نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم۔۔۔ پورا آئیڈیا ضروری ہے
اگر آپ لوگوں کو متبادل جگہیں دے سکیں تو ایک ہی علاقے میں ایک ساتھ تین تین ایکڑکے کئی بلاکس پر ایک ساتھ کام کریں۔
HANGU:
18 ستمبر 2017 کو ایکسپریس ٹریبیون میں میرا ایک آرٹیکل شایع ہوا جس کا عنوان تھا '' اینو ویٹو بلڈنگ سلوشنز'' یعنی تخلیقی یا جدت آمیز تعمیراتی آئیڈیاز ۔ اس آرٹیکل میں، میں نے پاکستان بھرکے شہروں میں موجود کچی آبادیوں اورکم آمدنی والے علاقوں کو جدید شہری اور رہائشی سہولیات والے خوبصورت اور سرسبز علاقوں میں بدلنے کا ایک عملی آئیڈیا پیش کیا تھا۔
اس سے پہلے میں کافی عرصے سے پاکستانی شہروں کے افقی کے بجائے عمودی پھیلاؤ کے لیے لکھ رہا تھا اوراس آئیڈیے کا بنیادی خیال بھی یہی تھا کہ شہروں کو بے ہنگم طریقے سے چاروں جانب پھیلانے کے بجائے عمودی سمت یعنی بلندی کی طرف بڑھایا جائے تاکہ شہروں میں انتظامی نظم وضبط ہو اور شہری سہولیات کی بہتر فراہمی ممکن ہوسکے، اسی کے ساتھ جرائم پہ قابو پایا جاسکے۔
بہرحال ایکسپریس ٹریبیون میں چھپنے والے اس آرٹیکل کی اشاعت کے بعد مجھے عارف علوی صاحب کا ٹوئیٹ موصول ہوا جس میں انھوں نے میرے آئیڈیے کی تعریف کی اور کہا کہ وہ بھی اسی طرح کی سوچ رکھتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد جب نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کا اعلان کیا گیا اور وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقاریر میں بار بار کچی آبادیوں کو جدید اور بلند عمارتوں سے تبدیل کرنے کا ذکر کیا تو یہ لگتا ہے کہ صدر مملکت عارف علوی نے وزیر اعظم سے غالباً 18 ستمبر 2017 کے ایکسپریس ٹریبیون کے آرٹیکل میں پیش کیے جانے والے آئیڈیے اور اس کے پلان کو شیئر کیا ہے۔ یہ خوش آیند بات ہے تاہم ضرورت یہ ہے کہ 18 ستمبر 2017 کو جو آئیڈیا میں نے پیش کیا تھا اس پر مکمل طور پر اس کی جزئیات کے ساتھ عمل کیا جائے، یہ آئیڈیا ملک کے لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کی زندگیاں حقیقتاً ایک بہترین انداز میں بدل سکتا ہے۔
آئیڈیا یہ ہے کہ ہمارے شہروں اور قصبوں کی کچی آبادیوں اور کم آمدنی والے علاقوں میں لوگ غیر انسانی حالات میں رہ رہے ہیں، گھر بہت چھوٹے کہ 60 بلکہ 40 گز تک کے ہیں، گھروں میں ہوا کا گزر نہیں جبکہ ایک ایک گھر میں کئی کئی لوگ رہتے ہیں، سیوریج کے پانی سے ابلتی تنگ گلیاں، بجلی گیس کی سہولتیں یا تو عنقا ہیں یا ہیں تو ناقابل اعتبار ہیں اور ان کی چوری عام ہے۔ ان بے قاعدہ بے قابو علاقوں میں جرائم اور جرائم پیشہ فراوانی میں پنپتے ہیں، بچوں خصوصاً بچیوں کا تعلیم کے لیے جانا محال ہے۔ مختلف سیاسی مافیا ووٹ کے لیے ان علاقوں کو ریگولرائز توکردیتے ہیں مگر یہاں کے حالات بہترکرنے پر ایک دھیلا خرچ نہیں ہونے دیتے، سارے کا سارا اپنے پیٹوں میں اتارتے ہیں۔ اس خوفناک صورتحال کو ہمارا یہ آئیڈیا بدل سکتا ہے۔ آئیے ! اس آئیڈیے کو ایک تین ایکڑ کے بلاک کی مثال سے سمجھتے ہیں۔
آپ کچی آبادی یا کم آمدنی والے علاقے کا ایک تین ایکڑکا حصہ منتخب کیجیے۔ یہاں کے رہائشیوں کوکچھ وقت کے لیے متبادل جگہوں پر منتقل کیجیے اور اس تین ایکڑ حصے پر موجود تمام تعمیرات صاف کر دیں۔ تین ایکڑ زمین میں ہوتے ہیں14520 مربع گز۔ اب ان 14520 مربع گز میں سے آپ 6000 مربع گز زمین پر ایک 34 سے لے کر 38 منزلہ تین رہائشی ٹاور تعمیر کیجیے۔ ہر ٹاور میں کم ازکم 300 کشادہ اپارٹمنٹ ہوں گے۔ ان رہائشی ٹاورکی کم از کم 4 سے 5 منزلیں کار پارکنگ کے لیے وقف ہوں گی۔ ایک ہزار مربع گز پر ایک 6 سے 8 منزلہ کمرشل سینٹر تعمیر کیجیے جس کے کم ازکم دو فلور کار پارکنگ کے لیے بنے ہوں گے۔ اب 14520 مربع گز کے اس رقبے کے باقی بچتے ہیں 7520 مربع گز تو ان میں ایک عدد فیملی پارک، اور ایک پلے گراؤنڈ تعمیر کریں جبکہ باقی پراجیکٹ کے چاروں طرف اور درمیان میں خالی جگہ رکھنے کے لیے استعمال کیجیے۔ اس پراجیکٹ کے رہائشی ٹاورز، فیملی پارک اور پلے گراؤنڈ کے گرد باؤنڈری وال ہوگی۔
پراجیکٹ کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی گارڈز ہوں گے جنھیں بلڈر اور رہائشیوں کی یونین کنٹرول کرے گی۔ فیملی پارک اور پلے گراؤنڈ کے بیچ میں لوہے کی باڑ ہوگی جس پر مختلف بیلیں جیسے کہ بوگن ویلیا وغیرہ چڑھائی جائیں گی تاکہ فیملی پارک کی پرائیویسی ہو۔ پارک میں اور پراجیکٹ کے چاروں طرف دیسی درخت مثلاً نیم، گل مہر وغیرہ لگائے جائیں گے۔ جب پراجیکٹ مکمل ہوجائے تو آپ اس علاقے میں رہنے والے رہائشی افراد کو واپس لے آئیں اور انھیں نہایت کم قیمت پر ان رہائشی ٹاورز میں اپارٹمنٹ الاٹ کر دیں جو اپارٹمنٹ باقی بچیں وہ تقریباً مارکیٹ کی قیمت پر دوسرے لوگوں کو فروخت کردیں۔ تین ایکڑ پر مشتمل اس بلاک کی تکمیل کے بعد آپ اگلے تین ایکڑ منتخب کرکے اسی طرح کا پراجیکٹ بنائیں پھر اگلے تین ایکڑ پر اور اس طرح ملک کے مختلف شہروں میں یہ سلسلہ چلتا رہے۔
اگر آپ لوگوں کو متبادل جگہیں دے سکیں تو ایک ہی علاقے میں ایک ساتھ تین تین ایکڑکے کئی بلاکس پر ایک ساتھ کام کریں۔ ہم کیونکہ گنجان آبادی شہری آبادی کو افقی سے عمودی سمت منتقل کر رہے ہوں گے لہٰذا جیسے جیسے ہم یہ پراجیکٹ مکمل کرتے جائیں گے ویسے ویسے ہمیں زیادہ سے زیادہ کھلے خالی علاقے ملتے جائیں گے۔ ہم پھر اس پوزیشن میں ہوں گے کہ ان کھلے علاقوں میں رہائشی کے علاوہ دوسری طرح کے بلاکس بھی ڈویلپ کریں۔ مثلاً ہم ہر علاقے کی آخری حد میں تین ایکڑ کا ایک بلاک گرین انرجی یعنی بجلی گیس وغیرہ کی پیداوار کے لیے رکھ لیں گے جس میں ہم دو طرح کی WEE کمپنیوں کو دعوت دیں گے کہ وہ اپنے پلانٹ لگائیں، ایک پلانٹ کچرے سے توانائی پیدا کرے اور دوسرا انسانی فضلے سے۔ اس طرح ہر علاقے کا کچرا اور انسانی فضلہ پہنچانے کے لیے ہمیں انفرااسٹرکچر اور سسٹم بنانا ہوگا۔ اسی طرح ہم خالی ہوجانے والی زمینوں پر تعلیمی اداروں کے لیے مختص تعلیمی بلاکس بھی بناسکتے ہیں۔
ہر گلی محلے میں چھوٹی چھوٹی مسجدوں کے بجائے بڑی بڑی مسجدوں کے لیے مخصوص بلاکس بنا سکتے ہیں۔ میڈیکل بلاکس بناکر ان میں باقاعدہ پارکنگ کے لیے کئی فلور اور لان اور گارڈن کے ساتھ جدید اسپتال قائم کیے جاسکتے ہیں۔ نہ کہ گلی گلی کھلے دارالصحت جیسے انسان دشمن مافیاؤ کے اسپتال، ہم اسی طرح کمرشل اور انڈسٹریل بلاکس بناسکتے ہیں تاکہ رہائشی علاقوں سے کمرشل اور انڈسٹریل سرگرمیوں کا خاتمہ ہوسکے۔ آبادی کا پھیلاؤ سکڑنے اور نتیجتاً جگہیں خالی ہونے سے ہم شہروں اور قصبوں کی سڑکیں چوڑی کرکے جدید ٹرانسپورٹ چلا سکتے ہیں۔
اس آئیڈیے پر عمل ہونے سے کروڑوں پاکستانی تنگ و تاریک گھٹن زدہ جگہوں کی جگہ روشن ہوا دار جدید سرسبز رہائش اپنا سکیں گے، صحت مند زندگیاں گزار سکیں گے۔ ہمارے انتہائی گنجان آباد آلودہ ترین شہر اور قصبے صاف ستھرے کھلے سرسبز جدید اور نظم و ضبط اور قرینے اور سلیقے سے بنے شہروں میں تبدیل ہو جائیں گے۔ اس آئیڈیے پر عمل درآمد سے لاکھوں لوگوں کو روزگار ملے گا۔ مگر ضروری ہوگا کہ تمام تعمیرات جدید کوالٹی اور قدرتی اور غیر قدرتی آفات سے بچاؤ کی صلاحیت والی ہوں۔ ضروری ہوگا کہ اس سارے سلسلے میں کرپشن اور کک بیکس نہ ہوں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے درخواست ہے کہ وہ 18 ستمبر 2017 کو پیش کیے جانے والے میرے آئیڈیے پر نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم ضرور بنائے مگر ضروری ہے کہ پورے کے پورے آئیڈیے پر عمل کیا جائے۔
18 ستمبر 2017 کو ایکسپریس ٹریبیون میں میرا ایک آرٹیکل شایع ہوا جس کا عنوان تھا '' اینو ویٹو بلڈنگ سلوشنز'' یعنی تخلیقی یا جدت آمیز تعمیراتی آئیڈیاز ۔ اس آرٹیکل میں، میں نے پاکستان بھرکے شہروں میں موجود کچی آبادیوں اورکم آمدنی والے علاقوں کو جدید شہری اور رہائشی سہولیات والے خوبصورت اور سرسبز علاقوں میں بدلنے کا ایک عملی آئیڈیا پیش کیا تھا۔
اس سے پہلے میں کافی عرصے سے پاکستانی شہروں کے افقی کے بجائے عمودی پھیلاؤ کے لیے لکھ رہا تھا اوراس آئیڈیے کا بنیادی خیال بھی یہی تھا کہ شہروں کو بے ہنگم طریقے سے چاروں جانب پھیلانے کے بجائے عمودی سمت یعنی بلندی کی طرف بڑھایا جائے تاکہ شہروں میں انتظامی نظم وضبط ہو اور شہری سہولیات کی بہتر فراہمی ممکن ہوسکے، اسی کے ساتھ جرائم پہ قابو پایا جاسکے۔
بہرحال ایکسپریس ٹریبیون میں چھپنے والے اس آرٹیکل کی اشاعت کے بعد مجھے عارف علوی صاحب کا ٹوئیٹ موصول ہوا جس میں انھوں نے میرے آئیڈیے کی تعریف کی اور کہا کہ وہ بھی اسی طرح کی سوچ رکھتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد جب نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کا اعلان کیا گیا اور وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقاریر میں بار بار کچی آبادیوں کو جدید اور بلند عمارتوں سے تبدیل کرنے کا ذکر کیا تو یہ لگتا ہے کہ صدر مملکت عارف علوی نے وزیر اعظم سے غالباً 18 ستمبر 2017 کے ایکسپریس ٹریبیون کے آرٹیکل میں پیش کیے جانے والے آئیڈیے اور اس کے پلان کو شیئر کیا ہے۔ یہ خوش آیند بات ہے تاہم ضرورت یہ ہے کہ 18 ستمبر 2017 کو جو آئیڈیا میں نے پیش کیا تھا اس پر مکمل طور پر اس کی جزئیات کے ساتھ عمل کیا جائے، یہ آئیڈیا ملک کے لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کی زندگیاں حقیقتاً ایک بہترین انداز میں بدل سکتا ہے۔
آئیڈیا یہ ہے کہ ہمارے شہروں اور قصبوں کی کچی آبادیوں اور کم آمدنی والے علاقوں میں لوگ غیر انسانی حالات میں رہ رہے ہیں، گھر بہت چھوٹے کہ 60 بلکہ 40 گز تک کے ہیں، گھروں میں ہوا کا گزر نہیں جبکہ ایک ایک گھر میں کئی کئی لوگ رہتے ہیں، سیوریج کے پانی سے ابلتی تنگ گلیاں، بجلی گیس کی سہولتیں یا تو عنقا ہیں یا ہیں تو ناقابل اعتبار ہیں اور ان کی چوری عام ہے۔ ان بے قاعدہ بے قابو علاقوں میں جرائم اور جرائم پیشہ فراوانی میں پنپتے ہیں، بچوں خصوصاً بچیوں کا تعلیم کے لیے جانا محال ہے۔ مختلف سیاسی مافیا ووٹ کے لیے ان علاقوں کو ریگولرائز توکردیتے ہیں مگر یہاں کے حالات بہترکرنے پر ایک دھیلا خرچ نہیں ہونے دیتے، سارے کا سارا اپنے پیٹوں میں اتارتے ہیں۔ اس خوفناک صورتحال کو ہمارا یہ آئیڈیا بدل سکتا ہے۔ آئیے ! اس آئیڈیے کو ایک تین ایکڑ کے بلاک کی مثال سے سمجھتے ہیں۔
آپ کچی آبادی یا کم آمدنی والے علاقے کا ایک تین ایکڑکا حصہ منتخب کیجیے۔ یہاں کے رہائشیوں کوکچھ وقت کے لیے متبادل جگہوں پر منتقل کیجیے اور اس تین ایکڑ حصے پر موجود تمام تعمیرات صاف کر دیں۔ تین ایکڑ زمین میں ہوتے ہیں14520 مربع گز۔ اب ان 14520 مربع گز میں سے آپ 6000 مربع گز زمین پر ایک 34 سے لے کر 38 منزلہ تین رہائشی ٹاور تعمیر کیجیے۔ ہر ٹاور میں کم ازکم 300 کشادہ اپارٹمنٹ ہوں گے۔ ان رہائشی ٹاورکی کم از کم 4 سے 5 منزلیں کار پارکنگ کے لیے وقف ہوں گی۔ ایک ہزار مربع گز پر ایک 6 سے 8 منزلہ کمرشل سینٹر تعمیر کیجیے جس کے کم ازکم دو فلور کار پارکنگ کے لیے بنے ہوں گے۔ اب 14520 مربع گز کے اس رقبے کے باقی بچتے ہیں 7520 مربع گز تو ان میں ایک عدد فیملی پارک، اور ایک پلے گراؤنڈ تعمیر کریں جبکہ باقی پراجیکٹ کے چاروں طرف اور درمیان میں خالی جگہ رکھنے کے لیے استعمال کیجیے۔ اس پراجیکٹ کے رہائشی ٹاورز، فیملی پارک اور پلے گراؤنڈ کے گرد باؤنڈری وال ہوگی۔
پراجیکٹ کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی گارڈز ہوں گے جنھیں بلڈر اور رہائشیوں کی یونین کنٹرول کرے گی۔ فیملی پارک اور پلے گراؤنڈ کے بیچ میں لوہے کی باڑ ہوگی جس پر مختلف بیلیں جیسے کہ بوگن ویلیا وغیرہ چڑھائی جائیں گی تاکہ فیملی پارک کی پرائیویسی ہو۔ پارک میں اور پراجیکٹ کے چاروں طرف دیسی درخت مثلاً نیم، گل مہر وغیرہ لگائے جائیں گے۔ جب پراجیکٹ مکمل ہوجائے تو آپ اس علاقے میں رہنے والے رہائشی افراد کو واپس لے آئیں اور انھیں نہایت کم قیمت پر ان رہائشی ٹاورز میں اپارٹمنٹ الاٹ کر دیں جو اپارٹمنٹ باقی بچیں وہ تقریباً مارکیٹ کی قیمت پر دوسرے لوگوں کو فروخت کردیں۔ تین ایکڑ پر مشتمل اس بلاک کی تکمیل کے بعد آپ اگلے تین ایکڑ منتخب کرکے اسی طرح کا پراجیکٹ بنائیں پھر اگلے تین ایکڑ پر اور اس طرح ملک کے مختلف شہروں میں یہ سلسلہ چلتا رہے۔
اگر آپ لوگوں کو متبادل جگہیں دے سکیں تو ایک ہی علاقے میں ایک ساتھ تین تین ایکڑکے کئی بلاکس پر ایک ساتھ کام کریں۔ ہم کیونکہ گنجان آبادی شہری آبادی کو افقی سے عمودی سمت منتقل کر رہے ہوں گے لہٰذا جیسے جیسے ہم یہ پراجیکٹ مکمل کرتے جائیں گے ویسے ویسے ہمیں زیادہ سے زیادہ کھلے خالی علاقے ملتے جائیں گے۔ ہم پھر اس پوزیشن میں ہوں گے کہ ان کھلے علاقوں میں رہائشی کے علاوہ دوسری طرح کے بلاکس بھی ڈویلپ کریں۔ مثلاً ہم ہر علاقے کی آخری حد میں تین ایکڑ کا ایک بلاک گرین انرجی یعنی بجلی گیس وغیرہ کی پیداوار کے لیے رکھ لیں گے جس میں ہم دو طرح کی WEE کمپنیوں کو دعوت دیں گے کہ وہ اپنے پلانٹ لگائیں، ایک پلانٹ کچرے سے توانائی پیدا کرے اور دوسرا انسانی فضلے سے۔ اس طرح ہر علاقے کا کچرا اور انسانی فضلہ پہنچانے کے لیے ہمیں انفرااسٹرکچر اور سسٹم بنانا ہوگا۔ اسی طرح ہم خالی ہوجانے والی زمینوں پر تعلیمی اداروں کے لیے مختص تعلیمی بلاکس بھی بناسکتے ہیں۔
ہر گلی محلے میں چھوٹی چھوٹی مسجدوں کے بجائے بڑی بڑی مسجدوں کے لیے مخصوص بلاکس بنا سکتے ہیں۔ میڈیکل بلاکس بناکر ان میں باقاعدہ پارکنگ کے لیے کئی فلور اور لان اور گارڈن کے ساتھ جدید اسپتال قائم کیے جاسکتے ہیں۔ نہ کہ گلی گلی کھلے دارالصحت جیسے انسان دشمن مافیاؤ کے اسپتال، ہم اسی طرح کمرشل اور انڈسٹریل بلاکس بناسکتے ہیں تاکہ رہائشی علاقوں سے کمرشل اور انڈسٹریل سرگرمیوں کا خاتمہ ہوسکے۔ آبادی کا پھیلاؤ سکڑنے اور نتیجتاً جگہیں خالی ہونے سے ہم شہروں اور قصبوں کی سڑکیں چوڑی کرکے جدید ٹرانسپورٹ چلا سکتے ہیں۔
اس آئیڈیے پر عمل ہونے سے کروڑوں پاکستانی تنگ و تاریک گھٹن زدہ جگہوں کی جگہ روشن ہوا دار جدید سرسبز رہائش اپنا سکیں گے، صحت مند زندگیاں گزار سکیں گے۔ ہمارے انتہائی گنجان آباد آلودہ ترین شہر اور قصبے صاف ستھرے کھلے سرسبز جدید اور نظم و ضبط اور قرینے اور سلیقے سے بنے شہروں میں تبدیل ہو جائیں گے۔ اس آئیڈیے پر عمل درآمد سے لاکھوں لوگوں کو روزگار ملے گا۔ مگر ضروری ہوگا کہ تمام تعمیرات جدید کوالٹی اور قدرتی اور غیر قدرتی آفات سے بچاؤ کی صلاحیت والی ہوں۔ ضروری ہوگا کہ اس سارے سلسلے میں کرپشن اور کک بیکس نہ ہوں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے درخواست ہے کہ وہ 18 ستمبر 2017 کو پیش کیے جانے والے میرے آئیڈیے پر نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم ضرور بنائے مگر ضروری ہے کہ پورے کے پورے آئیڈیے پر عمل کیا جائے۔