ذمہ دار حکومت بھی ہے

حجاموں کو بھی ایسے لٹیروں میں شامل کیا جاسکتا ہے جو درزیوں کی طرح ہر سال نرخ بڑھانا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔

ملک کے مختلف علاقوں سے خبریں میڈیا میں آتی رہتی ہیں کہ معمولی بات پر فلاں قتل کردیا گیا یا چند روپوں کی خاطر کسی کی جان لے لی گئی۔ مشہورکالم نگار جاوید چوہدری نے گزشتہ دنوں اپنے ایک کالم میں بیس روپے کی خاطر ایک 22 سالہ پنکچر لگانے والے کے قتل کا ذکر کیا تھا اور اپنے ایک واقف کار جج کا حوالہ دیا تھا جن کا کہنا تھا کہ قتل کے ایسے واقعات میں خود قتل ہونے والا بھی ذمے دار ہوتا ہے جسے قتل ہوکر اپنے کسی کیے کی سزا مل جاتی ہے جبکہ قاتل فرار ہو جاتا ہے یا پکڑا نہیں جاتا اور اگر پکڑا بھی جائے تو اسے قتل کی سزا ملنے میں سالوں لگ جاتے ہیں ۔طویل عرصے کے بعد ہونے والے عدالتی فیصلے میں شہادتیں کمزور یا ضایع ہونے کی وجہ سے اکثر قاتل چھوٹ بھی جاتے ہیں اور آزاد پھرتے ہیں۔

کالم نگار اور فاضل جج صاحبان کا یہ موقف درست بھی ہے کہ قتل کی وارداتوں میں وجہ قتل غصہ، عدم برداشت، توہین و بے عزتی کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے اور تحمل، رواداری، بداخلاقی اور وقتی اشتعال بھی قتل جیسے انتہائی اقدام کا سبب بنتا ہے اور انجام جاننے کے باوجود انتہائی اقدام سے گریز نہیں کیا جاتا۔ سب کو پتا ہے کہ ہم جنگلی معاشرے میں نہیں بلکہ مہذب کہلانے والے ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں اخلاقی اصولوں کے ساتھ ہر جرم کی سزا مقرر ہے اور جرم کرنے والا قانونی سزا ضرور پاتا ہے اور قتل جیسے جرم کو تو ہمارے مذہب اسلام میں ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا جاتا ہے جس کی معافی قیامت میں بھی ممکن نہیں اور دنیاوی قانون میں بھی مقتول کے ورثا کو قتل معاف کرنے کا حق بھی حاصل ہے مگر عدالتی سزا کے بعد ملک کے صدر مملکت کو بھی قاتل کی سزا معاف کرنے یا عمر قید میں تبدیل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اور حکومت کی دلچسپی ہو تو قاتل کو بچا بھی لیا جاتا ہے۔

لاہور میں قتل کا جو واقعہ ہوا اس میں مقتول نے صبح صبح محض 20 روپے کے لیے قاتل سے تکرار نہ کی ہوتی اور وہ اپنے 20 روپے کی بجائے اپنی جان کا خیال کرلیتا یا قاتل ہی زائد وصول کیے جانے والے 20 روپے کا نقصان برداشت کرلیتا تو محض 20 روپے کی وجہ سے نوجوان کی جان محفوظ رہ سکتی تھی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ واقعہ کسی فوری اشتعال کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ مقتول کو منہ ماری کے بعد سزا چھ روز بعد دی گئی اور قاتل نے چھ روز بعد آکر مقتول کو سزا دی کہ اس نے 20 روپے کی خاطر چھ روز بعد ذوالفقار کو قتل کرنا ضروری سمجھا۔ غصہ اور اشتعال چھ دن تک برقرار رہنے کا شاید یہ پہلا واقعہ ہے کہ قاتل نے 6 روز گزرنے کے بعد بھی 20 روپے کے لیے کسی کی جان لینا ضروری سمجھا۔

راقم الحروف نے 15 سال قبل یہ تپے ہوئے لوگ کے نام سے ایکسپریس میں اپنے ایک کالم میں ذکر کیا گیا تھا کہ سرکاری محکموں میں عوام کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا جاتا ہے وہ توہین آمیز ہوتا ہے جو برداشت نہیں ہوتا تو بعض لوگ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ پہلے ٹیلیفون سرکاری ادارہ تھا اور فون کے میٹر متعلقہ ٹیلیفون ایکسچینج میں لگے ہوتے تھے اور اس وقت سب سے زیادہ شکایات ٹیلی فون کے بلوں کی ہوتی تھیں اور فون دفاتر میں ایسا ہی رش ہوتا تھا جیسا رش آج کل بجلی اور گیس کے دفاتر میں ہوتا ہے۔


پہلے متعلقہ فون آفیسر کے دفتر کے پاس شکایتیں کرنے والوں کا ہجوم ہوتا تھا اب بجلی گیس کے دفاتر جدید ہوگئے ہیں جہاں مشین سے پرچی لے کر اپنے نمبر کا انتظار بڑے شہروں میں اے سی دفتروں میں کرنا پڑتا ہے جہاں سیکیورٹی گارڈ بھی مسلح ہوتے ہیں اور ٹھنڈے ماحول اور مسلح سیکیورٹی گارڈز کے باعث عوام انتظار کے عادی ہوگئے ہیں اور کاؤنٹرز پر افسروں کی بجائے ٹرینڈ کلرک بیٹھے ہوتے ہیں جو شکایتیں کرنے والوں کی داد رسی کی بجائے شکایتیں دور کرنے کی بجائے محض دلاسے دیتے ہیں مگر اب بجلی و گیس بلوں کی بڑھتی ہوئی شکایات کے باعث وہاں بھی لوگ مشتعل ہوکر احتجاج پر مجبور ہوگئے ہیں۔ حکومت نے اگر اس طرف توجہ نہ دی تو گیس و بجلی کے دفاتر میں بھی خونریز واقعات پیش آسکتے ہیں کیونکہ اب ان دفاتر میں عوام کی شنوائی نہیں ہو رہی۔ آج کل ہر جگہ لٹیروں کی بھرمار ہے۔ لوٹ مار صرف اسلحہ دکھا کر ہی نہیں ہوتی آج بازاروں، دکانوں پر بھی لٹیرے بیٹھے ہیں جو خریداروں کو اسلحہ دکھائے بغیر دن دہاڑے لوٹ رہے ہیں۔

مارکیٹوں میں اشیائے خوردنی کے کہیں کہیں سرکاری نرخ مقرر ہوتے ہیں اور یہ الگ بات کہ ان پر عمل عام دنوں میں کیا رمضان المبارک میں بھی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے خریدار اور دکانداروں میں نرخوں پر تکرار معمول بن چکی ہے اور بعض اوقات نرخوں کے یہ جھگڑے خونریز بھی ہوجاتے ہیں اور میڈیا کی خبر بھی بن جاتے ہیں حکومت کو ان کے بھی نرخ مقرر کرنے چاہئیں۔ ایسے بہت سے کام ہیں۔

جہاں سرکاری نرخوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ایسے لٹیروں میں سڑکوں پر پنکچر لگانے والے ہی نہیں حجامتیں کرنے والے، سبزیاں، پھل، کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والے بھی شامل ہیں۔ لوگوں کی عادت ہے کہ وہ کھانے پینے کی خریداری یا استعمال پر نرخوں پر تکرار کم ہی کرتے ہیں مگر پنکچر لگوانے کی مجبوری کے ساتھ کسی کی بائیک یا گاڑی خراب ہوجائے تو وہ پریشانی اور مجبوری میں قریبی پنکچر شاپ یا آٹو ورکشاپ اور مکینک تلاش کرتا ہے جو اس کی مجبوری ہوتی ہے اور متعلقہ لوگ اس کی اس مجبوری کا بھرپور فائدہ اٹھا کر منہ مانگے کی اجرت طلب کرکے مجبوروں کو مشتعل کرتے ہیں اور ان کی کھال تک اتارنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ مجبوری میں کرائے گئے ایسے کاموں کی اجرت سرکاری طور پر مقرر نہیں ہوتی۔ مجبوری میں ڈلوائی جانے والی نئی ٹیوب سو روپے تک مہنگی بتا کر مجبور کو لوٹا جاتا ہے۔ پنکچر لگانے والے گاڑیاں ٹھیک کرنے والے لوگوں کی مجبوری کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔

حجاموں کو بھی ایسے لٹیروں میں شامل کیا جاسکتا ہے جو درزیوں کی طرح ہر سال نرخ بڑھانا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کے کاموں میں ان کی لاگت کم اور ہاتھ ہی استعمال ہوتے ہیں مگر ان کی سرکاری طور کوئی اجرت مقرر نہیں۔ ریڑھیوں پر کاروبار کرنے والے غریب کہلاتے ہیں اور غریبوں کو لوٹنا اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا ذکر اب عدلیہ میں بھی ہوا ہے جہاں انھیں بھی لٹیرا کہا گیا کیونکہ یہ غریب کہلا کر غریبوں کو اس لیے لوٹتے ہیں کہ حکومتوں نے انھیں کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ ایسے لوگوں میں کارپینٹر، دیہاڑی پر کام کرنے والے مستری و مزدور بھی شامل ہیں۔ ایسے لوگوں اور کاموں کے سرکاری نرخ مقرر نہ ہونے سے ہی یہ لوٹ مار جاری ہے۔
Load Next Story