کیا دوسرے سیاروں پر بھی زندگی ہے
لاکھوں سال تک بھی سگنل موصول نہ ہونے کے باوجود اس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
KARACHI:
اس سوال کے جواب میں صرف ایک سادہ سا لفظ '' ہاں '' استعمال کردیا جائے تو انسان اپنے آپ کو ایک نئی نظر سے دیکھنے لگے گا ۔ پھر وہ کائنات میں تنہا نہیں رہے گا ۔ وہ خود کو منفرد سمجھنے سے بھی محروم ہوجائے گا، خواہ دوسری مخلوقات اس جیسی ہوں یا نہ ہوں اور ان میں بھی وہ غیر معمولی صفات ہوں نہ ہوں جو اس میں ہیں۔ تب اس مخلوق کے لیے بیک وقت دلچسپی، جوش و خروش اور خوف و اندوہ کی کیفیت پیدا ہوجائے گی جو ابھی چند صدیاں پہلے تک خود کو '' مرکزکائنات '' گردانتی رہی اور اس پر اتنی مغرور تھی کہ ذہین دماغوں کا گلا گھونٹ دینے کوکار ثواب جانتی تھی۔
خوش قسمتی یا بدقسمتی سے ہمارے پاس کوئی واضح جواب موجود نہیں۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ آنے والے اوقات بھی اس کا جواب پاسکیں گے یا نہیں عین ممکن ہے کہ کوئی بھی ریڈیائی دوربین کسی روزکوئی واضح ثبوت فراہم کر ڈالے اور یہ بھی ناممکن نہیں کہ ایسا کبھی نہ ہو۔
تحقیق دانوں کو امید ہے کہ ریڈیائی موجیں ہی اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے موزوں ترین ہیں ، اس لیے کہ وہ کائناتی گیسوں اور گرد و غبار کے بادلوں میں بلا روک ٹوک بڑھتی جاتی ہیں یا پھر وہ خلائی مشن جو مریض اور دیگر سیاروں کی جانب گامزن اور محو تحقیق ہیں۔
کسی واضح ثبوت کی عدم موجودگی کے باعث سائنسدان محض مشاہدات اور غور و فکر ہی پہ مجبور ہیں اور انھوں نے اپنی توجہ ایک عدد N پر مرکوز کر رکھا ہے۔ یہ عدد N ان ''تہذیبوں'' کی تعداد ہے جو ہماری کہکشاؤں میں موجود ہوسکتی ہیں اور ہم سے رابطہ پیدا کرسکتی ہیں۔
کوئی نہیں جانتا کہ N کی اصل حقیقت کیا ہے۔ بہرحال 1961 میں ایک فلکیات دان نے جس کا نام فرینک ڈریک تھا۔ ایک مساوات قائم کی۔ یہ مساوات اب اسی نام سے موسوم ہے اور اس مساوات میں ان عوامل کو بیان کیا گیا ہے جن پر N کا انحصار ہے۔ ڈیرک نے بذات خود 1960 میں خلائی تحقیقات کے دور قریبی ستاروں سے آتے ''غیر قدرتی ریڈیو پیغامات'' سنے تھے۔
ڈیرک کی بنائی گئی مساوات یہ ہے۔
N: RFP Ne FI Fi Fe L
اس مساوات کا کہنا یہ ہے کہ عدد Nبرابر ہے اس شرح کے جس کے ساتھ ستارے بنتے ہیں ستاروں اور سیاروں کی اوقاتی کسور کے جو واقعی زندگی کو سہار سکیں ان سیاروں کی اوقاتی کسور جو ذہین زندگی سہار سکیں ان ذہین انواع کی اوقاتی کسور کے جو واقعی رابطہ چاہتی ہوں، ایسی زندہ تہذیبوں کے اوسط عرصۂ زندگی کے ڈیرک کی مساوات میں بہت سی مقداریں شامل ہیں۔
لیکن ان میں سے صرف پہلی مقدارکی قیمت معلوم ہے۔ اس کے باوجود بھی یہ بات یقینی نہیں کہ زمین کے علاوہ بھی کہیں زندگی ممکن ہے یا نہیں۔ 1970 کی دہائی کے وسط میں جو تجربات وائیکنگ کی مدد سے مریض پر ہوئے ، ان میں بیکٹیریا تک کی موجودگی ثابت نہ ہوسکی تاہم اکیسویں صدی کے جدید خلائی مشنز یہ بات تعجب نہیں کہ سائنسدانوں میں اس موضوع پر وسیع اختلاف موجود ہے۔ ڈیرک کا کہنا ہے کہ کائنات میں ذہین زندگی کثرت سے موجود ہے۔ ہم جو بھی تہذیب دریافت کریں گے وہ ہماری طرح ہی جدید اور ترقی یافتہ ہوگی۔ زمین پر ریڈیوکا قیام صرف نصف صدی پہلے کی بات ہے اور ہوسکتا ہے کہ کائنات میں موجود دوسری زندہ اور ذہین تہذیبیں اگلے چند برسوں میں یہ کامیابی حاصل کرنے والی ہوں۔
طبیعیات دان فری مین ڈاٹسن کا کہنا ہے کہ کائنات میں زمین کے علاوہ زندگی تلاش کرتے ہوئے ریاضیاتی مساواتوں میں پھنس کر رہ جانا فضولیت ہے، کائنات زندگی سے لبریز ہے۔ لیکن اس کا حتمی جواب تب ہی مل سکتا ہے جب ہم صبر کے ساتھ مشاہدہ جاری رکھیں۔
پال ہورووز کا اس ضمن میں اصرار اس بات پر ہے کہ اب تک کی جانے والی تحقیق کا بنیادی ہدف صحیح سمت میں نہیں رہا۔ پال کا کہنا ہے کہ آسمان کی وسعتیں ممکن ہے کہ ریڈیو سگنلوں سے بھرپور ہوں آخر یہ کیسے مانا جاسکتا ہے کہ اس کائنات میں جہاں دس بلین 10,000,000,000 کہکشائیں ہیں اور ہر کہکشاں میں چار سو بلین 400,000,000,000 ستارے ہیں۔ ہمارے علاوہ اور کوئی زندہ ہی نہیں۔
پال نے اپنے اسی یقین کی بنیاد پر پورٹوریکو میں دوربینی تحقیق جاری رکھی ہے۔ اب اسے ایک زیادہ قابل اعتماد ذریعہ مل گیا ہے۔ سٹین فورڈ میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس نے ایک آلہ بنایا ہے جس کا نام ''سوٹ کیس Seti'' ہے۔ یہ آلہ ریڈیو دوربین کے ساتھ منسلک کردیا جاتا ہے تو خودکار طریقے پر ریڈیوبینڈ کی 128,000 دھاریوں کا تجزیہ کرلیتا ہے۔ فی الوقت اس آلے کو 26 میٹر کی اس دوربین کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے جو ہاورڈ میں نصب ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور آلہ ''میٹر چینل Meta'' کہلاتا ہے۔ یہ آلہ 8.4 ملین دھاریوں کا تجزیہ کرسکے گا۔
اسی دوران کیلیفورنیا کے علاقے ماؤنٹین ویو میں موجود ''ناسا۔ ایمس ریسرچ سینٹر'' کے سائنسدان مصنوعی سیاروں کے انٹینا کی مدد سے تحقیقی منصوبے بنا رہے ہیں۔ ''ایک موٹے انداز کے مطابق کہکشاں میں موجود 5 فیصد ستارے اچھے سورج ہیں اور ان میں سے نصف ایسے سیاروں کو رکھتے ہیں جو زندگی کے لیے موزوں ہیں۔ اس لحاظ سے کئی بلین سیارے موجود ہیں جن پر زندگی ممکن ہے۔'' یہ الفاظ ہیں برنارڈ اولیورکے جو پروجیکٹ ڈائریکٹر ہیں اور ڈیرک مساوات کے متعلق ایک ذاتی نظریہ رکھتے ہیں۔ ''یہ بات تکلیف دہ ہے کائنات میں اتنی تہذیبیں موجود ہیں پھر بھی وہ ایک دوسرے سے رابطہ پیدا نہیں کرتیں۔ ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ دوسری تہذیبیں اپنے مسائل کس طرح حل کرتی ہیں ہم اس وقت محض ٹیڈپول کی مانند ہیں لیکن بہرحال ہم نے بالغ مینڈک بننا ہے۔''
زمین کے علاوہ کائنات میں زندگی موجود ہونے کا سوال اس قدر اہم ہے کہ لاکھوں سال تک بھی سگنل موصول نہ ہونے کے باوجود اس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک ہم ایک ایک سیارے کی خود چھان بین نہ کرلیں ہمیں ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں۔ یہ امید اور خوف ہمیشہ موجود رہیں گے کہ اور کہیں بھی سوچنے والے رہتے ہیں جو ہماری طرح سانس لے رہے ہیں۔