انسان ناقابلِ شکست ہے 1
دنیا کی تاریخ میں کوئی دور ایسا نہیں آیا جس میں انسانیت کو شکست ہوئی ہو۔ افراد اور طبقات کو شکست ہوتی رہی ہے اورہوگی۔
ہم شاعر علی سردار جعفری کی تعظیم و تکریم کرتے رہے، انھیں داد دیتے رہے۔ ان کی شخصیت ہشت پہلو تھی۔ وہ نثر کے بھی بادشاہ تھے۔ جس کا ہمارے یہاں کم لوگوں کو علم ہے۔ چند دنوں پہلے اسلام آباد سے دانشور اور پنجابی کے ادیب احمد سلیم کا فون آیا کہنے لگے '' ڈاکٹر کہکشاں عرفان کی کتاب ''علی سردار جعفری: بحیثیت نثر نگار'' بھجو ا رہا ہوں۔ ذرا دیکھ لیجیے گا۔''
میری زبان سے بے اختیار نکلا کہ ڈاکٹر کہکشاں عرفان کا تعلق کیا ہندوستان سے ہے؟ احمد سلیم کا جواب اثبات میں تھا۔ سنگ میل پبلیکشنز کے سربراہ محمد افضال کا ہمیں ممنون ہونا چاہیے کہ جنہوں نے ایک اہم موضوع پر یہ کتاب شائع کی۔ ڈاکٹر کہکشاں عرفان کی شکر گزاری ہم پر واجب ہے جنہوں نے علی سردار جعفری کی نثری جہت پر قلم اٹھایا اور موضوع کا حق ادا کردیا۔
ایک ایسے زمانے میں جب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کئی برس سے دونوں ملکوں میں تنا تنی کا وہ عالم ہے کہ کتابوں کا آنا جانا، ادیبوں اور دانشوروں کا ایک دوسرے کی ادبی محفلوں، مشاعروں اورکانفرنسوں میں شرکت کرنا کارے دارد ہوگیا ہے، تب بھی یہ ادیب ہیں جو تنی ہوئی رسی پر چلتے ہیں، کسی نہ کسی طرح سے ایک دوسرے کو اپنی کتابیں بھیجتے ہیں، انٹرنیٹ اورخیالات کی ترسیل کے جدید ترین طریقے سلامت رہیں کہ ان کے ذریعے ہم تک ایک دوسرے کی باتیں پہنچ جاتی ہیں۔ خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے۔ کتابوں کی رسائی ایک سے دوسرے ملک تک ہوجاتی ہے، ایسے میں ان اشاعتی اداروں کا کردار بہت بڑھ جاتا ہے جوہندوستان یا پاکستان سے تعلق رکھتے والے ادیبوں کی کتابیں شائع کرتے ہیں۔
ڈاکٹر کہکشاں عرفان نے مشہور و مقبول شاعر علی سردار جعفری کے نثری کارناموں کا احاطہ کیا ہے۔ وہ ہندوستان میں رہتی ہیں، ان کے لیے یہ آسان تھا کہ وہ علی سردار جعفری کی ابتدائی نثری تخلیقات کو تلاش کرسکیں اور انھیں پڑھنے والوں کے سامنے پیش کر سکیں۔علی سردار جعفری کے ابتدائی حالات زندگی سے ہمیں اس افتادِ طبع کا اندازہ ہوتا ہے جو آگے چل کر آوازۂ انقلاب سے پیوست ہوگئی۔
ایک نوعمر لڑکا جب خوبصورت گیتوں، دھان اور گیہوںکے کھیتوں میں افلاس کی انتہا دیکھتا ہے تو وہ تصویریں اس کے ذہن پرنقش ہوجاتی ہیں۔ علی سردار جعفری نے ''لکھنؤ کی پانچ راتیں'' میں لکھا کہ: '' میری یاد میں اس کی انتہائی بھیانک تصویریں محفوظ ہیں۔ گرمیوں کی چلچلاتی ہوئی دھوپ میں جھکے ہوئے انسان ، جن کی پیٹھوں پر اینٹیں لدی ہوئی ہیں۔ پیڑوں کی شاخوںمیں بالوںسے لٹکی ہوئی عورتیں، پتلی پتلی سوکھی ہوئی ٹانگیں اور باہر نکلے ہوئے پیٹوںوالے بچے۔ بڑی بڑی سیاہ مگر بجھی ہوئی آنکھیں۔ یہ اور اس قسم کی بے شمار تصویریں جو اگر کوئی مصور پردے پر بنادے تو دنیا چیخ اٹھے۔''
علی سردار جعفری نے اپنی تخلیقی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا۔آتشیں قمیص، لالۂ صحرائی، ہجوم تنہائی اور ''تین پاؤ گندھا ہوا آٹا'' ان کے وہ اولین افسانے ہیں، جو ان کے پہلے مجموعے''منزل'' میں شامل نہیں ہیں۔ یہ افسانے اس غربت و افلاس کی وہ کہانی سناتے ہیںجو علی سردار جعفری کے گرد پھیلی ہوئی تھی اور جس کے وہ شاہد و ناظر تھے۔
پہلی جنگ عظیم سے ایک برس پہلے پیدا ہونے والے علی سردار کی تخلیقی زندگی کا آغاز افسانوں سے ہوا اور پھر وہ شاعری کے دشت کی سیاحی کے لیے نکل گئے۔ آج ہم سے بیشتر لوگ ''پیراہن شرر'' کی نظموں پر سر دھنتے ہیں۔ ''اسی سرحد پہ کل ڈوبا تھا سورج ہوکے دو ٹکڑے... اسی سرحد پہ کل زخمی ہوئی تھی صبح آزادی...''
ان کا شمار برصغیر کے ان شاعروں اور دانشوروں میں ہوتا ہے، جنہوں نے جنگ گزیدگی اور جنگ جوئی کے خلاف اپنے قلم سے آخری سانس تک لڑائی لڑی۔ وہ ایک ایسے دانشور تھے جو سیاست کے عالمی رجحانات سے گہری شناسائی رکھتے تھے۔ انھوںنے تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ فرنگی کی جیل کاٹی اور پھر آزاد ہندوستان میں بھی قید وبند کا ذائقہ چکھا تھا۔ تاریخِ عالم کے مطالعے نے انھیں بتایا تھا کہ ابتدأ سے آج تک انسان نے خواب دیکھے ہیں اور پھر ان خوابوں کو ملیامیٹ ہوتے بھی دیکھا ہے لیکن خوابوں کی اس رائیگانی کے باوجود اس نے آنے والے دنوں میں خواب دیکھنے سے کنارہ نہیں کیا۔ اس کی حسین خواہشیں کبھی برگ و بار لائی ہیں اور کبھی ان پر خزاں کا موسم گزرا ہے۔ انسان نے کبھی فطرت کی ستم رانیوں اور فراعنہ کی حکمرانیوں کے سامنے سر نہیں جھکایا اور وہ کبھی بھی اپنے اس حق سے دستبردار نہیں ہوا کہ وہ خواب دیکھے اور اپنی آیندہ نسلوں کی آنکھوں میں ان خوابوں کو کاشت کردے۔
آج برصغیر کے کروڑوں ہاتھ گیہوں اور دھان کے پودے بوتے ہیں، باغوں سے رس بھرے پھل توڑتے ہیں ،کارخانوں میں لگی ہوئی کلیں چلاتے ہیں ، ملتانی مٹی سے لپی ہوئی تختی پر اورکاغذ کے سادہ ورق پر حرف لکھتے ہیں ، کمپیوٹر کے کی بورڈ پر ان ہاتھوں کی انگلیوں تھرکتی ہیں۔ یہ ہاتھ مریضوں کو شفا بخشتے ہیں ، مصوری اور مجسمہ سازی کرتے ہیں، شعر لکھتے ہیں ،کہانیاں تخلیق کرتے ہیں۔ ان ہاتھوں سے دنیا میں حسن و رعنائی اور زندگی کی ہمہ ہمی ہے۔ ان ہاتھوں کی تعظیم کیوں نہ کی جائے لیکن اس بات سے بھی خبردار رہا جائے کہ ان ہی میں سے کچھ ہاتھ بندوق چلاتے ہیں، بم گراتے ہیں، بستیاں جلاتے ہیں اور دیوانگی کے ساز پر تباہی و بربادی کا راگ تخلیق کرتے ہیں۔
ایسا کرنے والے لوگ چند لاکھ ہیں، انھیں کروڑوں اور اربوں ہاتھ شکست دے سکتے ہیں۔ اپنی انگلیوں سے زندگی کے خواب کاشت کرسکتے ہیں۔ علی سردار جعفری برصغیرکے ڈیڑھ ارب انسانوں کے لیے اور ساری دنیا کے لیے اپنے سینے میں یہ خواہش پرورش کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ دو عالمگیر جنگوں کے بعد سرد جنگ کی آگ تمام خوبصورتیوں اور خوابوں کو جلا کر راکھ کردینا چاہتی ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ سفاک عالمی قوتوں کی قہرمانیوں سے لڑنا دنیا کے مٹھی بھر دانشوروں، ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کے لیے کس قدر کٹھن مرحلہ ہے۔ لیکن انھیں ''انسان'' پر ایمان تھا۔
آج برصغیر انتہاپسندی اور جنگی جنون کے جس گرداب میں گھرا ہوا ہے، اس سے وہ عظیم المرتبت ''انسان'' ہی اسے نجات دلا سکتا ہے جو ہماری سرحدوں کے دونوں طرف آباد ہے، جو خواب دیکھتا ہے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اپنی بستیوں اور بازاروں میں امن کاشت کرتا ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کی کشمکش اورکُشت وخون کی ہوس کے صحرا میں کھڑے ہوکر بھی سردار جعفری ہندو مسلمان، برہمن اور سید، راجپوت اور اچھوت کی تقسیم سے بالا تر ہوکر یہی کہتے رہے کہ ...میرا آدرش انساں ہیں...وہ مرا دین و ایماں ہیں۔
کچھ ہاتھ بندوق چلاتے ہیں، بم گراتے ہیں، بستیاں جلاتے ہیں اور دیوانگی کے ساز پر تباہی و بربادی کا راگ تخلیق کرتے ہیں۔
ایسا کرنے والے لوگ چند لاکھ ہیں، انھیں کروڑوں اور اربوں ہاتھ شکست دے سکتے ہیں۔ اپنی انگلیوں سے زندگی کے خواب کاشت کرسکتے ہیں۔ علی سردار جعفری برصغیر کے ڈیڑھ ارب انسانوں کے لیے اور ساری دنیا کے لیے اپنے سینے میں یہ خواہش پرورش کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ دو عالمگیر جنگوں کے بعد سرد جنگ کی آگ تمام خوبصورتیوں اور خوابوں کو جلا کر راکھ کردینا چاہتی ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ سفاک عالمی قوتوں کی قہرمانیوں سے لڑنا دنیا کے مٹھی بھر دانشوروں، ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کے لیے کس قدر کٹھن مرحلہ ہے۔ لیکن انھیں ''انسان'' پر ایمان تھا۔ انھوںنے لکھا تھا کہ:
''دنیا کی تاریخ میں کوئی دور ایسا نہیں آیا جس میں انسانیت کو شکست ہوئی ہو۔ افراد اور طبقات کو شکست ہوتی رہی ہے اور ہوگی۔ لیکن ''انسان'' ناقابل شکست ہے۔ کیونکہ اس کی محبت، عمل اور جدوجہد اس کے اپنے شعور ہی کی نہیں بلکہ بڑی حد تک اس کے ماحول کی بھی خالق ہے۔ اس لیے وہ ہمیشہ فتح مند اور کامران رہے گا۔ یہ میرا سب سے بڑا انسپریشن ہے۔ میں اس کو ادب و فن کا ابدی موضوع سمجھتا ہوں۔ سب سے زیادہ شاندار، سب سے زیادہ عظیم المرتبت، سب سے زیادہ حسین ''انسان ہے''۔
شاعر علی سردار جعفری سے ہر ادیب دوست واقف ہے ، لیکن انھوں نے نثر میں برصغیر کے لیے کیاخواب دیکھے۔ ان کی نثرمیں بغاوت،انقلاب،آزادی کی خواہش اور نظام کو بدلنے کی تڑپ سے آگاہ ہونا ہے تو ڈاکٹر کہکشاں عرفان ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔
(جاری ہے)