اب نزدیک سویرا ہے
مہنگائی پہ مہنگائی ہو رہی ہے مگر رستے، گلیاں، سڑکیں خاموش ہیں۔ یہ خاموشی بڑی معنی خیز ہے۔
صاحبو! بات صرف اتنی سی ہے کہ ہمارے اربوں،کھربوں پتی لوگوں کو ذرہ برابر احساس نہیں ہوتا کہ ان کے سامنے غریب لوگ کتنے مرے حالوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارے یہ امیرکبیر لوگ، بقول ان کے یہ سب مال ودولت انھیں اللہ نے دی ہے، چلو ذرا دیر کو یہ بات مان لیتے ہیں، تو کیا یہ اللہ کے عطا کردہ مال و دولت کا عشر عشیر بھی غریبوں کو نہیں دے سکتے؟
بے تکی شاخوں کی چھٹائی کی جائے تو نئی نئی تازہ کونپلیں نکلتی ہیں اور باڑھ بھی خوشنما لگنے لگتی ہے۔ مگر یہ اربوں کھربوں پتی لوگ باڑھ کی چھٹائی کرکے کٹی ہوئی جھاڑیاں بھی بیچ کھاتے ہیں۔ ان ''اللہ کے منظور نظر'' امیرکبیر لوگوں کے سامنے غریب نیلے،کالے، زرد رنگ کے کپڑے پہنے گھومتا ہے، پاؤں میں ٹوٹی پھوٹی چپل ، ٹوٹے پھوٹے گھروں میں رہتا ہے اور یہ اللہ کے منظور نظر اعلیٰ سفید لباس پہنے، عمدہ جوتی پاؤں میں، ان غریبوں کے سامنے گھومتا پھرتا ہے اور ان کی غربت پر خوش ہوتا ہے۔
خود اونچی کرسی پر بیٹھتا ہے اور غریب زمین پر بیٹھتا ہے۔ اونچے گھروں کی مضبوط چار دیواری کے رہنے والوں کو گھاس پھوس اور بے آسرا کچے گھروں کو دیکھ کر ''اپنا اللہ'' یاد آجاتا ہوگا اور یہ اپنے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوں گے کہ ''اے ہمارے اللہ ہم پر تیری رحمتیں ہیں کرم ہیں اور یہ غریب غربا جانے کس جرم کی پائی ہے سزا ان لوگوں نے۔''
''اپنے اللہ'' کے شکرگزار رہیں، مگر انھیں یہ تو نہیں کرنا چاہیے کہ یہ غریبوں کو زنجیروں سے باندھ کر اپنی نجی جیلوں میں رکھیں، بندوقوں کے پہرے میں ان سے بیگار لیں ، انھیں بلاقصور ماریں پیٹیں ، سر عام ان کی تذلیل کریں، ان کی عورتوں کی عزتیں لوٹیں، اپنی عدالتیں لگا کر فیصلے کریں اور اپنی سزائیں دیں۔ یہ سب تو نہ کریں۔ یہ غریب تو ویسے ہی بڑے برے اور سخت حالات میں زندگی گزارتے ہیں۔ یہ غریب بیمار ہوجائیں تو ان کے لیے کوئی اسپتال نہیں، جہاں دوا دارو اور ڈاکٹر ہوں۔ یہ بے چارے کھانستے، خون تھوکتے مر کھپ جاتے ہیں، ان غریبوں کو سارا سال کھیتوں، فصلوں کی حفاظت کا معاوضہ نہیں دیا جاتا، اور یہ ''اللہ کے منظور نظر'' امیر کبیر لوگوں کے دروازے پر دست سوال لیے حاضر رہتے ہیں، اور اربوں کھربوں پتیوں کی مرضی ہے کہ وہ غریب کی جھولی میں کچھ خیرات ڈال دے یا انھیں ذلیل کرکے خالی ہاتھ واپس بھیج دے۔ یہ غریب چاہنے کے باوجود اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلا سکتے، ان غریبوں کے لیے دکھاؤے والے اسکول گاؤں گوٹھوں میں بنائے جاتے ہیں، مگر ان اسکولوں میں ''اللہ کے منظور نظر'' جاگیرداروں، زمینداروں، وڈیروں، خانوں، سرداروں کے گھوڑے، گدھے، گائے، بھینسیں باندھی جاتی ہیں اور اسکول ٹیچر کاغذوں پر درج بھاری تنخواہیں لیتے ہیں۔
یہ ٹیچر بھی انھی امیروں کبیروں کے اپنے لوگ ہوتے ہیں۔ یہی امیر کبیر لوگ ملک پر حکمرانی کرتے ہیں، یہی ''اللہ کے منظور نظر'' اسمبلیوں میں بیٹھتے ہیں، یہی وزیر اعظم، صدر، گورنر، وزیر اعلیٰ، وزیر، سفیر، مشیر بنتے ہیں۔ غریب کا ووٹ بھی انھی امیروں کبیروں کا حق ہوتا ہے۔ حزب اختلاف میں بھی یہی امیر کبیر ہوتے ہیں۔ اقتدار اور اختلاف میں خوب دھما چوکڑی مچتی ہے۔ کھیل تماشے ہوتے ہیں، دھینگا مشتی، گالی گلوچ، ہلکی پھلکی ہاتھا پائی بھی ہوجاتی ہے، مگر غریب کے حق میں اقدار اور اختلاف کچھ نہیں کرتے۔ہاں البتہ اگر اپنی مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کرنا ہو تو یہ دونوں دھڑے سارے لڑائی جھگڑے ایک طرف رکھ کر باہم شیر و شکر ہوجاتے ہیں اور بھوکے ننگے غریب عوام کے پیسوں سے اپنی تنخواہیں اور مراعات میں اضافہ کرلیتے ہیں۔
یہ ''نظام'' قیام پاکستان سے ہی چلا آرہا ہے ہر حکمران نے اپنا گھر بھرا اور جاتے ہوئے اقتدار اپنے ساتھی کو دے گیا اور آنے والے حکمران نے بھی لوٹ مار کو جاری رکھا اور نتیجہ یہ نکلا کہ
جو لوگ جھونپڑیوں میں پڑے تھے پڑے رہے
کچھ اور اہل زر نے بنا لیں عمارتیں
جالب غریب عوام کا شاعر تھا، وہ چہرے بے نقاب کرتا رہا، سچ بیان کرتا رہا، مگر غریب کے مقابل ''امیر'' بہت طاقتور تھے، بندوقیں بھی ان کے پاس تھیں اور محراب و منبر بھی ان کے ساتھ تھے ، مجاور اور خانقاہیں بھی انھی امیروں کا دم بھرتی تھیں، عمارتیں بنا بنا کر جب امیر لوگ اکتا گئے تو انھوں نے فارم ہاؤسز بنانا شروع کردیے۔ آج یہ حال ہے کہ امیروں کبیروں، زمینداروں کے علاوہ صنعت کاروں کے بھی فارم ہاؤسز موجود ہیں۔ اقتدار اور اختلاف والے دونوں ہی کو فارم ہاؤسز کی نعمت حاصل ہے۔ کیا یہ ثبوت کافی نہیں کہ یہ فارم ہاؤسز والے بھی غریب کے حق پر ڈاکہ مارنے والے ڈاکو ہیں۔ یہ غریب کا سکھ چین لوٹنے والے ایک بڑا آسیب ہے، بلا ہے جس نے اپنے مضبوط خونی پنجوں میں غریبوں کو جکڑ رکھا ہے۔ مگر ساحر کی ''وہ صبح کبھی تو آئے گی'' یہی آس لیے ہم جی رہے ہیں۔ ہم سے پہلے بھی بہت سے لوگ سچ کی راہوں پر چلتے رہے اور امر ہوگئے۔ ہم بھی انھی راہوں پر چلتے چلتے آخر چلے جائیں گے اور ہمارا نام بھی انھی کے ساتھ لیا جائے گا۔ ہمارے ملک پاکستان میں قابض آسیب بہت مضبوط ہے، مگر ہمیں یقین ہے بہت جلد یہ آسیب اپنے برے انجام کو پہنچے گا، ضرور پہنچے گا۔
مہنگائی پہ مہنگائی ہو رہی ہے مگر رستے، گلیاں، سڑکیں خاموش ہیں۔ یہ خاموشی بڑی معنی خیز ہے۔ یہ خاموشی ٹوٹی تو پھر آخری معرکہ ہی ہوگا۔ ابھی عوام نتیجے کے منتظر ہیں کہ ''لوٹی ہوئی دولت'' کا کیا بناتا ہے۔ جس دن یہ فیصلہ سامنے آگیا اسی دن کا بس انتظار ہے اور ہم عوام خوب جانتے ہیں کہ:
ظلم کی رات رہے گی کب تک
اب نزدیک سویرا ہے
بے تکی شاخوں کی چھٹائی کی جائے تو نئی نئی تازہ کونپلیں نکلتی ہیں اور باڑھ بھی خوشنما لگنے لگتی ہے۔ مگر یہ اربوں کھربوں پتی لوگ باڑھ کی چھٹائی کرکے کٹی ہوئی جھاڑیاں بھی بیچ کھاتے ہیں۔ ان ''اللہ کے منظور نظر'' امیرکبیر لوگوں کے سامنے غریب نیلے،کالے، زرد رنگ کے کپڑے پہنے گھومتا ہے، پاؤں میں ٹوٹی پھوٹی چپل ، ٹوٹے پھوٹے گھروں میں رہتا ہے اور یہ اللہ کے منظور نظر اعلیٰ سفید لباس پہنے، عمدہ جوتی پاؤں میں، ان غریبوں کے سامنے گھومتا پھرتا ہے اور ان کی غربت پر خوش ہوتا ہے۔
خود اونچی کرسی پر بیٹھتا ہے اور غریب زمین پر بیٹھتا ہے۔ اونچے گھروں کی مضبوط چار دیواری کے رہنے والوں کو گھاس پھوس اور بے آسرا کچے گھروں کو دیکھ کر ''اپنا اللہ'' یاد آجاتا ہوگا اور یہ اپنے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوں گے کہ ''اے ہمارے اللہ ہم پر تیری رحمتیں ہیں کرم ہیں اور یہ غریب غربا جانے کس جرم کی پائی ہے سزا ان لوگوں نے۔''
''اپنے اللہ'' کے شکرگزار رہیں، مگر انھیں یہ تو نہیں کرنا چاہیے کہ یہ غریبوں کو زنجیروں سے باندھ کر اپنی نجی جیلوں میں رکھیں، بندوقوں کے پہرے میں ان سے بیگار لیں ، انھیں بلاقصور ماریں پیٹیں ، سر عام ان کی تذلیل کریں، ان کی عورتوں کی عزتیں لوٹیں، اپنی عدالتیں لگا کر فیصلے کریں اور اپنی سزائیں دیں۔ یہ سب تو نہ کریں۔ یہ غریب تو ویسے ہی بڑے برے اور سخت حالات میں زندگی گزارتے ہیں۔ یہ غریب بیمار ہوجائیں تو ان کے لیے کوئی اسپتال نہیں، جہاں دوا دارو اور ڈاکٹر ہوں۔ یہ بے چارے کھانستے، خون تھوکتے مر کھپ جاتے ہیں، ان غریبوں کو سارا سال کھیتوں، فصلوں کی حفاظت کا معاوضہ نہیں دیا جاتا، اور یہ ''اللہ کے منظور نظر'' امیر کبیر لوگوں کے دروازے پر دست سوال لیے حاضر رہتے ہیں، اور اربوں کھربوں پتیوں کی مرضی ہے کہ وہ غریب کی جھولی میں کچھ خیرات ڈال دے یا انھیں ذلیل کرکے خالی ہاتھ واپس بھیج دے۔ یہ غریب چاہنے کے باوجود اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلا سکتے، ان غریبوں کے لیے دکھاؤے والے اسکول گاؤں گوٹھوں میں بنائے جاتے ہیں، مگر ان اسکولوں میں ''اللہ کے منظور نظر'' جاگیرداروں، زمینداروں، وڈیروں، خانوں، سرداروں کے گھوڑے، گدھے، گائے، بھینسیں باندھی جاتی ہیں اور اسکول ٹیچر کاغذوں پر درج بھاری تنخواہیں لیتے ہیں۔
یہ ٹیچر بھی انھی امیروں کبیروں کے اپنے لوگ ہوتے ہیں۔ یہی امیر کبیر لوگ ملک پر حکمرانی کرتے ہیں، یہی ''اللہ کے منظور نظر'' اسمبلیوں میں بیٹھتے ہیں، یہی وزیر اعظم، صدر، گورنر، وزیر اعلیٰ، وزیر، سفیر، مشیر بنتے ہیں۔ غریب کا ووٹ بھی انھی امیروں کبیروں کا حق ہوتا ہے۔ حزب اختلاف میں بھی یہی امیر کبیر ہوتے ہیں۔ اقتدار اور اختلاف میں خوب دھما چوکڑی مچتی ہے۔ کھیل تماشے ہوتے ہیں، دھینگا مشتی، گالی گلوچ، ہلکی پھلکی ہاتھا پائی بھی ہوجاتی ہے، مگر غریب کے حق میں اقدار اور اختلاف کچھ نہیں کرتے۔ہاں البتہ اگر اپنی مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کرنا ہو تو یہ دونوں دھڑے سارے لڑائی جھگڑے ایک طرف رکھ کر باہم شیر و شکر ہوجاتے ہیں اور بھوکے ننگے غریب عوام کے پیسوں سے اپنی تنخواہیں اور مراعات میں اضافہ کرلیتے ہیں۔
یہ ''نظام'' قیام پاکستان سے ہی چلا آرہا ہے ہر حکمران نے اپنا گھر بھرا اور جاتے ہوئے اقتدار اپنے ساتھی کو دے گیا اور آنے والے حکمران نے بھی لوٹ مار کو جاری رکھا اور نتیجہ یہ نکلا کہ
جو لوگ جھونپڑیوں میں پڑے تھے پڑے رہے
کچھ اور اہل زر نے بنا لیں عمارتیں
جالب غریب عوام کا شاعر تھا، وہ چہرے بے نقاب کرتا رہا، سچ بیان کرتا رہا، مگر غریب کے مقابل ''امیر'' بہت طاقتور تھے، بندوقیں بھی ان کے پاس تھیں اور محراب و منبر بھی ان کے ساتھ تھے ، مجاور اور خانقاہیں بھی انھی امیروں کا دم بھرتی تھیں، عمارتیں بنا بنا کر جب امیر لوگ اکتا گئے تو انھوں نے فارم ہاؤسز بنانا شروع کردیے۔ آج یہ حال ہے کہ امیروں کبیروں، زمینداروں کے علاوہ صنعت کاروں کے بھی فارم ہاؤسز موجود ہیں۔ اقتدار اور اختلاف والے دونوں ہی کو فارم ہاؤسز کی نعمت حاصل ہے۔ کیا یہ ثبوت کافی نہیں کہ یہ فارم ہاؤسز والے بھی غریب کے حق پر ڈاکہ مارنے والے ڈاکو ہیں۔ یہ غریب کا سکھ چین لوٹنے والے ایک بڑا آسیب ہے، بلا ہے جس نے اپنے مضبوط خونی پنجوں میں غریبوں کو جکڑ رکھا ہے۔ مگر ساحر کی ''وہ صبح کبھی تو آئے گی'' یہی آس لیے ہم جی رہے ہیں۔ ہم سے پہلے بھی بہت سے لوگ سچ کی راہوں پر چلتے رہے اور امر ہوگئے۔ ہم بھی انھی راہوں پر چلتے چلتے آخر چلے جائیں گے اور ہمارا نام بھی انھی کے ساتھ لیا جائے گا۔ ہمارے ملک پاکستان میں قابض آسیب بہت مضبوط ہے، مگر ہمیں یقین ہے بہت جلد یہ آسیب اپنے برے انجام کو پہنچے گا، ضرور پہنچے گا۔
مہنگائی پہ مہنگائی ہو رہی ہے مگر رستے، گلیاں، سڑکیں خاموش ہیں۔ یہ خاموشی بڑی معنی خیز ہے۔ یہ خاموشی ٹوٹی تو پھر آخری معرکہ ہی ہوگا۔ ابھی عوام نتیجے کے منتظر ہیں کہ ''لوٹی ہوئی دولت'' کا کیا بناتا ہے۔ جس دن یہ فیصلہ سامنے آگیا اسی دن کا بس انتظار ہے اور ہم عوام خوب جانتے ہیں کہ:
ظلم کی رات رہے گی کب تک
اب نزدیک سویرا ہے