گوئبلز طرز کا پروپیگنڈا اور پاکستان
عمران خان کوآپ میگڈا سے تشبیہ دے لیں، گوئبلز سے یا ہٹلر سے، فرق نہیں پڑتا
KARACHI:
دوسری جنگ عظیم اختتام پذیر تھی. ریڈ آرمی نے برلن پر قبضہ تقریباً مکمل کرلیا تھا اور نازی جرمنی کی شکست نوشتہ دیوار تھی۔ 30 اپریل 1945 کو ہٹلر جرمنی کے شہر برلن میں واقع بنکر میں اپنی بیوی ایوا براؤن کے ساتھ خودکشی کرچکا تھا۔ ہٹلر کی موت کے بعد جوزف گوئبلز نازی جرمنی کا چانسلر بن گیا تھا۔ یکم مئی 1945 کی شب جوزف گوئبلز کی بیوی میگڈا گوئبلز نے اپنی پانچ بیٹیوں اور ایک بیٹے کو سونے سے پہلے بہلا کر بے ہوشی کی دوا دی۔ پھر یہ یقین کرلینے کے بعد کے بچے مکمل طور پر بے ہوش ہوچکے ہیں، میگڈا گوئبلز نے اپنے ہاتھوں سے باری باری اپنے چھ بچوں کے منہ کھول کر ان کے دانتوں تلے سائنائیڈ کے کیپسول رکھے اور ہر بچے کے جبڑوں کو باہر سے پکڑ کر زور سے دبا کر بند کرتی چلی گئی۔ سائنائیڈ کے کیپسول بے ہوش بچوں کے منہ میں چٹختے رہے اور تمام بچے ایک ایک کرکے موت کے منہ میں جاتے رہے۔
اس سفاک عمل کے دوران میگڈا کے ہاتھ نہیں کانپے، جبکہ جوزف گوئبلز بچوں کے کمرے کے باہر ساکت کھڑا رہا۔ اپنے چھ بچوں کو قتل کرنے کے بعد میگڈا کمرے سے باہر آئی اور جوزف گوئبلز کے ہمراہ بنکر سے باہر نکلی۔ دونوں میاں بیوی بنکر کے ساتھ واقع چھوٹے سے باغ میں جاکر آمنے سامنے کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد کچھ محققین کے مطابق ان دونوں نے بھی سائنائیڈ کے کیپسول چبا کر اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرلیا، جبکہ دیگر مورخین کے مطابق جوزف گوئبلز نے پہلے سامنے کھڑی میگڈا کے سر میں اپنے ہاتھ سے گولی ماری اور میگڈا کے گرتے ہی اپنے سر میں گولی مار کر خودکشی کرلی۔ پھر گوئبلز کے احکامات کے مطابق نازی افسران نے ان دونوں کے مردہ جسموں میں مزید پانچ پانچ گولیاں داغیں اور بعد ازاں ان کی لاشوں کو تیل چھڑک کر آگ لگادی گئی۔ یوں نازی حکومت اور اس کا تاریخ ساز پروپیگنڈا وزیر اپنے اختتام تک پہنچے۔
نازی حکومت کا ظہور، مقبولیت اورعروج پروپیگنڈا کا مرہون منت تھا، جو دوسری جنگ عظیم کی شروعات کے بعد ہر ناکامی کے ساتھ ناقابل برداشت بوجھ بنتا چلا گیا تھا۔ ہٹلر اور گوئبلز اس بوجھ کے ساتھ زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے، لہٰذا اپنے اہل خانہ کے ہمراہ خودکشی آسان ترین انتخاب تھا۔
پروپیگنڈا ایک ہتھیار ہے، جس کا بنیادی مقصد مخصوص نظریے کی تشہیر اور عوامی پذیرائی و قبولیت کے حصول کی خاطر عوام کی ذہن سازی ہے۔ دنیا بھر میں تمام سیاسی و غیر سیاسی قوتیں، جمہوری و غیر جمہوری حکومتیں، حزبِ اختلاف اور اہم طاقتور ادارے انہی مقاصد کے حصول کے واسطے پروپیگنڈے کا استعمال کرتے ہیں۔ پروپیگنڈا کی بنیاد اور مقدار مستعمل کےلیے مستقبل کے اہداف کا تعین کرتی ہے۔ حقیقت سے قریب تر بنیادوں پر کیا گیا پروپیگنڈا عوامی سطح پر بہت زیادہ ہیجان پیدا کیے بغیر ایسے معیار اور توقعات پیدا کرتا ہے، جن کا حصول قدرے آسان اور کافی حد تک ممکن ہوتا ہے۔ اس کے برعکس شدید نوعیت یا گوئبلز طرز کا پروپیگنڈا جھوٹ اور فریب کی حد تک غیر حقیقی بنیادوں پر استوار ہوتا ہے۔ لہٰذا عوامی سطح پر انتہائی درجے کا ہیجان اور مقبولیت پیدا کرتے ہوئے ایسے معیار اور توقعات باندھتا ہے، جن کے حصول کے حقیقی امکانات انتہائی معدوم ہوتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف دور حاضر کی وہ سیاسی جماعت ہے جس نے حکومت میں آنے کی خاطر بطور لائحہ عمل گوئبلز طرز کے پروپیگنڈا کا بے دریغ استعمال کیا۔ عوامی سطح پرمقبولیت حاصل کرنے اور ناپسندیدہ قرار دی جاچکی شخصیات کو نیست و نابود کرنے کے مقصد سے بلاامتیاز ہر جائز و ناجائز معاملے پر ہیجان پیدا کیا اورعوام الناس خصوصاً نوجوانوں کو ہدف بناتے ہوئے حقائق کے برخلاف سنہرے، نیلے، پیلے، لال، ہرے، اودے،غرض ہر ممکنہ رنگت کے خواب بیچے۔
اس جماعت نے اپنے آپ کو دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے مقابل اعلیٰ ترین کردار و اقدار کی حامل، انتہائی درجے کی حب الوطن اور قابل ترین جماعت، جبکہ خان صاحب کو اس آخری مسیحا کے طور پر پیش کیا جس کے انتظار میں پاکستانی قوم، ایوب خان کی سنہری آمریت کے بعد سے، ایک ٹانگ پر کھڑی ہے۔ ایک ایسی سیاسی جماعت جو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتی ہے اور چھوٹے بڑے ہر مسئلے کا حل جیب میں لیے لیے گھوم رہی ہے۔ عوامی محرومیوں کو مخصوص سیاستدانوں کی بددیانتی سے منسلک کیا گیا، جو قرضے اور عوامی ٹیکس کا پیسہ حکومت کے خزانے سے نکالتے ہیں اور لانچوں میں بھربھر کر پاکستان سے باہر منتقل کرکے اپنی جائیدایں بناتے رہے ہیں۔ 22 کروڑ کی آبادی، مختلف تاریخ کی حامل اقوام، قوت کے نادیدہ سرچشموں اور ایک قدرے کمزور وفاق پر مشتمل پاکستان جیسے پیچیدہ ملک کو درپیش مسائل کا حل انتہائی سادہ و سہل نظریات کی صورت میں دیا گیا۔
اس انتہائی درجے کے پروپیگنڈا کی قیادت عمران خان نے پورے ڈھول دھماکے کے ساتھ بنفسِ نفیس خود کی۔ لہٰذا اس کے نتیجے میں سراب جیسی غیر حقیقی عوامی توقعات پیدا کرنے کی تمام تر تکلیف دہ ذمے داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے۔
کیونکہ گوئبلز طرز کا پروپیگنڈا بہرصورت حقیقت کے منافی، قلیل مدتی اور اختلافی صورتحال میں زیادہ کارآمد ہوتا ہے۔ لہٰذا اقتدار میں آنے کے باوجود اسے حقیقت کا روپ دینا بہت ممکن نہیں ہوتا۔ انتہائی اونچی عوامی توقعات بوجھ بننے لگتی ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس بوجھ میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ حکومتِ وقت پر بھی اسی بوجھ کے اثرات دکھائی دینے لگے ہیں، کیونکہ اقتدار میں آنے کے محض نو ماہ کے اندر حکومت کی ہر محاذ پر ناقص ترین کارکردگی، غیر سنجیدگی، غیر ذمے داری، اناپرستی، جوابدہی سے مکمل فرار، کوتاہ نظر فیصلے اور نااہلی کے باعث معیشت کی ابتر کردی گئی صورتحال سے لگے جھٹکوں نے عوامی توقعات اور امنگوں کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے اور نتیجتاً عوامی سطح پر حکومت کی قابلیت پر ہی سوال اٹھنے لگے ہیں۔
اب عمران خان کوآپ میگڈا سے تشبیہ دے لیں، گوئبلز سے یا ہٹلر سے، فرق نہیں پڑتا۔ عمران خان کی آل راؤنڈرنازی طبیعت ہر کردار خود بخوبی نبھا رہی ہے۔ ان کے ہاتھ میگڈا کی طرح جماعت کے دماغ قرار دیئے جاتے رہے وزرا کی چھٹی کراتے ہوئے ذرا بھی نہیں کانپے۔ کئی مواقع پر خان صاحب فیصلہ سازی کے کمروں کے باہر ساکت کھڑے گوئبلز کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ بسا اوقات ہٹلر کی طرح فسطائیت سے بھرپور رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے نظریے کو پاکستان کی بقا، کامیابی اور ترقی کی آخری کنجی قرار دیتے ہیں۔
بہرحال حکومت کی مسلسل نعرے بازی، تنگ نظری، عاقبت نااندیش فیصلہ سازی، اناپرستی اور نااہلی نے پاکستان کی اکثریت کےلیے جو معاشی صورتحال پیدا کردی ہے، اسے کسی حد تک بھی درست کرنے کےلیے اب کافی وقت اور اہلیت درکار ہوگی۔ اس نئے تجربے کی قیمت عام پاکستانی مزید مشکلات سہنے کی صورت میں ادا کر رہے ہیں اور کریں گے۔
خدا نہ کرے کہ عوامی توقعات اور حقائق کی خلیج کا یہ بوجھ کسی وقت اس قدر نہ بڑھ جائے کہ خان صاحب کےلیے حکومت سے چلے جانا ہی آسان ترین راستہ باقی رہ جائے۔ خالد احمد کا یہ شعرحکومت کےلیے حالات کا مکمل احاطہ کردیتا ہے کہ:
میری انا نے نہلایا ہے مجھ کو میرے خون میں
مجھ پر ہوا ہے اول و آخر وار میری تلوار کا
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
دوسری جنگ عظیم اختتام پذیر تھی. ریڈ آرمی نے برلن پر قبضہ تقریباً مکمل کرلیا تھا اور نازی جرمنی کی شکست نوشتہ دیوار تھی۔ 30 اپریل 1945 کو ہٹلر جرمنی کے شہر برلن میں واقع بنکر میں اپنی بیوی ایوا براؤن کے ساتھ خودکشی کرچکا تھا۔ ہٹلر کی موت کے بعد جوزف گوئبلز نازی جرمنی کا چانسلر بن گیا تھا۔ یکم مئی 1945 کی شب جوزف گوئبلز کی بیوی میگڈا گوئبلز نے اپنی پانچ بیٹیوں اور ایک بیٹے کو سونے سے پہلے بہلا کر بے ہوشی کی دوا دی۔ پھر یہ یقین کرلینے کے بعد کے بچے مکمل طور پر بے ہوش ہوچکے ہیں، میگڈا گوئبلز نے اپنے ہاتھوں سے باری باری اپنے چھ بچوں کے منہ کھول کر ان کے دانتوں تلے سائنائیڈ کے کیپسول رکھے اور ہر بچے کے جبڑوں کو باہر سے پکڑ کر زور سے دبا کر بند کرتی چلی گئی۔ سائنائیڈ کے کیپسول بے ہوش بچوں کے منہ میں چٹختے رہے اور تمام بچے ایک ایک کرکے موت کے منہ میں جاتے رہے۔
اس سفاک عمل کے دوران میگڈا کے ہاتھ نہیں کانپے، جبکہ جوزف گوئبلز بچوں کے کمرے کے باہر ساکت کھڑا رہا۔ اپنے چھ بچوں کو قتل کرنے کے بعد میگڈا کمرے سے باہر آئی اور جوزف گوئبلز کے ہمراہ بنکر سے باہر نکلی۔ دونوں میاں بیوی بنکر کے ساتھ واقع چھوٹے سے باغ میں جاکر آمنے سامنے کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد کچھ محققین کے مطابق ان دونوں نے بھی سائنائیڈ کے کیپسول چبا کر اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرلیا، جبکہ دیگر مورخین کے مطابق جوزف گوئبلز نے پہلے سامنے کھڑی میگڈا کے سر میں اپنے ہاتھ سے گولی ماری اور میگڈا کے گرتے ہی اپنے سر میں گولی مار کر خودکشی کرلی۔ پھر گوئبلز کے احکامات کے مطابق نازی افسران نے ان دونوں کے مردہ جسموں میں مزید پانچ پانچ گولیاں داغیں اور بعد ازاں ان کی لاشوں کو تیل چھڑک کر آگ لگادی گئی۔ یوں نازی حکومت اور اس کا تاریخ ساز پروپیگنڈا وزیر اپنے اختتام تک پہنچے۔
نازی حکومت کا ظہور، مقبولیت اورعروج پروپیگنڈا کا مرہون منت تھا، جو دوسری جنگ عظیم کی شروعات کے بعد ہر ناکامی کے ساتھ ناقابل برداشت بوجھ بنتا چلا گیا تھا۔ ہٹلر اور گوئبلز اس بوجھ کے ساتھ زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے، لہٰذا اپنے اہل خانہ کے ہمراہ خودکشی آسان ترین انتخاب تھا۔
پروپیگنڈا ایک ہتھیار ہے، جس کا بنیادی مقصد مخصوص نظریے کی تشہیر اور عوامی پذیرائی و قبولیت کے حصول کی خاطر عوام کی ذہن سازی ہے۔ دنیا بھر میں تمام سیاسی و غیر سیاسی قوتیں، جمہوری و غیر جمہوری حکومتیں، حزبِ اختلاف اور اہم طاقتور ادارے انہی مقاصد کے حصول کے واسطے پروپیگنڈے کا استعمال کرتے ہیں۔ پروپیگنڈا کی بنیاد اور مقدار مستعمل کےلیے مستقبل کے اہداف کا تعین کرتی ہے۔ حقیقت سے قریب تر بنیادوں پر کیا گیا پروپیگنڈا عوامی سطح پر بہت زیادہ ہیجان پیدا کیے بغیر ایسے معیار اور توقعات پیدا کرتا ہے، جن کا حصول قدرے آسان اور کافی حد تک ممکن ہوتا ہے۔ اس کے برعکس شدید نوعیت یا گوئبلز طرز کا پروپیگنڈا جھوٹ اور فریب کی حد تک غیر حقیقی بنیادوں پر استوار ہوتا ہے۔ لہٰذا عوامی سطح پر انتہائی درجے کا ہیجان اور مقبولیت پیدا کرتے ہوئے ایسے معیار اور توقعات باندھتا ہے، جن کے حصول کے حقیقی امکانات انتہائی معدوم ہوتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف دور حاضر کی وہ سیاسی جماعت ہے جس نے حکومت میں آنے کی خاطر بطور لائحہ عمل گوئبلز طرز کے پروپیگنڈا کا بے دریغ استعمال کیا۔ عوامی سطح پرمقبولیت حاصل کرنے اور ناپسندیدہ قرار دی جاچکی شخصیات کو نیست و نابود کرنے کے مقصد سے بلاامتیاز ہر جائز و ناجائز معاملے پر ہیجان پیدا کیا اورعوام الناس خصوصاً نوجوانوں کو ہدف بناتے ہوئے حقائق کے برخلاف سنہرے، نیلے، پیلے، لال، ہرے، اودے،غرض ہر ممکنہ رنگت کے خواب بیچے۔
اس جماعت نے اپنے آپ کو دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے مقابل اعلیٰ ترین کردار و اقدار کی حامل، انتہائی درجے کی حب الوطن اور قابل ترین جماعت، جبکہ خان صاحب کو اس آخری مسیحا کے طور پر پیش کیا جس کے انتظار میں پاکستانی قوم، ایوب خان کی سنہری آمریت کے بعد سے، ایک ٹانگ پر کھڑی ہے۔ ایک ایسی سیاسی جماعت جو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتی ہے اور چھوٹے بڑے ہر مسئلے کا حل جیب میں لیے لیے گھوم رہی ہے۔ عوامی محرومیوں کو مخصوص سیاستدانوں کی بددیانتی سے منسلک کیا گیا، جو قرضے اور عوامی ٹیکس کا پیسہ حکومت کے خزانے سے نکالتے ہیں اور لانچوں میں بھربھر کر پاکستان سے باہر منتقل کرکے اپنی جائیدایں بناتے رہے ہیں۔ 22 کروڑ کی آبادی، مختلف تاریخ کی حامل اقوام، قوت کے نادیدہ سرچشموں اور ایک قدرے کمزور وفاق پر مشتمل پاکستان جیسے پیچیدہ ملک کو درپیش مسائل کا حل انتہائی سادہ و سہل نظریات کی صورت میں دیا گیا۔
اس انتہائی درجے کے پروپیگنڈا کی قیادت عمران خان نے پورے ڈھول دھماکے کے ساتھ بنفسِ نفیس خود کی۔ لہٰذا اس کے نتیجے میں سراب جیسی غیر حقیقی عوامی توقعات پیدا کرنے کی تمام تر تکلیف دہ ذمے داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے۔
کیونکہ گوئبلز طرز کا پروپیگنڈا بہرصورت حقیقت کے منافی، قلیل مدتی اور اختلافی صورتحال میں زیادہ کارآمد ہوتا ہے۔ لہٰذا اقتدار میں آنے کے باوجود اسے حقیقت کا روپ دینا بہت ممکن نہیں ہوتا۔ انتہائی اونچی عوامی توقعات بوجھ بننے لگتی ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس بوجھ میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ حکومتِ وقت پر بھی اسی بوجھ کے اثرات دکھائی دینے لگے ہیں، کیونکہ اقتدار میں آنے کے محض نو ماہ کے اندر حکومت کی ہر محاذ پر ناقص ترین کارکردگی، غیر سنجیدگی، غیر ذمے داری، اناپرستی، جوابدہی سے مکمل فرار، کوتاہ نظر فیصلے اور نااہلی کے باعث معیشت کی ابتر کردی گئی صورتحال سے لگے جھٹکوں نے عوامی توقعات اور امنگوں کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے اور نتیجتاً عوامی سطح پر حکومت کی قابلیت پر ہی سوال اٹھنے لگے ہیں۔
اب عمران خان کوآپ میگڈا سے تشبیہ دے لیں، گوئبلز سے یا ہٹلر سے، فرق نہیں پڑتا۔ عمران خان کی آل راؤنڈرنازی طبیعت ہر کردار خود بخوبی نبھا رہی ہے۔ ان کے ہاتھ میگڈا کی طرح جماعت کے دماغ قرار دیئے جاتے رہے وزرا کی چھٹی کراتے ہوئے ذرا بھی نہیں کانپے۔ کئی مواقع پر خان صاحب فیصلہ سازی کے کمروں کے باہر ساکت کھڑے گوئبلز کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ بسا اوقات ہٹلر کی طرح فسطائیت سے بھرپور رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے نظریے کو پاکستان کی بقا، کامیابی اور ترقی کی آخری کنجی قرار دیتے ہیں۔
بہرحال حکومت کی مسلسل نعرے بازی، تنگ نظری، عاقبت نااندیش فیصلہ سازی، اناپرستی اور نااہلی نے پاکستان کی اکثریت کےلیے جو معاشی صورتحال پیدا کردی ہے، اسے کسی حد تک بھی درست کرنے کےلیے اب کافی وقت اور اہلیت درکار ہوگی۔ اس نئے تجربے کی قیمت عام پاکستانی مزید مشکلات سہنے کی صورت میں ادا کر رہے ہیں اور کریں گے۔
خدا نہ کرے کہ عوامی توقعات اور حقائق کی خلیج کا یہ بوجھ کسی وقت اس قدر نہ بڑھ جائے کہ خان صاحب کےلیے حکومت سے چلے جانا ہی آسان ترین راستہ باقی رہ جائے۔ خالد احمد کا یہ شعرحکومت کےلیے حالات کا مکمل احاطہ کردیتا ہے کہ:
میری انا نے نہلایا ہے مجھ کو میرے خون میں
مجھ پر ہوا ہے اول و آخر وار میری تلوار کا
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔