وزیر اعظم کی عدالت میں حاضری

ایک وزیر اعظم کو نااہلی کا سامنا کرنا پڑا اور دوسرا وزیر اعظم...

وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف پیر کو این آر او عملدرآمد کیس کے سلسلے میں عدالت میں پیش ہو گئے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے قومی مفاہمتی آرڈیننس عمل درآمد کیس میں توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت کی۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے ماہ رواں کی آٹھ تاریخ کو وزیر اعظم کو توہین عدالت کے مقدمے میں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے ذاتی طور پر عدالت میں طلب کیا تھا۔ عدالت کے روبرو سربراہ حکومت نے موقف پیش کیا کہ ان کے لیے فخر کی بات ہے کہ وہ عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔

انھوں نے فاضل عدالت سے استدعا کی کہ چار سے چھ ہفتے دے دیے جائیں، کوئی راہ نکل آئے گی۔ انھوں نے عدالت میں یہ بھی کہا کہ انھیں یہ عہدہ سنبھالے ہوئے صرف ساٹھ دن ہوئے ہیں اور ملکی صورتحال بھی کچھ اچھی نہیں ہے اس لیے ان کے مزید چار ہفتے وزیر اعظم رہنے سے عدالت عظمیٰ کو فرق نہیں پڑے گا۔ اس پر فاضل عدالت کا کہنا تھا کہ ملکی صورتحال کے علاوہ یہ مسئلہ بھی اتنا ہی اہم ہے۔ اس موقعے پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت آنا عدالت کا احترام نہیں حُکم پر عمل کرنا احترام ہے۔ بہرحال سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کی استدعا قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ 18ستمبر کو دوبارہ عدالت میں پیش ہوں۔

یوں یہ معاملہ اگرچہ مکمل طور پر طے تو نہیں ہوا لیکن حکومت کو کم از کم تین ہفتوں کے لیے مزید سوچنے اور کوئی لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے وقت مل گیا ہے۔ اب یہ حکومت پر ہے کہ وہ اس سلسلے میں کیا اقدامات یا کوششیں کرتی ہے' آیا سوئس حکام کو خط لکھ دیا جاتا ہے یا نہیں۔ یہ واضح ہے کہ دونوں صورتوں میں عدلیہ کی جانب سے مختلف ردعمل سامنے آئے گا' خط لکھ دیا گیا تو اسے عدالتی حکم پر عمل درآمد کرنے کا احسن اقدام قرار دیا جائے گا اور یہ کیس نمٹ جائے گا جب کہ خط نہ لکھنے کی صورت میں ویسا ہی ردعمل سامنے آ سکتا ہے جیسا سابق وزیر اعظم کے ساتھ ہوا تھا۔ وزیر اعظم نے عدالت میں پیش ہوکر ان افواہوں کا خاتمہ کر دیا کہ وہ عدالت میں پیش نہیں ہوں گے۔


ادھر عدالت نے بھی انھیں وقت دے کر یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ بلاجواز کسی انتہا تک نہیں جانا چاہتی۔ یہ اشارے خوش کن ہیں۔ اخبارات میں ایسی خبریں بھی شایع ہو رہی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ حکومت خط کے معاملے پر ایسا راستہ نکالنے کے قریب ہے جو آئین و قانون کے مطابق ہو گا۔ اٹارنی جنرل کا ردعمل بھی قابل غور ہے۔ وزیر اعظم کے عدالت میں پیش ہونے اور انھیں 18ستمبر تک مہلت ملنے کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم آئین سے ہٹ کر کچھ نہیں کریں گے' آئین اجازت دے گا تو خط لکھیں گے ورنہ نہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ حکومت اس مسئلے کا سنجیدگی سے حل چاہتی ہے' مزید وقت دینے پر عدالت کے مشکور ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ چند دنوں میں کوئی بڑا کام نہیں کیا جا سکتا تاہم جمہوری عمل کے لیے مشاورت ضروری ہے اور مہلت کے دوران یہی کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر اطلاعات کا یہ کہنا درست ہے کہ وقت کم ہے' اس کے باوجود حکومت کو اس سلسلے میں کچھ ٹھوس کرنا چاہیے تاکہ یہ ایشو' جو کئی برسوں سے حکومت اور عدلیہ کے مابین اختلافات کا باعث بنا ہوا ہے' حل ہو سکے اور ریاست کے دونوں ستون اپنے دیگر فرائض پر توجہ دے سکیں' عدلیہ نے عوام کو سستا اور بروقت انصاف فراہم کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے جب کہ حکومت نے لوگوں کو ریلیف دینے کے کئی وعدے کر رکھے ہیں چنانچہ دونوں ستون اپنے اپنے وعدے اسی صورت میں ایفا کر سکتے ہیں جب وہ باہمی مسائل' الجھنوں' اختلافات' تنازعات وغیرہ سے باہر نکلیں گے۔

اس بارے میں دو آرا نہیں وہ سکتیں کہ یہ ایک آئینی مسئلہ ہے جس پر آئین کی روح کے مطابق عمل درآمد ہونا چاہیے تاہم یہ خوش کن اشارے امید افزا ہیں کہ کسی قابل قبول اور درمیانی راستے کی راہ تلاش کی جا رہی ہے چنانچہ مناسب یہی ہے کہ کوئی ایسا درمیانی راستہ تلاش کیا جائے جس پر چلنے سے نہ صرف انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہوں بلکہ اس مسئلے کو بھی مستقل طور پر حل کر لیا جائے۔ بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم کے عدالت میں پیش ہونے یا نہ ہونے کے ایشو پر حکومت اور اس کے اتحادیوں کے درمیان صلاح مشوروں کا سلسلہ اتوار کو بھی جاری رہا تاہم اتوار کو رات گئے تک جاری رہنے والے ایک اہم اجلاس میں یہ حتمی فیصلہ کیا گیا کہ سربراہ حکومت کو عدالت میں پیش ہونا چاہیے۔

اس فیصلے پر عمل درآمد کیا گیا جس کے نتیجے میں وزیر اعظم کو تین ہفتوں کی مزید مہلت مل گئی ہے۔ اب اس مہلت سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے ۔ٹکرائو، کھینچا تانی اور ضد کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک وزیر اعظم کو نااہلی کا سامنا کرنا پڑا اور دوسرا وزیر اعظم بھی اسی گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ اس صورتحال سے نظام ہچکولے کھا رہا ہے، اس قسم کی بے یقینی زیادہ دیر برقرار نہیں رہنا چاہیے، بہتر یہ ہے کہ ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بحران سے نکلا جائے تاکہ جمہوری نظام خوش اسلوبی سے چلتا رہے۔ امید کی جاتی ہے کہ حکومت این آر او پر عدالتی فیصلے پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنائے گی اور جیسا کہ عدالت نے ریمارکس دیے ہیں عدلیہ بھی اس سلسلے میں حکومت کی مدد کرے گی' اس طرح یہ ایشو بخیروخوبی طے کر لیا جائے گا۔
Load Next Story