چینی پاکستانی باشندوں کا شادی اسکینڈل
دونوں ملک ایسے ہر معاملے میں معلومات کا تبادلے اور ہر طرح کے تعاون پر متفق ہیں۔
TRIPOLI/BENGHAZI:
گذشتہ دنوں ایک خبر نے پاکستان اور چین کے عوامی اور حکومتی دونوں حلقوں میں بہ یک وقت تشویش کی لہر دوڑا دی۔ اس تشویش کی نوعیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں میں حکومتی سطح پر اس خبر کا نوٹس لینا اور اس پر اپنے ردِعمل کا اظہار کرنا ضروری سمجھا گیا۔
خبر یہ تھی کہ چین کے لڑکے یا مرد ہمارے یہاں آکر لڑکیوں سے شادی کرکے انھیں چین لے جارہے ہیں۔ وہاں ان لڑکیوں کو جنسی کاروبار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور جسمانی اعضا بالخصوص گردوں کی فروخت پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک سنگین خبر ہے جسے سن کر کوئی بھی با شعور، با ضمیر شخص غم و غصے اور نفرت کے اظہار سے باز نہیں رہ سکتا۔ اس خبر کی سنگینی میں اس وقت اور اضافہ ہوگیا، جب یکے بعد دیگرے ایسے کئی ایک واقعات سامنے آئے۔ یہ شکایات پہلے پولیس تھانوں تک اور اس کے بعد ایف آئی اے تک پہنچیں۔ ان رپورٹس پر متعلقہ اداروں میں کھلبلی مچی۔ ماتحت عملے نے اس معاملے میں پہلے اپنے اعلیٰ افسران سے رابطہ کیا پھر یہ خبریں ان کے ذریعے اعلیٰ حکام تک پہنچائی گئیں۔ غور و خوض کے بعد کارروائی کا حکم دیا گیا۔
پاکستانی لڑکیوں کے اہلِ خانہ سے تفصیلی معلومات لی گئیں اور ان کی رپورٹ پر چینی باشندے گرفتار کیے گئے۔ یہ گرفتاریاں ملک کے مختلف شہروں میں ہوئیں جن میں لاہور، فیصل آباد، منڈی بہاالدین اور اسلام آباد شامل ہیں۔ چینی باشندوں سے ابتدائی تفتیش کے بعد ان کی نشان دہی پر ان کے کچھ اور ساتھی اور مقامی سہولت کار بھی حراست میں لیے گئے ہیں۔ بعد ازاں ایف آئی آر درج ہوئی۔ ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے مزید تفتیش کے حکم کے ساتھ ملزموں کو جسمانی ریمانڈ پر متعلقہ اداروں کے حوالے کردیا۔ حالیہ اطلاع کے مطابق 79 افراد گرفتار ہیے جا چکے ہیں۔
ٹی وی چینلز نے اس خبر کو پہلی مرتبہ اسی سنجیدگی سے دیکھا اور نشر کیا ہے، لیکن یہ خبر ابھی اچانک سامنے نہیں آئی ہے۔ الیکٹرونک میڈیا پر نشر ہونے میں اسے خاصا وقت لگا۔ لگنا بھی چاہیے تھا۔ اس لیے کہ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا کہ سنی سنائی کے انداز میں اسے آگے بڑھا دیا جائے۔ ذمے داری سے اس کا جائزہ لینے اور چھان پھٹک کرنے کی ضرورت تھی، لیکن میڈیا مالکان اپنے ذرائع سے فی الفور اس کی تصدیق یا تردید کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے تھے کہ یہاں جن خاندانوں نے شکایات درج کرائی ہیں، ان سے رابطہ کرکے تفصیلات حاصل کریں۔ دو چینلز نے اس سلسلے میں خاص طور پر کوشش کی۔ اذیت سے گزرنے والے خاندانوں نے جو واقعات بیان کیے، وہ سخت تکلیف دہ اور حیران کن تھے۔
دونوں چینلز نیوز بریک کرنا چاہتے تھے۔ یقینا اس میں ریٹنگ کا معاملہ بھی تھا، لیکن اس کی باقاعدہ اجازت نہیں مل رہی تھی۔ اس لیے دونوں چینلز ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی خواہش اور کوشش کے باوجود خبر بریک نہیں کرپارہے تھے۔ خبر کی دنیا سے وابستہ افراد یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ بعض خبریں گرین سگنل کے بغیر نشریات کا حصہ نہیں بن پاتیں۔ یہ ایسی ہی ایک خبر تھی۔ پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی معاہدے، ان سے بھی بڑھ کر سی پیک ور اس کے علاوہ عالمی تناظر میں پاکستان کو حاصل چین کی حمایت جیسے معاملات اس خبر کے منظرِعام پر آنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھے۔ ان سب عوامل کے بارے میں یوں تو اب پاکستان کے عوام بھی بہت کچھ جان چکے ہیں، لیکن حکومتی ترجیحات اور حکمتِ عملی کی اہمیت سے تو انکار کیا ہی نہیں جاسکتا۔
ہمارے اداروں اور اربابِ اختیار نے اس سلسلے میں خاصا وقت لیا۔ حالاںکہ سوشل میڈیا نے گزشتہ دو ایک ماہ کے دوران میں اس خبر کو نہ صرف پھیلایا، بلکہ اس حوالے سے تبصرے اور آرا بھی سامنے آئیں، لیکن اس کے باوجود سوشل میڈیا پر اس خبر کو وہ توجہ نہیں مل سکی جو اسے ایک ایسا نیوز آئٹم بنا دے کہ پھر کوئی بھی حکومتی ادارہ اس کے لیے مزاحمت کے لائق ہی نہ رہے۔ اصل میں سنجیدہ اور پڑھا لکھا طبقہ اب سوشل میڈیا کی کسی بھی سرگرمی کو اس وقت تک قابلِ توجہ ہی نہیں سمجھتا جب تک دوسرے ذرائع اس کی تصدیق نہ کریں۔ یقینا یہ درست رویہ بھی ہے۔
اس لیے کہ سوشل میڈیا اپنی ساخت اور مزاج دونوں لحاظ سے کوئی بہت قابلِ اعتبار ذریعہ نہیں ہے۔ پراکسی وار اور ففتھ جنریشن جنگی حکمتِ عملی کے لیے اس کے استعمال ہونے والے حقائق کی تفصیلات نے تو اس میڈیم کے بارے میں ویسے ہی بہت اہم سوالات اٹھا دیے ہیں۔ چناںچہ ضروری ہے کہ عام آدمی بھی اس سلسلے میں ذمے دارانہ کردار ادا کرے۔ اس پر آنے والی کوئی بھی اطلاع ضروری نہیں کہ واقعی اطلاع ہو۔ وہ محض ایک ایسی افواہ بھی ہوسکتی ہے جو خوف، انتشار اور ردِعمل کے حصول کے لیے پھیلائی جارہی ہو۔
اب جب کہ چینی پاکستانی باشندوں کی شادی کی یہ خبر باضابطہ نشر ہوچکی ہے تو اس کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ جھوٹی شادی رچا کر جواں سال لڑکیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ اور ایک ملک سے دوسرے ملک لے جانا کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی اچھنبے کی۔ انسانی اسمگلنگ کی تاریخ سیکڑوں سال پرانی ہے، ابھی لگ بھگ ڈیڑھ صدی پہلے تک اسے کوئی بہت سنگین مسئلہ بھی نہیں سمجھا جاتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے میں قوانین ہونے کے باوجود اُن پر عمل درآمد کی صورتِ حال بہت اطمینان بخش بھی نہیں تھی۔ تاہم اب نہ صرف قوانین بہتر کیے گئے ہیں، بلکہ ان کو مؤثر انداز میں قابلِ عمل بنانے پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ اس کے باوجود انسانی اسمگلنگ پر بھی منشیات کی طرح مکمل طور سے قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ سخت ترین قوانین کے باوجود اس کی مکمل روک تھام کے بارے میں مستقبل قریب کے حالات بھی بہت زیادہ امید افزا نہیں کہے جاسکتے۔ اس لیے کہ اپنے بہیمانہ مقاصد کی تکمیل کے لیے انسان اپنے جیسے دوسرے انسان کا کس کس طرح استحصال کرنے کا راستہ نکال سکتا ہے، اس پر قانون ہی نہیں، اخلاقیات، سماجیات اور نفسیات کے ماہرین بھی اب تک نئے تجربات کو دیکھتے ہوئے افسوس اور استعجاب کا اظہار کرتے ہیں۔
برِصغیر پاک و ہند کا خطہ ایسے واقعات کے لیے اپنی تاریخ کے قدیم ادوار سے زرخیز رہا ہے۔ اس کے دو بنیادی اسباب ہیں۔ ایک تعلیم اور شعور کی کمی اور دوسرے افلاس اور روزمرہ ضرورتوں سے محرومی۔ اکیس ویں صدی تک آتے آتے دنیا بہت بدل چکی ہے۔ یہ حقیقت ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک ناقابلِ رد حقیقت ہے کہ اس خطے میں، بلکہ ساری پس ماندہ دنیا میں آج بھی انسانی استحصال کے امکانات اسی طرح موجود ہیں جیسے گزشتہ صدیوں میں تھے۔ یہ حالات اس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتے، جب تک ان معاشروں کا سماجی ٹیکسچر درحقیقت تبدیل نہیں ہوجاتا۔ ظاہر ہے، ایسا جہالت اور غربت کے خاتمے کے بغیر ہرگز ممکن نہیں ہے۔ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، نائیجیریا، سوڈان، فلپائن، ایتھوپیا اور مشرقِ وسطیٰ کی متعدد ریاستیں اگر آج اس معاملے میں سنجیدہ ہوکر اقدامات کا آغاز کریں تو بھی حالات کی بہتری کے لیے انھیں کئی دہائیوں کا عرصہ درکار ہے۔
چین اس وقت دنیا کی ایک بڑی طاقت بن چکا ہے۔ امریکا اور روس جو ایک زمانے میں روایتی حریف تھے، دنیا کے قطبین میں طاقت کے توازن کا ذریعہ تھے۔ 1979ء میں روس کی یہ حیثیت ختم ہوگئی اور دنیا یک قطبی ہوگئی۔ اب تک ایسا ہی ہے۔ تاہم اس عرصے میں چین بڑی منزل سر کرچکا ہے۔ گو ابھی اسے امریکا کی ہم پلہ طاقت کا مرتبہ حاصل نہیں ہوا ہے، لیکن اب دنیا میں ایک بڑی معاشی طاقت کی حیثیت سے امریکا بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ گزشتہ لگ بھگ ایک دہائی کے عرصے میں امریکا کی اسٹاک مارکیٹ کے سنگین بحران کے دو مواقع ایسے تھے جب چین کی سرمایہ کاری نے اسے سنبھالا دیا۔
اسلحہ سازی کی معیشت میں بھی وہ اب امریکا کے آس پاس ہے اور اس کی مارکیٹ وسیع ہورہی ہے، جب کہ روزمرہ اشیا کی مارکیٹ میں وہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہونے میں بہت زیادہ وقت نہیں لگائے گا۔ جنوبی ایشیا میں اس کی راہ داری کا منصوبہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بن جانے میں اس کے سفر کی رفتار کو جس طرح بڑھائے گا، اس کا اندازہ اب امریکا اور یورپ کے ساتھ اور بھی بہت سے ممالک کو بخوبی ہوچکا ہے۔ چین اپنی حیثیت سے نہ صرف اچھی طرح آگاہ ہے، بلکہ وہ اس کو اپنے مستقبل کے لیے بھی پوری طرح بروئے کار لارہا ہے۔ گزشتہ دنوں اس کے امریکا سے تجارتی مذاکرات کا بے نتیجہ ختم ہوجانا اس کے لیے نہیں، امریکا کے لیے زیادہ سوالات اٹھا رہا ہے۔
طاقت فرد کے پاس ہو یا کسی قوم کے، انسانی سائیکی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ اثرات مختلف صورتوں میں سامنے آتے ہیں، استحصال ان میں سب سے نمایاں مظہر کی حیثیت رکھتا ہے۔ طاقت کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ کسی قاعدے، ضابطے، اصول اور قانون کو مانتی ہے۔ وہ ہر ممکن صورت میں اپنا ہدف حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کا ثبوت درجنوں مرتبہ گزشتہ چار دہائیوں میں امریکی اقدامات اور حکمتِ عملی کے ذیل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس سے پہلے جب برطانیہ کی طاقتِ عظمیٰ کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اس کی تاریخ بھی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ برِصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجروں کی آمد سے جو دور شروع ہوا تھا، اس کی اصل حقیقت اٹھارھویں صدی کے آخری برسوں میں نمایاں طور پر سامنے آچکی تھی۔
1857ء کے بعد تو اس کا نقشہ پورے ہندوستان نے اچھی طرح دیکھ لیا۔ اسی زمانے میں محکوم قوم کے انفرادی اور اجتماعی استحصال کے ان گنت واقعات ہماری تاریخ اور ادب کی کتابوں میں تفصیل سے درج ہیں۔ فاتحین اور طاقت وروں کی تاریخ کے ایسے ہر دور کی طرح اس زمانے میں بھی محکوم ہندوستان کی جواں سال لڑکیاں اور خوش رو عورتیں حاکم فرنگیوں کی توجہ اور التفات کا خاص مرکز تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1947ء میں پاک و ہند کی تقسیم کے وقت انگریز حکم راں صرف زمینی ہی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ پوری ایک اینگلو انڈین نسل بھی چھوڑ کر گئے تھے۔ وہ اس نسل سے غافل یا لاتعلق بھی نہیں تھے، بلکہ وہ اس کے مستقبل کے بارے میں متفکر تھے۔ اس کی تفصیل عاشق حسین بٹالوی کی مرتب کردہ کتاب ''لیکیوڈیشن آف برٹش ایمپائر'' میں درج میں ہے۔
اکیس ویں صدی کی یہ دنیا ہی بیس ویں صدی سے مختلف نہیں ہے، بلکہ ہمارے چینی مہربان بھی فرنگی آقاؤں سے بہت مختلف ہیں۔ یہ اس فرق کا اظہار ہی تو ہے کہ انھوں نے اپنی ساری سرمایہ کاری کے باوجود اہلِ پاکستان سے حاکم و محکوم کا تعلق بنانے کے بجائے وہ رشتہ جوڑنے کی کوشش کی جو ہمیں برابری کا احساس دلائے اور ہمارے لیے جذباتی تسکین کا ذریعہ ہو۔ شادی کا بندھن ہمارے یہاں سماجی حیثیت کے ساتھ مذہبی جذبات کی تسکین کا سامان بھی رکھتا ہے۔ چین کے مردوں نے ہماری اس ذہنی ضرورت کو سمجھ کر ہی یہ طریقہ اختیار کیا ہوگا۔ ان کی اس سوجھ بوجھ کو سراہا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ان پاکستانی لڑکیوں اور ان کے پورے کنبے کو بھی داد دینی چاہیے کہ جو ترقی، خوش حالی اور عالمی سیاحت کے خواب اس طرح کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ اور کچھ سوچنے، دیکھنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کرتے۔ شادی دو افراد کا نہیں، کم سے کم دو خاندانوں کا معاملہ ہوتا ہے۔
یہ کیسے لوگ ہیں کہ جنھوں نے بس یہ سن کر ایک چینی شخص مسلمان ہوگیا ہے اور ایک مسلمان لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے، اٹھا کر اپنی بہن بیٹیوں کو اس سے بیاہ دیا۔ کسی تفتیش تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس بات پر غور نہیں کیا کہ ان کی بہن بیٹی ایک ایسے ملک میں بیاہ کر جائے گی جس کی زبان، تہذیب، ثقافت اور سماجی زندگی سے وہ قطعی ناواقف ہے۔ وہاں وہ کس طرح رہ پائے گی۔ اس کے جینے کا ڈھب کیا ہوگا اور وہ کن حالات میں رہے گی؟ ہمارے یہاں کے ان لوگوں کو تو یہ بھی معلوم نہ ہوگا کہ چین میں شادی کے بعد نیا جوڑا اگر اولاد کا خواہش مند ہو تو اسے باقاعدہ رجسٹریشن کرانی ہوتی ہے۔ گویا ماں باپ بننے کے لیے انھیں ایک طرح کا اجازت نامہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔
واقعہ اصل میں یہ ہے کہ ہمارے یہاں اب جیتے جاگتے اور بیدار دل، بیدار ذہن کے لوگ بہت تیزی سے کم ہوتے چلے گئے ہیں۔ اب زیادہ تر ہمارے یہاں تو ناآسودہ روحیں پائی جاتی ہیں اور ان گنت محرومیوں کے ساتھ۔ اگر کبھی آپ کو ایسے لوگوں کے پاس بیٹھنے اور ان کی زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ لوگ خواہشوں اور امنگوں کے ہاتھوں گروی رکھے جاچکے ہیں۔ ان کے جسموں میں صدیوں کی پیاس جمع ہے اور روح لاتعداد حسرتوں کے انبوہِ گراں تلے دبی ہوئی سسک رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے، اس کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے۔ بس یہ سمجھ لیجیے، محرومی کی نفسیات ایک بڑی ہول ناک چیز ہے۔ جب آدمی کی نظر میں یہ دنیا بڑی اور وہ خود چھوٹا ہوجاتا ہے تو یہ نفسیات اور زیادہ تباہ کن ہوجاتی ہے۔ جن معاشروں میں یہ ہوتا ہے، وہاں پر اسی قسم کے واقعات جنم لیتے ہیں۔
دنیا کے سارے ترقی یافتہ معاشروں کی طرح چینی سماج میں بھی ذہین اور محنت کش لوگوں کے ساتھ ساتھ ایسا بھی ایک طبقہ پایا جاتا ہے جو جبر اور استحصال کے ہر ممکنہ ذریعے کو اپنی ترقی اور کامیابی کے لیے استعمال کرنے کا خواہاں ہے۔ اچھے برے لوگ ہر سماج میں ہوتے ہیں۔ چین میں بھی ہیں۔ وہاں پر بھی لوٹ مار، چوری، ڈکیتی اور قتل کی وارداتیں ہوتی ہیں۔ تفریحی، تاریخی اور سیاحتی مقامات پر سیاحوں کو جعلی کرنسی دینے کے واقعات تو عام ہیں۔ حکومت ان پر قابو پانے کے اقدامات بھی کرتی ہے۔ جگہ جگہ انتباہ کے نوٹس بورڈ بھی لگے ہوتے ہیں۔
اس کے باوجود جرائم پیشہ لوگ اپنے کاموں کا راستہ نکالتے رہتے ہیں۔ تاہم یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ پورا چین ایسا نہیں ہے۔ دوسرے معاشروں کی طرح چین میں بھی ایسے لوگ چند فی صد سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ اس لیے ایسے کسی واقعے کی بنیاد پر پورے چین کو مجرم سمجھنا درست نہیں۔ چین اس وقت دنیا کا سب سے بڑا تجارتی ملک ہے۔ اس کے باشندے دنیا بھر میں گھومتے پھرتے ہیں۔ اپنے ذاتی رجحان کے تحت وہ اچھا برا کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ان پر نظر رکھنا اور اپنے قانون کے تحت ان کا احتساب کرنا ہر ملک کا حق ہے۔ تاہم ایسے واقعات کو پورے چین کی تضحیک و تذلیل کا جواز بنانا یقینا غلط ہوگا۔
پاکستان میں گذشتہ دو تین برسوں میں ہونے والے جرائم کے پورے منظرنامے کو سامنے رکھا جائے تو اس میں سائبر کرائم اور بینک کے اے ٹی ایم سے جعلی ٹرانزیکشن سے لے کر اس شادی اسکینڈل تک چینی باشندوں کی شمولیت کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ ان پر قابو پانے کے لیے حکومتی سطح پر ایک واضح پالیسی اور اس پر مکمل طور سے عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
تاہم اس کے ساتھ ساتھ عوامی شعور کی بہتری کے بغیر اس نوع کے واقعات کی روک تھام ممکن نہیں۔ حالیہ شادی اسکینڈل کے سلسلے میں پاکستان کے دفترِخارجہ اور چینی حکومت کے ترجمان ادارے نے جس انداز سے اپنے ردِعمل کا اظہار کیا، وہ یقیناً قابلِ ستائش ہے۔ دونوں ملکوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے واقعات کو ہر ممکن طریقے سے روکا جائیگا۔ دونوں ملک ایسے ہر معاملے میں معلومات کا تبادلے اور ہر طرح کے تعاون پر متفق ہیں۔ تاہم یہ بھی کہا گیا کہ افواہوں کے ذریعے دونوں ملکوں کے تعلقات کو خراب کرانے کی کوششوں پر بھی نظر رکھی جائے گی۔ یہ کام حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کے کرنے کا بھی ہے۔ اس لیے کہ یہ ففتھ جنریشن وار فیئر کا زمانہ ہے۔
گذشتہ دنوں ایک خبر نے پاکستان اور چین کے عوامی اور حکومتی دونوں حلقوں میں بہ یک وقت تشویش کی لہر دوڑا دی۔ اس تشویش کی نوعیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں میں حکومتی سطح پر اس خبر کا نوٹس لینا اور اس پر اپنے ردِعمل کا اظہار کرنا ضروری سمجھا گیا۔
خبر یہ تھی کہ چین کے لڑکے یا مرد ہمارے یہاں آکر لڑکیوں سے شادی کرکے انھیں چین لے جارہے ہیں۔ وہاں ان لڑکیوں کو جنسی کاروبار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور جسمانی اعضا بالخصوص گردوں کی فروخت پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک سنگین خبر ہے جسے سن کر کوئی بھی با شعور، با ضمیر شخص غم و غصے اور نفرت کے اظہار سے باز نہیں رہ سکتا۔ اس خبر کی سنگینی میں اس وقت اور اضافہ ہوگیا، جب یکے بعد دیگرے ایسے کئی ایک واقعات سامنے آئے۔ یہ شکایات پہلے پولیس تھانوں تک اور اس کے بعد ایف آئی اے تک پہنچیں۔ ان رپورٹس پر متعلقہ اداروں میں کھلبلی مچی۔ ماتحت عملے نے اس معاملے میں پہلے اپنے اعلیٰ افسران سے رابطہ کیا پھر یہ خبریں ان کے ذریعے اعلیٰ حکام تک پہنچائی گئیں۔ غور و خوض کے بعد کارروائی کا حکم دیا گیا۔
پاکستانی لڑکیوں کے اہلِ خانہ سے تفصیلی معلومات لی گئیں اور ان کی رپورٹ پر چینی باشندے گرفتار کیے گئے۔ یہ گرفتاریاں ملک کے مختلف شہروں میں ہوئیں جن میں لاہور، فیصل آباد، منڈی بہاالدین اور اسلام آباد شامل ہیں۔ چینی باشندوں سے ابتدائی تفتیش کے بعد ان کی نشان دہی پر ان کے کچھ اور ساتھی اور مقامی سہولت کار بھی حراست میں لیے گئے ہیں۔ بعد ازاں ایف آئی آر درج ہوئی۔ ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے مزید تفتیش کے حکم کے ساتھ ملزموں کو جسمانی ریمانڈ پر متعلقہ اداروں کے حوالے کردیا۔ حالیہ اطلاع کے مطابق 79 افراد گرفتار ہیے جا چکے ہیں۔
ٹی وی چینلز نے اس خبر کو پہلی مرتبہ اسی سنجیدگی سے دیکھا اور نشر کیا ہے، لیکن یہ خبر ابھی اچانک سامنے نہیں آئی ہے۔ الیکٹرونک میڈیا پر نشر ہونے میں اسے خاصا وقت لگا۔ لگنا بھی چاہیے تھا۔ اس لیے کہ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا کہ سنی سنائی کے انداز میں اسے آگے بڑھا دیا جائے۔ ذمے داری سے اس کا جائزہ لینے اور چھان پھٹک کرنے کی ضرورت تھی، لیکن میڈیا مالکان اپنے ذرائع سے فی الفور اس کی تصدیق یا تردید کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے تھے کہ یہاں جن خاندانوں نے شکایات درج کرائی ہیں، ان سے رابطہ کرکے تفصیلات حاصل کریں۔ دو چینلز نے اس سلسلے میں خاص طور پر کوشش کی۔ اذیت سے گزرنے والے خاندانوں نے جو واقعات بیان کیے، وہ سخت تکلیف دہ اور حیران کن تھے۔
دونوں چینلز نیوز بریک کرنا چاہتے تھے۔ یقینا اس میں ریٹنگ کا معاملہ بھی تھا، لیکن اس کی باقاعدہ اجازت نہیں مل رہی تھی۔ اس لیے دونوں چینلز ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی خواہش اور کوشش کے باوجود خبر بریک نہیں کرپارہے تھے۔ خبر کی دنیا سے وابستہ افراد یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ بعض خبریں گرین سگنل کے بغیر نشریات کا حصہ نہیں بن پاتیں۔ یہ ایسی ہی ایک خبر تھی۔ پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی معاہدے، ان سے بھی بڑھ کر سی پیک ور اس کے علاوہ عالمی تناظر میں پاکستان کو حاصل چین کی حمایت جیسے معاملات اس خبر کے منظرِعام پر آنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھے۔ ان سب عوامل کے بارے میں یوں تو اب پاکستان کے عوام بھی بہت کچھ جان چکے ہیں، لیکن حکومتی ترجیحات اور حکمتِ عملی کی اہمیت سے تو انکار کیا ہی نہیں جاسکتا۔
ہمارے اداروں اور اربابِ اختیار نے اس سلسلے میں خاصا وقت لیا۔ حالاںکہ سوشل میڈیا نے گزشتہ دو ایک ماہ کے دوران میں اس خبر کو نہ صرف پھیلایا، بلکہ اس حوالے سے تبصرے اور آرا بھی سامنے آئیں، لیکن اس کے باوجود سوشل میڈیا پر اس خبر کو وہ توجہ نہیں مل سکی جو اسے ایک ایسا نیوز آئٹم بنا دے کہ پھر کوئی بھی حکومتی ادارہ اس کے لیے مزاحمت کے لائق ہی نہ رہے۔ اصل میں سنجیدہ اور پڑھا لکھا طبقہ اب سوشل میڈیا کی کسی بھی سرگرمی کو اس وقت تک قابلِ توجہ ہی نہیں سمجھتا جب تک دوسرے ذرائع اس کی تصدیق نہ کریں۔ یقینا یہ درست رویہ بھی ہے۔
اس لیے کہ سوشل میڈیا اپنی ساخت اور مزاج دونوں لحاظ سے کوئی بہت قابلِ اعتبار ذریعہ نہیں ہے۔ پراکسی وار اور ففتھ جنریشن جنگی حکمتِ عملی کے لیے اس کے استعمال ہونے والے حقائق کی تفصیلات نے تو اس میڈیم کے بارے میں ویسے ہی بہت اہم سوالات اٹھا دیے ہیں۔ چناںچہ ضروری ہے کہ عام آدمی بھی اس سلسلے میں ذمے دارانہ کردار ادا کرے۔ اس پر آنے والی کوئی بھی اطلاع ضروری نہیں کہ واقعی اطلاع ہو۔ وہ محض ایک ایسی افواہ بھی ہوسکتی ہے جو خوف، انتشار اور ردِعمل کے حصول کے لیے پھیلائی جارہی ہو۔
اب جب کہ چینی پاکستانی باشندوں کی شادی کی یہ خبر باضابطہ نشر ہوچکی ہے تو اس کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ جھوٹی شادی رچا کر جواں سال لڑکیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ اور ایک ملک سے دوسرے ملک لے جانا کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی اچھنبے کی۔ انسانی اسمگلنگ کی تاریخ سیکڑوں سال پرانی ہے، ابھی لگ بھگ ڈیڑھ صدی پہلے تک اسے کوئی بہت سنگین مسئلہ بھی نہیں سمجھا جاتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے میں قوانین ہونے کے باوجود اُن پر عمل درآمد کی صورتِ حال بہت اطمینان بخش بھی نہیں تھی۔ تاہم اب نہ صرف قوانین بہتر کیے گئے ہیں، بلکہ ان کو مؤثر انداز میں قابلِ عمل بنانے پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ اس کے باوجود انسانی اسمگلنگ پر بھی منشیات کی طرح مکمل طور سے قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ سخت ترین قوانین کے باوجود اس کی مکمل روک تھام کے بارے میں مستقبل قریب کے حالات بھی بہت زیادہ امید افزا نہیں کہے جاسکتے۔ اس لیے کہ اپنے بہیمانہ مقاصد کی تکمیل کے لیے انسان اپنے جیسے دوسرے انسان کا کس کس طرح استحصال کرنے کا راستہ نکال سکتا ہے، اس پر قانون ہی نہیں، اخلاقیات، سماجیات اور نفسیات کے ماہرین بھی اب تک نئے تجربات کو دیکھتے ہوئے افسوس اور استعجاب کا اظہار کرتے ہیں۔
برِصغیر پاک و ہند کا خطہ ایسے واقعات کے لیے اپنی تاریخ کے قدیم ادوار سے زرخیز رہا ہے۔ اس کے دو بنیادی اسباب ہیں۔ ایک تعلیم اور شعور کی کمی اور دوسرے افلاس اور روزمرہ ضرورتوں سے محرومی۔ اکیس ویں صدی تک آتے آتے دنیا بہت بدل چکی ہے۔ یہ حقیقت ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک ناقابلِ رد حقیقت ہے کہ اس خطے میں، بلکہ ساری پس ماندہ دنیا میں آج بھی انسانی استحصال کے امکانات اسی طرح موجود ہیں جیسے گزشتہ صدیوں میں تھے۔ یہ حالات اس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتے، جب تک ان معاشروں کا سماجی ٹیکسچر درحقیقت تبدیل نہیں ہوجاتا۔ ظاہر ہے، ایسا جہالت اور غربت کے خاتمے کے بغیر ہرگز ممکن نہیں ہے۔ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، نائیجیریا، سوڈان، فلپائن، ایتھوپیا اور مشرقِ وسطیٰ کی متعدد ریاستیں اگر آج اس معاملے میں سنجیدہ ہوکر اقدامات کا آغاز کریں تو بھی حالات کی بہتری کے لیے انھیں کئی دہائیوں کا عرصہ درکار ہے۔
چین اس وقت دنیا کی ایک بڑی طاقت بن چکا ہے۔ امریکا اور روس جو ایک زمانے میں روایتی حریف تھے، دنیا کے قطبین میں طاقت کے توازن کا ذریعہ تھے۔ 1979ء میں روس کی یہ حیثیت ختم ہوگئی اور دنیا یک قطبی ہوگئی۔ اب تک ایسا ہی ہے۔ تاہم اس عرصے میں چین بڑی منزل سر کرچکا ہے۔ گو ابھی اسے امریکا کی ہم پلہ طاقت کا مرتبہ حاصل نہیں ہوا ہے، لیکن اب دنیا میں ایک بڑی معاشی طاقت کی حیثیت سے امریکا بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ گزشتہ لگ بھگ ایک دہائی کے عرصے میں امریکا کی اسٹاک مارکیٹ کے سنگین بحران کے دو مواقع ایسے تھے جب چین کی سرمایہ کاری نے اسے سنبھالا دیا۔
اسلحہ سازی کی معیشت میں بھی وہ اب امریکا کے آس پاس ہے اور اس کی مارکیٹ وسیع ہورہی ہے، جب کہ روزمرہ اشیا کی مارکیٹ میں وہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہونے میں بہت زیادہ وقت نہیں لگائے گا۔ جنوبی ایشیا میں اس کی راہ داری کا منصوبہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بن جانے میں اس کے سفر کی رفتار کو جس طرح بڑھائے گا، اس کا اندازہ اب امریکا اور یورپ کے ساتھ اور بھی بہت سے ممالک کو بخوبی ہوچکا ہے۔ چین اپنی حیثیت سے نہ صرف اچھی طرح آگاہ ہے، بلکہ وہ اس کو اپنے مستقبل کے لیے بھی پوری طرح بروئے کار لارہا ہے۔ گزشتہ دنوں اس کے امریکا سے تجارتی مذاکرات کا بے نتیجہ ختم ہوجانا اس کے لیے نہیں، امریکا کے لیے زیادہ سوالات اٹھا رہا ہے۔
طاقت فرد کے پاس ہو یا کسی قوم کے، انسانی سائیکی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ اثرات مختلف صورتوں میں سامنے آتے ہیں، استحصال ان میں سب سے نمایاں مظہر کی حیثیت رکھتا ہے۔ طاقت کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ کسی قاعدے، ضابطے، اصول اور قانون کو مانتی ہے۔ وہ ہر ممکن صورت میں اپنا ہدف حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کا ثبوت درجنوں مرتبہ گزشتہ چار دہائیوں میں امریکی اقدامات اور حکمتِ عملی کے ذیل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس سے پہلے جب برطانیہ کی طاقتِ عظمیٰ کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اس کی تاریخ بھی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ برِصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجروں کی آمد سے جو دور شروع ہوا تھا، اس کی اصل حقیقت اٹھارھویں صدی کے آخری برسوں میں نمایاں طور پر سامنے آچکی تھی۔
1857ء کے بعد تو اس کا نقشہ پورے ہندوستان نے اچھی طرح دیکھ لیا۔ اسی زمانے میں محکوم قوم کے انفرادی اور اجتماعی استحصال کے ان گنت واقعات ہماری تاریخ اور ادب کی کتابوں میں تفصیل سے درج ہیں۔ فاتحین اور طاقت وروں کی تاریخ کے ایسے ہر دور کی طرح اس زمانے میں بھی محکوم ہندوستان کی جواں سال لڑکیاں اور خوش رو عورتیں حاکم فرنگیوں کی توجہ اور التفات کا خاص مرکز تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1947ء میں پاک و ہند کی تقسیم کے وقت انگریز حکم راں صرف زمینی ہی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ پوری ایک اینگلو انڈین نسل بھی چھوڑ کر گئے تھے۔ وہ اس نسل سے غافل یا لاتعلق بھی نہیں تھے، بلکہ وہ اس کے مستقبل کے بارے میں متفکر تھے۔ اس کی تفصیل عاشق حسین بٹالوی کی مرتب کردہ کتاب ''لیکیوڈیشن آف برٹش ایمپائر'' میں درج میں ہے۔
اکیس ویں صدی کی یہ دنیا ہی بیس ویں صدی سے مختلف نہیں ہے، بلکہ ہمارے چینی مہربان بھی فرنگی آقاؤں سے بہت مختلف ہیں۔ یہ اس فرق کا اظہار ہی تو ہے کہ انھوں نے اپنی ساری سرمایہ کاری کے باوجود اہلِ پاکستان سے حاکم و محکوم کا تعلق بنانے کے بجائے وہ رشتہ جوڑنے کی کوشش کی جو ہمیں برابری کا احساس دلائے اور ہمارے لیے جذباتی تسکین کا ذریعہ ہو۔ شادی کا بندھن ہمارے یہاں سماجی حیثیت کے ساتھ مذہبی جذبات کی تسکین کا سامان بھی رکھتا ہے۔ چین کے مردوں نے ہماری اس ذہنی ضرورت کو سمجھ کر ہی یہ طریقہ اختیار کیا ہوگا۔ ان کی اس سوجھ بوجھ کو سراہا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ان پاکستانی لڑکیوں اور ان کے پورے کنبے کو بھی داد دینی چاہیے کہ جو ترقی، خوش حالی اور عالمی سیاحت کے خواب اس طرح کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ اور کچھ سوچنے، دیکھنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کرتے۔ شادی دو افراد کا نہیں، کم سے کم دو خاندانوں کا معاملہ ہوتا ہے۔
یہ کیسے لوگ ہیں کہ جنھوں نے بس یہ سن کر ایک چینی شخص مسلمان ہوگیا ہے اور ایک مسلمان لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے، اٹھا کر اپنی بہن بیٹیوں کو اس سے بیاہ دیا۔ کسی تفتیش تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس بات پر غور نہیں کیا کہ ان کی بہن بیٹی ایک ایسے ملک میں بیاہ کر جائے گی جس کی زبان، تہذیب، ثقافت اور سماجی زندگی سے وہ قطعی ناواقف ہے۔ وہاں وہ کس طرح رہ پائے گی۔ اس کے جینے کا ڈھب کیا ہوگا اور وہ کن حالات میں رہے گی؟ ہمارے یہاں کے ان لوگوں کو تو یہ بھی معلوم نہ ہوگا کہ چین میں شادی کے بعد نیا جوڑا اگر اولاد کا خواہش مند ہو تو اسے باقاعدہ رجسٹریشن کرانی ہوتی ہے۔ گویا ماں باپ بننے کے لیے انھیں ایک طرح کا اجازت نامہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔
واقعہ اصل میں یہ ہے کہ ہمارے یہاں اب جیتے جاگتے اور بیدار دل، بیدار ذہن کے لوگ بہت تیزی سے کم ہوتے چلے گئے ہیں۔ اب زیادہ تر ہمارے یہاں تو ناآسودہ روحیں پائی جاتی ہیں اور ان گنت محرومیوں کے ساتھ۔ اگر کبھی آپ کو ایسے لوگوں کے پاس بیٹھنے اور ان کی زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ لوگ خواہشوں اور امنگوں کے ہاتھوں گروی رکھے جاچکے ہیں۔ ان کے جسموں میں صدیوں کی پیاس جمع ہے اور روح لاتعداد حسرتوں کے انبوہِ گراں تلے دبی ہوئی سسک رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے، اس کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے۔ بس یہ سمجھ لیجیے، محرومی کی نفسیات ایک بڑی ہول ناک چیز ہے۔ جب آدمی کی نظر میں یہ دنیا بڑی اور وہ خود چھوٹا ہوجاتا ہے تو یہ نفسیات اور زیادہ تباہ کن ہوجاتی ہے۔ جن معاشروں میں یہ ہوتا ہے، وہاں پر اسی قسم کے واقعات جنم لیتے ہیں۔
دنیا کے سارے ترقی یافتہ معاشروں کی طرح چینی سماج میں بھی ذہین اور محنت کش لوگوں کے ساتھ ساتھ ایسا بھی ایک طبقہ پایا جاتا ہے جو جبر اور استحصال کے ہر ممکنہ ذریعے کو اپنی ترقی اور کامیابی کے لیے استعمال کرنے کا خواہاں ہے۔ اچھے برے لوگ ہر سماج میں ہوتے ہیں۔ چین میں بھی ہیں۔ وہاں پر بھی لوٹ مار، چوری، ڈکیتی اور قتل کی وارداتیں ہوتی ہیں۔ تفریحی، تاریخی اور سیاحتی مقامات پر سیاحوں کو جعلی کرنسی دینے کے واقعات تو عام ہیں۔ حکومت ان پر قابو پانے کے اقدامات بھی کرتی ہے۔ جگہ جگہ انتباہ کے نوٹس بورڈ بھی لگے ہوتے ہیں۔
اس کے باوجود جرائم پیشہ لوگ اپنے کاموں کا راستہ نکالتے رہتے ہیں۔ تاہم یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ پورا چین ایسا نہیں ہے۔ دوسرے معاشروں کی طرح چین میں بھی ایسے لوگ چند فی صد سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ اس لیے ایسے کسی واقعے کی بنیاد پر پورے چین کو مجرم سمجھنا درست نہیں۔ چین اس وقت دنیا کا سب سے بڑا تجارتی ملک ہے۔ اس کے باشندے دنیا بھر میں گھومتے پھرتے ہیں۔ اپنے ذاتی رجحان کے تحت وہ اچھا برا کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ان پر نظر رکھنا اور اپنے قانون کے تحت ان کا احتساب کرنا ہر ملک کا حق ہے۔ تاہم ایسے واقعات کو پورے چین کی تضحیک و تذلیل کا جواز بنانا یقینا غلط ہوگا۔
پاکستان میں گذشتہ دو تین برسوں میں ہونے والے جرائم کے پورے منظرنامے کو سامنے رکھا جائے تو اس میں سائبر کرائم اور بینک کے اے ٹی ایم سے جعلی ٹرانزیکشن سے لے کر اس شادی اسکینڈل تک چینی باشندوں کی شمولیت کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ ان پر قابو پانے کے لیے حکومتی سطح پر ایک واضح پالیسی اور اس پر مکمل طور سے عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
تاہم اس کے ساتھ ساتھ عوامی شعور کی بہتری کے بغیر اس نوع کے واقعات کی روک تھام ممکن نہیں۔ حالیہ شادی اسکینڈل کے سلسلے میں پاکستان کے دفترِخارجہ اور چینی حکومت کے ترجمان ادارے نے جس انداز سے اپنے ردِعمل کا اظہار کیا، وہ یقیناً قابلِ ستائش ہے۔ دونوں ملکوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے واقعات کو ہر ممکن طریقے سے روکا جائیگا۔ دونوں ملک ایسے ہر معاملے میں معلومات کا تبادلے اور ہر طرح کے تعاون پر متفق ہیں۔ تاہم یہ بھی کہا گیا کہ افواہوں کے ذریعے دونوں ملکوں کے تعلقات کو خراب کرانے کی کوششوں پر بھی نظر رکھی جائے گی۔ یہ کام حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کے کرنے کا بھی ہے۔ اس لیے کہ یہ ففتھ جنریشن وار فیئر کا زمانہ ہے۔