معیشت کی بہتری کے لیے سخت فیصلے کیے جارہے ہیں مشیر خزانہ

شرح نمو کم اور مہنگائی بڑھ رہی ہے، حفیظ شیخ

شرح نمو کم اور مہنگائی بڑھ رہی ہے، حفیظ شیخ۔ فوٹو : فائل

مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ معاشی بحران موجودہ حکومت کو ورثے میں ملا ، پی ٹی آئی حکومت نے معاشی توازن لانے کی سر توڑ کوشش کی تاہم معیشت سابقہ حکومت کے ادوار میں لیے گئے اربوں کھربوں کے قرضوں کی تاب نہ لاسکی۔

آئی ایم ایف معاہدے سے دنیا کو پیغام جائے گا کہ معیشت اور ٹیکس نظام کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے تیار ہیں۔ روپے کی قدر کو مستحکم رکھنا اسٹیٹ بینک کی ذمے داری ہے۔بجٹ میں کوئی نئے ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے۔ جمعرات کو گورنر ہاؤس سندھ میں تاجر برادری ، اسٹاک ایکس چینج سرمایہ کاروں صنعتی انجمنوں کے نمائندوں سے ملاقات کے بعد چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی اور گورنر سندھ کے ہمراہ پریس بریفنگ سے خطاب میں حفیظ شیخ نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر کراچی آیا ہوں، بزنس کمیونٹی کے 60سے زائد نمائندوں سے ملاقات کی ہے اور انھیں ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال، ایمنسٹی اسکیم، آئی ایم ایف پروگرام اور بجٹ اقدامات کے بارے میں اگاہ کیا اور تجاویز بھی لی ہیںجو وزیر اعظم کو پیش کی جائیں گی۔


انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو معاشی بحران ورثے میں ملا پچھلی حکومتوں نے اندرونی قرضہ 31ہزار ارب روپے اور بیرونی قرضے 97 ارب ڈالر تک پہنچادیے تھے اور زرمبادلہ کے ذخائر 18رب ڈالر سے کم ہوکر 10ارب ڈالر رہ گئے تھے اور تجارت کو سالانہ 20ارب ڈالر خسارے کا سامنا تھا، قومی آمدن کی نمو کا سلسلہ تھم گیا تھا اور افراط زر کی شرح تیز ہوگئی تھی۔ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ موجودہ حکومت نے معاشی صورتحال بہتر کرنے کے لیے کافی اقدامات کیے جن کی بدولت تجارتی خسارہ کم ہو اور زرمبادلہ پر پڑنے والے دباؤ کو کم کرنے میں مدد ملی، کمزور طبقے کی معاونت کے لیے تمام سماجی اسکیموں کو ملاکر احساس پروگرام بنایا گیا، گورننس میں بہتری لائی گئی، ان کا کہنا تھا کہ ان تمام اقدامات کے باوجود سابقہ حکومتوں کے بھاری قرضہ واپس بھی کرنا ہیں اور اس سے کسی صورت نہیں بچا جاسکتا ، آئی ایم ایف پروگرام بھی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کے اقدامات کی ایک کڑی ہے آئی ایم ایف پیکیج سے دنیا کو پیغام ملے گا کہ ہم اپنا خسارہ کم کرنا چاہتے ہیں اور اپنی فسکل اور مانیٹری پالیسیوں اور ٹیکس وصولیوں کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے تیار ہیں۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے اثرات غریب عوام اور کمزور طبقہ پر مرتب نہیں ہوں گے، بجلی قیمت بڑھے گی لیکن 300 یونٹس سے کم کھپت والے صارفین متاثر نہیں ہوں گے ، اس مقصد کے لیے 216 ارب روپے رکھے جارہے ہیں۔ آئندہ بجٹ میں سماجی بہبود کے لیے بجٹ 80ارب روپے بڑھا کر 180ارب روپے کیا جارہا ہے، اسی طرح ترقیاتی بجٹ جو 550سے 600ارب روپے کے لگ بھگ ہے اسے بڑھا کر 700سے 800 ارب روپے تک کیا جائے گا تاکہ روزگار کے مواقع مہیا کیے جاسکیں۔ مشیر خزانہ نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو چھپائے گئے اثاثہ جات انتہائی کم ٹیکس پر سفید کرنے کا بہترین موقع قرار دیا۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ کے بارے میں حفیظ شیخ نے کہا کہ بجٹ کی 3 بڑی ترجیحات ہیں جن میں عوام کو مشکل حالات میں بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے وسائل مہیا کرنا ، معاشی بحران سے نکالنا، اخراجات میں کمی اور ٹیکس وصولیاں بڑھانا اور قرضوں کا بوجھ عوام پر کم سے کم رکھنے کی کوشش کرناشامل ہیں۔

مشیر خزانہ نے روپے کی قدر میں مسلسل کمی کے بارے میں کہا کہ لوگ جانتے ہیں کہ حکومت کی نیت کیا ہے، رضا باقر اسٹیٹ بینک کے گورنر مقرر کیے گئے جو دنیا کے مانے ہوئے ماہر معاشیات ہیں، اسی طرح شبر زیدی جو ٹیکس امور میں مہارت رکھتے ہیں انھیں چیئرمین ایف بی آر مقرر کیا گیا اور بااختیار بنایا گیا ہے، ایک سوال پر مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ زرمبادلہ کی قدر کو مستحکم رکھنا اسٹیٹ بینک کی ذمہ داری ہے، اس مقصد کے لیے اسٹیٹ بینک میں کمیٹی اور بورڈ میں اہل افراد موجود ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ پر آئی ایم ایف کی کوئی مداخلت نہیں ہے اور این ایف سی کا آئی ایم ایف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ روپے کی قدر کا تعین اسٹیٹ بینک کی ذمہ داری ہے جس کے لیے اسٹیٹ بینک میں مانیٹر ی پالیسی کمیٹی موجود ہ ہے جو اہل اور باصلاحیت ماہرین پر مشتمل ہے یہ کمیٹی مارکیٹ کی صورتحال کے مطابق روپے کی قدر پر نظر بھی رکھتی ہے اور یہ ذمہ داری ان کے زیر اثر آتا ہے۔
Load Next Story