آمر اپنے مقصد کے لیے ہر ایک کو استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے

جمہوریت کی تعریف وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔یہ سب اسی وقت ہو گا جب جمہوریت چلتی رہے

(فوٹو : ایکسپریس)

KARACHI:
وہ کہتے ہیں '' دانشورانہ دیانت داری کا تقاضاہے کہ کسی بھی معاملہ پر اپنے نقطۂ نظر کو بلا کم وکاست بیان کردیا جائے۔ اس تردد میں پڑے بغیرکہ اس رائے کے ڈانڈے کہیں ایسے مکتبۂ فکرسے تو نہیں مل رہے ، جس سے میرا فکری بُعدبہت زیادہ بڑھا ہوا ہے۔''یہ بات کرنے کا محل یہ رہا کہ جب وہ مصر میں خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق تحقیق کا نچوڑبتا چکے اور ہم نے پوچھا کہ '' حضرت!آپ جس سوچ کا اظہار کررہے ہیں یہ تو مسلم دنیامیں روایتی فکر سے تعلق رکھنے والے طبقے سے ملتی جلتی محسوس ہوتی ہے۔'' ان کا جواب تھا: ''میں نے اپنی رائے دے دی، اس سے کسی کے موقف کی تائید ہوتی ہے یا تردید یہ میرا مسئلہ نہیں ۔''

ایک اور معاملہ جس سے ، ان کے ،اسی فکری رویے کی عکاسی ہوتی ہے ، وہ بھی مصر سے تعلق رکھتا ہے۔وہ جس زمانے میں مصر میں تھے ، حسنی مبارک حکومت ، اسلام پسندوںکو کچل رہی تھی،اور لبرل لوگ اس کی تائید کررہے تھے۔کامران اصدرعلی لبرل فکر دانشوروں سے کہتے کہ آخر وہ اسلام پسندوں سے خوفزدہ ہوکر حسنی مبارک کی حمایت کیوں کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ،آمر کسی کا سگا نہیں ہوتا ، وہ اپنے مقصد کے لیے ہر ایک کو استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔کامران اصدر علی کا شمار ایسے لوگوں میںہوتا ہے، جنھیںفکری وعملی اعتبار سے کچھ نہ کچھ کرنے کی جستجو بیتاب رکھتی ہے۔ان کی زندگی کا محور عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی لانا ہے، اور وہ سمجھتے ہیں، ایسا اسی طورممکن ہے، جب ان سے ربط ضبط بڑھایا جائے اور ان کے دکھوں سے آگاہی حاصل کی جائے۔ کامران اصدر علی کوزندگی میں کئی المیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع میسر آیا۔

ان کا بچپن مشرقی پاکستان میں ایسے پرآشوب دور میں گزرا ، جب ادھر علیحدگی کی تحریک چل رہی جو آخرکارسقوط ڈھاکا پر منتج ہوئی۔ بہاری ہونے کے ناتے، ان کے خاندان کو خاصی مشکلات درپیش رہیں، اور چار سال کی عمر میں باپ کی شفقت سے محروم ہونے والے کامران اصدر علی کو ساڑھے تین سال تک ماں کی جدائی برداشت کرنا پڑی۔ذرا قدم سنبھلے اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھاتو ضیاء الحق کا مارشل لاء آگیا۔یہ بھی ایک المیہ تھا۔اب صورت حال بچپن کے مقابلے میں اس اعتبار سے مختلف تھی کہ اب وہ ٹک ٹک دیدم کے بجائے مقاومت کی راہ اختیار کرسکتے تھے۔میڈیکل کالج میں داخل ہوتے ہی ان کا تعلق بائیں بازو کی سیاست سے قائم ہوگیا۔منصور سعید کے ساتھ تھیٹر گروپ ''دستک'' کی تشکیل میں پیش پیش رہے، اور اپنا پیغام پسے ہوئوں تک پہنچانے کے واسطے دن رات ایک کردیا۔بائیں بازو کے لٹریچر کے مطالعے سے ان کی سوچ نئے خطوط پر استوار ہونے لگے۔کچی آبادیوں اور جیلوں میں جانے سے انہیں اندازہ ہوا کہ عام آدمی کس کرب سے گزر رہا ہے۔

اس زمانے میں سوچ کا دھارا بدل گیا اور وہ اپنے لکھے پڑھے سے روایتی بورژوا تعلیم سمجھ کر متنفر ہوگئے۔اس فکری ادھیڑ بن کے دوران میں معروف اسکالراشرف غنی ،امریکا سے پاکستان آئے۔ کامران اصدر علی سے بھی ان کا ملنا رہا۔یہ شہر میں کچی آبادیوںسے سے واقف تھے، اس لیے یہ ادھر انہیں لے کر گئے، اور انہیں ایسے افرادسے بھی ملوایا،جو سماجی بہبود سے متعلق کام کرتے تھے۔اشرف غنی کو متحرک اور پرعزم کامران نے خوب متاثر کیا اور انہوں نے ان سے مستقبل کے ارادوں کا پوچھا تو انہوں نے میڈیکل تعلیم سے بیزاری ظاہر کی اور بتایا کہ وہ مجبور و مقہور لوگوں کے لیے کچھ زیادہ بڑا کردار ادا کرنے کے خواہاں ہیں۔اس پر انہوں نے انہیں کہا کہ امریکا چلے آئو، ادھر پبلک ہیلتھ بھی ہے اوربشریات کا شعبہ بھی تم ان میں سے کسی میں قسمت آزمائی کر لینا۔

اشرف غنی کی بات دل کو لگی اور وہ میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 87ء میں امریکا سدھار گئے، ادھر انہیں یونیورسٹی میں داخلہ بھی مل گیا اور ساتھ میں وظیفہ بھی۔ یوں وہ بشریات کی بسیط دنیائے علم میں داخل ہوتے ہیں۔ کامران اصدر نے جونزہاپکن یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کیا۔ ان کا مقالہ کتابی صورت میں "Planning the Family in Egypt: New Bodies, New Selves" کے عنوان سے چھپا۔ 1995ء میں روچیسٹر یونیورسٹی سے انہوں نے تدریسی سفر کا آغاز کیا، جو 2001تک محیط رہا۔ اس کے بعد وہ ٹیکساس یونیورسٹی آسٹن سے متعلق ہوگئے اور سردست یہاں بشریات ،مڈل ایسٹرن اور ایشیائی اسٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ سائو تھ ایشین انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس اسٹڈی برلن اور پرنسٹن کے فیلو ہیں۔ امریکن انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیزکے صدر ہیں۔ کئی اہم علمی کتابوں کی تدوین و تالیف میں شامل رہے۔بین الاقوامی علمی مجلوں اور اخبارات میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔

کامران اصدر علی 1961 میںڈھاکا میں پیدا ہوئے۔ والد، اصدر علی کا تعلق بہار سے تھا اور وہ اٹھارہ برس کی عمر میں ہجرت کرکے مشرقی پاکستان چلے آئے اور ڈھاکا میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔کامران اصدر کی والدہ کا پاکستان آنا 57ء میں ہی ممکن ہوسکا، جب وہ ان کے والد سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔کامران اصدر کے والد پکے مسلم لیگی جبکہ والدہ کا خاندان کٹر کانگریسی تھا ،اس لیے وہ ایک پاکستانی سے رشتے کے حق میں نہیں تھے لہٰذا ان کے ننھیالی رشتہ داروں میں سے اکثر نے شادی کا بائیکاٹ کیالیکن کامران کی نانی اماں بیٹی کا ہاتھ اصدر علی کے ہاتھ میں دینے کے فیصلے پر قائم رہیں۔کامران اصدر کے والد ڈھاکا میں پریکٹس تو کرتے تھے مگرساتھ میںانہوں نے ٹریول ایجنسی بھی کھول رکھی تھی۔


65ء میںپی آئی اے کا قاہرہ جانے والا پہلا طیارہ گرکر تباہ ہوگیا، جس میں کامران اصدر کے والد بھی سوار تھے۔اس المناک حادثے نے سارے گھرانے پر غموں کا پہاڑ توڑ دیا۔ کامران اصدرکی والدہ گھریلو خاتون تھیں لیکن اب شوہر کے موت سے انہیں بیٹی اور دو بیٹوں کو پالنے پوسنے کا چارہ خود ہی کرنا تھا۔کامران سے بڑی ایک بہن اور بھائی ہیں۔کامران اصدر کا بچپن مشرقی پاکستان میں ایسے دور میں گزرا ، جو سیاسی اعتبار سے خاصا ہنگامہ خیز رہا۔ان کے بقول ''68ء کے زمانے سے واقعات انہیں بہت صاف طریقے سے یاد ہیں۔ بنگالی ملازمین کے ذریعے انہیں باہر کے حالات کی خبر ملتی اور مغربی پاکستان کے خلاف بنگالیوں کے جذبات کی بابت معلوم ہوتا رہتا۔بچوں پر لازم تھا کہ وہ بنگالی ملازمین کو بابا، بھیا اور آپا کہہ کر پکاریں۔معروف صحافی صلاح الدین محمد سے قریبی عزیز داری تھی، اس لیے سیاسی حالات سے جانکاری کا ایک ماخذ وہ بھی تھے۔ باہر کچھ گڑ بڑ ہے لیکن حالات اس حد تک خراب ہو جائیں گے ۔

اس کا اندازہ انہیں نہ تھا۔اس کی وجہ ان کے بقول یہ تھی کہ''ہمارا زیادہ تر میل میلاپ اردو بولنے والوں سے تھا، جن کا خیال سب ٹھیک ہوجائے گا۔ہندوستان آجائے گا یہ بھی سوچا نہ تھا۔ مغربی پاکستان میں خیال تھا کہ بنگالیوں کو مارپیٹ کر ٹھیک کرلیں گے جو بالکل سطحی سوچ تھی۔اردو بولنے والے فوج کے موقف پریقین کئے بیٹھے تھے۔ اس زمانے میں خوف کی فضاہوگئی تھی۔ گاڑی روک کا کالا جھنڈا لگادیا جاتا۔ آنسو گیس وغیرہ کا استعمال ہوتا، لیکن حالات میں زیادہ خرابی، 70ء کے الیکشن کے بعد ہوئی، مختلف علاقوںمیں مقیم رشتہ داروں نے ہمارے گھر کا رخ کیا، جس کی وجہ یہ تھی کہ ہماراگھر ڈھاکا میں تھا، اور نسبتاً بہتر علاقے میں تھا، اور ادھر ہنگاموں کے امکانات کم تھے۔زیادہ تر ہنگامے لوئرمڈل کلاس اور مڈل کلاس کے علاقوں میں ہوتے۔ صورتحال میں بہت زیادہ بگاڑ مارچ 71ء میں آیا۔ دیناج پور، میمن سنگھ، چٹاگانگ، اور سنتہار میں مقیم رشتے داروں کے بارے میں خبر آنے لگی کہ انہیں قتل کردیا گیا ۔

ان کے بچوں اور بیوائوں نے ہمارے ہاں کا رخ کیا تو ہمیں اندازہ ہوا کہ معاملات کس درجہ سنگین ہوگئے ہیں۔ اب میری والدہ نے گھر بار چھوڑ کر مغربی پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ اس زمانے میں ہندوستان کا فضائی راستہ بند تھا اور کولمبو کے فضائی راستے سے پرواز ہوتی۔میری والدہ تین دن ائیرپورٹ پر رہیں تب کہیں جاکر جہاز میںجگہ کا انتظام ممکن ہوسکا۔''وہ 25مارچ کے فوجی آپریشن سے ایک ہفتہ قبل پاکستان پہنچے۔یہاں ان کے ابا کے بچپن کے دوست لیفٹینٹ کرنل اظہر سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان کی والدہ سے کہا کہ بھابی! بچوں کافکر چھوڑیںیہ میرے ساتھ رہیں گے۔ والدہ کا بچوں کی طرف سے اطمینان ہوگیا تو وہ ڈھاکا دوبارہ پلٹ گئیں تاکہ کاروبار اور جائیداد سے متعلق معاملات نمٹا سکیں۔ مشرقی پاکستان جلد ہی بنگلہ دیش بن گیا اور پھر ساڑھے تین سال یعنی 74ء کے آخر میں، والدہ سے ملنے کا مرحلہ آیا۔ والدہ کی غیر موجودگی میں وہ بہن اور بھائی کے ساتھ تین سال لاہور ایک برس پنڈی میں رہے۔

والدہ کی پاکستان آمد کے بعد وہ کراچی منتقل ہوگئے۔ لیفٹینٹ کرنل اظہر جو بعدازاں جنرل بنے، ان کا ذکر بڑی محبت سے کرتے ہیں،جنھوں نے کڑے وقت میں ان کا ساتھ دیا۔کہتے ہیں ''اظہر چچا کے احسانات کبھی نہیں بھول سکتا۔'' کراچی میںکینٹ پبلک اسکول سے 77ء میں میٹرک کیا۔ 79ء میں ڈی جے کالج سے ایف ایس سی کیا اور والدہ کی خواہش کے احترام میں ڈاکٹر بننے کے لیے ڈائو میڈیکل کالج داخل ہوگئے۔ میڈیکل کالج میں کیمونسٹ پارٹی کے رہنما علی یاور سے تعلق استوار ہوگیا، جن کے زیر اثربائیں بازو کے لٹریچر کاخوب مطالعہ کیا۔ عاقل انور سے بھی ان دنوں خوب میل ملاقات رہی، لیکن جس شخص سے ملنا ان کی زندگی کا اہم ترین واقعہ بنا وہ منصور سعید تھے۔ 81 میں وہ پہلی بار ان سے ملے اور گرویدہ ہوگئے ۔ انہوں نے چھوٹتے ہی پوچھا تم نے فلاں ڈراما نگار کو پڑھا ہے؟ فلاں کو پڑھا ہے؟ جواب نفی میں پاکر انہوں نے انہیںبڑے بڑے ڈراما نویسوں کی کتابیں پڑھنے کے واسطے دیں۔

ادب پڑھنے کا ذوق وشوق پہلے سے تھا ، جو اس علم پرور شخصیت کے سائے میں اور بھی بڑھا۔ کامران اصدر علی کا مختلف علوم کے بارے میں عمیق مطالعہ حیرت میں ڈالتا ہے۔سماجی بہبود، بشریات، ادب، تاریخ اور سیاست سمیت کئی علوم پران کا گہرا مطالعہ ہے۔ان سے گفتگو میں اندازہ ہوا کہ وہ مختلف واقعات کا آپس میںربط جوڑنے میں انہیں ملکہ حاصل ہے۔ مقبول عام فکشن پر بات کریں گے تو انتظار حسین کے افسانے ''احسان منزل'' کا حوالہ دیں گے،جس میں لڑکی کے نام ''عصمت'' رسالہ آتا ہے تو پیکٹ پر چھپا، اس کا نام باعث نزاع بن جاتا ہے۔ اعتراض یہ تھا کہ لڑکی کا چھپا نام کتنے غیرمردوں نے دیکھا ہوگا۔یہ بات تو انہوں نے کردی اوراب اس سے مماثل واقعہ وہ بیان کریں گے ،آسیہ جبار کی کتاب "Fantasia" سے، جس میں انہوں نے اپنے ان رشتہ داروں کے بارے میں بتایا ہے ، جنھوں نے ان کے والد کی طرف سے اپنی بیوی کو بھیجے پوسٹ کارڈکو اسکینڈلائز کرنے کی کوشش کی۔

انتظار حسین کی خودنوشت''جستجو کیا ہے''کو وہ ان دنوں پڑھ رہے ہیں، جس میں اپنے آبائی گھر میںسالہا سال بعد جاکر دیکھنے کا بارے میں انہوں نے اپنے تاثرات بیان کئے ہیں، یہ تو انہوں نے پڑھ لیا لیکن جب عارف حسن سے کراچی میں ملے جو کچھ عرصہ قبل پانی پت میں آبائی گھر دیکھ کر آئے ہیں تو انہوں نے انتظار حسین اور عارف حسن کے تاثرات کاموازنہ کیا تو انہیں وہ تقریباً ایک جیسے لگے ، بس ذرا اس فرق کے ساتھ انتظار حسین کو اپنا آبائی گھرتنگ تنگ لگاجبکہ عارف حسن کو کشادہ۔ عدم برداشت کو وہ معاشرے کے لیے زہر قاتل سمجھتے ہیں۔ان کے خیال میں برداشت کا اصل امتحان متفق الخیال لوگوں سے رویے میں نہیں ، مختلف الخیال لوگوں سے رویے میں ہوتا ہے۔

پاکستان کے سیاسی نظام کے بارے میں ان کی رائے ہے '' جمہوریت کو چلتے رہنے دینا چاہیے اور جیسی بھی ہے، اس کی حمایت کرنی چاہیے، بجائے اس کے کہ فوج آجائے۔آہستہ آہستہ گندہ پانی نکلے گا، پھر صاف پانی آجائے گا۔شاید ایسا نہ ہو لیکن ممکن ہے لوگوں میں سوچ پیدا ہوکہ جمہوریت پارلیمان قائم ہونے کا نام نہیں۔معاشی انصاف، صحت عامہ اور تعلیم بھی بہت اہم ہے، یعنی جمہوریت کی تعریف وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔یہ سب اسی وقت ہو گا، جب جمہوریت چلتی رہے۔''انہیں اس بات پر رنج ہے کہ یہاں کوئی کسی کی بات سننے کاروادار نہیں اور مسائل حل کرنے میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ا ن کے بقول'' جسے دیکھو اپنی جیب میں مسائل سدھارنے کا نسخہ لیے پھرتا ہے ، جس پر عمل سے سب کچھ خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔''
Load Next Story