اور پی ٹی آئی حکومت میں اب تک 17 ارب خسارہ ہو چکا ہے۔ دستاویزات کے مطابق ریلوے پنشنرز میں مسلسل اضافہ بھی خسارے کی وجوہات میں سے ایک ہے۔ ریلوے کے بجٹ کا 66 فیصد حصہ ایک لاکھ19 ہزار پنشنرز اور73 ہزار ملازمین کی تنخواہوں پر خرچ ہو جاتا ہے۔
بھارت کی ریلوے کی آمدنی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جب کہ ہمارے ہاں ریلوے ہو یا واپڈا یا اسٹیل مل، پی آئی اے یا دوسرے ادارے پاکستانی معیشت کے لیے سفید ہاتھی بن گئے ہیں، ان کی وجہ سے معیشت کو ہر سال ایک ہزار ارب خسارے کا سامنا ہے۔ جب یہ ادارے حکومت کو کما کر دینے کے بجائے وسائل کو ہڑپ کریں گے تو اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے عوام پر بلاواسطہ اور بالواسطہ ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں۔چند لاکھ لوگوں کی نااہلی اورکرپشن کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ نااہل، نکمے ،کام چور ، کرپٹ لوگ ملک کے تمام اداروں میں بھرے ہوئے ہیں جن کی بھرتی سفارش پر ہوئی۔ ضرورت سے بہت زیادہ لوگ ان تمام اداروں میں ہیں۔پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے لیکن یہ حقیقت اب صحیح ثابت ہو رہی ہے۔
پاکستان اس وقت جس بحران سے گزر رہا ہے وہ صرف معاشی نہیں بلکہ سیکیورٹی کا بھی بحران بھی ہے جس سے ملک کی سلامتی خطرے میں ہے۔ ایک طرف بھارت ہے تو دوسری طرف افغانستان، ان نازک حالات میں چینی صدر کا یہ کہنا کہ دنیا اور خطے کے حالات جو بھی ہوں چین ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی پالیسی جاری رکھے گا، انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ سی پیک ہو یا معاشی بحران چین مسلسل پاکستان کی مدد کر رہا ہے، دوسری اہم بات انھوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت تعلقات کی بہتری خطے کی سلامتی کے لیے بہت ضروری ہے۔
چین بھی ایک سرمایہ دار ملک ہے لیکن اُس کی نئی بات دنیا اور پاکستان کے لیے ون بیلٹ ون روڈ اور سی پیک ہے۔ چین اس نئی سوچ کے ذریعے نہ صرف اپنا مفاد چاہتا ہے بلکہ غریب ملکوں کو بھی اس خوش حالی میں حصہ دار بنانا چاہتا ہے۔ ماضی میں سامراجی سوچ یہ تھی اور آج بھی یہی ہے کہ دنیا کی غریب اقوام کو جنگوں کے ذریعے غلام بنا کر، اُن کے وسائل کو لوٹ کر اپنے آپ کو مزید طاقتور اور خوش حال بنایا جائے۔ لیکن غلام قوموں کو جن کو اس نے نام نہاد آزادی دی اپنے مالیاتی اداروں کے ذریعے معاشی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
آج یہ معاشی دہشت گردی نت نئے ٹیکسوں کے ذریعے اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ پاکستان کی نصف آبادی دو وقت کی روٹی سے محروم ہو چکی ہے۔ آج ہم ہی نہیں دنیا کے بیشتر غریب ممالک اس قابل نہیں کہ وہ اس معاشی غلامی سے نجات حاصل کر سکیں۔ کامن سنس کی بات ہے کہ ایک غریب کمزور آدمی کس طرح دولت مند طاقتور شخص کا مقابلہ کر سکتا ہے، یہی حال عالمی سطح پر غریب اور دولت مند اقوام کا ہے۔ یہ ہمیشہ سے دولت ہی ہے جس سے جدید ترین اسلحہ بنا کر غریب اقوام کو غلام بنایا جاتا ہے اور یہ دولت غریب اقوام کے وسائل کو مزید لوٹ کر حاصل کی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسامنحوس چکر ہے جس سے نجات سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ رہتے ہوئے نظر نہیں آتی۔
ون بیلٹ ون روڈ اور سی پیک کا مستقبل کیا ہے اس کا پتہ2020 اور2021 میں چلے گا۔
سیل فون:0346-4527997
عمران خان نے کہا کی سی پیک کے دوسرے مرحلے کی توسیع سے زراعت، صنعتی ترقی اور مختلف نئے شعبوں کو شامل کیا گیا ہے، چین پاکستان راہداری شراکت داری میں تبدیل ہو چکی ہے جب کہ چین ٹیکنالوجی کے شعبے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ ہم چین کی مدد سے سائنس اور ٹیکنالوجی کی شاندار یونیورسٹی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین کے دوران ایم ایل ون منصوبے پر دستخط ہوئے جو اگلے پانچ سال میں مکمل ہو گا۔ جس کے تحت پشاور، کراچی کے درمیان 1872 کلومیٹر طویل ٹریک کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔
ٹرین کی اوسط اسپیڈ 120 سے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو جائے گی جب کہ ابھی یہ اسپیڈ 60 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ بڑھی ہوئی اسپیڈ پر ٹرین راولپنڈی سے کراچی دس گھنٹوں میں پہنچے گی جو حال میں تقریباً24 گھنٹے یا اس سے زائد وقت میں پہنچتی ہے اور راولپنڈی سے صرف اڑھائی گھنٹے میں لاہور پہنچ جائے گی۔ ایم ایل منصوبے سے ٹرینوں کی تعداد دگنی ہو جائے گی فریٹ شیئر 20 فیصد ہو جا ئے گا جو آج 4 فیصد سے بھی کم ہے۔ صرف ایم ایل ون منصوبے پر عملدرآمد سے 20 ہزار ڈائریکٹ اور ڈیڑھ لاکھ بالواسطہ نوکریاں دستیاب ہوں گی۔یہ منصوبہ پاکستان ریلوے میں انقلاب لے آئے گا۔ دنیا میں ہوائی جہاز اور سڑک کی نسبت ریل کے ذریعے سفر کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
کیونکہ یہ محفوظ ہے، اس سفر کو زیادہ سے زیادہ پر آسائش اور سستا بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ایک سازش کے تحت پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کو فروغ دینے کے لیے ریل کے سفر کو تکلیف دہ بنا دیا گیا۔ پاکستان ریلوے کا خسارہ ساڑھے تین سو ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ گزشتہ سال ریلوے نے تقریباً 50 ارب آمدنی کے مقابلے 86 ارب سے زائد کا خرچہ کیا جس سے قومی ادارے کو 36 ارب 60 کروڑ کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ گزشتہ پانچ سال میں ریلوے کو 188 ارب کی آمدنی کے مقابلے میں210 ارب سے زائد کا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ جب کہ ریلوے کا ماہانہ خسارہ ڈھائی ارب رپے ہے۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ریلوے کو 125 ارب روپے کا خسارہ ہوا جب کہ ن لیگ دور حکومت میں193 ارب روپے کا خسارہ ہوا اور پی ٹی آئی حکومت میں اب تک 17 ارب خسارہ ہو چکا ہے۔ دستاویزات کے مطابق ریلوے پنشنرز میں مسلسل اضافہ بھی خسارے کی وجوہات میں سے ایک ہے۔ ریلوے کے بجٹ کا 66 فیصد حصہ ایک لاکھ19 ہزار پنشنرز اور73 ہزار ملازمین کی تنخواہوں پر خرچ ہو جاتا ہے۔
بھارت کی ریلوے کی آمدنی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جب کہ ہمارے ہاں ریلوے ہو یا واپڈا یا اسٹیل مل، پی آئی اے یا دوسرے ادارے پاکستانی معیشت کے لیے سفید ہاتھی بن گئے ہیں، ان کی وجہ سے معیشت کو ہر سال ایک ہزار ارب خسارے کا سامنا ہے۔ جب یہ ادارے حکومت کو کما کر دینے کے بجائے وسائل کو ہڑپ کریں گے تو اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے عوام پر بلاواسطہ اور بالواسطہ ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں۔چند لاکھ لوگوں کی نااہلی اورکرپشن کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ نااہل، نکمے ،کام چور ، کرپٹ لوگ ملک کے تمام اداروں میں بھرے ہوئے ہیں جن کی بھرتی سفارش پر ہوئی۔ ضرورت سے بہت زیادہ لوگ ان تمام اداروں میں ہیں۔پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے لیکن یہ حقیقت اب صحیح ثابت ہو رہی ہے۔
پاکستان اس وقت جس بحران سے گزر رہا ہے وہ صرف معاشی نہیں بلکہ سیکیورٹی کا بھی بحران بھی ہے جس سے ملک کی سلامتی خطرے میں ہے۔ ایک طرف بھارت ہے تو دوسری طرف افغانستان، ان نازک حالات میں چینی صدر کا یہ کہنا کہ دنیا اور خطے کے حالات جو بھی ہوں چین ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی پالیسی جاری رکھے گا، انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ سی پیک ہو یا معاشی بحران چین مسلسل پاکستان کی مدد کر رہا ہے، دوسری اہم بات انھوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت تعلقات کی بہتری خطے کی سلامتی کے لیے بہت ضروری ہے۔
چین بھی ایک سرمایہ دار ملک ہے لیکن اُس کی نئی بات دنیا اور پاکستان کے لیے ون بیلٹ ون روڈ اور سی پیک ہے۔ چین اس نئی سوچ کے ذریعے نہ صرف اپنا مفاد چاہتا ہے بلکہ غریب ملکوں کو بھی اس خوش حالی میں حصہ دار بنانا چاہتا ہے۔ ماضی میں سامراجی سوچ یہ تھی اور آج بھی یہی ہے کہ دنیا کی غریب اقوام کو جنگوں کے ذریعے غلام بنا کر، اُن کے وسائل کو لوٹ کر اپنے آپ کو مزید طاقتور اور خوش حال بنایا جائے۔ لیکن غلام قوموں کو جن کو اس نے نام نہاد آزادی دی اپنے مالیاتی اداروں کے ذریعے معاشی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
آج یہ معاشی دہشت گردی نت نئے ٹیکسوں کے ذریعے اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ پاکستان کی نصف آبادی دو وقت کی روٹی سے محروم ہو چکی ہے۔ آج ہم ہی نہیں دنیا کے بیشتر غریب ممالک اس قابل نہیں کہ وہ اس معاشی غلامی سے نجات حاصل کر سکیں۔ کامن سنس کی بات ہے کہ ایک غریب کمزور آدمی کس طرح دولت مند طاقتور شخص کا مقابلہ کر سکتا ہے، یہی حال عالمی سطح پر غریب اور دولت مند اقوام کا ہے۔ یہ ہمیشہ سے دولت ہی ہے جس سے جدید ترین اسلحہ بنا کر غریب اقوام کو غلام بنایا جاتا ہے اور یہ دولت غریب اقوام کے وسائل کو مزید لوٹ کر حاصل کی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسامنحوس چکر ہے جس سے نجات سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ رہتے ہوئے نظر نہیں آتی۔
ون بیلٹ ون روڈ اور سی پیک کا مستقبل کیا ہے اس کا پتہ2020 اور2021 میں چلے گا۔
سیل فون:0346-4527997